Sufinama

حضرت سید احمد جہاں شاہ

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت سید احمد جہاں شاہ

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-44

    حضرت سید احمد جہاں شاہ صاحبِ صفا اور ولیِ خدا ہیں۔

    خاندانی حالات : آپ امام الاؤلیا حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کی اولاد میں سے ہیں، کئی واسطوں سے آپ کا نسب نامہ پدری مولائے کائنات تک پہنچتا ہے، آپ کے دادا سید نورالدین حسین غوث الوریٰ ایک بلند پایہ بزرگ تھے، وہ حضرت ابوالحسن شہاب الدین سید احمد کے صاحبزادے تھے۔

    والد ماجد : آپ کے والدِ ماجد کا نامِ نامی اسمِ گرامی سید تاج الدین مکی ہے۔

    والدہ ماجدہ : آپ کی والدہ ماجدہ بی بی راضی فردوس سیدالسادات سید علاؤالدین علی کی صاحبزادی تھیں، ان کے والد سید شادالدین تھے، ان کے والد سید اشرف اور ان کے والد علی تھے جو حضرتِ مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کے خلیفہ تھے۔

    ولادت : آپ بروزِ جمعہ بتاریخِ 27 رمضان 789 ہجری کو پیدا ہوئے، جائے پیدائش مکہ معظمہ ہے، ”وارث امام“ سے ولادت کی تاریخ برآمد ہوتی ہے۔

    مانک پور میں آمد : مکمہ معظمہ سے آپ اپنی والدہ کے ہمراہ مانک پور آئے، مانک پور میں ایک مکتب میں جاتے تھے اور قرآنِ مجید پڑھتے تھے، دیگر علوم کی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے۔

    پچپن کی کرامت : آپ کی عمر سات سال کی تھی، مکتب سے آکر آپ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے، اتفاق سے ان ہی دنوں میں مانک پور میں وبائی بیماری پھیلی، لوگ عاجز ہوکر حضرت سید عبدالواحد چشتی کے پاس گئے اور دعا کرنے کو کہا، انہوں نے مراقبہ کیا اور کہا کہ سید احمد جہاں شاہ کے پاس جاؤ، ان کی دعا مقبول ہوگی، لوگ آپ کے پاس آئے تو دیکھا کہ آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، جب آپ سے دعا کے لیے عرض کیا گیا تو آپ نے ان سے برک لانے کے لیے کہا، ابرک کو لے کر آپ جنگل کی طرف گئے، لوگ پیچھے پیچھے گئے، آپ نے پتھر پر ابرک کا پانی بہایا اور کہا جاؤ اللہ نے فضل کیا، وبا غائب ہوگئی اور بیمار بھی شفایاب ہوگئے، لوگوں نے حضرت عبدالواحد سے دریافت کیا کہ آخر پانی بہانے سے ان کی کیا غرض تھی، حضرت عبدالواحد نے ان کو بتایا کہ بات سیدھی سادی تھی، خداوندِ تعالیٰ نے سوئی کے ناک کے برابر حرارت کھول دی تھی جس کی وجہ سے وبا پھیلی، اس پر پانی بہا دیا گیا وہ سرد ہوگئی۔

    بیعت : اپنی والدہ ماجدہ کے انتقال کے بعد آپ آپ مانک پور سے اوچ تشریف لے گئے، وہاں آپ حضرتِ سید صدرالدین محمد راجو قتال کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے آپ کو چشتیہ سلسلہ میں بیعت کی، پیر و مرشد کی صحبت میں کچھ مدت رہ کر علومِ ظاہری کی تکمیل کی اور علومِ باطنی حاصل کیے۔

    پٹن میں آمد : آپ نے زیارتِ حرمین شریف سے مشرف ہونے کا ارادہ کیا اور اپنے پیر و مرشد سے اجازت طلب کی، اجازت ملنے پر آپ نے رختِ سفر باندھا، چلتے وقت آپ کے پیر و مرشد نے آپ کو کچھ تبرکات دئیے اور ہدیت فرمائی کہ یہ تبرکات حضرت سید برہان الدین قطب عالم کو دینا جو پٹن میں ہیں اور آپ کو یہ بھی بتایا کہ

    ”یاد رکھ! جو تبرکات تم کو ملنا ہیں وہ تبرکات تم کو ہاں (حضرت قطب عالم) سے ملیں گے“

    آپ پٹن پہنچے اور حضرتِ مخدوم عالم جو سید اسماعیل کے صاحبزادے تھے کے یہاں قیام فرمایا، دوسرے دن آپ اور حضرت مخدوم عالم حضرتِ قطب عالم کی خدمت میں پہنچے اور گلیم پنجتن پاک جو حضرت راجو قتال نے بھی تھی پیش کی، حضرتِ مخدوم عالم کھڑے ہوئے اور نہایت احترام و تعظیم سے وہ گلیم پاک لے کر اپنے سر پر رکھی۔

    خلافت و اجازت : حضرتِ قطب عالم جو لباس اس وقت زیب تن کیے ہوتے تھے، وہ اتار کر آپ کو پہنایا اور اس طرح سے بطریق قدیم و بطورِ تبرک آپ کو دے دکر سرفراز مایا گویا آپ کو خلافت و اجازت عطا فرمائی۔

    چچا سے ملاقات : اسی محفل میں آپ کی اپنے چچا سید محمد خدا بخش سے اس طرح ملاقات ہوئی کہ انہوں نے آپ کو دیکھ کر کسی سے آپ کے متعلق پوچھا کہ حضرت قطب عالم نے فوراً فرمایا کہ تم نہیں جانتے یہ تمہارے بھتیجہ ہیں، حضرتِ قطب عالم آپ کو اپنے مکان پر لے گئے، وہاں سے پھر آپ اور مخدوم عالم واپس ہوئے اور مخدوم عالم کے ساتھ ان کے مکان پر گئے۔

    شادی : حضرتِ مخدوم عالم کو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں حکم دیا کہ اپنی لڑکی کی شادی سید احمد جہاں شاہ سے کر دو انہوں نے حکم کی تعمیل کی اور اپنی لڑکی کی شادی آپ سے کردی، شادی کے بعد آپ قریب پانچ مہینے پٹن میں رہے۔

    حرمین شریف کی زیارت : پٹن سے آپ حرمین شریف کی زیارت کو روانہ ہوئے اور بارہ سال تک پٹں سے دور رہ کر ہر سال حج کرتے رہے اور مدینہ منورہ جاتے رہے اور رسالتِ پناہ کے دربار میں حاضر ہوتے رہے۔

    بشارت : آپ کو بارہ سال گزرنے پر حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی کہ

    ”اے احمد! اب وقت آ گیا ہے، تم پٹن واپس جاؤ، تمہاری جگہ پٹن ہے، وہاں جاکر رہو، لوگوں کی رہنمائی اور دستگیری کرو، وہاں بہت لوگ تمہارے پاس آئیں گے اور تم سے فیض پائیں گے اور پٹن تمہاری آخری آرام گاہ ہوگی، وہاں تم شہادت پاؤ گے“

    عطیہ : اس فرمان کے بعد آپ کو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جامہ عطا فرمایا اور حکم ہوا کہ اس کو حفاظت سے رکھیں۔

    پٹن میں قیام : آپ پٹن میں تشریف لائے اور پٹن میں سکونت اختیار فرمائی اور رشد و ہدایت اور تعلیم و تلقین سے لوگوں کو مستفید فرمانا اختیار کیا۔

    اولاد : آپ کے بارہ لڑکے اور سات لڑکیاں تھیں۔

    شہادت : آپ کا اقتدار کچھ لوگوں کو ناگوار تھا اور آپ کی رشد و ہدایت کو کچھ لوگ پسند نہیں کرتے تھے، ایک دن آپ اشراق کی نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ سجدہ میں گئے تو جامِ شہادت نوش فرمایا، اس وقت آپ کی عمر ایک سو دس سال تھی، غرض 9 ذی الحجہ 899 ہجری کو آپ نے راہِ حق میں اپنی جان دی اور شہید ہوئے، آپ کی تاریخِ شہادت بہ لفظ ”وارثِ امام علی“ سے برآمد ہوتی ہے۔

    سجادہ نشیں : آپ نے اپنے بڑے صاحبزادے حضرت سید نصیرالدین محمود کو اپنا جانشیں و سجادہ نشیں مقرر فرمایا۔

    علمائے مرتبت : حضرت شیخ احمد کٹھو، حضرت قطب عالم اور حضرت شاہ عالم آپ تعظیم و تکریم کرتے تھے، حضرت شیخ احمد سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ

    ”میں نے سرور عالم حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ حضور فرماتے ہیں کہ ”اے شیخ احمد! میں احمد ہوں اور یہ میرا فرزند احمد ہے“

    انہوں نے بتایا کہ اس خواب کے بعد ان کی تعظیم و تکریم مجھ پر فرض ہے، جتنی بھی کروں کم ہے۔

    سیرتِ مبارک : آپ صاحبِ دل اور صاحبِ نسبت بزرگ تھے، عبادت اور ریاضت کے لیے مشہور تھے، اتباعِ سنت کے سخت پابند تھے، آپ ایک کامیاب مبلغ تھے، ایک اچھے مقرر تھے، محدث و مفسر ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں، دنیا کے کاموں میں مصروف رہ کر یادِ الٰہی سے کبھی غافل نہ ہوئے، رشد و ہدایت، تعلیم تلقین اور تبلیغ میں زندگی گزار دی، آپ نے کئی کتابیں بھی لکھیں جو آپ کے علمی ذوق کا آئینہ دار ہیں، ”روضۃ الابرار“ آپ کی تصنیف بتائی جاتی ہے لیکن کتاب کہیں نہیں ملتی، آپ کی مشہور کتاب ”دستور الخلافت فی آدابِ مشیغت“ فارسی زبان میں قلمی ہے۔

    تعلیمات : آپ نے کلمۂ لا الہٰ الا اللہ محمدرسول اللہ کی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ

    ”کلمۂ لا الہٰ الا اللہ محمدرسول اللہ عجیب خاصیت رکھتا ہے جس نے بھی یہ کلمہ صدق دل سے پڑھا اس کے ایمان میں ترو تازگی پیدا ہوئی اور آخرت کے لیے اس نے اچھا سامان جمع کرلیا، جس نے کلمہ پڑھا اور اس کو اپنے دل سے پڑھا اور دل نشیں کرلیا، خداوند تعالیٰ اس کو حالتِ نزع میں ایمان پر قائم رکھے گا، شیطان کتنا ہی بہکائے اور ورغلائے لیکن اس کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا، ایسے شخص کو جس نے کلمہ خلوص و صدق سے پڑھا فرشتے یہ خوش خبری دیتے ہیں کہ قیامت کا خوف دل سے نکال دے، اس دن کی صعوبتوں اور مشکلوں کا ذرا بھی خوف نہ کر، اے شخص! تیرا مقام جنت ہے، جس کا وعدہ خداوند تعالیٰ نے فرمایا ہے“

    کشف و کرامات : آپ صاحبِ کشف و کرامات تھے، ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ خانقاہ میں رونق افروز تھے، مرید، معتقد، درویش اور مشائخین بھی بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے یکایک اپنے ایک خادم کو حکم دیا کہ مہندی کو پانی میں جوش دو، چنانچہ حکم کے مطابق مہندی کے پتے پانی میں جوش دیے گئے، اتنے میں ایک شخص خانقاہ میں آیا، وہ برص کی بیماری میں مبتلا تھا، آپ سے دعا کا طالب ہوا اور عرض کیا کہ حضور سرکارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیدار نصیب ہوا اور آنحضرت نے آپ کے پاس جانے اور مقصد حاصل کرنے کے لیے آپ کی دعا اور اعانت طلب کرنے کا حکم دیا۔

    یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ اس شخص کو جوش کیے مہندی کے پتوں کے پانی سے غسل دو اور اس کے کپڑے بدلو، آپ نے اپنا ہاتھ اس شخص کے ہاتھ پر رکھا اور ”لا الٰہ“ فرمایا، پھر ”الا اللہ“ فرمایا، ”لا الٰہ“ کے فرمانے سے اس کے دل سے دنیا کی محبت جاتی رہی اور ”الا اللہ“ کے فرمانے سے اس کے دل میں توحید محکم اور مستحکم ہوگئی، وہ شخص شفایاب ہوا اور خدا رسیدہ ہوگیا اور اس نے بہت سوں کو خدا رسیدہ بنا دیا۔

    آپ کے ایک مخلص مرید عبدالرزاق نے ایک دن ایک حدیث پڑھی جس کا مطلب یہ ہے کہ

    ”جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا میری زندگی میں اس نے میری زیارت کی“

    یہ حدیث پڑھ کر عبدالرزاق کو دربارِ رسالتِ پناہ میں حاضر ہونے کا شوق ہوا، اس کا ذکر اپنے پیر و مرشد یعنی آپ سے کیا، آپ نے امید دلائی لیکن عبدالرزاق مطمئن نہ ہوئے، دو بارہ عرض کرنے پر فرمایا، ”اللہ کو قدرت حاصل ہے، قدرتِ خدا سے تم اپنی مراد حاصل کرو گے“ اس پر عبدالرزاق نے عرض کیا کہ حضور یہ اور بتائیں کہ بیداری یا خواب میں زیارتِ روضہ اقدس کو نصیب ہوگی، آپ نے جواب دیا کہ بیداری میں اور عنقریب ایسا ہوگا۔

    آپ 17 رجب کو تنِ تنہا باہر تشریف لائے، وضو کرنے کے بعد دو رکعات تحقہ الوضو پڑھیں پھر عبدالزاق کا ہاتھ پکڑ کر شہر سے باہر کی طرف چلے، راستہ میں فرمایا کہ میں تمہارا رفیق ہوں پھر آپ نے بسم اللہ پڑھی، ابھی گیارہ قدم چلے تھے کہ مدینہ منورہ پہنچے حرم کے دروازے پر پہنچے تو دیکھا کہ دروازہ بند ہے، آپ نے دروازہ اپنی انگلیوں سے ہلایا، دروازہ یکایک کھل گیا، دونوں اندر داخل ہوئے، روضۂ اقدس کی زیارت سے مشرف ہوئے، آپ نے روضۂ اقدس پر پہنچ کر مؤدبانہ عرض کیا کہ

    ”السلام علیکم یا جدی“ روضہ اقدس سے جواب آیا کہ ”وعلیکم السلام یا ولدی“

    اس کے بعد آپ نے مراقبہ کیا، مراقبہ اور دعا سے فارغ ہوئے تو عبدالزاق کا سیدھا ہاتھ پکڑا اور جنگل کی طرف روانہ ہوئے، ابھی گیارہ قدم چلے تھے کہ پٹن کی اسی مسجد میں اپنے کو پایا، جہاں سے روانہ ہوئے تھے، جب صبح کو عبدالرزاق آپ کی خدمت میں حسبِ معمول حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے فرمایا ”کیوں عبدالرزاق تمہاری مراد پوری ہوگئی“

    عبدالرزاق نے دست بستہ عرض کیا کہ ”حضور کی محبت، شفقت اور توجہ خاص سے میں نے گوہرِ مقصد پالیا“

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے