Sufinama

خانقاہ

فیض علی شاہ

خانقاہ

فیض علی شاہ

MORE BYفیض علی شاہ

    خانقاہ کے لفظی معنیٰ ہیں تکیہ، عربی زبان میں زاویہ، یہ فارسی لفظ خان گاہ سے بنا ہے جس کے معنیٰ ہوتے ہیں روحانی تربیت گاہ دل اور روح کے علاج کی جگہ، خانقاہ کے معنیٰ حضرت نصیرالدین چراغِ دلی کے ملفوظ خیرالمجالس میں حضرت کا ارشاد ہے۔

    خانقاہ دو لفظوں کا مرکب ہے خان- قاہ-خان کے معنیٰ مکان اور قاہ بمعنیٰ عبادت اور دعا یعنی عبادت کا گھر لہٰذا وہاں عبادت کی جانی جاہیے یا کہ وہاں دعا میں قبولیت بھی تیزی کے ساتھ ہو (خیرالمجالس، صفحہ 237)

    وہاں درویشوں کے رہنے کی جگہ کے ہیں جہاں وہ دنیا سے کنارہ کش ہوکر عبادت کرتے ہیں، نیز جہاں ایک کامل شیخ جو ’’ولی گر‘‘ ہو ’’ولی ساز‘‘ ہو، سالکوں کے ظاہر و باطن پر باریک نظر رکھتا ہو، ان کی اصلاح کے لئے موجود ہو ورنہ درگاہ مزار سے بھی روحانی فیض کسی حد تک لیا جا سکتا ہے لیکن روحانی سرپرستی کے لئے خانقاہ کے کامل پیر و مرشد کے بنا چارہ نہیں الغرض خانقاہ میں مسجد اور درگاہ بھی ہوسکتی ہے لیکن ہر درگاہ میں خانقاہ ہو یہ ضروری نہیں۔

    تصوف اسلام کے باطن کا ہی نام ہے : اہلِ تصوف لفظِ تصوف کو اسلام  کے ساتھ جڑا ہوا اس لیے سمجھتے ہیں کہ تصوف کا وجود مزکورہ آیت کے نزول سے پہلے بھی تھا، ہمارے تصوف کی تاریخ اسلام کے مکمل ہونے کے بعد نہیں، اسلام کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے بلکہ اس کی موجودگی اس اسلام کے زمانے میں بھی نظر آتی ہے جو پیغمبر آخرالزماں سے پہلے دوسرے انبیا علیہم السلام کے ذریعے انسانوں کے لیے اپنے اپنے وقت پر آتے رہے اور اسے کسی نے  بھی اور کبھی بھی قابلِ ضبطی اور منسوخی نہیں سمجھا۔۔۔ ’’کسی‘‘ سے میری مراد انبیا علیہم السلام اور شریعت لانے والوں سے ہے۔

    تصوف کے بارے میں یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ ابتدا میں یہ ایک حقیقت تھی بے لفظ ! لیکن میری گزارش یہ ہے کہ تصوف کی حقیقت پہلے دن سے ہی لفظی پیراہن کے ساتھ موجود تھی، لفظ صوفی کی تحقیق میں بہت سی تھیوریاں سامنے آچکی ہیں، پروفیسر خلیق احمد نظامی نے اپنی مشہور کتاب ’’تاریخ مشائخ چشت‘‘ میں اس پر سیر حاصل بحث فرمائی ہے اور تقریباً سبھی تھیوریاں نقل فرما دی ہیں اور لکھا ہے کہ جمہور صوفیہ کا خیال یہ ہے کہ لفظ صوفی صوف سے مشتق ہے، انہوں نے صوفیہ کے ظاہری لباس یعنی صوف زے بنے ہوئے سونی کپڑوں کا ذکر بھی کیا ہے لیکن جو بات سب سے اہم انہوں نے دریافت فرمائی ہے اور لکھی ہے عام لوگ طویل بحث کے دوران اس سے غافل ہو جاتے ہیں، خلیق صاحب جیسے معتبر ماہرِ تاریخ کا کتاب اخبار مکہ کی اس روایت کو تسلیم کرنا معمولی بات نہیں ہے کہ لفظ صوفی اسلام سے بیشتر بھی رائج تھا۔

    (تصوف رسم اور حقیقت از خواجہ حسن نظامی، صفحہ 23)

    خانقاہ کی ابتدا : ابتدا میں  حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاص اصحابِ صفہ جن میں حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابو زر غفاری، حضرت سلمان فارسی وغیرہ  شامل ہیں نے خانقاہی طرز کی زندگی گزاری جن کی پشت پناہی تعلیم و طربیت خود حضور علیہ السلام  اور حضرت مولیٰ علی مرتضٰی نے کی، حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ

    ’’میں نے ستر 70 اصحابِ بدر کو دیکھا ہے جو صفہ میں شامل تھے (حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور امام المتقین مرشدِ سالکین سیدنا علی کی زندگی بھی اسی طرز کی تھی) یہ حضراتِ صفہ شریعت و طریقت و حقیقت کے عرفان کو پہنچے ہوئے تھے اہلِ تقوٰی اور صاحبانِ احسان تھے‘‘

    تصوف حدیث کی اصطلاح میں لفظ احسان کے ساتھ آیا ہے جیسے کہ 'حدیثِ جبریل' میں حضرت جبریل کیا ہے کہ بعد سوال کرتے ہیں احسان کیا ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جواب دیتے ہیں اس طرح عبادت کرو جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اگر یہ کیفیت حاصل نہ کرسکو تو یہ تصور کرو کے اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔

    (صحیح بخاری، جلد حیث نمبر 50)

    اس حالت کو حاصل کرنے کے لئے جو طریقہ اور سلوک درکار ہے وہ تصوف ہے جس کی تعلیم خانقاہ میں دی جاتی ہے۔

    قرآن میں ذکرِ خانقاہ : قرآن کی رو سے یہی لوگ ولی اللہ کہلائے جن کے دن اور راتیں گریہ و زاری میں بسر ہوتی تھیں لوگوں سے ان کا رویہ مخلصانا ہوتا اللہ سے ڈرنے والے اور ڈرانے والے تھے آج  تک خانقاہیں اسی طرز پر عمل کر رہی ہیں۔

    قرآن سورۂ نور میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے۔

    فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗلا یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِلا رِجَالٌ لا لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِصلا  یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُ۔ (سورۃ النور36,37)

    ترجمہ : یہ وہ گھر ہیں جن کے بلند کیے جانے اور جن میں اللہ کے نام کا ذکر کیے جانے کا اللہ نے حکم دیا ہے، وہاں وہ لوگ صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں اور اسی کا نام لیتے ہیں جنہیں خدا کے ذکر، نماز ادا کرنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ تجارت غافل کرتی اور نہ خرید و فروخت یہ لوگ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن آنکہیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔

    سورۃ النور کی آیت نمبر 36 میں فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ سے مراد وہ خاص گھر ہیں جن کو اللہ نے ارفع (بلند) کرنے کا حکم دیا ہے، یہاں بُیُوْتٍ سے مراد موجودہ زمانہ کی مساجد لیا جائے تو روا نہیں کیونکہ ’’بیت‘‘ کے معنی گھر کے ہیں، اللہ تعالیٰ ’’مساجد‘‘ کا لفظ استعمال کرکے واضح کر سکتا تھا کہ یہ آیت صرف مساجد کے لیے ہے، مساجد ہمیشہ گھروں سے جدا ہوتی ہیں، یہاں گھر سے مراد وہ جگہ ہے جہاں ایک جیسی فکر اور نظریہ کے لوگ دن رات رہتے ہوں اور یہیں کھاتے پیتے اور دیگر ضروریاتِ زندگی سے استفادہ کرتے ہوں جبکہ مساجد صرف عبادت کے لیے استعمال ہوتی ہیں، یہاں گھروں سے مراد خانقاہیں ہیں جہاں دن رات طالبانِ مولیٰ رہتے ہیں اور خانقاہ طالبانِ مولیٰ کا گھر ہی ہوتی ہے، مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں لفظ تُرْفَعَ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے ’’بلند کرنا‘‘ جیسا کہ ارشاد ہوا ہے ’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ‘‘ کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر بلند کر دیا یعنی ہر زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر بلند ہے اور بلند تر ہوتا رہے گا، لہٰذا اس آیت میں تُرْفَعَ سے مراد عمارت کا بلند کرنا نہیں بلکہ خانقاہ بنانے کی مبارک سنت کو ہر زمانہ میں رائج کرنا ہے جس کا ذکر اوپر ابتدائی سطور میں ہوچکا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر حکم دے دیا ہے، پس یوں کہیں گے کہ ’’ان گھروں (خانقاہوں) میں جنہیں اللہ نے (ہر دور میں سنت کو زندہ رکھنے کے لیے) بلند کرنے کا حکم دیا ہے‘‘

    (خانقاہ اور آدابِ خانقاہی از حافظ حمادالرحمٰن سروری قادری، ماہنامہ سلطان الفقرا، جنوری 2018، لاہور)

    خانقاہوں کی اہمیت : اسلام کی تبلیغ میں سب سے بڑا حصہ خانقاہی درویشوں کا ہی ہے جنہوں نے انسان دوستی اخلاق مساوات ہر انسان میں خدا کے وجود کی تلاش کی ذریہ تمام عالمِ انسانیت کو اسلام کا تصوف اور اس کی حقانیت سے ملوا کر ہر دل عزیزی حاصل کرتے آئے ہیں۔

    خانقاہیوں کی صفت : اہلِ صُفَّہ نے دنیا کے جھمیلوں سے قطع تعلق کر لیا تھا، نہ وہ کھیتی باڑی کرتے تھے اور نہ وہ جانور پالتے تھے، پس ان کے دلوں سے کینہ مٹ گیا اور حسد رخصت ہو گیا، یہی حال اہلِ خانقاہ کا ہے کہ وہ ظاہر اور باطن میں یک رنگ ہیں، باہمی الفت اور محبت میں ان میں یکسانیت ہے اور اس پر سب جمع ہیں، ایک ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں، ان کی باہمی گفتگو میں یک رنگی ہے اختلاف نہیں ہے یعنی اکٹھے گفتگو کرتے، اکٹھے کھاتے پیتے ہیں اور اس اجتماعی زندگی کی برکت سے بخوبی واقف ہیں۔

    (عوارف المعارف، باب 14)

    خانقاہیوں کا کردار : وہ تمام عادات و اطوار جو صفہ کے چبوترہ پر رہنے کی بدولت اصحابِ صُفَّہ میں تھیں وہی عادات و اطوار آئندہ بھی خانقاہ نشینوں میں واضح نظر آتی ہیں، وہی آداب ہیں خانقاہ کے اور وہی اصول و ضوابط ہیں خانقاہ نشینوں کے جو آج سے چودہ سو سال پہلے پہلی خانقاہ ’’صُفَّہ‘‘ کے تھے۔

    خانقاہی خدمت کی عظمت : ابو عمرو الزجاجی کہتے تھے کہ میں مدت تک حضرت شیخ جنید کے پاس رہا، مجھے انہوں نے کبھی عبادت سے خالی نہ دیکھا اور کبھی کوئی بات نہ کی، ایک روز کا ذکر ہے کہ جماعت خانقاہ شریف میں نہ تھی، چنانچہ میں نے اپنے کپڑے اتارے اور خانقاہ کی صفائی کی، طہارت کی جگہ کو دھویا اتنے میں شیخ ادھر سے گزرے اور میرے اوپر گرد و غبار دیکھ کر دعا دی اور کہا مرحبا جزاک اللہ اور تین مرتبہ احسنت علیک کہا، فرمایا کہ مشائخ صوفیہ ہمیشہ جوانان نوخیز کو خدمت کی طرف بلاتے ہیں تا کہ وہ بیکاری سے محفوظ رہیں، ہر شخص کو جو اجر ملتا ہے اس میں سے ایک حصہ معاملات کا عوض ہوتا ہے اور ایک حصہ خدمت کا، اصل میں فقیر کے لیے شغل کامل یہی ہے کہ وہ وقت کا حق ادا کرے اور پورا فائدہ اٹھاۓ، اس سے نعمت فراغ اور نعمت کفایت کا شکر ادا ہوتا ہے اور بیکاری نعمت فراغ اور کفایت کی ناشکری ہے، جب کوئی شخص ایسے اہل اللہ کی خدمت کرتا ہے جن کا تمام وقت اللہ کے کام میں صرف ہو رہا ہے تو اس خدمت گزار کو بھی اہل اللہ کے ثواب میں سے حصہ ملتا ہے۔

    حفظ اوقات ضبط انفاس اور نگہداشت حواس : خانقاہ کے ہر گروہ کا فرض ہے کہ وہ حفظِ اوقات، ضبطِ انفاس اور نگہداشت حواس کا اہتمام رکھنے والا ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تھے، لكل امـر هـي مـنـهـم يومئذ شان يغنيه یعنی آج کے دن ان میں سے ہر شخص کے لیے ایک خاص شان سے جو بس اسی کی ہے (گویا تین بنیادی خصوصیات حفظ اوقات ضبط انفاس اور نگہداشت حواس کی پابندی کے ساتھ ہر خانقاہ نشیں کو ایک انفرادی شان رکھنی چاہیے لکیر کا فقیر نہیں بنا چاہیے۔

    اجتماعی زندگی اور خانقاہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ مومن آپس میں ایک آدمی کے جسم کی طرح ہیں کہ اگر ایک عضو میں درد ہوتا ہے تو سارا بدن تکلیف محسوس کرتا ہے، پس ایک مومن کی تکلیف سب مسلمانوں کے لیے صدمے کا باعث ہوتی ہے، لہذا صوفیہ کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ملت کی جمعیت باطن کی حفاظت کریں اور تفرقے اور پراگندگی کو دور کریں، یہ لوگ ارواح کی نسبت سے مجتمع ہیں اور تالیفِ الہی کے رابطے سے باہم متفق ہیں اور قلوب کے مشاہدے سے موافق ہیں اور نفوس کی آراستگی اور قلوب کی صفائی کے لیے خانقاہ میں ایک دوسرے سے ملے اور بندھے ہوۓ ہیں، الفت اور خیر خواہی ان کے لیے ضروری ہے، حضرت ابو ہریرہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ مومن ملتا اور الفت کرتا ہے اور دوسرا بھی اس سے الفت کرتا ہے جو دوسرے سے نہ ملے اور دوسرا اس سے نہ ملے اور الفت نہ کرے تو اس میں خیر نہیں ہے، ایک دوسری جگہ حضرت ابو ہریرہ نے آنحضرت سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب روحیں جنود مجند یعنی متحدالشکر ہیں، اس میں سے جو ایک دوسرے کو جانتا پہچانتا ہے وہ الفت کرتا ہے اور جو انجان اجنبی ہے وہ الگ رہتا ہے، پس چونکہ صوفیہ اپنے باطن کو مجمع کر چکتے ہیں اور ان کے نفس ان کے پابند ہوتے ہیں اس لیے وہ اس حدیث کے مطابق کہ مومن مومن کا آئینہ ہوتا ہے، ایک دوسرے کے نگہدار رہتے ہیں اور جب کوئی تفرقے کا نشان ظاہر ہوتا ہے تو وہ اس سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ تفرقہ ظہور نفس سے ظاہر ہوتا ہے اور نفس کا ظہور وقت کا حق ضائع کرنے سے ہوتا ہے پھر جس وقت فقیر کا نفس ظہور کرتا ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ جمعیت کے دائرے سے باہر ہوگیا اور وہ اس پر حکم لگا دیتے ہیں کہ اس نے وقت کو ضائع کیا اور حسن رعایت کو چھوڑ دیا۔

    (تصوف رسم اور حقیقت از خواجہ حسن  نظامی، صفحہ161،162،163)

    اہلِ صفہ و اہل خانقاہ کو حضور کی بشارت : حضرت ابن عباس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اصحاب صفہ کے پاس کھڑے ہوکر ان کی مفسلی، مجاہدہ اور اس حالت میں دلوں کی خوشی دیکھی تو فرمایا اے اصحاب صفہ ! تمہیں بشارت ہو، پس جو شخص میری امت میں سے اس صفت پر باقی رہے گا جس طرح تم راضی ہو تو وہ جنت میں میرے رفیقوں میں سے ہوگا۔

    (کشف المحجوب، باب 9)

    خانقاہوں میں صوفیا نے یہی روش اپنائی اور دنیاوی خرابیوں سے دور ہوگئے، کچھ لوگ خانقاہی نظام سے امیدیں مسجدوں، مدرسوں، ریسرچ انسیٹیوٹ جیسی رکھتے ہیں اور الزام خانقاہوں اور خانقاہی نظام پر لگاتے ہیں یہ ایک خامہ خیالی اور کم علمی ہے، ہاں! یہ ضرور صحیح ہے کی کسی کو یہ نظام نہ پسند ہو تو وہ نہ عمل کرے نہ پیروی کرے لیکن ہر صوفی یا درویش کے لیے ضروری نہیں کے وہ مفتی، قاضی، معلم بھی ہو، سیاست داں یا انقلابی قائد بھی ہو، ان کا کام دعا کرنا ہے تربیت اور علاجِ روحانی کرنا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے