Sufinama

حضرت سلطان حاجی ہُد

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت سلطان حاجی ہُد

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-39

    حضرت سلطان حاجی ہد خو کردۂ جمالِ محمدی اور پروردۂ کمالِ احمدی ہیں۔

    خاندانی حالات : آپ کا نسب نامۂ پدری حضرت امام باقر سے ملتا ہے اور مولائے کائنات حضرت علی تک پہنچتا ہے۔

    والدِ ماجد : آپ کے والدِ ماجد کا نام سید اوانا ہے، ان کا لقب سبحانی عبداللہ صبوحی تھا، وہ دمشق کے پاس ایک قصبہ کھنڈرکور میں رہتے تھے۔

    ولادت : آپ 416 ہجری مطابق 1025 عیسوی میں پیدا ہوئے۔

    بشارت : حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے والدِ ماجد کو بشارت دی تھی کہ عنقریب لڑکا پیدا ہوگا، وہ بچہ خدا رسیدہ اور ولیِ کامل ہوگا، تم اس بچہ کا نام ہُد رکھنا،

    نام : حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق آپ کے والدِ ماجد نے آپ کا نام ہُد رکھا۔

    نسب نامہ پدری : آپ کا نسب نامہ پدری اس طرح ہے۔

    سلطان حاجی ہُد وہ لڑکے سید اوانا کے وہ لڑکے ظاہر کے وہ لڑکے فروا کے وہ لڑکے غدرا کے وہ لڑکے صفیان کے وہ لڑکے جوئد کے وہ لڑکے ربیعہ کے وہ لڑکے طلاح کے وہ لڑکے سداد کے وہ لڑکے سلیم کے وہ لڑکے ثابت کے وہ لڑکے عبداللہ کے وہ لڑکے امام محمد باقر کے وہ لڑکے امام زین العابدین کے وہ لڑکے امام حسین کے وہ لڑکے امام الاؤلیا حضرت علی کے۔

    تعلیم و تربیت : آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کے وطن کھنڈکور میں ہوئی، علومِ ظاہری سے 14 سال کی عمر میں فارغ ہوئے۔

    امورِ سلطنت : آپ کی عمر جب چودہ سال کی ہوئی تو آپ پر امورِ سلطنت کا بار رکھا گیا، آپ نے 430 ہجری مطابق 1038 عیسوی میں یہ بودجھ اٹھانا بخوشی منظور کیا، ساتھ ہی ساتھ آپ عبادت میں بھی مشغول رہتے، دنیا کے کاموں میں پھنس کر بھی آپ یادِ الٰہی سے غافل نہ رہے۔

    حضرت سرورِ عالم کا حکم : آپ کو 444 ہجری میں جبکہ آپ کی عمر 28 سال کی تھی حضرت سرور عالم سے یہ بشارت ہوئی کہ

    ”اب وقت آگیا ہے، دنیاوی سلطنت کے کام چھوڑ دو اور سلطنتِ ظاہری سے کنارہ کش ہو جاؤ، باطنی جس کو زوال نہیں، اس کے کاموں میں مشغول ہو اور اس کو سنبھال کر لازوال دولت سے مالا مال ہو اور دینی اور دنیوی فلاح و بہبودی حاصل کرو“

    سفر : حضور سرورِ کائنات کا حکم پاتے ہی آپ جاہ و منصب و سلطنت سے دست بردار ہوئے اور سفر کی تیاری میں مصروف ہوئے، آپ کے ساتھ کئی لوگ ہوئے جن میں آپ کے وزیر سید حاجی حسن اور روم اور شام کے دو شہزادے بھی شامل تھے۔

    زیارتِ حرمین شریف : منزل بہ منزل رکتے ہوئے آپ مع ساتھیوں کے مکہ معظمہ پہنچے پھر مدینہ منورہ حاضر ہوکر چھ سال عبادت و ریاضت میں گزارے، ان چھ سال میں آپ نے چھ حج کیے۔

    حکم : مدینہ منورہ کے قیام کے دوران آپ کو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی اور حکم فرمایا کہ

    ”تم کو یہاں چھ سال ہوگئے، اب تم ہندوستان کا رخ کرو، وہاں تمہاری ضرورت ہے“

    چنانچہ یہ حکم پا کر آپ ہندوستان روانہ ہوئے۔

    بیعت و خلافت : ہندوستان آتے ہوئے آپ چشت پہنچے اور وہاں چشتی سلسلہ کے مشہور و معروف و باکمال درویش خواجہ ناصرالدین ابو یوسف چشتی کی صحبت سے آپ اس قدر متاثر ہوئے اور آپ ان کے اتنے گرویدہ ہوئے کہ آپ نے ان کو حلقۂ ارادت میں داخل ہونے کی تمنا ظاہری کی، خواجہ ابو یوسف نے آپ کی درخواست منظور فرمائی اور آپ کو اپنے حلقۂ ارادت میں داخل کرکے آپ کی تعلیم و روحانی تربیت فرمائی، آپ اپنے پیر و مرشد کی خدمتِ اقدس میں رہ کر فیوض و برکات سے مستفیض ہوتے رہے۔

    پیر و مرشد کا فرمان : کچھ عرصے آپ اپنے پیر و مرشد کی صحبت میں رہے، ایک ایک دن آپ کے پیر و مرشد نے حکم فرمایا کہ

    ”اب تم کو علمِ لدنی میں سے تمہارا حصہ تم کو مل چکا ہے اور اسرارِ باطنی کا انکشاف بھی تم پر ہونے لگا ہے، تمہاری اصلی جگہ نہر والہ پٹن ہے جو ہندوستان میں ہے، تم اب ہندوستان جاؤ اور نہر والہ پٹن میں سکونت اختیار کرو اور پٹن کو اپنی رشد و ہدایت کا مرکز بناؤ اور لوگوں کو رشد و ہدایت کرو، ان کو سیدھا راستہ دکھاؤ، ظلمت اور کفر سے ان کو نجات دلاؤ اور حق کی طرف بلاؤ“

    پٹن میں آمد : پیر و مرشد کا حکم پاکر آپ نے رختِ سفر باندھا، اپنے پیر و مرشد سے رخصت ہوکر چشت سے روانہ ہوئے اور سمرقند پہنچے، گھومتے پھرتےآپ 485 ہجری مطابق 1092 عیسوی میں پٹن میں رونق افروز ہوئے اس وقت آپ کی عمر 69 سال کی تھی، آپ کے پٹن میں آمد کی تاریخ ”اللہ ھوالصمد“ سے برآمد ہوتی ہے۔

    پٹن میں قیام : پٹن پہنچ کر آپ نے ایک میدان میں قیام فرمایا، آپ کے ساتھ مریدین و معتقدین کی اچھی خاصی تعداد تھی، آپ کی کرامات کا شہرہ ہوا، راجہ کرن سولنکی کے امرا بھی آپ کے پاس آنے جانے لگے، عوام و خواص کی بھیڑ لگی رہتی تھی، راجہ کو آپ کا بڑھتا ہوا اقتدار ناگوار ہوا، ایک دن وہ آپ کے پاس آیا، آپ سے مل کر آپ کی طرف سے کدورت دور ہوئی، وہ آپ کا معتقد ہوا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک مسجد بھی تعمیر کرائی جو کرنا مسجد کہلاتی تھی۔

    وفات : پٹن میں 51 سال آپ نے رشد و ہدایت اور تعلیم و تلقین میں گزارے، آپ 15 رجب المرجب 536 ہجری میں مطابق 1141 عیسوی کو جوارِ رحمت میں داخل ہوئے، آپ کا سالِ وصال ”عشق اللہ“ سے برآمد ہوتا ہے، آپ کی عمر 120 سال کی ہوئی، آپ کا مزارِ مبارک خان سرور دروازے کے قریب پٹن میں واقع ہے۔

    سیرت : آپ بہادر اور بے باک تھے، آپ سے جو ایک مرتبہ مل لیتا وہ آپ کا گرویدہ ہو جاتا تھا، اپنے اخلاق سے لوگوں کے دل جیت لیے اور اپنی نظر کے اثر سے عوام و خواص کو تسخیر کرلیا، آپ عبادت، ریاضت، ذکر و فکر سے کسی وقت اور کسی حالت میں بھی غافل نہ رہتے تھے۔

    کرامت : آپ صاحبِ کشف و کرامات تھے، جب آپ پٹن تشریف لائے تو ایک بت خانے کے قریب قیام فرمایا، وہاں ایک شیر رہتا تھا، اس شیر نے آپ پر حملہ کیا، آپ نے شیر کے جبڑے پکڑے اور ان کو چیر ڈالا، آپ کی یہ کرامت دیکھ کر سب متحیر ہوئے۔

    اولاد : آپ کے صاحبزادے سید اسماعیل اپنے والدِ ماجد کے نقشِ قدم پر چلتے تھے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے