Sufinama

حضرت سید حامد

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت سید حامد

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-36

    حضرت سید حامد جامع الکمالات تھے۔

    خاندانی حالات : آپ حضرت سید حسین خنگ سوار کے بھتیجے ہیں۔

    والد ماجد : آپ کے والدِ ماجد کا نام محمود ہے۔

    نامِ نامی : آپ کا نامِ نامی اسمِ گرامی حامد ہے۔

    تعلیم و تربیت : آپ نے علومِ ظاہری کئی بزرگوں سے اور زیادہ تر اپنے چچا حضرت سید حسین خنگ سوار سے حاصل کیے۔

    بیعت و خلافت : آپ نے اپنے چچا حضرت سید حسین خنگ سوار کے دستِ حق پرست پر بیعت کی اور انہوں نے آپ کو خرقۂ خلافت عطا فرمایا۔

    پیر و مرشد کا فرمان : آپ کے پیر و مرشد کے وصال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے آپ کو اپنا جانشین مقرر فرما کر وصیت فرمائی کہ

    ”برخوردار حامد ! یہ بات کبھی نہ بولنا کہ درویش کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ گوشۂ تنہائی اختیار کرے، مخلوق سے الگ رہے اور جب تک کوئی خاص ضرورت نہ ہو تو حضرہ سے باہر نہ جائے، درویش کو چاہیے کہ کسی کے مکان پر نہ جائے اور اگر کسی خاص ضرورت سے باہر جانا ہی ہو تو جنگل میں قیام کرے، آبادی سے دور رہے“

    آپ کا طریقہ : آپ اپنے پیر و مرشد کی وصیت پر تمام عمر سختی سے عمل کیا، گوشۂ تنہائی کو پسند کیا۔

    دعوت نامہ : حضرت شیخ عزیزاللہ اپنے پیر و مرشد حضرت شیخ رکن الدین گنج شکر کے پاس پٹن میں موجود تھے، انہوں نے بابا فریدالدین گنج شکر کے عرسِ مبارک کا دعوت نامہ آپ کو بھیجا، آپ نے معذرت کی اور کہا کہ پیر و مرشد کی وصیت کے خلاف قدم اٹھانے کو کسی طرح تیار نہیں، حضرت عزیزاللہ نے حضرت رکن الدین کو آپ کے نہ آنے کی وجہ سے مطلع کیا، حضرت رکن الدین نے حضرت عزیزاللہ سے کہا کہ محفل کا انتظام شہر میں نہ کرو، کسی غیر آباد جگہ یا جنگل میں کرو تاکہ وہ (حضرت حامد) شریک ہو سکیں، ان کی شرکت ضروری ہے، چنانچہ یہ ہی طے پایا کہ محفلِ عرسِ مبارک جنگل میں منعقد ہوگی، جب آپ کو دوبارہ اطلاع دی گئی تو آپ نے دعوت نامہ قبول کیا۔

    روانگی : آپ جب شرکت کے لیے جانے لگے تو اپنے چھوٹے بھائی سید یعقوب کو بلایا اور فرمایا کہ میرے انتقال کا وقت اب قریب ہے، میں نے تم کو اللہ کے سپرد کیا، آپ نے اپنے بھائی سید یعقوب کو اپنا جانشین نامزد کیا اور سجادہ نشیں مقرر کرکے تبرکات ان کے سپرد کیے۔

    محفل میں آمد : آپ جب محفل میں پہنچے تو عشقِ الٰہی کی آگ اور شوق و ذوق اشتیاق نے اور معرفت کی آتش نے آپ کو از خود رفتہ کر دیا، آپ نے حاضزین سے کہا کہ اگر کسی کو عشق و محبت کا کوئی قصہ یا داستان یاد ہو تو سناؤ، ایک شخص نے تعمیلِ حکم کی اور اس طرح قصہ شروع کیا۔

    ”ایک کلال کو اپنی بیوی سے انتہا محبت تھی، اس کلال کے کوئی اولاد نہ تھی، بیوی بانجھ تھی، ایک دن اس کی بیوی نے اس کو اجازت دی کہ وہ دوسری شادی کرلے تاکہ اس کی نسل چلے، شوہر نے انکار کیا اور کہا کہ اس کی محبت اس کے ساتھ ممکن ہے دوسری شادی کرنے پر کم ہوجائے، اس پر بیوی نے کہا کہ جب کسی کی محبت کمال کا درجہ حاصل کرلیتی ہے تو پھر دوسرے کی محبت ہرگز دخل نہیں دے سکتی۔

    اس شخص نے دوسری شادی کرلی، دوسری بیوی کی محبت اس پر ایسی غالب آئی کہ وہ پہلی بیوی کو بالکل بھول گیا مگر پہلی بیوی نے کبھی شکایت نہیں کی، صبر سے کام لیا،

    جس مکان میں پہلی بیوی رہتی تھی، وہاں ایک گدھا بندھا رہتا تھا، ایک دن ایسا ہوا کہ اس مکان میں جس میں پہلی بیوی رہتی تھی، یکا یک آگ لگ گئی، کلال نے نوکروں کو حکم دیا کہ جلد سارا سامان مکان سے باہر نکال لو اور پھر اپنی پہلی بیوی کو اس کا نام لے کر آواز دی اور کہا کہ گدھے کی رسی کھول کر باہر آجا، عورت نے ایسا ہی کیا، گدھا تو بھاگ نکلا لیکن عورت نہ نکل سکی، جل کر خاک ہوگئی، مرنے سے پہلے اس عورت نے اپنی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ خدا کا شکر کہ میرے شوہر نے مجھے یاد تو کیا، میرا نام تو لیا گو مدت کے بعد“

    اثرات : آپ نے جب حکایت سنی تو آتشِ عشقِ الٰہی تیز سے تیز تر ہوگئی، اسی بے خودی کے عالم میں آپ نے فرمایا کہ

    ”انسان کو محبت و فرماں برداری میں کسی طرح بھی عورت سے کم نہ ہونا چاہیے“

    پھر آپ نے یہ شعر پڑھا کہ

    جہاں در چشمِ مجنوں بود از ویرانہ کم تر

    دریں ویرانہ نہ تواں بود از ویرانہ کم تر

    آپ نے اسی حالت میں قوالوں سے کہا کہ وہ غزل شروع کرو جس کو سن کر قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے اپنی جانِ شریں جان آفریں کے سپرد کی تھی، چنانچہ قوالوں نے وہ غزل شروع کی، جب قوالوں نے یہ شعر پڑھا۔

    کشتگانِ خنجرِ تسلیم را

    ہر زماں از غیب جانِ دیگر است

    تو آپ بے ہوش ہوگئے، عصر کی نماز کا وقت ہوا، اذان سن کر ہوش میں آئے۔

    وفات : نماز جماعت کے ساتھ پڑھ رہے تھے، چوتھی رکعت کے آخری سجدے میں واصلِ بحق ہوئے، آپ کا وصال 6 محرم 814ہجری مطابق 1410عیسوی کو پٹن میں ہوا، اپنے چچا حضرت سید حسین خنگ سوار کے روضہ میں دفن کیے تھے۔

    سیرت : آپ عاشقِ اللہ اور عاشقِ رسول تھے، عشق اللہ اور عشقِ رسول کی نعمت پاکر ہمہ وقت بے خود و مدہوش رہتے تھے، کتاب اللہ اور اتباعِ سنت اور پیروئی پیر و مرشد کو سرمایۂ حیات تصور کرتے تھے۔

    فرمان : آپ نے فرمایا کہ ”ادب سے بہتر و افضل حکم کی فرماں برداری ہے“

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے