Sufinama

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    دلی کے بائیس خواجہ۔ باب 19

    حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ناصرِ شریعت، امامِ طریقت، عمدۃ الابرار، قدوۃ الاخیار ہیں، آپ وہ منبعِ فیض ہیں کہ جس سے ہندوستان قال اللہ و قال الرسول کے انوار کی تجلیات سے منور ہوا۔

    خاندانی حالات : آپ کا شجرۂ نسب تینتیس (33) واسطوں سے امیرالمؤمنین حضرت عمر ابنِ خطاب تک اس طرح پہنچتا ہے کہ ولی اللہ بن عبدالرحیم بن وجیہہ الدین شہید بن معظم بن منصور بن احمد بن محمود بن قوام الدین عرف قاضی تواذن بن قاضی قاسم بن قاضی کبیر عرف قاضی مُدّہا بن عبدالملک بن قطب الدین بن کمال الدین بن شمس الدین المفتی عرف قاضی بیران بن شیر ملک بن عطا ملک بن ابوالفتح ملک بن عمرو الحاکم بن مالک بن عادل ملک بن قارون بن جرجیس بن احمد بن محمد شہریار بن عثمان بن ہامان بن ہمایوں بن قریش بن سلیمان بن عفان بن عبداللہ بن محمد بن محمد بن عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہہ اجمعین۔

    والد بزرگوار : آپ کے والد بزرگوار حضرت شاہ عبدالرحیم علومِ ظاہری و باطنی میں اپنی نظیر آپ تھے، حضرت سید عبداللہ اکبرآبادی سے بیعت تھے اور ان کے خلیفۂ اعظم بھی تھے۔

    ولادت : آپ 4 شوال 1114ھ کو اس عالم میں تشریف لائے۔

    نام : آپ کا نام احمد ہے، آپ خود فرماتے ہیں کہ بندۂ ضعیف احمد جسے والی اللہ کہتے۔

    تعلیم و تربیت : جب آپ کی عمر پانچ سال کی ہوئی، آپ کے والد نے آپ کو ایک مکتب میں داخل کیا، سات سال کی عمر میں آپ نے قرآن مجید ختم کیا پھر دیگر کتب کے مطالعہ میں مشغول ہوئے، آپ کے والد ماجد نے آپ کی تعلیم پر کافی دھیان دیا، پندرہ سال کی عمر میں آپ نے علومِ ظاہری کی تکمیل کی، اس سے فراغت پاکر آپ علومِ باطنی کی طرف متوجہ ہوئے، آپ کے والد ماجد آپ کو پندونصائح فرما کر علمِ مجلسی اور آدابِ محفل سکھایا کرتے تھے، آپ کے والد بزرگوار ہی نے آپ کو تصوف کی تعلیم بھی دی، آپ خود فرماتے ہیں کہ ”اور ان ہی سے علومِ ظاہرہ اور آدابِ طریقت سیکھے اور ان سے کرامات دیکھے اور مشکلات پوچھے اور ان سے اکثر فوائد طریقت کے سنے“

    بیعت و خلافت : پندرہ سال کی عمر میں آپ والد ماجد سے بیعت ہوئے، آپ کے والد ماجد کو کئی سلسلوں سے اجازت حاصل تھی، اس کے متعلق آپ خود فرماتے ہیں کہ ”اور ہمارے اور بھی سلاسل ہیں جن کے بعض میں بنا بر صحبت کے اتصال ہے اور بعض میں بنا بر بیعت یا خرقہ پوشی کے“ لیکن آپ اصلی سلسلۂ نقشبندیہ ہے، بیعت ہونے کے دو سال بعد آپ کو آپ کے والد نے خلافت عطا فرمائی اور آپ کو ارشادات اور بیعت کی اجازت دے کر اپنا خلیفۂ اعظم بنایا، آپ نے حضرت شیخ ابو طاہر مدنی سے بھی خرقہ پایا، یہ خرقہ ”جمیع خرقہ ہائے صوفیہ کا حاوی“ کہلاتا ہے۔

    والد کا وصال : ابھی آپ کی عمر پورے سترہ سال کی بھی نہیں ہوئی تھی کہ آپ کے والد ماجد کا وصال ہوگیا، ان کے وصال کے بعد آپ ان کی مسندِ رشدوہدایت پر جلوہ افروز ہوئے اور تعلیم و تلقین میں مشغول ہوگئے۔

    زیارتِ حرمین شریفین : آپ نے 1143ھ میں حج کا فریضہ ادا کیا، مدینۂ منورہ حاضر ہوکر فیوض و برکات سے مستفیض ہوئے، آپ مکہ اور مدینہ منورہ میں بہت سے علما اور مشائخین کی صحبت سے مستفید ہوئے ان متبرک شہروں میں کچھ عرصہ قیام کرکے آپ نے احادیث کی سندیں حاصل کیں۔

    واپسی : آپ 1145ھ میں دہلی واپس تشریف لائے اور دہلی میں اقامت گزیں ہوکر آپ نے درس و تدریس، رشدوہدایت اور تعلیم و تلقین میں اپنی زندگی صرف کردی۔

    شادی اور اولاد : آپ کی شادی پندرہ سال کی عمر میں ہوئی تھی، آپ کے صاحبزادے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا حال اگلے باب میں درج ہے، آپ کے دیگر فرزند مولانا شاہ رفیع الدین، مولانا شاہ عبدالقادر اور شاہ عبدالغنی ہیں۔

    وفات شریف : آپ کا وصال 19 محرم 1176ھ کو ہوا، آپ کا مزار دہلی میں ہے۔

    سیرتِ مبارک : آپ کا شمار ہندوستان کے علمائے عظام و فضلائے ذوی الاکرام میں ہے، آپ کی بزرگی اور عظمت سے کسی کو انکار کی جرأت نہیں ہے، آپ افضل ترین علمائے عصر تھے، معقول و منقول اور حقائق و معارف میں یکتائے روزگار تھے، آپ تمام عمر تلقین اور علومِ عقلی و نقلی کے درس دینے میں مصروف اور مشغول رہے، زندگی میں سادگی انتہا درجہ کی تھی۔

    آپ کا علمی ذوق : آپ نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں، آپ کی مشہور تصانیف حسبِ ذیل ہیں۔

    لمعاتِ ہمعاتِ قول جمیل فی بیان سواالسبیل، انفاس العارفین، مکتوب مدنی (اردو ترجمہ الملقب بہ فیصلہ وحدۃ الوجود والشہود) رسالہ دارالثمین فی مبشرات النبی الامین، مکتوبات مع مناقب ابی عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری و فیضلتِ ابنِ تیمیہ تفسیرِ قرآن، تفہیماتِ الٰہیہ، مکاتیبِ عربی، انتباہ فی اساد احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، خیرِ کثیر، قوالحبلی فی آثار الولی، بدو ربازغہ فیوض الحرمین، تاویل الاحادیث، خمسۂ رسائل، انصاف، قصیدہ اطیب النعم فی مدح سیدالعرب والعجم، عقد الجید، چہل حدیث مع شرح منظوم الموسوم بہ تسخیر۔

    شعروسخن کا ذوق : حسب ذیل اشعار آپ کے شعروسخن کے ذوق کا آئینہ دار ہیں، آپ کا تخلصؔ امین تھا۔

    من نہ دانم بادہ ام یابادہ را پیمانہ ام

    عاشقِ شوریدہ ام یا عشق باجانانہ ام

    مبتلائے حیرتم جاں گویمت یا جانِ جاں

    اصطلاحِ شوق بسیار است بین دیوانہ ام

    میل ہر عنصر بود سوئے مقرِّ اصلیش

    جذبۂ اصل است سرِّ سورشِ مستانہ ام

    شوقِ موسیٰ در ظہور آورد نارِ طور را

    در نہادِ شمع آتش می زند پروانہ ام

    اے امینؔ بر مستیم نام تہجد تہمت است

    در ازل پیشِ از زماں تعمیر شد میخانہ ام

    آپ کی تعلیمات : آپ کی تعلیمات علمِ ظاہر اور علمِ باطن کا ایک بیش بہا خزانہ ہیں۔

    آدابِ عالمِ حقانی : آپ فرماتے ہیں کہ ”میں وصیت کرتا ہوں، طالبِ حق کو چند امور کی از آنجملہ یہ ہے کہ اغنیا اور امرأ سے صحبت نہ رکھ مگر یہ نیت دفع کرنے ظلم کے خلق پر سے یا ان کو مستعد کرنے کے واسطے خیر پر صحبت نہ اختیار کرے، صوفیانِ جاہل کو اور نہ جاہلانِ عبادت شعار کی اور نہ فقیہوں کی جو زاہدِ خشک ہیں اور نہ محدثینِ ظاہری کی جو فقہ سے عداوت رکھتے ہیں اور نہ اصحابِ معقول اور کلام کی جو منقول کو ذلیل سمجھ کر استدلالِ عقلی میں افراط کرتے ہیں“

    طالبِ حق کے واسطے ضروری باتیں : آپ فرماتے ہیں کہ ”طالبِ حق کو چاہئے کہ عالم صوفی ہو، دنیا کا تارک ہردم اللہ کے دھیان میں حالاتِ بلند میں ڈوبا، سنتِ مصطفویہ میں راغت، حدیث اور آثارِ صحابۂ کرام کا متجسس، حدیث اور آثار کی شرح اور بیان کا طلب کرنے والا فقیہانِ عقائد کے کلام سے جن کے عقائد ماخوذ ہیں سنت سے جو ناظر ہیں دلیلِ عقلی میں بطریقِ عدم لزوم کے اور ان اصحابِ سلوک کے کلام سے جو جامع ہیں علم اور تصوف کے تشدد کرنے والے نہیں اپنے نفوس پر اور نہ دقت کرنے والے سنتِ نبویہ پر بڑھ کر اور نہ صحبت اختیار کرے مگر اس شخص سے جو متصف صفاتِ مذکورہ ہے۔

    گوشہ نشینی : آپ فرماتے ہیں کہ ”گوشہ نشین اس قدر ہے کہ امورِ صالحہ میں نقصان نہ ہو مثلاً عیادتِ مریض کی اور تعزیت مصیبت زدہ کی اور صولہ رحمی اور حاضریِ مجالسِ علم کی اور رفع خشونت طبع اور قبض خاطر کی اور مثل اس کے ان کے سوا باقی اوقات میں عزلت اور گوشہ نشینی کرے“

    چار عادتیں : آپ فرماتے ہیں کہ ”شرع شریف میں دوبارہ تہذیبِ نفس کے جو کچھ مطلوب ہے چار خصلتوں کا قائم کرنا اور ان کی اضداد کا نفی کرنا ہے، ان میں سے ایک تو طہارت ہے۔۔۔۔ دوم اللہ تعالیٰ کے واسطے خصوع کرنا اور دل کی بینائی کو اللہ تعالیٰ شانہٗ کی طرف متوجہ کرنا۔۔۔ سوم سماحت ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ نفس میں جب انتقام اور بخل اور حرص وغیرہ خواہشاتِ بہیمۂ خسیسہ کا مغلوب نہ ہووے۔۔۔ چہارم عدالت ہے اور وہ ایسی خصلت ہے کہ انصاف اور کلی سیاست کا انتظام قائم رکھنے کا صدور اسی خصلت سے ہوتا ہے“

    اقوالِ زریں :

    افراد انسان میں مختلف استعدادیں پیدا کی گئی ہیں اور ہر شخص اپنی استعداد کے موافق کمال پیدا کرتا ہے۔

    حوادث کے اسباب میں سے ایک سبب بخت بھی ہے۔

    ہر زمانے میں ایک قرن ہے اور ہر قرن میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی تقسیموں کا ایک علم ہے جو اہلِ قرن کو پہنچتا ہے۔

    بیعت سے مرید کو امر کرنا ہے مشروعات کا اور روکنا اس کو خلافِ شرع سے اور اس کی رہنمائی کی طرف تسکینِ باطنی کے اور دور کرنا بری عادتوں کا اور حاصل کرنا صفاتِ حمیدہ کا۔

    اوراد و وظائف : آپ کے اورادووظائف کشود کار کی کنجی ہیں، خاص خاص حسبِ ذیل ہیں۔

    غنائے باطنی و ظاہری کے واسطے آپ فرماتے ہیں کہ ہر روز گیارہ سو مرتبہ ”یامغنی“ اور چالیس بار ’’سورۂ مزمل“ پڑھنا چاہئے اور اگر چالیس بار نہ پڑھ سکے تو گیارہ بار پڑھے۔

    فاقے سے بچنے کے واسطے : آپ فرماتے ہیں کہ جو شخص سورۂ واقعہ کو ہر رات پڑھے اس کو فاقہ نہیں ہوتا۔

    حاجت پوری ہونے کے لئے : آپ فرماتے ہیں کہ اس آیت کو بارہ سور بارہ دن تک پڑھنا چاہئے، یا بدیعُ العجائبِ بالخیرِ یا بدیعُ۔

    حاکم کو مہربان کرنے کے لئے : آپ فرماتے ہیں کہ حاکم کے سامنے جس سے ڈرتا ہو جب جائے تو کہے کہ کٰھٰیٰعٓصٓ کُفیتُ حٰمّعٓسٓقٓ حُمِیتُ۔

    داہنے ہاتھ کی ہر انگلی کو بند کرے، لفظِ اول کے ہر حرف کے تلفظ کے ساتھ اور ہائیں ہاتھ کی ہر انگلی کو قبض کرے لفظ ثانی کے ہر حرف کے نزدیک پھر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں بند کئے جائے پھر دونوں کو کھول دے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے