Sufinama

اسلامی تصوف

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    تاریخِ صوفیائے گجرات۔ حصہ اول

    تصوف کی ابتدا دوسری صدی ہجر میں ہوئی، صوفی کا نیا اور انوکھا لفظ وجود میں آیا، مختلف فرقے اور مختلف جماعتیں پیدا ہونے لگیں، اول اول صوفی کا لفظ عابدوں، زاہدوں، متقی اور پرہیزگار لوگوں کے ساتھ مخصوص تھا جو لوگ خدا سے لو لگائے، شرعی احکام کی پابندی کرتے اور تزکیۂ نفس میں مشغول رہتے وہ بھی صوفی کہلانے لگے، ان لوگوں کا فن اور مذاق تصوف کے لقب سے مشہور ہوا۔

    تصوف کے متعلق بعض کا خیال ہے کہ یہ لفظ صوف سے نکلا ہے جس کے معنی بکری کے بالوں کے ہیں، بعض کا خیال ہے کہ یہ لفظ صفہ سے نکلا ہے جس کے معنی چبوترے کے ہیں۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیوں میں کچھ لوگ ایسے تھے جو آپ کی مسجد میں بیٹھے رہتے تھے۔

    یہ لوگ مسجدِنبوی میں ایک چبوترے پر پڑے رہتے تھے، یہ لوگ اصحابِ صفہ کہلاتے تھے، یہ لوگ دنیا اور دنیاوی معاملات سے کنارہ کش ہوگئے تھے اور کوئی کسب نہیں کرتے تھے، خداوند تعالیٰ نے ان لوگوں کے متعلق سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح خطاب کیا ہے۔

    ولا تطرد لذین یدعون ربھم بالعداوۃ ولعشی یریدون وجہہ۔ (اور نہ نکال دے ان لوگوں کو جو صبح و شام اپنے رب کو پکاتے ہیں اور اس کا دیدار چاہتے ہیں)

    حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب سرورِ عالم صالی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے اور انہیں دیکھا تو ٹھہر گئے اور فقر اور مجاہدہ میں ان کے دل کی خوشی دیکھی اور فرمایا کہ

    ”تمہیں خوش خبری ہو اور انہیں بھی جو تمہارے بعد تمہاری صفت پر ہوں اور اپنے فقر میں راضی ہو، وہ بھی میرے دوستوں میں سے ہیں“

    بعض کا خیال ہے کہ چونکہ یہ لوگ صفائے باطن میں ہمہ تن مشغول رہتے تھے لہٰذا صوفی مشہور ہوئے، ان کا کپڑا پہننے والے صوفی کہلائے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ تصوف صف سے نکلا ہے جو لوگ زہد و عبادت کے لحاظ سے صفِّ اول میں تھے صوفی کہلائے، بعض نے کہا کہ یہ لوگ قیامت کے دن پہلی صف میں ہوں گے اس لئے صوفی مشہور ہوئے، بعض کا خیال ہے کہ چونکہ انہوں نے اصحابِ صفّہ سے محبت اور دوستی کی اس لئے صوفی کہلائے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اسم صفا سے مشتق تھے۔

    حضرت داتا گنج بخش فرماتے ہیں کہ

    ”طریقت کی تحقیق کے موافق گو ان معنوں میں ہر ایک کے لئے بہت سے لطیفے ہیں لیکن لغوی معنی اور ہیں، پس صفا کہ جس میں موجود ہو ستودہ صفت ہے اور کدورت صف کی ضد ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ

    ذھب صفر الدنیا وبقی کدورھا۔

    (دنیا کی صفائی جاتی رہی اور اس کی کدورت باقی رہ گئی۔)

    اور چیزوں کی لطافت کا نام صفائی اور ان کی کثافت کا نام کدورت ہوا کرتا ہے، پس جب اہلِ تصوف نے اپنے معاملوں اور خلقوں کو مہذب بنایا ہے اور طبیعت کی آفتوں سے کنارہ کیا ہے، اس لئے انہیں صوفی کہتے ہیں اور یہ اسم اس گروہ کے واسطے اسمائے اعلا میں سے ہے کیونکہ اہلِ تصوف کے خطرات یعنی اموراتِ اہم اس سے بزرگ تر ہے کہ لفظ صوفی ان کے معاملات پر محیط ہوسکے، پس ان کے نام کو کس طرح اشتقاق یعنی اسمِ صفت ہونا لازم آسکتا ہے۔۔۔۔۔ صفائی کی جڑا یک اور شاخ ہے جس کی جڑ تو خدا کے سوا سب سے دل کا ہٹا لینا ہے اور شاخ بے وفا دنیا سے علیحٰدگی اختیار کرنا ہے۔۔۔۔“

    صوفی وہ ہے کہ جس کے دل کا آئینہ کدورت اور دنیا کی محبت سے صاف ہوگیا، حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی فرماتے ہیں کہ

    ”حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ ہر آئینہ فرمایا ہے آپ نے کہ میرے پروردگار نے مجھے ادب دیا ہے پھر اچھی طرح سے میری تادیب فرمائی، تو ادب ظاہر اور باطن کی تہذیب اور آراستگی ہے پھر جبکہ بندہ کا ظاہر اور باطن آراستہ اور پیراستہ ہوگیا تو وہ صوفی اور ادیب ہوگیا اور دسترخوان کا نام ما دبہ اس واسطے رکھا گیا ہے کہ وہ بہت سی اشیا پر مشتمل ہے اور بندہ میں ادبِ کامل نہیں ہوتا مگر کمالِ مکارمِ اخلاق سے اور مکارمِ اخلاق بالکل تحسین اور تہذیبِ خلق سے ہے، سو خلق صورتِ انسان ہے اور خلق اس کے معنی ہیں، پس بعضوں نے ان میں سے کہا کہ خلق میں تغیر کی راہ نہیں ہے جیسے خلق میں نہیں ہے اور شک نہیں کہ وارد ہوا ہے‘‘

    فرغ ربکم من الخق والخلق والرزق والاجل۔

    (یعنی فارغ تمہارا پروردگار ہو اخلق سے اور خلق سے اور رزق سے اجل سے)

    اور صحیح تر یہ ہے کہ اخلاق کی تبدیلی بر خلق کے ممکن ہے جس پر قدرت اور اختیار ہے اور ہر آئینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا ہے۔

    اپنے اخلاق کی تم تہذیب اور تحسین کرو۔

    اور یہ اس واسطے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو صلاح اور فساد کے قبول کرنے کے لئے مہیا اور مستعد کیا اور اس کو ادب اور مکارم الاخلاق کے واسطے لائق اور اہل کیا ہے اور اس میں اہلیت کا وجود ہے جس طرح کہ چقماق میں آگ اور گھٹلی میں کھجور موجود ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے انسان کو الہام سے مشرف کیا اور اپنی اصلاح پر قادر تربیت سے گردانا، حتیٰ کہ گٹھلی کجھور کا درخت ہوجائے اور چقماق کو استعمال اور کرتب سے حتیٰ کہ اس میں آگ نکلے۔

    ”اور جس طرح انسان کے نفس میں بحالتِ اصلاح اور فساد کے خیر کی صلاحیت رکھی ہے تو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے فرمایا۔

    ونفسٍ وَّماسَوَّاھا فَاَ الہَمَھَا فُجُورَ ھا وَ تقوٰھا۔

    (قسم نفس کی اور جیسا اسے ٹھیک بنایا۔ پھر سمجھ دی اس کو ڈھٹھائی کی اور بچ چلنے کی)

    تو اس کا ٹھیک سنانا اسی میں ہے کہ ان دونوں چیزوں کی اس میں صلاحیت ہو پھر فرمایا اس نے بڑی اس کی شان ہے۔

    قَد افلح من زکّٰھا وَ قد خابَ من دَسّٰھا‘‘

    (مراد کو پہنچا جس نے اُسے سنوارا اور نامراد ہوا جس نے اسے خاک میں ملایا)

    پھر جب کہ نفس پاک ہوگیا تو عقل کے ساتھ عاقبت اندیشی کی اور اس کے احوالِ ظاہری و باطنی مستقیم اور ٹھیک ہوگئے اور اخلاق آراستہ اور درست اور آداب پیدا ہوئے، پس ادب فعل میں لانا ان چیزوں کا ہے جو قوت میں ہے اور یہ اس شخص کی خاطر ہے جس میں سجیہ نیک کی ترکیب دی گئی ہے اور سجیہ فعل حق کا ہے کہ اس کے پید اکرنے پر بشر کو قدرت نہیں ہے، جس طرح کہ چقماق میں آگ کی پیدائش ہوتی ہے اس واسطے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اور اس کا نکالنا آدمی کے کسب اور طلب و گرد آوری میں ہے، اسی طرح آداب کا چشمہ عادات اور سجایا صالحہ اور عطیاتِ الٰہیہ ہیں۔

    ”اور ہر گاہ اللہ تعالیٰ نے صوفیہ کے باطنوں کو ان عادات اور سجایا کی تکمیل کے لئے مستعد اور مہیا کیا ہے جو ان میں ہیں، تو انہوں نے جس عادات اور ریاضت کے ساتھ ان چیزوں کے نکالنے اور ابھارنے میں جو اللہ تعالیٰ کی پیدائش سے نفوس میں مرکوز اور دبے ہوئے ہیں پیوستگی کی اور وہ مذہب اور مؤدب ہوگئے“

    لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ

    ”بعض آدمیوں کے حق میں آداب بدوں زیادہ مشق اور ریاضت سے حاصل ہوتے ہیں اس شے کی قدرت سے جو اللہ تعالیٰ نے ان کی طینت اور سرشت میں رکھ دیئے ہیں جیسا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے“

    ”ادب دیا مجھے میرے رب نے۔ سو اچھا کیا اور دینا میر“

    دوسرے قسم کے لوگ وہ ہیں کہ

    ”جن کو زیادہ مشق اور فراولت کی حاجت ہوتی ہے، اس سبب سے کہ سرشت میں اصل قویٰ ان کے ناقص ہیں“

    اسی وجہ سے مریدوں کو تربیت کی ضرورت ہوئی، حضرت شیخ شہا ب الدین عمر سہروردی فرماتے ہیں کہ

    ”اس وجہ سے مریدوں کو صحبتِ مشائخ کی حاجت ہوئی تاکہ صحبت اور آموزش سے ان چیزوں کے ابھارنے میں مدد حاصل ہو جو ان کی طبیعت میں ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

    ”بچاؤ اپنی جانوں کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے“

    حضرت ابن عباس نے کہا کہ

    ”ان لوگوں کو فقہ سکھلاؤ اور ان کو تم ادب دو“ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ

    ادب مجھے رب میرے نے دیا، سو بہتر ہے ادب دینا میرا پھر مجھے حکم بزرگ اخلاق کے ساتھ کیا اور فرمایا کہ

    تو بخشش کو اختیار کر اور حکم کر ساتھ نیک کام کے اور جاہلوں سے منہ پھیر لے۔

    تصوف نے ادب پر کافی زور دیا ہے، مولانا جلال الدین رومی نے فرمایا ہے کہ

    بے ادب محروم ماند از فضلِ رب

    یہی نہیں بلکہ

    بے ادب تنہا نہ خود را داشت بد

    بلکہ آتش در ہمہ آفاق زد

    یوسف بن الحسین فرماتے ہیں کہ

    ”ادب سے علم سمجھ میں آتا ہے اور علم سے عمل صحیح ہوتا ہے اور عمل سے حکمت ملتی ہے اور حکمت سے زہد قائم کیا جاتا ہے اور زہد سے دنیا متروک ہوتی ہے اور دنیا کے ترک سے آخرت کی رغبت حاصل ہوتی ہے اور آخرت کی رغبت ہونے سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک رتبہ حاصل ہوتا ہے“

    ابن عطار فرماتے ہیں کہ

    ”نفس بے ادبی پر محبول اور مخلوق ہے اور بندہ ادب کی ملازمت اور ہمراہی پر مامور ہے اور نفس اپنی طینت اور سرشت کے ساتھ مخالفت کے میدان میں چلتا ہے اور بندہ اسی حسن مطابقت کی طرف کوشش کرکے پھرتا ہے، پس جس شخص نے کوشش سے منہ پھیرا تو ہر آئینہ نفس کی باگ اس نے چھوڑ دی اور رعایت اور نگہداشت سے غفلت کی اور جس وقت کہ اعانت کی تو یہ اس کا شریک ہوا“

    حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ

    ”جس نے اپنے نفس کی ہوا میں اعانت کی اور ہر آئینہ اپنے نفس کے قتل میں شریک ہوا، اس واسطے کہ عبودیت تلازمت ادب اور طغیان سو ادب ہے“

    حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

    ”اپنی اولاد کو ادب دینا آدمی کے لئے اس سے بہتر ہے کہ وہ صدقہ صاع کے ساتھ دے“

    حضرت ابو علی وقاق فرماتے ہیں کہ

    ”بندہ اپنی طاعت سے جنت کو پہنچتا ہے اور اپنی طاعت میں ادب سے اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے“

    حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ

    ”عمل میں ادب علامت ہے قبولِ عمل کی“

    حضرت ابن عطا فرماتے ہیں کہ

    ”ادب وقوفِ مستحسنات کے ساتھ ہے“

    اُن سے جب پوچھا گیا کہ آکر اس کے معنی کیا ہیں تو انہوں نے اس طرح وضاحت کی۔

    ”اللہ تعالیٰ سے ادب کے ساتھ ظاہر اور باطن میں تعامل اور برتاؤ کرے پھر جب ایسا ہو جائے تو تب ادیب ہوگا“۔

    حضرت ابو علی فرماتے ہیں کہ

    ”ادب کا ترک موجب راندگی کا ہے۔ پس جس شخص نے بے ادبی بساط پر کی تو وہ دروازہ تک روکا گیا اور جس نے دروازہ پر بے ادبی کی وہ مواشی کی سیاست تک پہنچاگیا“

    حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ

    ”ہر ایک شے کی کنجی ہے اور بہشت کی کنجی مساکین اور فقرا صابر کی محبت ہے کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہم نشیں ہیں“

    اس سے صاف ظہر ہے کہ تصوف کی ماہیت فقر موجود ہے اور بنیاد اس کی اور اس کا قوام ہے۔

    ”تصوف تین خصلت پر مبنی ہے۔

    اول ۔ تمسک بالفقر اور محتاجی۔

    دوم ۔ صاحبِ بذل و ایثار ہونا۔

    سوم ۔ تعرض اور اختیار کا چھوڑنا۔

    حضرت جنید بغدادی سے دریافت کیا گیا کہ تصوف کیا ہے تو انہوں نے باتا کہ

    ”تصوف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تو بے بدوں اس کے کہ کوئی علاقہ ہو، ہو“

    حضرت معروف کرخی نے تصوف کی اس طرح وضاحت کی کہ

    ”تصوف حقائق کا حصول اور خلائق کے مال و متاع سے یاس ہے“

    پس جو شخص صاحبِ فقر نہیں صاحبِ تصوف نہیں ہے، حضرت شبلی سے حقیقتِ فقیر کی پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا کہ

    ”حق کے سوا کسی دوسری چیز کی پرواہ نہ کرے“

    حضرت ابوالحسین ثوری فرماتے ہیں کہ

    ”فقیر کی صفت ہے کہ سکون نہ ہونے کے وقت اور زیادہ بذل واثیار ہو“

    حضرت ابوبکر مصری سے جب فقیر کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ

    ”فقیر وہ ہے کہ نہ وہ کسی کا مالک ہو اور نہ ا س کا کوئی مالک ہو“

    حضرت ابو حفص نے فرمایا کہ

    ”تصوف بالکل آداب میں ہر ایک وقت کا ایک ادب ہے اور ہر ایک حال کا ایک ادب ہے اور ہر ایک مقام کا ایک ادب ہے اور جس نے اوقات کے آداب کو اپنے ذمہ لازم کیا تو وہ مردوں کے مرتبہ کو پہنچا اور جس نے آدابِ کو ضائع کیا وہ بعید ہے اس راہ سے کہ ظنِ قریب رکھے اور مردود ہے اس راہ سے کہ امیدِ قبول اُسے ہو“

    انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ

    ”ظاہر کا حسنِ ادب باطن کے حسنِ ادب کا عنوان ہے، اس واسطے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

    ”اگر اس کا دل خاشع اور متواضع ہے تو اس کے اعضا و جوارح خاشع ہیں۔

    ابو محمد جریری سے تصوف کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ

    ”ہر ایک اعلیٰ خلق میں آنا اور ہر ایک ادنیٰ خلق سے نکلنا ہے“

    پس تصوف حصولِ اخلاق اور تبدیلیِ اخلاق سے مراد ہے، تصوف زہد اور فقر دونوں سے بڑھ کر ہے، بعض کے نزدیک فقر کی انتہا ساتھ اس کے شرف کے ابتدا تصوف ہے، حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ

    ”تصوف اس کا نام ہے کہ حق تجھے تجھ سے مارے اور اس سےآپ تجھے جلائے“

    حضرت ادہم نے فرمایا ہے کہ

    ”تصوف نفس کا اللہ کے ساتھ اس کی مرضی پر چھوڑ دینا ہے“

    حضرت عمر بن عثمان مکی نے تصوف کی اس طرح تعریف کی ہے کہ

    ”تصوف اس کا نام ہے کہ بندہ ہر وقت اس شے میں مشغول ہو جو اس وقت اول اور افضل ہو“

    بعض صوفیہ کے نزدیک تصوف کا اول علم ہے اور اوسط اس کا عمل ہے اور آخر اس کا عطا من اللہ تعالیٰ ہے۔

    بعض نے کہا کہ ”تصوف ذخر باجماعت ہے اور وجد باسماعت اور عمل باتبعیت“

    کچھ کے نزدیک ”تصوف ترکِ تکلف ہے اور بذلِ روح“

    حضرت سہل بن عبداللہ صوفی فرماتے ہیں کہ صوفی وہ ہے کہ

    ”جو کدورت سے صاف اور مستی وشوق سے چور اور آدمیوں سے اللہ تعالیٰ کی طرف منقطع ہو، سونا اور مٹی اس کے نزدیک برابر ہوں“

    تصوف بعض کے نزدیک

    ”خلقت کی موافقت اور اخلاقِ طبعی کی مفارقت سے دل کی صفائی اور صفاتِ بشر سے افسردگی اور نفسانی خواہشات سے یکسوئی اور صفاتِ روحانی کا نزول اور علومِ حقیقی سے تعلق اور شریعت میں اتباعِ رسول مقبول علیہ الصلوٰۃ والسلام ہے“

    حضرت ذوالنون مصری نے ایک عورت کو ساحلِ شام پر دیکھا تو اس سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آئی، اس نے جواب دیا کہ

    ”ان قوموں کے پاس سے جو خوابگاہوں سے اپنے پہلوؤں کو علیحٰدہ رکھتے ہیں“

    پھر حضرت ذوالنون مصری نے اس سے دریافت کیا کہ کہاں جانے کا ارادہ ہے، اس عورت نے جواب دیا کہ

    ”ان مردوں کی طرف جن کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے نہ سوداگری غافل کرتی ہے اور نہ خرید و فروخت کھیل میں ڈالتی ہے“

    حضرت ذوالنون مصری نے یہ سن کر فرمایا کہ وہ کون لوگ ہیں، ان کی تعریف بیان کر، اس عورت نے چند اشعار پڑھے جس کا ترجمہ حسبِ ذیل ہے۔

    وہ ایسی قوم ہے جن کے ارادے اللہ تعالیٰ کے ساتھ معلّق اور آویزاں ہیں اور ان کی ہمتیں ایسی نہیں ہیں جو کسی اور کی طرف بڑھیں اور بلند ہوں۔

    2 ۔ پھر ساری قوم کا مطلب اور مقصود ان کا مولیٰ اور ان کا سردار ہے۔ تو اللہ پاک یکتا کے لیے کیا ہی اچھا ان کا مطلب ہے۔

    3 ۔ نہ دنیا ان کو نزاع اور تکرار میں ڈالتی ہے اور نہ کوئی شرف، جو کھانے کی قسم سے ہو اور لذّت اور اولاد سے ہو۔

    4 ۔ نہ پوشاک عمدہ اور نفیس کے پہننے کے لیے او نہ کسی خوشی اور آرام کے لیے جو شہر میں آیا ہو۔

    5 ۔ مگر یہ کہ مرتبہ کے پیچھے جلد اور شتابی ہے، جس میں قدم ان کے قربتِ ابد کے بُعد سے گر گئے۔

    6 ۔ وہ چشموں اور سیل گاہوں کے اندر بسے ہوئے ہیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر ان سے تو گروہ کے گروہ ملاقات کرے گا۔

    حضرت شیخ ابوسعید ابوالخیر سے پوچھا گیا کہ تصوف کیا ہے، آپ نے جواب دیا کہ

    ”آنچہ در سرداری نبہی وانچہ در کف داری بدہی و از انچہ بر تو آید نہ جہی“

    (جو کچھ تیرے سر میں ہے اس کو رکھ دے اور جو کچھ تیری مٹھی میں ہے اس کو دے دے اور جو کچھ تجھ پر گذرے اس کو برداشت کر)

    حضرت جنید بغدادی صوفی کے متعلق فرماتے ہیں کہ

    ”صوفی زمین کی مثال ہے، ہر ایک بری چیز اُس پر ڈالتے ہیں اور اس میں سے جو چیز نکلتی ہے وہ اچھی ہوتی ہے“

    حضرت جنید ؒ نے صوفی کے متعلق یہ بھی فرمایا کہ

    ”صوفی زمین کے مانند ہے کہ نیک وبد سب رونتے ہیں اور ابر کے مانند ہے کہ ہر ایک چیز پر سایہ کرتا ہے اور مینہ ایسا ہے کہ ہر ایک شے کو سیراب کرتا ہے“ صوفیوں کا کہنا ہے کہ انسان اپنےسے بے خبر ہے، اس کو اپنے سے باخبر ہونا چاہئے۔

    خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ

    ”لقد خلقنا الانسانَ فِی احسنِ تقویم۔ ثُمَّ رَدَدناہۃ اَسفَلَ السَّافِلین“۔

    (ہم نے انسان کو بہتر ساخت کا پیدا کیا اور پھر ہم اس کو (بوڑھا کر کے) کمتر سے کمتر مخلوق کے درجے میں لوٹا لائے)

    معرفت کی امانت کے بوجھ کا سوائے انسان کے اور کوئی متحمل نہ ہوسکا، خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ

    ”انا عرصنا الامانۃ علی السمواتِ والاضِ ولجبال فابین وحملہا الانسان انہ کا ظلومات جھولا۔ (ہم نے امانت آسامانوں، زمینوں اور پہاوں کو پیش کی تو انہوں نے انکار کردیا لیکن انسان جو ظلموم جہول تھا اسے اٹھا لیا، پس جیسا کہ حضرت خواجہ نجم الدین کبریٰ فرماتے ہیں کہ

    ”ظلومی اور جہولی انسان کے لازم حال ثابت ہوتی ہے، کیونکہ امانت کے بوجھ کو ظلومی اور جہولی کی قوت کے بغیر اٹھا ہی نہیں سکتے، اگر چہ اسے روحانی صفائی اور نور کے سوا نہیں دیکھ سکتے، فرشتوں نے روحانی صفائی اور نور سے اسے دیکھ تو لیا تھا لیکن ان میں جسمانی استعداد اور قوت نہ تھی، اس لئے بارِ امانت نہ اٹھا سکے، حیوانات میں جسمانی قوت اور استعداد تو موجود تھی لیکن روحانی صفائی اور نور نہ تھا اس لئے ان کو بھی یہ شرف حاصل نہ ہوا، چونکہ انسان روحانی اور جسمانی دونوں عالم کا مجموعہ تھا اور اس لیے اسے اس شرف سے مشرف کیا جیسا کہ ”ولقد کرّمنا بنی آدمَ“ (ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی) سے ظاہر ہوتا ہے۔

    معرفت کی تین قسمیں ہیں۔

    معرفتِ عقلی، معرفتِ نظری اور معرفتِ شہودی۔ معرفت عقلی تو سب کو حاصل ہے، معرفتِ عقلی میں ”حواسِ ظاہری اور قوائے بدنی اور نظمِ عقلی کے مدرکات کی ضرورت ہے تاکہ ظاہری حواس سے عالمِ محسوسات کو دیکھ سکے“

    معرفتِ نظری خاص خاص لوگوں کو حاصل ہوتی ہے، حجاب کا نقاب چہرے سے اٹھا دیا جاتا ہے“ ہر ایک شے اس کے لئے نشانی ہے اور اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ خدا ایک ہے، یہ مرتبہ بہت بلند ہے، یہ خواص کا مقام ہے، ”ما نظرت فی شیئٍ الا ورأیت اللہ فیہِ“ (جس چیز کو میں نے دیکھا اس میں مجھے اللہ تعالیٰ دکھائی دیا)

    معرفتِ شہودی کی خاطر کائنات کو پیدا کرنے کا خیال ہوا، جیسا کہ فرمایا ہے ”پس میں نے خلقت کو اس واسطے پیدا کیا کہ میں پہنچانا جاؤں“

    ہر راہ چلنے والے کو راہبری کی ضرورت ہوتی ہے، راستہ بغیر رہبر کے طے کرنا دشوار ہے، اسی لئے راہِ دین کو طے کرنے اور عالمِ یقین میں پہنچنے کے لئے کامل شیخ، صاحبِ ولایت او ر صاحبِ تصرف کی ضرورت ہے۔

    حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ

    الشیخ فی قومہ کالنبی فی امتہِ۔ (شیخ کا مرتبہ اپنی قوم میں وہی ہے جو نبی کا اس کی امت میں ہے) پس مرید کو شیخِ واصل اور کامل کی ضرورت ہے، حضرت خواجہ نجم الدین کبریٰ فرماتے ہیں کہ ”نفس ہوا، شیاطین اور انس و جن سب راہِ زن ہیں، کسی صاحبِ ولایت کو بدرقہ بنائے بغیر یہ راہ طے نہیں ہوسکتی“

    شیخ اسی وقت مرید کو راہِ طریقت و حقیقت دکھانے کے قابل ہوسکتا ہے جب اس میں حسبِ ذیل صفات ہوں۔

    علمِ شریعت سے بقدرِ ضرورت واقف ہو، اعتقادِ نیک ہو، عقل رکھتا ہو، سخاوت بدرجۂ اتم ہو، شجاعت میں کم نہ ہو، پاکدامنی کے ساتھ ساتھ پاک نفس ہو، علوہمت ہو، شفقت سب پر کرتا ہو، علم سے آراستہ ہو، عفو اور در گذر اس میں ہوں، خلق کی خوبی ہو، ایثار ہو، کرم اس کا عام ہو، ولایت کا کرم مریدوں کو بخشے، تسلیم و رضا کا پیکر ہو، وقار کو ہاتھ سے نہ دیتا ہو، سکنوت اس میں ہو، جلدی نہ کرتا ہو، ہیبت بھی ضروری ہے، شیخ باہیب ہو۔

    ارادت کے متعلق حضرت خواجہ نجم الدین کبریٰ فرماتے ہیں کہ

    ”ارادت ایک بڑی دولت ہے اور تمام نیک بختیوں کا بیج ہے، ارادت کوئی انسانی صفت نہیں ہے بلکہ مریدی حق کی صفت کے انوار کا پرتو ہے، جیسا کہ ابوالحسن خرقانی فرماتے ہیں کہ

    ”جس نے ہمیں چاہا اس نے اللہ تعالیٰ کو چاہا، مرید ذاتِ حق کی صفات سے ہے، جب تک اللہ تعالیٰ اس صفت سے بندے کی روح پر تجلی نہیں کرتا اس وقت تک بندے کے دل پر ارادت کے نور کا عکس نہیں پڑتا“

    مرید کے لئے ضروری ہے کہ حسبِ ذیل اوصاف سے موصوف ہو۔

    اول :- مقام توجہ ہے، اس کو چاہئے کہ نصوح کی سی توبہ کرے۔

    دوم :- زہد، دنیا اور دنیا کے مال و مرتبہ سے منہ پھیر لے۔

    سوم :- تجرید، تمام سببی اور نسبی تعلقات کو چھوڑ دے۔

    چہارم :- عقیدہ درست ہو۔

    پنجم :- تقویٰ، پرہیز گار ہو۔

    ششم :- صبر، ہر حالت میں صبر کرے۔

    ہفتم :- مجاہدہ، بغیر مجاہدہ کے مشاہدہ مشکل ہے۔

    ہشتم :- شجاعت، دلیر ہو اور باہمت ہو۔

    نہم :- بذل اور ایثار ہو۔

    دہم :- فتوتِ حق گذاری اور انصاف کرے۔

    یازدہم :- صدق، جھوٹ اور خیانت سے دور رہے۔

    دوازدہم :- علم ضروری ہے۔

    سیزدہم :- نیاز کو نہ چھوڑے۔

    چہاردہم :- ہوشیاری، قدم اٹھائے تو سنبھال کر۔

    پانزدہم :- ملامتی صفت ہو اور قلندر سیرت۔

    شانزدہم :- عقل تصرف سے اس کی حرکات مضبوط ہوں، کوئی کام شیخ کی رضا اور اس کے فرمان کے خلاف نہ کرے۔

    ہفدہم :- ادب کا خیال رکھے۔

    ہژدہم :- خلق کی خوبی، ہمیشہ خوش رہے اور خوش طبع ہو۔

    نوازدہم :- تسلی، ظاہر و باطن میں ولایتِ شیخ کے تصرفات کو تسلیم کرے۔

    بیستم :- تفویض، مرید کو چاہئے کہ خود کو راہِ خدا میں سونپ دے۔

    صوفیائے کرم کا مشغلہ ذکر ہے، خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ

    ”فاذ کرونی اذکرکم“ (تم مجھے یاد کرو میں تجھے یاد کروں گا) اور ”واذکراللہ کثیر العلکم تفلحون“ (اللہ تعالیٰ کی یاد کثرت سے کرو، شاید تمہاری بہتری ہوجائے)

    سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ

    افضل الذکر لا الٰہ الا اللہ وا فضل الدعا الحمدللہ۔ (سب ذکروں سے افضل ذکر لا الہ الا اللہ کا ذکر ہے اور سب دعاوں سے افضل دعا الحمد للہ ہے۔

    صوفیائے کرم ذکر لا الٰہ الا اللہ سے غافل نہیں رہتے اور الحمدللہ کہے بغیر نہیں رہتے، ذکرِ خفی اور ذکر جلی، فکر، مراقبہ، مجاہدہ، چلّہ کشی ان کے یہاں ضروری ہیں۔

    تصوف باطنی صفائی مراد ہے اور ذکر لا الٰہ الا اللہ اس کے لئے مجرب ہے تصوف ایک درخت ہے اور توکل، قناعت، امید و بیم، صبر، استقلالِ حلم، بردباری، شجاعت، مخلوق سے بے نیاز، انوار کے مشاہدات، خلوت، خاموشی، تقویٰ، پرہیز گاری، خوف، خشوع و خضوع، تواضع، مخالفتِ نفس، شکر، یقین، روا، عبودیت، ارادہ، استقامت، اخلاص، صدق، حیا، حرّیت، فراست، خلق، جود و سخا، غیرت، ولایت، فقر، ادب، ذوق وشوق، توحید، معرفت، اس کے سدا بہار پھول اور خوشمنا پھل ہیں۔

    قادری، چشتی، سہروردی اور نقشبندی خاص سلسلے ہیں جن کے پیرو دنیا کے ہر حصے میں پائے جاتے ہیں، ان کا پیغام حافظ شیرازی نے اس طرح پہنچایا ہے۔

    ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق

    ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما

    مولانا جلال الدین رومی اؤلیائے کرام کی شان میں فرماتے ہیں کہ

    خاصانِ خدا خدا نباشند

    لیکن ز خدا جدا نباشد

    یک زمانِ صحبتِ با اؤلیا

    بہتر از صد سال زہدِ بے ریا

    گر تو سنگِ خارہ مرمر شدی

    چوں بصاحبِ دل رسی گوہر شدی

    جر بمرداں نیست راہے رہبری

    قال را بگذار مردِ حال شد

    پیشِ مردِ کاملِ پائمال شد

    ان لوگوں سے جو دنیا کے مال و متاع اور جاہ و منصب کے جال اور زنجیروں میں پھنسے ہوئے ہیں، ان سے مولانا فرماتے ہیں کہ

    بند بگسل باش آزاد اے پسر

    چند باشی بندِ میم و بندِ زد

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے