Sufinama

تذکرہ حضرت مخدوم شاہ دولت منیری

کامل شاہ

تذکرہ حضرت مخدوم شاہ دولت منیری

کامل شاہ

MORE BYکامل شاہ

    دلچسپ معلومات

    کامل شاہ حضرت شاہ غلام مصطفیٰ احمد منعمی کے ملاقاتی ہوا کرتے تھے، آخری وقت انہو نے اپنی معیاری تحریری و کتبی دولت شاہ مصطفیٰ کی بارگاہ میں پیش کردیا تاکہ ان شکستہ ظاہری اوراق کی یہاں حفاظت ہوسکے، کامل شاہ اظہار ابرو صاف تھے، ایک صاحب کے کافی اصرار کرنے پر اس کی وجہ بتائی کہ ہمارے پیر شاہ شہودالحق اصدقی نے ہمیں اس وقت دیکھا تھا جب میں نابالغہ معروفۃ اللجنۃ تھا اور آپ نے فرمایا تھا کہ ’’اچھے لگ رہے ہو! لہٰذا جس صورت کو میرے پیر کو پسند تھی مجھے بھی پسند ہے، لہٰذا اسی صورت کو میں برقرار رکھتا ہوں‘‘

    نسب نامہ : ابا یزید عرف مخدوم شاہ دولت منیری ابن شیخ عبدالملک ابن شیخ اشرف ابن شیخ محمود ابن شیخ سلطان ابن شیخ حسام الدین عرف جہانِ شہ ابن شیخ اشرف ابن مخدوم شاہ کمال الدین یحییٰ منیری ابن مخدوم شیخ اسرائیل ابن حضرت امام محمد تاج فقیہ۔

    حضرت مخدوم شاہ دولت منیری حضرت مخدوم شیخ یحییٰ منیری کے نویں پشت میں پوتے ہیں، حضرت مخدوم شیخ دولت منیری کے مزار پر سنگی گنبد تعمیر کردہ ابراہیم خان کانکر صوبہ دار گجرات کا ہے ، صوبہ دار صاحب موصوف کہ یکے از مریدان حضرت مخدوم شیخ دولت منیری تھے، ابراہیم خاں کانکر ابن دولت خاں کانکر ساکن اسی قصبہ منیر کے تھے، ابراہیم خاں کانکر کے والدین نے کمسنی میں ابراہیم خاں کانکر کے انتقال کیا، دولت خاں کانکر والد ابراہیم خاں کانکر نے ابراہیم خاں کانکر کو اپنے پیر حضرت مخدوم شاہ دولت منیری کے سپرد کیاکہ کوئی نگراں اس لڑکے کا نہیں ہے ، اس کی تعلیم وغیرہ خانقاہ میں ہوگی، چنانچہ ابراہیم خاں کانکر خدمت میں حضرت مخدوم ممدوح مخدوم شاہ دولت کے رہنے لگے اور تعلیم ہونے لگی، عبدالرحیم خانِ خاناںوزیر جلال الدین محمد اکبر بادشاہ کہ جن کو عقیدت حضرت مخدوم شاہ دولت سے تھی ، واسطے زیارت و ملاقات حضرت مخدوم کے سال دو سال میں منیر آیا کرتے تھے، حضرت مخدوم شاہ دولت نے خانِ خاناں سے سفارش کسی نوکری کی ابراہیم خاں کانکر کے کیا، خانِ خانان اپنے ساتھ لے گئےاور سند صوبہ دارگجرات کی عطا کیا، علاقہ گجرات میں کاریگران سنگ تراش بہت اچھے تھے، ابراہیم خاں کانکر کا حوصلہ ہوا کہ ایک روضہ پتھر کا منبر میں اپنے پیر کے لیے تیار کروائیں ، چنانچہ انہوں نے اپنے پیر سے اجازت لے کر تعمیر روضہ کی شروع کرایا، کاریگران سنگ تراش گجرات سے اورپتھر روضہ کے لیے چنار گڈہ سے براہ دریائے سوہن لائے، پہلے تعمیر بڑی درگاہ کی مسجد مزار حضرت مخدوم شیخ شاہ یحییٰ منیری پر کہ جو بہت قدیم مسجد تھی اور بالکل شکستہ ہوگئی تھی تعمیر کیا، 1014 ہجری مطابق 1605 ء بعہد جلوس سلطان جہانگیر شاہ غازی کیا، سنہ تعمیر اس مسجد کا عدد سے کتابۃ کے معلوم ہوتا ہے ۔

    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    اے خوش آنکس کا کاندرین دار فنا

    تخم احسان کشت در دار بغا

    تخم احسان کاشت در کشت بقا

    خاصہ کو کردہ بنالے مسجدے بر طریق کعبہ بیت الہدیٰ

    ہمچنیں بر مرقد سلطان دین

    شیخ یحییٰ سر گروہ اولیا

    ساخت ابراہیم خان کانکر زدل

    مسجدے عالی بنا بہر خدا

    بندۂ عاصی چو در تاریخ آن

    جستجو بنمود منیر دوست و پا ناگہاں

    در گوش و ہوش او سروش

    بہرا ایں دار الامان دوسرا

    گفت ابن مصراع از الہام غیب

    کرد ابراہیم بیت اللہ بنا

    قدامت اس مسجد کی یوں ہے کہ جس زمانہ میں حضرت امام محمد تاج فقیہ یہاں تشریف لائے ، اس وقت حکمران اس اطراف کے ہندو راجگان تھے اور راجہ صاحب کا اسی جگہ مندر تھا، بعد اس کے تعمیر روضہ میں مصروف ہوئے ، چنانچہ 1045 ہجری میں تعمیر روضہ کی ختم ہوئی ، قطعہ تاریخ تیاری روضہ یہ ہے۔

    از بہر نثار ایں بنائے آباد

    از درج دلم دو در تاریخ فتاد

    اول بشمر روضہ احباب دوم

    مانند بہشت جاویدان ایمن باد

    اور انتقال حضرت مخدوم دیوان شاہ دولت منیری کا 1017 ھ میں ہوا ، قطعہ تاریخ انتقال و تعمیر روضہ گنبد کے جنوبی دروازے کے سیاہ پتھر پر کندہ ہے ، مثبت حرفوں میں لکھا ہوا ہے لگا ہے ، قطعہ انتقال یہ ہے۔

    قطب اقطار زمان قدوہ دین

    انکہ از مہرومہ انور بودہ

    شاہ دولت کہ سوے عالم قدس

    چوں زگیتی بسفر درر بودہ

    سال ہجرش خرد عاصی یا فت

    وارث حال پیمبر بودہ

    روضہ کے گنبد کے چارو طرف غلام گردش پر سنگی چھت ہے، پورب کے چھت کے بیچ میں نقوش و گلہا بیک سطر در منبت حرف است بسم اللہ الرحمٰن الرحیم و سورہ فاتحہ و سورہ اخلاص تمام بعدہ۔

    ”ان ربکم اللہ الذی خلق السموات والارض فی ستۃ ایام ثم استویٰ علی العرش ، یغشی اللیل النھار یطلبہ حثیثا والشمس والقمر والنجوم مسخرات بامرہٖ الا لہ الخلق والامر، تبارک اللہ رب العالمین آمنو صلو علیہ وسلمو تسلیما‘‘

    اور پچھم کے چھت کے بیچ میں جھان پر چار شہتیر میں لوہے کے تختہ سے باندھ دی گئیں ہیں اس لوح کے پتھر وں میں مثبت حرفوں میں لکھی ہوئی ہے۔

    کتابہ چھت مغربی

    ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ لا الہ الا ھو ، الحی القیوم ، لا تاخذہ سنۃ ولا نوم ، لہ مافی السموات وما فی الارض ، من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ یعلم ما بین ایدیھم وما خلفھم ، ولا یحیطون بشئی من علمہ الا بما شاء وسع کرسیہ السموات والارض ، ولا یؤدہ حفظھما وھو العلی العظیم ، لا اکراہ فی الدین ، قد تبین الرشد۔

    اٰمن الرسول بما انزل الیہ من ربہ والمؤمنون کل امن باللہ وملٰئکتہ وکتبہ ورسلہ لا نفرق بین احد من رسلہ وقالوا سمعنا واطعنا غفرانک ربنا والیک المصیر، لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت ، ربنا لا تواخذنا ان نسینا او اخطانا ، ربنا ولا تحمل علینا اصرا کما حملتہ علی الذین من قبلنا ، ربنا والا تحملنا ما لا طاقۃ لنا بہ، واعف عنا واغفرلنا وارحمنا ، انت مولانا فانصرنا علی القوم الکافرین ، بعدہ قلنا یا نار کونی بردا و سلاما علی ابراھیم ،و رادو بہ کیدا فجعلنا ھم الأخسرین، الحمد للہ الذی یسبح الرعد بحمدہ والملٰئکۃ من خیفتہ ، فبای حدیث بعدہ یؤمنون ۔ والحمد للہ رب العالمین ، سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون ، وسلام علی المرسلین ، والحمد للہ رب العالمین‘‘

    اور نہ غلام گردش کے چھت میں صرف نقش نگار ہے اور دکھن غلام گردش کے چھت میں بھی نقش و نگار تھا ، چھت کی شہتیر یں ٹوٹ کر گر گئیں تھیں ، صرف شکستہ ریختہ قائم تھا جس کو گورنمنٹ عالیہ نے ۱۸۸۷ء میں نئے پتھر کے شہتیروں کو منقش کرا کر مرمت سائبان کیا، چونکہ سنگ تراش قاعدہ دان کاریگر نہ تھے ، نقش و نگار جیسا کہ پہلے تھا ویسا نہیں بنا سکے، اس لیے وہ نقش و نگار چھیل دئے گئے ، اس وقت سادہ پتھر لگا ہوا ہے ، ۱۸۸۱ء میں شکستہ چھت میں جناب متکاف صاحب بہادر کلکٹر پٹنہ نے کچھ لکڑی کے ستون واسطے استحفاظ ریختہ چھت کے لگا دیا تھا، اور گنبد روضہ کا بھی بہت بے مرمت ہوگیا تھا اور سابق ریختہ گنبد کا روضہ کے جا بجا سے ٹوٹ کر گر گیا تھا ، چنانچہ ۱۸۸۷ ء میں سابق ریختہ روضہ کا اتار کر کے تیار پختہ کیا گیا جو اس وقت تک قائم ہے اور احاطہ چھوٹی درگاہ میں پچھم جانب مسجد سنگی تعمیر کردہ ابراہیم خاں کا ٹکڑا ہے، جو بہت بے مرمت ہوگئی تھی، اس کی بھی مرمت من جانب گورنمنٹ عالیہ ہوئی اور ہوتی ہے ، کتابہ مسجد چھوٹی درگاہ منبت حرفوں میں لکھا ہوا اور اکبر پر مسجد کے ہم رنگ پتھرپر ہے وہ یہ ہے۔

    ’’لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ، اللھم صل علی محمد وعلی اٰل محمد و بارک و سلم، اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ قال اللہ تعالیٰ ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبرکا وھدی للعالمین ، فیہ ایت بینت مقام ابراھیم ، ومن دخلہ کان اٰمنا، وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا، ومن کفر فان اللہ غنی عن العالمین‘‘

    قطعۂ تاریخ

    چو ابن عالی بنائے کعبہ تمثالی جھان آرا

    بفیض صانع قادر تمامی اقتضا کردہ

    دل عاصی ہمی جست از خرد سال بناے او

    خرد گفتار جو ابراہیم بیت اللہ بنا کردہ

    1048

    کتابہ دروازہ شمالی چھوٹی درگاہ در سہ تختی بہ تختی مغربی ہمرنگ پتھر عمارت، وسیق الذین اتقوا ربھم الی الجنۃ زمرا، حتی اذا جاؤھا وفتحت ابوابھا وقال لھم خزنتھا سلام علیکم طبتم فادخلوھا خلدین ، بہ تختی وسط پتھر ہم رنگ سیاہ بسم اللہ الرحمن الرحیم لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ، کنت فی فکر سن ھذا الباب، کان قلبی بحولہ ساکتا، قال عقلی علی طریق الامر، قل ومن دخلہ اٰمنا۔

    در تختئ مشرقی ہمرنگ پتھر عمارت چوں دریں روضۂ مقدس شاہ روے زینت نہادہ سر اتمام سال تاریخ من ازوجستم خردم بہر ایں خجستہ مقام بدعا کب کشود و گفتار در دولت کشادہ باد دوام۔

    لکھا ہوا مثبت حرفوں میں دروازے کے محراب پر لگا ہوا ہے، دروازے کا گنبد تیار ہو چکا تھا ، ریختہ نہیں ہوا تھا کہ ابراہیم خاں کانکر کا انتقال ہوا ، لاش ان کی بذریعہ راہ داری قصبہ منبر آئی ، ابراہیم خاں کانکڑ نے اپنے پیر حضرت مخدوم شاہ دولت سے اجازت لے کر اپنے دفن ہونے کو احاطہ درگاہ میں دکھن اور پورب کے کونے پر روضہ کراتے تھے دیوار تیار ہو گئی تھی جو اس وقت تک قائم ہے چھت یا گنبد تیار نہیں ہوا تھا کہ انتقال ابراہیم خاں کانکڑکا ہوا جب لاسن ابراہیم صاحب کانکر قصبہ منبر پہونچے تو بڑے صاحبزادے حضرت مخدوم شیخ فرید الحق والشرع الدین محمد ماہرونے حضرت مخدوم شاہ دولت منیری کے ابراہیم خاں کانکڑ کو اندر روضہ حضرت مخدوم شاہ دولت کے داہنے طرف دفن کیا اور خود دؤ صاحبزادے حضرت مخدوم شاہ دولت کے روضہ کے باہر سامنے چبوترے پر دفن ہوئے اور قبل آنے حضرت امام محمد تاج فقیہ کے کوئی مسلمان اس اطراف صوبۂ بہار میں نہیں آئے تھے، حضرت امام محمد تاج فقیہ سے اور راجہ منیر سے جنگ ہوئی اور راجہ کو ہزیمت ہوئی، حضرت امام تاج فقیہ نے 27 رجب المرجب روز جمعہ 576 ھ ظہر کے وقت فتح پایا، اس وقت سپہ سالار فوج حضرت امام محمد تاج فقیہ کے حضرت میراں سید احمد ترک کربک شہید ہوئےکہ جن کا مزار خانقاہ سے تھوڑے فاصلہ پر پچھم واقع ہے ، احاطہ مکان میں راجہ منیر کے ایک مندر تھا ، خاص راجہ منیر کے پرستش کا اسی جگہ بہت کشت و خون ہوا، سپہ سالار فوج حضرت میراں سید احمد ترک کربک اسی جگہ شہید ہوئے اور مزار بھی اسی جگہ ہے ، وہ مندر توڑ کر مسجد بنی اس مسجد کی تعمیر پھر سونوسے حضرت مخدوم شیخ جلیل الدین تیسرے بیٹے حضرت مخدوم شیخ شاہ یحییٰ منیری کے تھے، انہوں نے 798 ہجری میں تعمیر کیاتھا کتابہ اس مسجد کا سیاہ پتھر پر کندہ ہے ، جس میں سن تعمیر لکھاہے ، وہ مسجد عرصہ تک منہدم رہی تھی کہ نشان منارہ کا باقی رہ گیا تھا ، کتابہ مسجد بھی اسی افتادہ مسجد کے احاطہ میں پڑا تھا جس کو کسی نے چراغ دان حاجی حرمین میں لگا دیا ہے ، ساٹھ برس یا کچھ زیادہ ہوا ہو۔

    مزار حاجی صاحب : مزار وراوٹی نواب تنگر قولی خان بدخشانی سے قریب پچاس فٹ پچھم ہے، نواب تنگر خان قولی خان بدخشانی کے مزار پر سرہانے ایک پتھر پر یہ قطعہ کند۔

    یا حی لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ

    در بغا کہ بے ما بسے روزگار

    بردیدہ گل و بشگفد تو بہار

    کسا نیکہ از ما بغیب اندر اند

    بیا مدہند و برخاک ما بگد زند

    اور تعویذہ مزار پر منت حرفوں میں یہ عبارت کند ہ ہے، قوت نواز مرحومی مغفوری تنگر قولی خان ابن شیخ بدخشانی نہصد سستا دو 3 ہجری یہ نواب بھی یکے از مریدان حضرت مخدوم شاہ دولت منیری کے تھے اور مسجد بڑی درگاہ کی بالکل شکست ہوگئی تھی جس کی دوسری تعمیر ابراہیم خاں کانکڑ نے سنہ مذکورہ بالا میں کیا تھا، وہی عمارت اس وقت تک موجود ہے جو اب بالکل شکستہ حال میں ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے