Sufinama

حضرت امیرالسالکین پیر امیر شاہ

حافظ محمد طاہر سومرو

حضرت امیرالسالکین پیر امیر شاہ

حافظ محمد طاہر سومرو

MORE BYحافظ محمد طاہر سومرو

    بر صغیر پاک و ہند میں جہاں بھی اسلام کے روشن نشانات موجود ہیں وہ اؤلیائے کرام کی مرہون منت ہیں، حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کو اس خطہ میں اولیت حاصل ہے کہ جنہوں نے نظام خانقاہی کو روایت کے شکنجوں سے نکال کر مرکزِ دعوت اصلاح بنایا، آپ کے قائم کردہ مدرسہ کے فارغ التحصیل علما نے نہ صرف پاک و ہند بلکہ ملائشیا، جاودانا نرا کے جزائر تک تصوف کی روشن تعلیما ت پہنچائیں، آپ کے خلفائے عظام کے ساتھ ساتھ آپ کی نسبی اولاد بھی مختلف مقامات میں پھیل گئی اور تبلیغِ دین کا فریضہ سنبھالا، آپ کی اولاد کے بعض افراد نے لاہور کو مرکز بنایا کچھ عرصہ کے بعد میں سے حضرت دیوان فتح شاہ نے لاہور سے پھیرو کی جانب سفر فرمایا اور اس چھوٹے سے قصبے کو مرکز رشد و ہدایت بنایا درویش خدا مست لوگوں کا یہ خاصہ ہے کہ نسبتاً خاموش اور ویران مقامات کو پسند کرتے ہیں اور وہیں ڈیرہ جما کر یادِ الٰہی میں مصروف ہوتے ہیں اور وہ مقام حاصل کر لیتے ہیں کہ پھر ویران دلوں کو بساتے ہیں اور غافل دلوں میں ایسا انقلاب پیدا کرتے ہیں کہ وہ ہمہ وقت اللہ کریم کے ذکر میں مصروف رہتے ہیں، حضرت دیوان فتح شاہ نے پھیرو شریف کو اپنا مستقل مسکن بنایا اور اسلام کی روح پر گامزن کیا، آپ کی اولاد میں سے ایک اہم فرد حضرت امیرالسالکین پیر امیر شاہ ہیں، جن کی خدمات آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں آپ نے سلسلۂ عالیہ نظامیہ کی بھیرو میں بنیاد رکھی جس کو آپ کی اولاد نے عروج پر پہنچا دیا ہے۔

    حضرت پیر امیر شاہ کی ولادت 1837ء میں بھیرو میں ہوئی، آپ کا خاندان علم اور دین داری میں معروف تھا، آپ نے اسلاف کی روایت کو اپنایا اور اس کو مزید نکھار بخشنے کے لیے اپنی زندگی مجاہدانہ انداز میں بسر کی، آپ ایک خدا ترس، نیک دل اور کامل متبع سنت شخص تھے، بچپن سے ہی قلبِ سلیم میں اپنے معبود و محبوب حقیقی کو پانے کی تڑپ تھی جس کے باعث شب و روز عبادت و ریاضت میں بسر کرتے اور سن بلوغت سے قبل ہی اکثر روزہ سے رہتے اور عمر بھر یہی معمول رہا کہ ممنوع ایام کے علاوہ سال بھر روزہ رکھتے، متعدد اؤلیائے کرام کے مزارات پر چلہ کشی کی اور زیارات سے اپنے دل کی راحت کا سامان کرنے کی کوشش میں لگے رہے، سلسلۂ قادریہ میں حضرت پیر بہادر شاہ گیلانی بھیروی سے فیض پایا اور بالآخر آپ کا تعلق اس عظیم خانوادے سے جڑ گیا جس کے فیض یہ نعمتگان پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں، سرگودھا کی ایک چھوٹی سی بستی ”سیال شریف“میں خواجہ شمس الدین سیالوی نے سلسلۂ چشتیہ کا فیض بانٹنا شروع کیا تو دور دور سے کئی افراد حاضر ہوئے اور علوم معرفت سے اپنا حصہ حاصل کیا، ان ہی ہستیوں میں حضرت پیر امیر شاہ بھی شامل تھے، سیال شریف حاضری دی، بیعت کے بعد تربیت باطنی کی منازل طے کرتے ہوئے خرقۂ خلافت حاصل کیا اور بھیرو شریف میں سلسلہ کی بنیاد رکھی، آپ کا ذوقِ عبادت بڑھتا گیا اور آپ ساری رات دریائے جہلم کے کنارے نوافل میں مصروف رہتے، ساری رات کی شب بیداری کے باوجود دن بھر کے معمولی متاثر نہ ہوتے بلکہ مخلوق خدا کے ساتھ پیار و محبت اور اخلاق کے ساتھ پیش آتے، رب کریم کی رضا کے لیے اپنے کسی مخالف سے بھی بدلہ نہ لیا بلکہ تنگ کرنے والوں کی بھی دعائے خیر سے نوازتے، اللہ کریم نے آپ کے شب و روز کی عبادت اور ریاضت کے نتیجہ میں آپ کی زبان میں اس قدر تاثیر رکھی تھی کہ فقط چند کلمات سے بگڑے ہوئے کے لوگوں کے مقدر بدل ڈالے۔

    آپ کو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم وآلہ وسلم اور سیدنا غوث اعظم کی ذات سے بہت عقیدت تھی اور آپ نے اپنی اولاد کو بھی ان نسبتوں کو مضبوط رکھنے کی تلقین کی آپ کے جانشین اور تربیت یافتہ حضرت غازی اسلام پیر محمد شاہ نے ان دو نسبتوں کو مضبوط کرنے کی خاطر ”محمد یہ غوثیہ“ کے نام سے پرائمری اسکول بنایا جس سے علاقہ میں علم کی روشنی پھیلی، آپ ایک باکرامت بزرگ تھے اور روحانی تصوف سے کئی مرتبہ اپنے مریدوں کی راہنمائی فرمائی، اپنی زندگی میں ہزاروں لوگوں کی زندگیاں سنوارنے کے بعد 1927ء میں آپ نے اس جہانِ فانی سے کوچ فرمایا، آپ کا وصال 10 جمادی الثانی کی ہوا اور اسی روز آپ کا عرس مبارک پوری عقیدت اور مذہبی پابندیوں کے ساتھ منایا جاتا ہے، آپ نے تربیت کا ایسا مرکز قائم کیا جس سے آج بھی ہدایت کے طالبِ ہدایت حاصل کر رہے ہیں، حضرت پیر امیر شاہ کے تین بیتوں میں حضرت پیر محمد شاہ غازی سجادہ نشیں بنے آپ کی زندگی کو حقیقتاً مجاہدانہ کہا جا سکتا ہے۔

    آپ نے اپنی زندگی میں سلسلۂ چشتیہ کو ترقی دی اور اپنی اولاد کی اس قدر عمدہ و تربیت کی کہ ان کے سجادہ نشیں جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری کی صورت میں ایک بے مثال رہبر نے اپنی ساری زندگی کی تگ و دو سے سلسلۂ چشتیہ کو عروج بخشا اور محمدیہ غوثیہ پرائمری اسکول کے ساتھ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کو ترقی دی ایک عظیم ملی تحریک کی صورت دے دی آپ علوم ظاہری و باطنی میں مکمل عبور رکھتے تھے، آپ کے قلم کے شاہکار تفسیر ضیاؤالقرآن اور سیرت کی کتاب ضیاؤالنبی عوام و خواص سے داد حاصل کر چکے ہیں اور بلا شبہ انہیں بارگاہ الٰہی میں بھی قبولیت حاصل ہے، آپ 1998 میں وصال فرما گئے۔

    اس وقت حضرت ضیاؤالامت کے فرزند و جانشیں حضرت پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب سجادہ نشیں ہیں آپ نے بھی اپنے بزرگوں کی طرف اپنی زندگی اسلام کی خدمت اور علم دین کے فروغ کے لیے وقف کر رکھی ہے، سلسلۂ چشتیہ بھیرو شریف، دارالعلوم محمدیہ غوثیہ اور آستانہ سے متعلق دیگر تمام اداروں کی نگرانی فرما رہے ہیں، آپ کئی مرتبہ بیرون ملک بھی تبلیغی دوروں پر جا چکے ہیں اللہ کریم سے دعا ہے کہ اس سلسلہ کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے اور ہمیں ان بزرگان دین کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے