Sufinama

خواجہ غلام فرید

خالد پرویز ملک

خواجہ غلام فرید

خالد پرویز ملک

MORE BYخالد پرویز ملک

    دلچسپ معلومات

    پنجاب کے عظیم صوفی شعرا۔

    خواجہ صاحب کی تاریخی ولادت بقول ”شب چراغ“ 26 ذی قعدہ 1261 ہجری اور بقول مولوی رکن الدین صاحب جامع ملفوظات 26 ذی الحج 1261 ہجری ہے، معتبر فریدی مؤرخ مرزا احمد اختر اور مولانا احمد خاں فریدی نے مصنف شب چراغ کی تائید کی ہے، حدیقۃ الاسرار میں تاریخ کے ساتھ ساتھ دن کا تعین بھی تحریر ہے کہ آپ کی ولادت منگل کو ہوئی۔

    آپ کا تاریخی نام خورشید عالم ہے، آپ کے آباؤ اجداد ایران کے راستے سندھ تشریف لائے اور وہیں سکونت پذیر رہے، خواجہ صاحب کے آباؤ اجداد میں شیخ پریا، شیخ پنوں، شیخ تارا جیسے خالص سندھی نام ملتے ہیں شیخ پریا کے بیٹے شیخ حسن ٹھٹھہ میں رکن سلطنت تھے ان کے فرزند مخدوم زکریا نے سندھ کو خیرباد کہا چونکہ ان کا باطنی تعلق سلسلہ سہروردیہ سے استوار ہوا تھا، اس لیے اپنے پیرانِ عظام کا قرب حاصل کرنے کا ٹے منگوٹ ضلع ملتان رہائش پذیر ہوئے۔

    مخدوم زکریا کے فرزند مخدوم نور محمد وہ بزرگ ہیں جن سے شاہجہان کے وزیر ارادت خان کو بہت ارادت تھی، مخدوم نور محمد کے پوتے مخدوم محمد شریف منگوٹ سے پاروالی ضلع مظفر گڑھ نقلِ مکانی فرما گئے، پاروالی رئیس مٹھن خان آپ کے مرید و معتقد تھا، مخدوم صاحب کی خواہش پر سندھ کے مغربی کنارہ مٹھن کوٹ کے نام سے شہرآباد کیا گیا، مخدوم محمد شہید کے دو بیٹے قاضی محمد قاتل مشہور روحانی پیشوا خواجہ نور محمد مہاروی کے دست پیر بیعت ہوئے، خواجہ صاحب کے دادا میاں احمد علی خواجہ محمد سلیمان تونسوی کے شاگرد تھے، ان کے دو فرزند تھے مولانا خواجہ تاج محمود ابھی آپ ساڑھے تین سال کے تھے کہ آپ کے بڑے بھائی مولانا فخرالدین کی تجویز پر آپ کو اپنے چچا مولانا تاج محمود کا شاگرد بنایا گیا، انہوں نے آپ کو سامنے بٹھا کر فرمایا ”آٹھ غلام فرید“ الف اور اس کے ساتھ ہی ان پر وجد کی رقت طاری ہوگئی، خواجہ غلام فرید کی موزونی طبع کا نقش اول ہے۔

    خواجہ صاحب ساون، بھادو میں روہی تشریف لے جاتے اور مناظرِ فطرت سے وجد میں آجاتے آغوش روہی میں وہ صرف سکون محویت کے خزانے ملتے بلکہ آہنگ و فرہنگ کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمند دکھائی دیتا جس کی لہروں سے کھیلتے کھیلتے وہ حسن و جمال کے اس عروج پر جا پہنچتے جہاں صبح ازل نمودار ہوتی تھی۔

    انہوں نے بلادِ اسلامیہ کے ممتاز علما سے اکتسابِ فیض کیا : ظاہری و باطنی علوم کی تکمیل کے بعد خواجہ غلام فرید رشد و ہدایت کے کام میں مصروف ہوگئے آپ ایک معتبر عالمِ دین اور عارف باللہ تھے غیر معمولی حافظے کے مالک تھے، خواجہ صاحب علمی جستجو اور تحقیق میں بہت شغف رکھتے تھے، تاریخ و تصوف کے حوالوں اور روایتوں کو محققانہ انداز سے پرکھتے تھے، آپ کی کتب تذکرہ اور ملفوظات مثلاً رسالہ فریدیہ، ملفوظاتِ خواجہ غلام فرید، مقابیس المجالس مناقب فریدی اور ارشاداتِ فریدی بھرپور روشنی ڈالتی ہیں۔

    1292 ہجری مطابق 1875 عیسوی میں آپ حج بیت اللہ کے لئے روانہ ہوئے مشہور ہے کہ آپ نے اپنے ساتھ ایک سو سے زائد کو اپنے خرچ پر حج کرایا، حج سے قبل آپ قبا اؤلیائے کرام کے مزارات پر حاضر ہوئے اور بلادِ اسلامیہ کے ممتاز علما سے اکتسابِ فیض کیا۔

    خواجہ غلام فرید نے تیرہ سال کی عمر میں اپنے برادرِ بزرگ حضرت مولانا فخرالدین 1288 ہجری) کے دست حق پرست پر بیعت کی اور تربیت پاکر خلافت حاصل کی، 27 سال کی عمر میں برادر بزرگ اور مرشد حضرت مولانا فخرالدین کی وفات کے بعد سجادہ نشیں بنے پھر 32 سال کی عمر تھی کہ اجمیر شریف میں آپ کی دستار بندی ہوئی خواجہ صاحب کو اپنے مرشد سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی۔

    آپ چشتی سلسلے کے نظامی شاخ سے تعلق رکھتے تھے اور آپ کا سلسلۂ طریقت اٹھارہ واسطوں سے حضرت نظام الدین اؤلیا تک جاپہنچتا ہے، خواجہ غلام فرید کے آئینۂ اخلاق میں استغنا، توکل، تقویٰ، درگزر، محبت عشق، حبِ الٰہی جب رسولِ مقبول توحید اور دنیا کی بے ثباتی کا وصف نمایاں ہے آپ انتہائی نرم طبیعت کے مالک تھے آپ کی شخصیت پروقار اور ہمہ گیر تھی آپ فراخ دل، وسیع المشرب، خوش خلق نفاست پسند اور خوش ذوق تھے، لباس اور خوراک کے بارے میں اعتدال پسند تھے اتباعِ شریعت اور حسنِ اخلاق کے پیکر تھے اپنے زمانے کی رسوم کی غیر شرعہ سے بیزار تھے۔

    خواجہ غلام زبردست مبلغ و مفسر تھے : 1875 عیسوی حج کا ارادہ کرکے ملتان لاہور اور دہلی سے ہوتے ہوئے اجمیر پہنچے اور وہاں خواجہ معین الدین چشتی کے آستانۂ عالیہ پر آپ کی دستاربندی ہوئی اجمیر سے بمبئی کے راستے حجازِ مقدس پہنچے ایک سو ساتھی ہمراہ تھے جن کے اخراجات آپ نے برداشت کئے اور حجازِمقدس میں بڑی دولت تقسیم کی، خواجہ غلام فرید صاحبِ حاصل صوفی تھے وہ جذب ومستی میں ڈوب کر تصوف کے اعلیٰ ترین مقامات کی خبر اپنی کافیوں میں دیتے تھے۔

    جب ہک رمز ملی توحیدوں

    دل آزاد ڈٹھم تقلیدوں

    تھی کر ،فرد، فرید، فریدوں

    سری روحی و عظ سنایا

    خواجہ غلام فرید نظریۂ وحدۃ الوجود کے زبردست مبلغ اور مفسر تھے اور شیخ اکبر محی الدین بن العربی کی پیروی کی ترغیت دیتے ہیں، انہوں نے فلسفہ وحدۃ الوجود کو ان گنت رنگوں میں پیش کیا ہے، وحدت میں ڈوبے رہنے کے باوجود وہ جب وادیٔ عشقِ رسول میں داخل ہوتے ہیں تو با محمد ہوشیار کی تصویر بن کر کہتےہیں۔

    تو نڑ میں دھکڑے دھوڑے کھاندڑی ہاں

    تیڈے نام نوں مفت و کاندڑی ہاں

    تیڈے ہاند باں دی میں باندڑی ہاں

    ہے در دے کیتا نال ادب

    ظاہری عبادت کی پابندی پر بہت زور دیتے تھے : خواجہ صاحب ظاہری عبادات نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی پابندی پر زور دیتے تھے اس کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کا پرچار بھی بڑھ چڑھ کر کرتے تھے، کیونکہ کسی کے دل کو ٹوٹنے سے بچانا سونج کے برابر، آپ سنتِ نبوی کے بڑے پابند تھے کسی کی دلآزاری نہیں کرتے تھے آپ اکثر فارسی کا یہ شعر پڑھتے تھے۔

    مباش در پئے آزاد ہر چہ خواہی کن

    کہ در شریعت ماغیر ازیں گنا نیست

    خواجہ غلام فرید اپنے سیرت و کردار اور کاروبارِ دعوت و ارشاد کی وسعتِ اشاعت کے لحاظ سے بر صغیر کے صوفیا عرفا کے مابین ایسے مقام پر نظر آتے ہیں کہ جہاں مردم چیدہ و برگزیدہ ہی کا ذکر کیا جاسکتا ہے بیسویں صدی کے آغاز میں جب کہ اسلام سیاسی طور پر زوال پذیر تھا، خواجہ ایسی شخصیتوں کا پیدا ہونا فیضانِ نبوت کے معجزات سے کم نہیں ہے ان کے اس مشخص اور ممتاز مقام کی وضاحت کے لئے علامہ اقبال کی رائے کا مطالعہ فائدہ سے خالی نہیں، خواجہ صاحب سلسلہ چشتیہ میں بیعت ہونے کی وجہ سے سماع سے بے حد شغفت رکھتے تھے لیکن آپ سماع میں ہمیشہ آداب کو ملحوظ رکھتے تھے، ان کی محفل سماع میں عورتوں اور نیم خواندہ لوگوں کو شریک ہونے کی اجازت نہ تھی، خواجہ صاحب کی دو شادیاں ہوئی تھیں، پہلی بیوی سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئی تھی۔

    خواجہ غلام فرید نے برِ صغیر میں ظلم و ستم کے اندھیروں میں اسلام کی شمع روشن کی : خواجہ غلام فرید نے اپنے کردار اور اخلاق سے بر صغیر میں ظلم و ستم کے اندھیروں میں اسلام کی شمع روشن کی، بھٹکے ہوئے انسانوں کو صراط مستقیم کا راستہ دکھایا اور توحید کی شمع روشن کی غریبوں کی داد رسی کی، ظالموں کے ظلم کے خلاف اعلانِ جہاد کیا، آج ضرورت ہے کہ اس بات کی علمائے کرام و مشائخِ عظام اپنے اکابرین کی تاکید کرتے ہوئے ظلم اور بے انصافی اور جہالت کے خلاف کلمۂ حق بلند کریں۔

    ان کے تمام اعمال اور مجاہدات کا محرک صرف عشقِ الٰہی کی ذات ہے : تمام اعمال و مجاہدات کشف اور تزکیۂ نفس کا محرک صرف عشق ذاتِ الٰہی ہے، ان کے نظریۂ وحدۃ الوجود کی اساس یہی جذبۂ عشق ہے، خواجہ صاحب نے مسئلہ وحدۃ الوجود کی تبلیغ کے ساتھ اپنی توجہ انسانی قوتوں کو ابھارنے اور انسانی خودی کو بیدار کرنے کی طرف بھی مرکروز رکھی۔ خواجہ صاحب انسان کو اپنے مقام پہنچاننے اور جدوجہد کی دنیا میں آگے بڑھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ خواجہ صاحب انسان کا محرم راز قلندر رہے۔ وہ ایک ایسے عظیم مثالی انسان کا تصور پیش کرتے ہیں جس کے کمالات کے آگے دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا انسان نہیں ٹھہر سکتا۔ خواجہ صاحب اپنی شاعری میں عورت کو عاشق اور مرد کو معشق قرار دیتے ہیں، خواجہ صاحب نسوانی عاشق کے کرداروں کو اپنے وارداتِ قلبی کے اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں، علامہ عبدالرشید طالوت فرماتے ہیں کہ خواجہ فرید کی شاعری میں روہی کا رومانِ حقیقی تھا مجازی نہیں تھا، وہ حسنِ ازل کے عظیم شیدائی تھے، خواجہ صاحب کی شاعرانہ اصطلاحات بھی نہایت بلیغ اور معنیٰ خیز ہیں، قدوقامت، زلف، خدو خال، چشم وابرو، رخسار و لب وغیرہ ان کی شاعرانہ اصطلاحات کی چند مثالیں ہیں اسی طرح احادیث، وحدت، برزخ، عروج، وجود، شہود، تجدد امسال وغیرہ ان کی صوفیانہ اصطلاحات کی علمی مثالیں ہیں۔

    خواجہ صاحب کی نسبت سے بہت سے دوہٹی رباعیات اور قطعات سرائیکی زبان سے منسوب ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خواجہ صاحب نے اس صنف کلام میں قطعاً طبع آزمائی نہیں کی، انقلاب کے مصنف نے اس سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب نے دوھڑے تصنیف نہیں فرمائے، خواجہ صاحب کے ایک دوھڑہ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے اپنے محبوب مرید دیوان ولایت شاہ کی وفات پر کہا تھا اگر یہ دوھڑہ خواجہ صاحب کا ہوتا تو اس میں تخلص صرف فریدی فقیر وغیرہ عاجزانہ انداز میں ہوتا، خواجہ صاحب نے اپنے تخلص کو پیر فرید، نہیں فرمایا اور نہ کوئی ذی شعور ایسا کر سکتا ہے، جس طرح مولانا رومی نے اپنے اشعار کو حضرت شمس تبریز سے منسوب کیا اسی طرح حضرت ولایت شاہ نے اپنی شاعری میں پیر فرید کا استعمال کیا ہے۔

    خواجہ صاحب مناظر فطرت کو خدا کا نور تصور کرتے ہیں : غلام فرید کی عظمت متزاد و منفرد اس لیے ہے کہ انہوں نے بیانانوں، ریگزاروں ٹیلوں، جھیلوں، صحرائی درختوں خود رو پھولوں خشک ریگستانی راستوں اور سرابوں کو فطرت کے حسین پش منظر کی حیثیت جاگر کیا ہے، خواجہ صاحب فارسی سے بدر جہا واقف تھے، سندھ کے مقامی گیتوں کی لے اور آہنگ پر انہیں قدرت حاصل تھی، ہندی بہت اچھی طرح جانتے تھے عربی اور سنسکرت کے عالم تھے، انہوں نے اپنی شاعری میں ماہرِ لسانیات کی حیثیت میں بہت ہی انوکھے اور دلفریب تجربے کئے ہیں، انہوں نےآہنگ ترنم صوتی تناسب اور اپنی غنائی تو افق کو خاص طور پر ملوظ رکھا، خواجہ کو اپنے وطن سے پیار ہے اور وطن کا ہر منظر ان کے لئے جنت نگاہ ہے وہ اپنی دھرتی اور مٹی سے پیار کرتے ہیں اور عوام کو محبت کی ترغیب دیتے ہیں، ان کا تمام دیوان سسی، سوہنی، ہیر، مومل اور مارد کے معاشقہ کی داستانوں استعاروں اور تشبیوں سے بھرا پڑا ہے خواجہ صاحب ان تمام عشاق خواتین کا ذکر بڑی عقیدت سے کرتے ہیں اور ان کے دکھ میں اپنا درد بیان کرتے ہیں، خواجہ صاحب مناظرِ قدرت کو خدا کا نور اور حسن تصور کرتے ہیں، برکھا کی اوٹ، بادل کی گرج، بجلی کی مسکان، ہوا کے لمس سے اسی کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔

    بابا فرید نے معیشت کی مضبوطی کو انسانی معاشرے کی بقا قرار دیا : آپ کی شاعری کا اولین مقصد انسانی دوستی بھائی چارہ اور مذہبی رواداری ہے، آپ نے فرمایا کہ برائی سے ضرور نفرت کرو مگر برے سے نہیں ورنہ برائی ختم نہ ہوگی، آپ کے کلام کے مطالعے سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ انسان کو کسی قسم کا تعصب زیب نہیں دیتا، خاص طور پر فرقہ وارانہ تعصب، یہ انسانی تمدن کے لئے زہر ہے، دوسری خاص بات جو آپ کو ممتاز کرتی ہے کہ آپ پہلے صوفی شاعر ہیں جنہوں نے معیشت کی مضبوطی کو انسانی معاشرے کی بقا قرار دیا ہے، معیشت کی بدحالی انسانی اخلاق کو بری طرح متاثر کرتی ہے اور اخلاقی گراوٹ معاشرے کو تباہ و برباد کردیتی ہے اس لیے آپ نے معاشرتی استحکام کے لئے معیشت کے استحکام پر زور دیا ہے۔

    خواجہ غلام فرید کے کلام سے سوز و درد کی نئی دنیا آباد ہوئی : پاکستان کی علاقائی سرائیکی زبان جو بہاولپور ڈویژن، ملتان ڈویژن، ڈیرہ غازی خان، جھنگ، میا نوالی اور ڈیرہ اسماعیل خان کے وسیع علاقہ میں بولی سمجھی جاتی ہے، یہ زبان خواجہ غلام فرید کے کلام سے زندہ و شاداب ہے، جیسا کہ فارسی ادب فردوسی کا مرہون منت ہے، خواجہ فرید نے سرائیکی کافی کو اچھوتا لہجہ، منفرد اسلوب، تیکھا بانکپن عطا کیا اور صفت تجنیس کا بے بہا انمول خزانہ عطا کیا ہے، آپ کی شاعری سے پہلے سرائیکی کافی کا میدان اجاڑ اور ویران سا تھا جبکہ آپ کی کافیوں دھنوں نے عشق و مستی کی دنیا کو گرما دیا، ابوالکلام آزاد جو اصغر گونڈوی کے کلام مداح ہیں ان کی کتاب ”سرور زندگی“ کی تقریظ میں لکھتے ہیں کہ ”محاسن کا حق ہے کہ ان کی شہادت دی جائے“ بلا شبہ حضرت فرید کا کلام محاسن کی شہادت کا حقدار ہے، شاہنامہ اسلام کے مصنف حفیظ جالندھری نے شاہنامہ اسلام کی جلد اول کے تعارف میں تاریخِ اسلام کو اردو میں منظوم کرتے ہوئے اپنے عجز کا اعتراف کیا ہے۔

    زبان پہلوی کی ہم زبانی ہو نہیں سکتی

    ابھی اردو میں پیدا وہ روانی ہو نہیں سکتی

    مگر فردوسی زبان خواجہ فرید نے سرائیکی ادب میں تصوف کی چاشنی سے اپنی کافیوں میں ادب عالیہ کی بنا رکھ کر سرائیکی زبان کو شہرت عام اور بقائے دوام بخش دی جب کہ اردو کے ادب عالیہ تصنیف کرنے والے ادیب اردو زبان کی تنگ دامانی کا اعتراف کرتے ہیں، خواجہ فرید کو سرائیکی زبان پر اس قدر دسترس اور قدرت حاصل تھی کہ ان کی 272 کافیوں کا چھوٹا سا ”دیوان فریدی“ میر، غالب، داغ، حسرت موہانی، اصغر گونڈوی کے کلام کے برابر رکھا جا سکتا ہے بلکہ مجھے یہ کہنے دیجیے کہ حضرت کے آفاقی کلام میں روح کی بالیدگی، درد اندوہ کی گہرائی حسن و عشق حقیقی کا امتزاج جس تابناکی کے ساتھ سمویا ہوا ہے، اس حوالے سے ان کے کلام کو اردو زبان کے شعرا پر تفوق حاصل ہے، وہ لوگ جو سرائیکی زبان کی ایمائیت، رمزیت اور لطافت کو بخوبی سمجھتے ہیں وہ اس چھوٹے سے دیوان کو سرائیکی ادب کا شاہکار اور ادبِ لطیف کا سرمایہ جانتے ہیں، ان کے کلام میں آمد ہی آمد ہے آورد کا کہیں نام نہیں آپ کا کلام عوام و خواص میں یکساں مقبول ہے، حضرت کا خاص مضمون عشق و مستی، سوز و گداز، ہجر و فراق اور فنا فی اللہ ہے، کلام کا نمونہ ملاحظہ ہو۔

    پل پل سول سوایا ہے

    جی مفت ڈوکھاں وچ آیا ہے

    دور گیا منظور دلیں دا

    تن من دھن ہے مال جیندا

    شالا ڈھولن ملم چہیندا

    درداں سخت ستایا ہے

    خواجہ فرید کے کلام میں الفاظ کی شیشہ گری : خواجہ فرید کے کلام میں الفاظ کی شیشہ گری تسلسل اور مینا کاری ہر چند محتاجِ تعریف نہیں مگر فارسی کے دل و دماغ کو نیا گرا کی آبشار کی طرح کافیوں کی دھنک اشعار کے معافی کا حسن مسحور کر دیتا ہے، ذرا دیکھیے! صوتی اعتبار سے الفاظ جن کو ہیرے زمرد اور عقیق کی طرح تراشا گیا ہے ان کی سنج دھج زبانِ حال سے گویا ہے، الفاظ میں دریا کی روانی سمندر کی گہرائی، بادِ نسیم کی چال، شہد کی مٹھاس اور گلاب کی مہک ہے، نمونہ کلام پیشِ خدمت ہے۔

    بن دلبر آہیں کر کر

    کئی راتیں ڈتم سحر کر

    اوہ روہی راوے رلدی

    نت قدم قدم نے بھلدی

    کڈیں تھک بہندی کڈی چلدی

    ہن سانول یار وہر کر

    کڈ نیتو جھوک پریرے

    دل درواں لایم دیرے

    ڈسے روٹی ہاں دے بیرے

    پیواں پانی خون جگر کر

    ماحول کی عکاسی جس چابک دستی سے حضرت فرید نے فرمائی۔۔۔ سادگی میں پرکاری اور سانول کی بہار آفریں رت کا تذکرہ سبحان اللہ ان ہی کی زبان میں نظر نواز ہو۔۔۔

    آئے مست دہاڑے سانوں دے

    واہ سانون دے من بھانون دے

    بدلے پورب ماڑ دکھن دے

    کجلے بھورے سو سو ون دے

    چارے طرفوں زور پون دے

    چاند ڑیں رات ملہارس ڈینہ ہے

    ٹھڈڑیاں ہیلاں رم جھم مینہ ہے

    سو نڑھیں موسم لگڑا تیہ ہے

    گئے ویلھے غم کھاون دے

    خواجہ غلام فرید کے کلام سے سوز و درد کی نئی دنیا کی آباد ہوگئی ہے جس میں لہجہ کی حلاوت زبان کی شیرینی، درد کی کسک اور خیال کی ندرت نے عجیب رنگ پیدا کردیا ہے، الفاظ صوفی لحاظ سے سر سنگیت کے ساتھ ہم آہنگ نظر آتے ہیں کیونکہ حضرت فرید کو امیر خسرو کی طرح شاعری کے ساتھ راگ رنگ کی لطافتوں اور جزئیات پر کامل دسترس حاصل تھی، چونکہ آپ صوفی شاعر تھے، اس لیے آپ کے کلام میں فکر انگیزی اور تصوف کا رنگ غالب ہے، اس لیے آپ کی کافیوں کے اشعار دل کی گہرائیوں میں اترتے چلے جاتے ہیں اور ایسے محسوس ہوتا ہے۔۔۔

    دیکھیے تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

    میں نے یہ سمجھا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

    خواجہ غلام فرید کا وصال : آپ کی وفات 6 ربیع الثانی 1319 ہجری مطابق جولائی 1901 عیسوی چہار شنبہ کو ہوئی، خواجہ غلام فرید کا روضہ ایک وسیع گنبد پر مشتمل ہے جس میں دو کمرے ہیں دونوں کمروں میں متعدد قبور ہیں اصحابِ قبور کی تفصیل حسبِ ذیل ہیں، کمرہ نمبر 1 خواجہ فرید، خواجہ غلام فخرالدین سئیں المعروف بہ خواجہ فخرِ جہاں، خواجہ خدا بخش سئیں المعروف بہ محبوبِ الٰہی خواجہ قاضی عاقل سئیں، خواجہ خدا بخش سئیں المعروف بہ خواجہ نازک کریم سئیں، خواجہ معین الدین سئیں، خواجہ غلام فرید سئیں، خواجہ قطب الدین سئیں۔

    کمرہ نمبر خواجہ فرید ثالت المعروف بہ خواجہ فیض فرید لال سئیں، خواجہ نور محمد سئیں، خواجہ امام بخش۔۔ سئیں، خواجہ فیض احمد ۔

    آپ کا مزارِ مبارک مٹھن کوٹ شریف مرجع خلائق ہے۔

    خواجہ فرید نے بر صغیر میں بھٹکے ہوئے انسانوں کو صراط مستقیم کا رستہ دکھایا : خواجہ غلام فرید نے اپنے کردار اپنے اخلاق سے برصغیر میں ظلم وستم کے اندھیروں میں اسلام کی شمع روشن کی بھٹکے ہوئے انسانوں کو صراط مستقیم کا رستہ دکھایا اور توحید کی شمع روشن کی غریبوں کی داد رسی کی، ظالموں کے ظلم کے خلاف اعلانِ جہاد کیا آج ضرورت ہے اس بات کی ہے کہ علمائے کرام مشائخ نظام اپنے اکابرین کی تاکید کرتے ہوئے ظلم اور انصافی اور جہالت کے خلافت کلمۂ حق بلند کرے، بر صغیر میں بزرگانِ دین نے جس محنت اور لگن سے بھٹکے ہوئے انسانوں کی اصلاح کی ان کی کاوشوں اور تبلیغ کا نتیجہ ہے کہ آج ہم مسلمان نظر آ رہے ہیں، فرقہ واریت اور جہالت کے خلاف ظلم اور ستم کے خلاف بزرگان نے نبی کریم کی تعلیم کی روشنی میں محبت اور اخلاق کا درس دیا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے