Sufinama

حضرت شاہ سیف اللہ رفاعی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت شاہ سیف اللہ رفاعی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-59

    حضرت شاہ سیف اللہ رفاعی کلماتِ حقائق, خوارق عادات میں مخصوص تھے۔

    خاندانی حالات : آپ حضرت شیخ احمد بن ابوالحسن رفاعی کے خاندان سے تھے اور حضرت شیخ احمد رفاعی امام موسیٰ کاظم کی اولاد سے تھے، وہ عرب کے ایک قبیلہ رفاعیہ سے منسوب کیے جاتے ہیں اور اس نسبت کی وجہ سے رفاعی مشہور ہوئے، وہ ابوالحسن کے صاحبزادے اور حضرت شیخ علی فادمی کے مرید و خلیفہ تھے، ان کا شجرہ پانچ واسطوں سے حضرت ابو بکر شبلی تک اس طرح پہنچتا ہے۔

    حضرت شیخ احمد، شیخ علی فادمی، شیخ ابوالفضل، شیخ ابو علی غلام ابن نرکان، شیخ علی رودباری، شیخ مجل عجمی، شیخ ابو بکر شبلی۔

    امام شعرانی نے ان کے متعلق فرمایا کہ

    ”شیخ احمد کو اللہ تعالیٰ نے حیوانوں اور چار پایوں کی خدمت پر مامور فرمایا تھا“

    ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک کتا امام عبیدہ میں تھا، اس کو خارش تھی، لوگوں نے اس کو جنگل کی طرف بھگا دیا، شیخ احمد اس کتے کے ساتھ جنگل گئے اور اس کے بدن پر دوا ملتے، مالش کرتے، کھلاتے اور نہلاتے، ان کی اس توجہ سے وہ کتا کچھ ہی دنوں میں اچھا ہوگیا، شیخ سلائی اس واقعہ کی طرف اس طرح اشارہ فرماتے ہیں۔

    ازاں برملائک شرف داشتند

    کہ خود را بہ از سگ نہ پنداشتند

    عبادت بجز خدمتِ خلق نیست

    بہ تسبیح و سجادہ و دلق نیست

    ان کا وصال 12 جمادی الاول 578 ہجری کو ہوا، بعض کا خیال ہے کہ آپ کی تاریخِ وصال 570 ہجری ہے، ان کا مزارِ مبارک امِ عبیدہ میں ہے۔

    ہندوستان کو روانگی : بشارت پاکر آپ بصرہ سے جہاں آپ مقیم تھے ہندوستان کے لیے روانہ ہوئے، بصرہ سے سندھ پہنچے، سندھ سے احمدآباد آئے، احمدآباد سے سورت اونٹ پر گئے۔

    راندھیر میں قیام : سورت سے آپ راندھیر تشریف لے گئے، راندھیر کو پہلے منی پور کہتے تھے، راندھیر پہنچ کر آپ نے ایک مسجد میں قیام فرمایا، اس مسجد پر جس کو آج کل میاں کی مسجد کہتے ہیں، جنات کا تسلط تھا، جن وہاں رات کو کسی کو نہ ٹھہرنے دیتے تھے، اگر رات کو مسجد میں رہ جاتا تو جن اس کو مار ڈالتے تھے، چنانچہ راندھیر کے لوگوں نے آپ کو منع کیا کہ وہاں نہ ٹھہریں لیکن آپ نے کوئی پروا نہ کی اور رات کو مسجد میں رہے، صبح کو جب مسجد کا دروازہ کھولا گیا تو سب کو یہ دیکھ کر بڑی حیرت اور مسرت ہوئی کہ آپ زندہ ہیں اور نماز پڑھ رہے تھے، اس بات سے تمام راندھیر میں آپ کی شہرت ہوگئی اور لوگ جوق در جوق آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور فیض پانے لگے۔

    راز و نیاز کی باتیں : آپ کے راندھیر میں آنے سے قبل وہاں حضرت شاہ عبدالرحمٰن شیر میاں پہنچ چکے تھے، ان کو جب آپ کے آنے کی خبر ہوئی تو انہوں نے ایک دودھ سے بھرا ہوا پیالہ آپ کے پاس بھیجا، آپ نے اس پر ایک پتّی رکھ کر وہ پیالہ واپس کردیا، مطلب یہ ہوا کہ شاہ عبدالرحمٰن شیر میاں نے آپ کو یہ بات بتائی کہ راندھیر میں کسی اور درویش کی گنجائش نہیں، انہوں نے آپ کو یہ بات بتائی کہ وہ راندھیر میں اس طرح رہیں گے جیسے کہ پتّی دودھ پر رکھی ہوئی ہے۔

    رہائش کے لئے جگہ : راندھیر میں آپ نے ایک زمین خانقاہ کے لیے خریدنا چاہی، اس زمین کے مالک سے جب قیمت پوچھی تو اس نے کہا کہ جس چادر پر آپ بیٹھے ہو اس کو بھر دو، اتنی قیمت ہوگی، آپ نے یہ سن کر حکم دیا کہ مٹی جمع کی جائے، جب مٹی کا ڈھیر ہوگیا تو آپ نے اس پر چادر بچھا دی، آپ نے اس شخص سے کہا کہ چادر ہٹاؤ اور جو ہے وہ سب لے جاؤ!

    اس شخص نے ایسا ہی کیا۔

    مسجد کی تعمیر : آپ نے راندھیر میں ایک مسجد بھی تعمیر کی۔

    مزار : آپ کا مزار راندھیر میں ہے، ہر سال عرس ہوتا ہے۔

    سیرت : آپ خدمتِ خلق میں مصروف رہتے تھے، جانوروں اور انسانوں کی خدمت آپ کے سپرد تھی، سخاوت کے لیے مشہور تھے، لنگر بڑے پیمانے پر کرتے تھے، رشد و ہدایت میں مشغول رہتے تھے، تعلیم، تلقین اور تبلیغ کے فرائض آپ نے بحسن و خوبی ادا کیے، آپ لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے اور ان کی تکلیف کو اپنی تکیف سمجھتے تھے، عبادت ریاضت سے غافل نہیں رہتے تھے۔

    کشف و کرامات : آپ کا ایک مرید تھا اس کی اولاد نہ ہوتی تھی، ایک دن اس نے عرض کیا کہ اتنے میں ایک دوسرا مرید پھلوں سے بھرا ہوا خوان لایا، اس خوان میں سے آپ نے دو پھل اٹھا کر اس مرید کو دیے جس نے اولاد کے متعلق عرض کیا تھا اور فرمایا کہ ایک پھل تم کھا لینا اور دوسرا اپنی بیوی کو دے دینا اور دعا کروں گا، اسی سال اس کے یہاں لڑکا پیدا ہوا۔

    ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ حجامت بنوا رہے تھے کہ یکایک آئینہ مانگا، آئینہ میں منہ دیکھا اور فوراً کھڑے ہوگئے اور ایک حجرہ میں چلے گئے، جب تھوڑی دیر کے بعد آپ باہر تشریف لائے تو نائی نے دیکھا کہ آپ کے دونوں ہاتھ پانی سے بھیگے ہوئے ہیں اور آپ کے کاندھے پر کیچڑ کے نشان موجود ہیں، لوگوں میں چہ می گوئیاں شروع ہوگئیں، پندرہ بیس دن کے بعد آپ کی خانقاہ میں کچھ لوگ حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ کو نذر پیش کی، آپ نے قبول فرمائی، ان لوگوں سے آپ نے دریافت کیا کہ سفر کیسا رہا اور پھر آپ نے فرمایا کہ جو منت تم لوگوں نے مانی تھی اس میں کمی کیوں؟ اس پر ان میں سے ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور نے ہم سب کو بچایا اور ہمارے جہاز کو ڈوبنے سے بچایا، انہوں نے بتایا کہ ان کے یاد کرنے پر آپ کس طرح پانی پر چل کر تشریف لائے اور کس طرح ہاتھ پانی میں ڈالے اور کس طرح سے کاندھے کا سہارا دے کر جہاز کو نکالا، یہ بھی بتایا کہ انہوں نے نذر و نیاز مانی تھی اور کس طرح سے انہوں نے اس میں کمی کرنا چاہی جس کی وہ معافی چاہتے ہیں اور تلافی کرنا چاہتے ہیں۔

    تعلیمات : آپ نے لوگوں کو اللہ سے ڈر اور سرورِ علم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کی تاکید فرمائی، آپ نے قرآنِ مجید کی رفعت و عظمت سے لوگوں کو باخبر کیا اور بتایا کہ قرآنِ مجید ایک رہنما ہے جو ہمیشہ سیدھا راستہ دکھاتا ہے، آپ خاندان پر ناز اور خاندانی دولت و ثروت پر فخر کرنا پسند نہیں ماتے تھے، ایسا شخص آپ کے خیال کے مطابق کبھی بھی معرفت کی بو تک نہیں سونگھ سکتا ہے، غرور اور تکبر آپ کے نزدیک دو بت ہیں، ذرا سا غرور یا تکبر برسوں کی بے ریا عبادت کو ضائع کر دیتا ہے، آپ نے سچ بولنے کی تلقین کی، جو شخص خدا تک پہنچنا چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ سچ بولے، کینہ و بغض کو دل سے نکال دے، لوگوں سے غرض نہ رکھے اور طمع اور لالچ کے جال میں نہ پھنسے، آپ اصل عبادت مخلوق کی بے لوث خدمت کو سمجھتے تھے، پیر و مرشد کی خدمت کو آپ بیش بہا نعمت سمجھتے تھے اور آپ یہ سمجھتے تھے کہ جب تک پیر و مرشد ہی خدمت لینا نہ چاہے مرید ہرگز خدمت نہیں کرسکتا، آپ نے بتایا کہ سخاوت بڑی چیز ہوتی ہے، درویش کے لیے سخاوت کے اور معنیٰ ہیں اور دنیا کے لیے اور درویش میں سخاوت ایسی ہونی چاہیے کہ بھوکے کو کھانا، ننگے کو کپڑا اور پیاسے کو پانی ہی پر اکتفا نہ کرے بلکہ کسی آنے والے کو محروم نہ رکھے، آپ نے اس بات پر زور دیا کہ محبت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ محبت صرف انسان سے ہی کی جائے، محبت جانوروں سے بھی ہوسکتی ہے، پرندوں سے بھی ہوسکتی ہے، پیڑوں اور پودوں سے بھی ہو سکتی ہے، غرض محبت ہر جاندار سے ہوسکتی ہے، اس کے علاوہ ان چیزوں سے بھی محبت ہو سکتی ہے جن میں جان نہیں ہے، محبت اچھی چیز ہے، کسی سے بھی ہو، کہیں بھی ہو، کیسے بھی ہو۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے