Sufinama

حضرت سید حسین خنگ سوار

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت سید حسین خنگ سوار

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-26

    حضرت سید حسین خنگ سوار سرورِ مشائخِ کبار اور بادشاہِ اؤلیائے نامدار ہیں۔

    خاندانی حالات : آپ کا سلسلۂ نسب حضرت امام جعفر صادق سے ملتا ہے، آپ کے پردادا کا نام سید محمد اور دادا کا نام سید کبیرالدین ہے، آپ کے والد کا نام سید محمد ہے۔

    ولادت : آپ کی ولادت کی تاریخ میں اختلاف ہے، بعض کے نزدیک 663ہجری میں آپ پیدا ہوئے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 668ہجری میں آپ پیدا ہوئے، دہلی کے قریب موضع غیاث پور میں پیدا ہوئے۔

    نامِ نامی : آپ کا نامِ نامی اسمِ گرامی حسین ہے۔

    لقب : چونکہ آپ سفید گھوڑے پر سوار ہوتے تھے جس کو فارسی میں خنگ کہتے ہیں، اس لئے آپ خنگ سوار کے لقب سے مشہور ہوئے۔

    کنیت : آپ کی کنیت اوریزی ہے۔

    تعلیم و تربیت : آپ کی تعلیم و تربیت دہلی میں ہوئی، تیرہ سال کی عمر میں آپ نے علومِ ظاہری حاصل کرکے اور فقہ و حدیث و تفسیر میں ممتاز درجہ حاصل کرکے سب کو حیرت میں ڈالا، علومِ ظاہری کی تکمیل کرکے آپ علومِ باطنی کی طرف متوجہ ہوئے۔

    ایک واقعہ : ایک دن ایسا ہوا کہ آپ کی حضرت بہلول مجنوں سے ملاقات ہوئی، حضرت بہلول نے جو آپ کو دیکھا تو آپ پر عاشق و فریفتہ ہوگئے اور آپ کے ہمراہ ہو لئے، ہر چند روکا لیکن نہ رکے، آپ کو غصہ آیا اور آپ نے ایک کوڑا حضرتِ بہلول مجنون کے مارا، حضرتِ بہلول نے زور سے ایک نعرہ لگایا اور بیہوش ہوگئے، نعرہ کی آواز سے آپ عقل و خرد کھو بیٹھے۔

    بارہ سال کی مدت : بارہ سال تک آپ کی یہ حالت رہی کہ ایک درخت کے نیچے رہے، درخت کے پتے جو کرتے وہی کھالیتے، نہ اپنی کچھ خبر تھی اور نہ دنیا کی کچھ خبر تھی۔

    خواب : ایک رات آپ سرورِ عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے، سرورِ عالم نے آپ کو بیعت فرمایا اور اپنی کلاہِ خاص سے آپ کو سرفراز فرمایا اور آپ کو حکم دیا کہ

    ”تم اب جاؤ اور نظام الدین اؤلیا کے ہاتھ پر بیعت کرو، ان کے مرید ہوجاؤ، کیونکہ وہ محبوبِ الٰہی ہیں“

    محبوبِ الٰہی کی خدمت میں : سرورعالم کا حکم پا کر آپ دوسرے سلطان المشائخ کے دربار میں پہنچے، سلطان المشائخ کو کشفِ باطنی کے ذریعہ سب کچھ معلوم ہو چکا تھا، سلطان المشائخ نے اپنے خادم کو حکم دیا کہ سید حسین آئے ہیں ان کو اندر بلا لاؤ، خادم نے آواز دی، اس نام کے کئی آدمی تھے، خادم نا کام واپس آیا پھر سلطان المشائخ نے خادم کو حکم دیا کہ حسین دہلوی کو اندر بلا لاؤ، اس نام کے بھی کئی آدمی تھے، اس لئے خادم پھر نکام واپس آیا، تیسری مرتبہ سلطان المشائخ نے خادم کو حکم دیا کہ حسین دہلوی غیاث پوری کو بلا کر اندار لاؤ، خادم آپ کو سلطان المشائخ کی خدمتِ بابرکت میں لے آیا۔

    سلطان المشائخ کا عطیہ : آپ جب اندر آئے تو سلطان المشائخ نے اپنے سرِ مبارک سے کلاہ اتار کر آپ کو دی، اس پر آپ نے عرض کیا کہ

    ”رات میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت ہوچکا ہوں“۔

    سلطان المشائخ نے یہ سن کر فرمایا کہ

    ”وہ بیعت کی کلاہ تھی، یہ محبت کی کلاہ ہے“ آپ نے وہ کلاہ لے کر اپنے سر پر رکھ لی۔

    خلافت : آپ نے محبوبِ الٰہی کی خدمت میں رہ کر علومِ باطنی حاصل کی اور ریاضت و مجاہدات کرکے اعلیٰ درجہ پر پہنچے، حضرتِ محبوبِ الٰہی نے آپ کو خرقۂ خلافت سے سرفراز فرمایا۔

    پیرومرشد کا فرمان : سلطان المشائخ نے آپ سے فرمایا کہ

    ”تم ڈھبوئی کے شاہ ولایت ہوجاؤ، وہاں جاؤ، وہاں رہ کر رشدوہدایت کرو، وہاں رہ کر گجرات کے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاؤ اور ان کی روحانی اخلاقی اور سماجی زندگی سدھارو“

    ڈھبوئی میں قیام : اپنے پیرومرشد کا حکم پاک آپ مع اپنی بہن بی بی آرام سے ڈھبوئی آئے اور رشدوہدایت ایک مدت تک فرماتے رہے، ظلمت و تاریکی سے لوگوں کو روشنی میں لائے۔

    پٹن میں آمد : ڈھبوئی سےآپ ترکِ سکونت کرکے پٹن تشریف لائے اور پٹن آکر ایک حجرہ تعمیر کیا اور اس میں رہنے لگے، جب آپ پٹن تشریف لائے تو اس وقت آپ کی عمر سڑسٹھ 67 سال کی تھی، حضرت مخدوم حسام الدین ملتانی جب پٹن پہنچے اور گجرات کے شاہِ ولایت ہوئے تو آپ کو اطراف و دیہات و قصبات کا شاہِ ولایت بنا کر بھیجا گیا، آپ دیہاتوں اور قصبات میں تعلیم و تلقین فرماتے اور پیغامِ حق سناتے اور لوگوں کو شرک و بدعت سے نجات دلاتے۔

    سیرتِ مبارک : آپ کی زندگی سادہ تھی، توکل، قناعت، تحمل، عاجزی و نکساری کا مجسمہ تھے، ہر ایک سے خاطر تواضع سے پیش آتے تھے۔

    کرامت : حاکمِ وقت کا برتاؤ لوگوں کے ساتھ اچھا نہ تھا، وہ ظالم اور تھا اور لوگوں کو تنگ کرتا تھا، لوگوں نے آپ سے اس کی شکایت کی، آپ نے حاکمِ وقت کو آگاہ کیا کہ اگر وہ اپنا طریقۂ عمل نہ بدلے گا تو اس کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے، اس نے کچھ پرواہ نہ کی، آپ نے بددعا کی، سانپ اور بچھوؤں نے اس کو گھیر لیا، اب تو وہ بہت نادم ہوا اور ظلم و ستم سے توبہ کی، آپ کے پاس آکر چند گاؤں بطور نذرانہ پیش کئے اور آپ کا معتقد ہوا۔

    وفات : آپ نے 798ہجری میں مطابق 1396عیسوی داعیٔ اجل کو لبیک کہا، اس وقت آپ کی عمر ایک سو تیس سال کی تھی، مزارِمبارک پٹن میں سہس لنگ تالاب کے مغربی کنارے مرجعِ خاص و عام ہے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے