Sufinama

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    دلی کے بائیس خواجہ- باب 21

    حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی مجمعِ فیوضِ سبحانی اور منبعِ علومِ روحانی ہیں، آپ دُرِ دریائے معرفت اور گوہرِ کانِ حقیقت ہیں۔

    خاندان : آپ کے خاندان اور والد بزرگوار حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا ذکر پچھلے باب میں آچکا ہے، یہاں یہ کہنا کافی ہوگا کہ آپ کا خاندان علمِ حدیث اور فقہ کے لئے مشہور تھا۔

    ولادت : آپ کی ولادت 1159ء میں ہوئی۔

    نام : آپ کا نام عبدالعزیز ہے، تاریخی نام غلام حلیم تھا۔

    تعلیم و تربیت : آپ کی تعلیم آپ کے والد ماجد کی آغوش میں ہوئی، آپ نے اپنے والد سے جمیع علومِ ظاہری و باطنی پڑھی۔

    بیعت و خلافت : آپ کو اپنے والد بزرگوار کا مرید و خلیفہ ہونے کا شرف حاصل ہے، آپ کا طریقِ سلوک اپنے والد سے موسوم تھا، اس طریقے کو نزدیک ترین خدا شناسی کا راستہ کہا جاتا ہے، آپ کے والد حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ

    ترجمہ : ”البتہ حق سبحانہٗ تعالیٰ نے مجھ پر اور میرے زمانے کے لوگوں پر بہت بڑا احسان کیا، کیونکہ مجھ کو وہ طریقۂ سلوک عطا فرمایا جو دوسرے طریقوں سے بہت نزدیک ہے اور وہ پانچ فضیلتوں سے مرکب ہے، اول ایمانِ حقیقی، دویم قربِ نوافل، سوم قربِ وجوب، چہارم قربِ فرائض، پنجم قربِ ملائک۔

    جو شخص اس طریقے کے حصول کا ارادہ کرے گا، خداوند کریم اس کو ضرور عطا فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو الہام فرمایا ہے کہ ہم نے تجھ کو اس طریقے کا امام مقرر کیا اور تجھ کو آسمانوں کی بلندی پر پہنچا دیا اور آج سے کل طریقِ حصول قربِ حقیقت بجز اس طریقے کے بند کردیئے گئے اور وہ طریقہ صرف تیری محبت اور ابتاع کا ہے، پس جو شخص کہ تجھ سے دشمنی رکھے گا اس سے برکتیں آسمان و زمین کی مسدود کر دی گئیں، یعنی تیرے دشمن جمیعِ برکاتِ حسنہ سے محروم کر دیئے گئے“

    والد کا انتقال : آپ کی عمر جب سولہ سال کی ہوئی، آپ کے والد ماجد نے 1176ھ میں اس دارِ فانی سے کوچ فرمایا اور آپ اپنے والد کے سایۂ عاطفت سے محروم ہوگئے، بظاہر آپ اپنے والد کی رہنمائی سے محروم ہوگئے لیکن باطنی طور پر آپ اپنے والد ماجد کے فیوضِ روحانی سے مستفید اور مستفیض ہوتے رہے، اپنے والد کی مسندِ ہدایت پر بیٹھ کر رشد و ہدایت اور تعلیم و تلقین فرمانے لگے۔

    درس و تدریس : آپ ساری عمر روایتِ حدیث کی ہدایات میں مشغول رہے، درس و تدریس آپ کا محبوب مشغلہ تھا، حدیثِ نبوی کا پودا جو آپ کے والد ماجد نے ہندوستان میں لگایا تھا، آپ نے اس کو پروان چڑھایا، آپ نے درس و تدریس، افتاء فصلِ خصومات، تذکیر و وعظ اور تعلیم و تربیت میں عمر گزاری، آپ کے بہت شاگرد تھے، آپ سے سندِ تلمیذ فیوضِ ظاہری و باطنی باعثِ فخر سمجھی جاتی تھی، بہت لوگ آپ کے لمعاتِ فیض اور برکاتِ حسنہ سے منور و مستفید و مستفیض ہوئے، آپ کے بہت سے شاگردوں کا شمار بڑے علما و فضلا و فقیہہ و محدثین میں ہوتا ہے۔

    آپ کے شاگرد : حسبِ ذیل مشہور علما و فضلا و محدثین کو آپ کے شاگرد ہونے کا فخر حاصل ہے، آپ کے بھائی مولانا شاہ رفیع الدین صاحب، آپ کے نواسے شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی، مفتی صدر الدین دہلوی، مولانا رشیدالدین خاں دہلوی، حضرت شاہ غلام علی، آپ کے داماد مولوی عبدالحئی، آپ کے حقیقی بھتیجے مولوی محمد اسمٰعیل شہید، مولانا میر محبوب علی دہلوی اور مولانا حسن علی لکھنوی۔

    شادی اور اولاد : آپ کے کوئی لڑکا نہیں تھا، آپ کی تین لڑکیاں آپ کی حیات میں فوت ہوگئیں، بڑی لڑکی کی شادی عیسیٰ سے ہوئی، دوسری لڑکی کا نکاح شیخ محمد افضل بن شیخ احمد سے ہوا، تیسری لڑکی کی شادی مولوی عبدالحئی سے ہوئی۔

    آخری ایّام : آپ بیمار ہوئے اور کافی کمزور ہوگئے، ہفتہ میں دو بار وعظ فرماتے تھے، اس بیماری میں جب آپ کے وعظ کا دن آیا، آپ کی ہدایت کے موافق دو آدمی آپ کو پکڑے رہے اور جب وعظ آپ نے شروع کردیا اور دونوں آدمی الگ ہوگئے، آپ وعظ کہتے رہے، اس روز آپ اس آیۂ شریفہ پر وعظ فرما رہے تھے۔

    ”ذَوِی القُربیٰ والیَتٰامیٰ والمساکینِ وَ ابنِ االسبیلِ‘‘ اس فرمان کے مطابق آپ نے اپنے تمام اسباب کے حصے کئے۔

    اس مصرع کو ”من نیز حاضر می شوم تصوریِ جاناں در بغل“ بدل کر اس طرح پڑھا۔

    ”من نیز حاضر می شوم تفیسرِ قرآں در بغل“

    وصیت : آپ کرتا دھوتر کا اور پائجامہ گاڑھے کا پہنتے تھے، آپ نے وصیت فرمائی کہ

    ”میرا کفن مثل میری زندگی کے پوشش کے ہو“

    نمازِ جنازہ کے متعلق آپ نے وصیت فرمائی کہ شہر سے باہر ہو، بادشاہ کو جنازہ کے ساتھ رہنے سے منع کیا جائے۔

    وفات : آپ نے شوال 1239ھ کو عالمِ فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف کوچ فرمایا، آپ کی وصیت پر عمل کیا گیا، خلق کا بے حد ہجوم تھا، پچپن بار آپ کے جنازے کی نماز پڑھی گئی، آپ کا مزارِ پُرانوار آپ کے والد ماجد کے مزار کے قریب دہلی (مہندیان) میں ہے، آپ کے مزار سے فیوض و برکات جاری ہیں۔

    سیرتِ پاک : آپ علومِ ظاہری و باطنی میں بے نظیر تھے، فضل و ہنر میں بے عدیل تھے، لطف و کرم میں بے مثال تھے، علم و عمل میں بے مثل تھے، آپ کو خاتم المفسرین اور امام المحدثین کہا جاتا ہے، آپ صرف ایک صاحبِ دل بزرگ ہی نہ تھے بلکہ آپ ایک بلند پایہ محدث و مفسر و فقیہ تھے، آپ کو مرجع علما و مشائخین ہونے کا فخر حاصل تھا، آپ کو فنونِ عقلیہ اور علومِ متداولہ اور غیر متداولہ پر اتنہائی عبور تھا، آپ کثرتِ تحفظ علم تعبیر رویا، وعظ، انشائے نجوم، تحقیقاتِ نفائسِ علوم مذاکرہ و مباحثہ میں ممتاز و مشہور تھے، آپ عالمِ باعمل تھے، آپ صاحبِ تقویٰ، صاحبِ فہم و ذکا، صاحبِ فراست، صاحبِ دیانت، صاحبِ امانت اور صاحبِ ولایت تھے۔

    علمی ذوق : آپ کی تصانیف بہت مشہور ہیں، مشہور تصانیف حسبِ ذیل ہیں۔

    عجالۂ نافعہ اصولِ حدیث، بستان المحدثین، مجموعۂ خسمہ رسائل، شرح میزان المنطق، رسالہ فضائلِ خلفائے اربعہ المعروف بہ عزیز الاقتباس فی فضائل بنا انفاس، رسالہ تحفہ اثنائے عشریٰ، تفسیر فتح العزیز، رسالۂ غنا، رسالہ بیع کنیزان، رسالہ وسیلۂ نجات، رسالہ تفضیل، رسالہ اصوبِ مذہب ابی حنیفہ، رسالۂ معادِ جسمانی۔

    شعروسخن کا ذوق : آپ کو شعر و سخن کا بھی ذوق تھا جیسا کہ آپ کے حسبِ ذیل اشعار سے ظاہر ہے۔

    گر بگلشن بگذری گل بر رخت مفتوں شود

    در نمائی قامتِ خود سرو را موزوں شود

    کارِ بامعنی است دانا را نہ بانام و نشاں

    جذبۂ لیلیٰ ندارد بیداگر مجنوں شود

    مردِ مفلس را جہاں یک سر محلِّ آفت است

    شیشہ چوں خالی است گر بادش رسد و اژوں شود

    آپ کی رباعی جو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہے۔

    یا صاحب الجمال و یاسیدالبشر

    من وجھِک المنیر لقد نورالقمر

    لا یمکن الثناء کما کان حقہ

    بعد از خدا بزرگ توئی قِصۂ مختصر

    آپ کی تعلیمات : آپ کی تعلیمات فیضِ رساں ہونے کے علاوہ معمولاتِ دینی و فیوض و برکات گونا گوں سے خالی نہیں ہیں۔

    اؤلیا کی قسمیں : آپ نے فرمایا کہ اؤلیا کے چار قسم ہوتے ہیں۔

    بعض مستغرق ہوتے ہیں بعض اہلِ حدیث ہوتے ہیں جیسے قطب اور غوث وغیرہ بعض اہلِ تجرید اور اہلِ تفرید کہلاتے ہیں“

    توجہ کی قسمیں : آپ نے فرمایا کہ ”توجہ چار قسم کی ہوتی ہے۔

    اول : انعکاسی۔

    دوسری : القائی۔

    تیسری : جذبی۔

    چوتھی قسم یہ ہے کہ توجہ دینے والے کے تمام اوصاف طالب میں سرایت کرجائیں، یہاں تک کہ صورتِ ظاہری بھی ایک ہو جاوے۔

    بزرگوں کی قسمیں : آپ نے فرمایا کہ بزرگ چار قسم کے ہوتے ہیں ’’اول سالک مجذوب کہ ابتدائے زمانہ میں تو خود کوشش کی اور آخر میں کشش ہوئی، یہ سب سے بہترین ہیں، دوسرے مجذوب سالک کہ اولاً جذب سے سرفراز ہوئے پھر سلوک اختیار فرمایا جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام آگ لینے تشریف لے گئے، تجلیٔ باری نصیب ہوئی، تیسرے سالک بختِ مشرف نہیں ہوتے ہیں، چوتھے مجذوب محض کہ تجلیٔ باری کی وجہ سے ان کی عقل سب ہوگئی ہے“

    خلافِ شرع افعال کا اثر : آپ نے فرمایا کہ ”بے شک خلافِ شرع افعال سے تکدر ضرور حاصل ہوتا ہے اور بعض افعال خلافِ شرع کا تو یہ اثر ہے کہ جو نسبت طالب کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حاصل ہوئی ہے، بالکل قطع کردیتے ہیں جیسے مکر، دغابازی، فریب، نخوت، تکبر، خودنمائی، طلبِ دنیا، طلبِ جاہ وغیرہ، بعض سے صرف یہ ہوتا ہے کہ اگر سہواً کبھی کوئی گناہِ صغیرہ ہوگیا تو دل پر بجائے نورانیت کے ایک قسم کی ظلمت اور تاریکی معلوم ہونے لگتی ہے“

    پختہ عالم کی تعریف : آپ نے فرمایا کہ ”پختہ عالم وہ ہے جس کو چار چیزوں میں ملکہ ہو، درس و تدریس، مطالعۂ کتب، تحریر و تقریر، مناظرہ“

    قرآن شریف کی تلاوت کے آداب : آپ نے فرمایا کہ ”تلاوتِ قرآن شریف میں تہذیب اور رو بہ قبلہ ہونا اور حروف کو بخوبی ادا کرنا ارو مد و شکر کو نہ چھوڑنا اور مقامِ وقف میں ٹھہرجانا، یہ ادابِ ظاہری ہیں اور آدابِ باطنی یہ ہے کہ مبتدی کو چاہئے کہ یہ تصور کرے کہ گوریا روبرو خدا وند عالم کے پڑھ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ بجائے استاد کے بیٹھ کر سن رہا ہے اور منتہی کو چاہئے کہ یہ تصور کرے کہ یہ کلام زبانِ خدا سے بلا واسطہ سن رہا ہوں۔۔۔“

    مناظرہ : ایک پادری مسٹر مٹکف کے ساتھ آپ کی خدمت میں آئے، یہ شرط ٹھہری کہ اگر پادری ہار گیا تو وہ دو ہزار روپئے آپ کو دے گا اور اگر آپ ہار گئے تو آپ کی طرف سے دو ہزار روپئے مسٹر مٹکف پادری کو دئے جائیں گے۔

    پادری کا سوال : تمہارا پیغمبر حبیب اللہ ہیں، تمہارے پیغمبر نے بوقتِ قتل امام حسین فریاد نہ کی، حالاں کہ حبیب کا محبوب زیادہ تر محبوب ہوتا ہے، خداوند تعالیٰ ضرور توجہ فرماتا۔

    آپ کا جواب : پیغمبر صاحب واسطے فریاد کے جو تشریف لے گئے، پردۂ غیب سے آواز آئی کہ ہاں ! تمہارے نواسے پر قوم نے ظلم و ستم کیا اور شہید کیا لیکن ہم کو اس وقت اپنے بیٹے عیسیٰ کے صلیب پر چڑھنے کا رنج تازہ ہوگیا، پس ہمارے پیغمبر صاحب خاموش رہے، اس جواب سے پادری لا جواب ہوگیا اور دو ہزار روپئے بابت شرط آپ کو پیش کئے۔

    آپ کے فتوے : طوائفوں یعنی کسبی عورتوں کے جنازہ کی نماز پڑھنی درست ہے یا نہیں؟

    جواب : جو مرد ان کے آشنا ہیں، ان کے جنازے کی نماز پڑھتے ہیں تو ان کے جنازہ کی نماز بھی پڑھنا چاہئے۔

    ایک سوداگر نے دہلی سے روانہ ہوتے وقت اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تم اپنے باپ کے گھر جاؤ گی تو میری طرف سے تم کو طلاق، جب سوداگر اپنے گھر واپس آیا تو اس کو معلوم ہوا کہ اس کی بیوی اپنے باپ کے گھر گئی تھی، اس نے علما سے فتویٰ طلب کیا، علما نے فتویٰ دیا کہ طلاق ہوگئی، جب وہ سوداگر آپ کے پاس آیا تو آپ نے یہ فتودیٰ دیا کہ جب باپ اس عورت کا مر گیا، تب وہ گئی، اس صورت میں وہ گھر اس کے باپ کا نہ رہا بلکہ وہ گھر عورت کا ہوگیا، پس وہ اپنے گھر گئی نہ کہ باپ کے“ سب علما نے آپ کی رائے سے اتفاق کیا۔

    اقوال :

    اللہ کے ذکر سے قلب کو اطمینان ہوتا ہے۔

    استعداد کے لئے محبت شرط ہے۔

    سلوک اجتہاداتِ کسبی کا نام ہے۔

    جذبِ محض عنایتِ خداوندی ہے۔

    ہر دین میں پانچ حالات کی رعایت واجب ہے، عقل کی حفاظت، نفس کی حفاظت دین کی حفاظت، نسبت کی حفاظت، مال کی حفاظت۔

    عبادت کا وجود بدون احسان کے ایسا سمجھنا چاہئے کہ جیسے روح بے بدن کے۔

    انسان میں ہمدردی ہونا چاہئے، خاص کر قریب کے تعلقات میں وفاداری کا برتاؤ ضروری ہے۔

    اوراد و وظائف : آپ فرماتے ہیں کہ فراغبِ رزق کے واسطے چاشت کے وقت چار رکعت نماز پڑھے اور پھر سجدہ میں جاکر ایک سو چار مرتبہ یا وھَّابُ پڑھے اگر فرصت نہ ہو تو پچاس مرتبہ پڑھے، آپ فرماتے ہیں کہ ان آیتوں کے وسیلے سے جو دعا کرے قبول ہو۔

    لا الٰہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین فاستجبنا لَہٗ ونَجّیناہٗ من الغَمِّ وَ کَذالکَ نُنجِی المؤمنین۔

    ربِّ اِنی مَسِّنی الضُّرُّ وَ انتَ اَرحمُ الرّاحِمین۔

    وَاُفَوِّضُ اَمرِی الیٰ اللہِ اِنَّ اللہ بصیرٌ بِالعِباد۔

    قالوا حَسبُنااللہُ ونِعم الوکیل۔

    ربِّ اِنِّی مغلُوبٌ فانتَصِر۔

    آپ فرماتے ہیں کہ تسخیرِ حکام کے واسطے یہ دعا سترہ بار پڑھ کر ان کی طرف دم کرے۔ یا رحمٰن کُلُ شٔیٍ و اَرحمہٗ یا رحمٰنُ

    اور اپنے مکان میں حاکم کے مکان کی طرف رخ کرکے دو سو بار یہ پڑھے اور دعا کرے۔ یا مقَلّبَ القُلوبَ

    کشف و کرامات : آپ جب جمعہ کے واسطے جامع مسجد جاتے، عمامہ آنکھوں تک باندھتے تھے، ایک شخص مسمیٰ فصیح الدین نے اس کا سبب دریافت کیا آپ نے اپنی ٹوپی اس کے سر پر رکھ دی، وہ بے ہوش ہوگیا، اس نے بتایا کہ جامع مسجد میں پانچ چھ ہزار آدمیوں میں صرف سو سو آدمیوں کی شکل آدمی کی تھی باقی کوئی بندر، کوئی ریچھ کوئی کسی اور جانور کی شکل میں تھا، آپ نے اس شخص سے فرمایا کہ یہی سبب ہے کس کی طرف دیکھیں۔

    کرنل اسکز آپ سے عقیدرت رکھتا تھا، اس کی اولاد نہیں تھی، اُس نے آپ سے دعا کی درخواست کی، آپ نے اس کے واسطے دعا فرمائی اور یہ خوش خبری دی کہ لڑکا ہوگا، آپ نے اس کو ہدایت فرمائی کہ جب لڑکا ہو تو اس کا نام یوسف رکھنا جب لڑکا پیدا ہوا کرنل نے اس کا نام جوزف اسکز رکھا جوزف اور یوسف ایک ہی بات ہے صرف زبان کا فرق ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے