Sufinama

حضرت جلال الدین حسین شاہ

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت جلال الدین حسین شاہ

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-15

    حضرت جلال الدین حسین شاہ شیخ الزماں ہیں، محبوبِ جہاں ہیں۔

    خاندانی حالات : آپ مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کے خاندان سے ہیں، آپ حضرت قطبِ عالم کے پوتے ہیں۔

    والد : آپ کے والد ماجد شاہ محمود عرف شاہ بولا دنیا اور دنیا کے معاملات سے بے نیاز اور بے پروا رہتے تھے جو فتوحات ہوتیں غریبوں اور مساکین میں تقسیم کردیتے تھے، ایک مرتبہ آپ کے یہاں مٹکا خالی ہوگیا، جب آپ کو معلوم ہوا تو دریافت فرمایا کہ مٹکا نیا تھا یا پرانا، جب آپ کو بتایا گیا کہ مٹکا پرانا تھا تو آپ نے فرمایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں، نیا مٹکا پانی چوس لیتا ہے اور پرانا مٹکا دولت چوس لیتا ہے۔

    ولادت : آپ 853 ہجری میں پیدا ہوئے۔

    جشنِ ولادت : آپ کی پیدائش پرست کو خوشی ہوئی خصوصاً حضرت قطبِ عالم کو جنہوں نے شاہ محمود سے اپنی خوشی کا اظہار اس طرح کیا کہ

    ”خوش ہو محمود! آج کا دن خوشی کا ہے۔ آج ہمارے اور تمہارے گھر میں ہمارے اور تمہارے بزرگ حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت تشریف لائے ہیں۔

    ہدایت : حضرت قطب عالم نے اپنی ایک چادر شاہ محمود کو دی اور یہ ہدایت کی کہ اس میں سے اس بچے کے کپڑے بنانا۔

    نام : آپ کا نام جلال الدین حسین ہے۔

    لقب : آپ شیخ جیو لے لقب سے مشہور ہیں۔

    لقب کی وجہ تسمیہ : ایک دن حضرت شاہ عالم زمین پر چت سو رہے تھے، آپ اُدھر آئے تو حضرت شاہ عالم نے آپ سے ان کے سینے پر بیٹھنے کو کہا، آپ ان کے سینہ پر بیٹھ گئے، حضرت شاہ علم نے آپ کو اپنے سینۂ مبارک سے لگایا اور پیار کیا اور فرمایا کہ ”خوش ہوجاؤ جلال، جو کچھ مجھے ملا ہے وہ آج میں نے تم کو بخش دیا“

    بھائی : آپ کے بڑے بھائی شاہ پیارن گھر کا سارا کاروبار سنبھالتے تھے۔

    تعلیم و تبریت : آپ کی تعلیم و تربیت حضرت قطب عالم، حضرت شاہ محمود اور حضرت شاہ عالم کی نگرانی اور سرپرستی میں ہوئی، علومِ ظاہری سے فراغت پاکر آپ علومِ باطنی کی طرف متوجہ ہوئے۔

    ارادت : بچپن سے ہی آپ حضرت قطبِ عالم، حضرت شاہ محمود دریا نوش اور حضرت شاہ عالم کے فیوض و برکات سے مستفید و مستفیض تھے، ان بزرگوں کی توجۂ خاص سے آپ درجۂ کمال کو پہنچے۔

    پیشین گوئی : ایک دن ایسا ہوا کہ حضرت شاہ عالم اور حضرت شاہ محمود بیل گاڑی میں بیٹھے رسول آباد جارہے تھے، آپ بھی بیل گاڑی کے پیچھے پیچھے ہولئے، تھوڑی دیر کے بعد حضرت شاہ عالم نے بیل گاڑی رکوائی اور آپ کو بٹھا لیا، انہوں نے خوش ہوکر فرمایا کہ

    ”یہ بھتیجہ مجھے بہت عزیز ہے میں اس خیال سے رنجیدہ رہا کرتا تھا کہ میرے بھائی کے گھر میں میرے بھائی کے بعد معرفت کی روشنی نہ رہے گی لیکن اب جب سے یہ (شاہ جلال) پیدا ہوئے ہیں میں بہت خوش ہوں، انشاء اللہ میرے والد اور میرے بھائی کے گھر میں اور قبیلہ میں لاکھوں معرفت کے چراغ روشن ہوں گے اور مخلوق ان کی روشنی میں چل کر کامیاب و کامران ہوگی“

    سیرت : آپ ترک و تجرید میں یگانۂ روزگار تھے، آپ کی سخاوت مشہور تھی، زیادہ وقت یادِ الٰہی میں گذارتے تھے، تیس سال کی عمر میں آپ حضرت قطبِ عالم کی درگاہ کے سجادہ نشین منتخب ہوئے۔

    فرمان : ایک دن بادشاہ کے دربار کے دو آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس دن آپ کسی کام میں مشغول تھے، ان درباریوں نے کہا کہ اتنے کام میں ہوتے ہوئے حضرت یادِ الٰہی میں کیسے ہوسکتے ہیں، دنیاوی کام کی وجہ سے یادِ الٰہی سے غافل ہیں، حضرت کو یہ بات ناگوار گذاری، ان درباریوں کی طر ف دیکھ کر حضرت نے فرمایا کہ

    ”ہمارے ذمہ بڑی اور اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے، اُس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دینا ہمارا فرض ہے، فقیر کسی وقت بھی یادِ الٰہی سے غافل نہیں رہتا ہے، دنیا والے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کے کام میں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے کاموں میں رہ کر بھی وہ یادِ الٰہی میں مشغول رہتا ہے، وہ ”دل بیار دوست بکار“ کا مصداق ہوتا ہے، فقیر کو تجارت، کاروبار اور دنیا کے دیگر امور کسی حالت اور کسی صورت میں یادِ الٰہی سے غافل نہیں کرسکتے“

    سلطانِ گجرات سے تعلقات : گجرات کا بادشاہ مظفر شاہ دویم آپ کا معتقد اور منقاد تھا، ایک مرتبہ جو احمدآباد جاتے ہوئے وہ بٹوہ میں رُکا تو اس نے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے حضرت قطبِ عالم کے مزارِ مبارک پر فاتحہ پڑھی، آپ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی، کچھ دنوں بعد سلطان مظفر شاہ دویم بیمارا ہوا، اس نے سر کھیچ جاکر حضرت شیخ احمد کٹھو کے مزارپر حاضر ہوکر صحت کے لئے دعا مانگنا سوچا، اسی رات کو اس نے حضرت قطب عالم کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں

    ”اے مظفر! یہ کیا بات ہے، تم نے اپنے باپ دادا کے قانون کو کیوں توڑا، تم ہمارے گھر کیوں نہیں آتے ہو۔؟“

    سلطان مظفر نے متعجب ہوکر دریافت کیا کہ

    ”آپ کا گھر کون سا ہے اور کہاں ہے؟“

    حضرت قطب عالم نے بتایا کہ

    ”شیخ جیو کا گھر وہ میرا ہی گھر ہے جو بٹوہ میں ہے، جو ان کے گھر آئے گا وہ در اصل ہمارے ہی گھر آئے گا“

    حضرت قطب عالم نے خواب میں اتنا فرمایا اور سلطان کو صحت کا مژدہ سنایا۔

    سلطان مظفر دویم نے دوسرے دن بٹوہ جانے کا ارادہ کیا، اسی دن رات کو حضرت قطب عالم نے شیخ جیوں سے فرمایا کہ سلطان مظفر ان کے پاس آرہا ہے، اس کے سر پر ہاتھ رکھنا تاکہ وہ صحت پائے، سلطان مظفر نے بٹوہ پہنچ کر حضرت قطب عالم کے مزارِ مبارک پر فاتحہ پڑھی اور پھر آپ (حضرت شیخ جیو) کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ سلطان کو دیکھ کر مسکرائے، پھر گلے ملے اور پھر فرمایا کہ

    ”جس طرح قطبِ عالم نے بادشاہ کو درویش کی ملاقات کا حکم دیا ہے اسی طرح درویش کو بھی سلطان کی ملاقات کا حکم ملا ہے“

    آپ نے سلطان کی صحت کے لئے دعا کی، کچھ ہی دنوں میں وہ تندرست ہوگیا۔

    ایک مرتبہ سلطان مظفر دویم وضو کر رہا تھا، بہت پانی خرچ کیا لیکن وضو ختم نہ ہوا، اس نے علما سے وضو کے بارے میں مشورہ کیا لیکن اس کا وہم دور نہ ہوا، آخرکار آپ (حضرت شیخ جیو) سے رجوع کیا، آپنے سلطان سے اپنے سامنے وضو کرایا اور سمجھایا، سلطان کا وہم دور ہوا، ایک دن سلطان مظفر کی بیوی نے سلطان مظفر کو اور اپنے لڑکے سکندر کو حضرت کے پاس بھیجا اور کہا کہ حضرت سے سکندر کے لئے دعا کرانا کہ وہ تخت پر بیٹھے، سلطان مظفر کی دوسری بیوی سے جو لڑکا تھا اس کا نام بہادر خاں تھا، بہادر خاں حضرت کی خدمت میں رہتا تھا اور حضرت کا پرستار تھا، جب سلطان مظفرحضرت کی خدمت میں پہنچا تو اس نے سکندر کو حضرت کے پاس بٹھایا، حضرت نے اس وقت فرمایا کہ ”آؤ سلطان بہادر“

    واپسی پر سلطان نے سکندر کی والدہ کو سب حال سنایا، سکندر کی والدہ کو تشویش ہوئی، سلطان نے لاکھ سمجھایا لیکن وہ مطمئن نہ ہوئی، دو بارہ حاضری پر حضرت نے پھر وہی الفاظ دہرائی؁۔

    ایک دن حضرت نے بہادر خاں کو بلایا اور پاس بٹھایا اور حاضرین سے ارشاد فرمایا کہ بہادر گجرات کا بادشاہ ہے، یہ خبر اڑتے اڑتے جب سکندر کی والدہ کو پہنچی تو اس نے سلطان سے کہا کہ حضرت کی خدمت میں پھر جاؤ اور سکندر کے لیے دعا کراؤ، سلطان نے ہرچند کہا کہ اس نے سکندر کو اپنی حیات ہی میں گدّی دے دی ہے اور اختیارات منتقل کردئیے ہیں، بہادر خاں کو سلطان نے جاگیر دے دی تھی، بیگم کے اصرار پر سلطان پھر سکندر کو لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت بہادر خاں بھی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے والد کے برابر پہلی صف میں بیٹھ گیا، بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے سلطان کو بہادر خاں کے آنے کی خبر نہ ہوئی، تھوڑی دیر کے بعد سلطان نے بہادر خاں کا ہاتھ پکڑا، وہ اس خیال میں تھا کہ اس کا دوسرا لڑکا سکندر اس کے برابر بیٹھا ہوا ہے، چنانچہ اس نے بہادر کا ہاتھ پکڑ کر حضرت سے عرض کیا کہ اس کے لئے دعا فرمائیے کہ یہ گجرات کا بادشاہ ہو۔

    یہ سن کر حضرت نے فرمایا کہ

    ”گھبراؤ مت، یہ بھی گجرات کا بادشاہ بنے گا“

    تھوڑی دیر کے بعد جب بھیڑ بھاڑ کم ہوئی تو سلطان مظفر کی نظر بہادر پر پڑی، نظر کا پڑنا تھا کہ اس کے چہرہ کا پژمردہ ہونا تھا، اس نے سوچا کہ اس نے بہادر خاں کی سفارش کی ہے، آپ نے جب سلطان کو پژمردہ اور پریشان دیکھا تو آپ نے سلطان کو تسکین دیتے ہوئے اس سے فرمایا کہ

    ”فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے، سکندر کے ہاتھ میں راج گدّی رہے گی“

    حاضرین نے جب یہ سنا تو سمجھ گئے کہ سکندر زیادہ دن حکومت نہ کرسکے گا اور بہادر خاں ہی عنانِ حکومت ہاتھ میں لے گا اور وہ ہی کچھ مدت تک گجرات کے تاج و تخت کو زینت بخشے گا، حضرت کے پاس واپس آکر سلطان مظفر نے دربار منعقد کیا اور اعلان کیا کہ سکندر کو ولیِ عہد مقرر کیا گیا ہے، اس لئے لوگوں کو چاہئے کہ اس کا حکم مانیں، بہادر خاں نے بے یار و مددگار ادھر سے ادھر پھرتا تھا، حضرت کے سوا اس کا کوئی سہارا نہ تھا، اس نے حضرت سے اجازت لی کہ وہ دہلی چلا جائے، چاپانیر کے راستہ وہ دہلی روانہ ہوا، حضرت کے وصال کے بعد حضرت کی پیشین گوئی پوری ہوئی اور بہادر خاں گجرات کا بادشاہ ہوا۔

    وفات شریف : آپ 931 ہجری میں واصل بحق ہوئے، وفات کے وقت آپ کی عمر 75 سال اور چھ مہینے کی تھی، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کی عمر 78 سال کی تھی۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے