Sufinama

حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    دلی کے بائیس خواجہ۔ باب 18

    حضرت مرزا جانِ جاناں شہیدِ زینتِ زماں، رکن جناں، مقتدائے اہلِ طریقت اور رہنمائے اربابِ حقیقت ہیں۔

    خاندانی حالات : آپ کا سلسلۂ نسب بتوسط محمد بن حنفیہ 28 واسطوں سے امام الاؤلیا حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ تک پہنچتا ہے، آپ کے آباواجداد آٹھ سو ہجری میں طائف سے ترکستان تشریف لائے جب ہمایوں نے ایران سے واپس آکر ہندوسان تخت و تاج کو زینت بخشی، اس کے ہمراہ محبوب خاں اور بابا خاں دو بھائی ہندوستان آئے، یہ دونوں بھائی اس خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا سلسلۂ نسب تین واسطوں سے امیر کمال الدین تک پہنچتا ہے، آپ کا نسب 4 واسطوں سے بابا خاں تک پہنچتا ہے۔

    نسب نامۂ مادری : آپ کا نسبِ مادری امیر صاحب قراں تک پہنچتا ہے۔

    والد بزرگوار : آپ کے والد ماجد یحرم خان نے اورنگ زیب کی خدمت میں زندگی گزاری، آخر عمر میں تارک الدنیا ہوگئے تھے، وہ طریقۂ قادریہ کے ایک بزرگ سے مستفید تھے۔

    ولادتِ باسعادت : آپ کی پیدائش اور کرامت کے متعلق مولانا رومی نے پانچ سو سال قبل تعریف فرمایا تھا۔

    جان در اول مظہر درگاہ شد

    جانِ جاناں خود مظہراللہ شد

    آپ نے 1113ھ میں اس عالم کو زینت بخشی، آپ کا نام شمس الدین ہے۔

    والد کا انتقال : جب آپ کی عمر سولہ سال کی ہوئی، آپ کے والد ماجد نے 1130ھ میں انتقال فرمایا۔

    تعلیم و تربیت : آپ نے علومِ متعارف والد ماجد کی حیات میں پڑھے تھے، حدیث کی کتابیں آپ نے شیخ المحدثین شیخ عبداللہ بن سالم مکی کے شاگرد حاجی محمد افضل سیالکوٹی سے پڑھیں، قرآن مجید آپ نے شیخ عبدالخالق شوقی کے شاگرد حافظ عبدالرسول دہلوی سے پڑھا، بیس سال کی عمر میں آپ کا دل دنیا سے سرد ہوگیا تھا، راہِ فقر میں قدم رکھا۔

    بیعت و خلافت : آپ حضرت سیدالسادات سید نور محمد بدایونی کی خدمت میں حاضر ہوئے، بیعت سے مشرف ہوئے اور طریقۂ نقشبندیہ کا خرقۂ خلافت حاصل کرکے معززوممتاز ہوئے، اپنے پیرومرشد کی خدمت میں رہ کر مجاہدات و ریاضات میں مشغول ہوئے، اپنے پیرومرشد کے وصال کے بعد نقشبندیہ سلسلے کے بہت سے بزرگوں سے مستفیدومستفیض ہوئے، بعد ازاں آپ ایک عرصے تک حضرت شیخ الشیوخ شیخ محمد عابد سنامی کی خدمتِ بابرکت میں رہ کر ان کے فیوضِ روحانی سے مالا مال ہوئے، ان سے خرقۂ اجازتِ طریقۂ قادریہ و سہروردیہ و چشتیہ حاصل کرکے رشدوہدایت و تربیتِ طالبانِ خدا میں مشغول ہوئے۔

    آخری ایام : آخر عمر میں آپ وظائف و عبادات میں زیادہ وقت گزارتے تھے، استغراق زیادہ بڑھ گیا تھا، بہت لوگ آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے، ملا نعیم کو جب آپ نے رخصت کیا، آبدیدہ ہوکر فرمایا کہ اب ہماری اور تمہاری ملاقات ہوتی نظر نہیں آتی، ایک روز خداوند تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ کوئی آرزوئے دل ایسی نہیں کہ جو پوری نہ ہوئی ہو، منعم حقیقی نے سلامِ حقیقی سے مشرف کیا، علم وافر بخشا، نیک عمل کی توفیق دی، استقامت کی کرامت عطا کی، لوازمِ طریقہ میں جو کچھ چاہئے تھا وہ سب کچھ دیا، کشف و تصرف و کرامت سے نوازا، صلحا کو کسبِ فیوض کے واسطے بھیجا اور ان کو مقاماتِ عالیہ تک پہنچایا، آپ نے شہادتِ ظاہری کی کہ جو قربِ الٰہی میں اونچا درجہ رکھتی ہے، آرزو ظاہر کی۔

    وصیت : آپ نے وصیت فرمائی کہ تجہیز و تکفین میں سنتِ رسول کو پوری پوری پابندی کی جائے، اپنے حلقۂ ارادت والوں کے لئے آپ نے وصیت فرمائی کہ آخر دم تک اتباعِ سنت کے پابند رہیں اور مقصودِ حقیقی کو حق تعالیٰ سے غیر اور متبوع واجب الاتباع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر نہ جانیں، رسوم و عاداتِ درویشوں سے واقف رہیں اور دنیا داروں کی صحبت سے اجتناب اور احتراز کریں، علومِ دینی سے اپنے کو محروم نہ رکھیں۔

    وفات شریف : بدھ کی رات 7 محرم کو نجف خاں کے لشکر کے ایک آدمی نے آپ پر قاتلانہ حملہ کیا، تین دل تک خون بہتا رہا، 10 محرم 1195ھ کو بعدِ نماز آپ نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔

    آپ کے خلیفہ : حضرت شاہ عبداللہ المعروف بہ شاہ غلام علی احمدی آپ کے ممتاز خلیفہ ہیں۔

    سیرتِ مبارک : علم عمل میں، آدابِ شریعت وطریقت میں، فصاحت و بلاغت میں اور ریاضت ومجاہدہ میں اپنی مثال آپ تھے، علمِ ظاہر و سلوکِ باطن میں اعلیٰ درجہ رکھتے تھے، قطبِ وقت تھے اور پیرِ کامل تھے۔

    علمی ذوق : آپ کے ملفوظات طیبات اور آپ کے مکتوبات سے آپ کے علمی ذوق اور قابلیت کا بخوبی پتہ چلتا ہے، آپ کے ملفوظات اور مکتوبات تصوف کا ایک بیش بہار خزانہ ہیں۔

    شعروسخن کا ذوق : آپ ایک خوش گو شاعر تھے، آپ کا کلام عارفانہ ہے جیسا کہ حسبِ ذیل اشعار سے ظاہر ہے۔

    محمد از تو می خواہم خدا را

    خدایا از تو عشقِ مصطفیٰ را

    دیگر

    غلامِ عشقم و لطف و کرم بہائے من است

    کسے کہ بندہ بخواند مرا خدائے من است

    خدا نہ کردہ برہم زبت کند فریاد

    تو واقفی کہ چہ از نالہ مدعائے من است

    دیگر

    جوش زد مستی و چشمِ دلبراں مے خانہ شد

    مشتِ خاکِ مے پرستاں چرخ زد پیمانہ شد

    مظہرِؔ خوش گوئے ما ز آغاز و اتمامش مپرس

    گشت از خوابِ عدم بیدار باز افسانہ شد

    دیگر

    چوں نبگرم در آئینہ عکسِ جمالِ خویش

    کردہ ہمہ جہاں تحقیقت مصورم

    روشن شود ز روشنی ذاتِ من جہاں

    گر پردۂ صفاتِ خودم را فرو درم

    تعلیمات : آپ کی تعلیمات زندگی کو بہتر و اعلیٰ بنانے کے لئے کافی ہیں۔

    نماز کی اہمیت : آپ فرماتے ہیں کہ ”نماز جامع کیفیات ہے کہ جو تلاوت، تسبیح، درود اور استغفار کے انوار، اذکار سے متضمن ہے، صحیح اور اصل ترین حالات نماز میں حاصل ہوتے ہیں، بشرطیکہ اس کے آداب بجا لائے جائیں“

    رمضان کی فضیلت : آپ فرماتے ہیں کہ ”رمضان المبارک میں نسبتِ باطنی کی بہت ترقی ہوتی ہے، روزہ میں غیبت اور جھوٹ سے پرہیز کرنا واجب ہے، ورنہ روزہ فاقہ سے زیادہ نہیں ہے“

    اعمال کی جزا : آپ فرماتے ہیں کہ ”جو کچھ تکلیف، آزار و اذیت ہم کو لوگوں سے پہنچتی ہے وہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے، اگر بڑوں سے ادب کے ساتھ اور چھوٹوں سے مہروشفقت کے ساتھ پیش آئیں تو کوئی شخص تمہارے ساتھ برائی نہیں کر سکتا“

    فتح الباب : طریقۂ مظہریہ میں اول اول جو بشارت کہ طابل کو عطا فرماتے ہیں وہ یہی فتح الباب کی بشارت ہے، اس وقت قلب کو جو اپنی اہلیت سے غافل ہوگیا تھا، اپنی اصل پھر یاد آتی ہے اور اپنے فوق کی جانب متوجہ ہوتا ہے، تھوڑی ہی مدت میں وہ نور کا شعلہ جو قلب سے اٹھنے لگا تھا اب قالب سے ظاہر ہوتا ہے۔

    انسان کا دل اصل فطرت میں روشن و منور پیدا ہوا ہے مگر عام طور پر کثرتِ تعلقات و موانع کے باعث کوئلہ کی مانند سیاہ و بے نور ہوگیا ہے، اسی وجہ سے وہ اپنے آپ اور اپنی اصل کو فراموش کر بیٹھا ہے لیکن وہ طاب صادق بن کر اور حسنِ عقیدت و ارادت اپنے ہمراہ لے کر کسی کامل شیخ و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوجائے تو وہ مرشد اس کی طرف متوجہ ہوکر اس کو ذکر کی تلقین کرتا اور اپنی توجہات اس کے حق میں مصروف کرتا ہے تو اس کی توجہات کی برکت سے ذکر کا نور اس کے قلب میں پیدا ہوجاتا ہے اور وہ سیاہ کوئلہ اب دہکنے لگتا ہے اور جب ذکر کے نور سے اس کا تمام دل منور ہوجاتا ہے تو اس کے دل سے نور کا ایک شعلہ اٹھتا ہے، اس کو طریقۂ مظہریہ میں فتح الباب کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

    نصائح :

    طریقِ ورع و تقویٰ اختیار کرو۔

    زندگی صبر و توکل کے ساتھ گزارو۔

    صحبتِ مشائخ میں رسوخ بڑھاؤ، کیوں کہ دوستانِ خدا کی دوستی موجبِ قربِ خدا کا ہے۔

    قناعت اختیار کرو۔

    حرص و طمع کو دل سے نکالو۔

    یار و اغیار سے ناامید ہو اور ان کا ہونا نہ ہونا برابر سمجھو۔

    کسی کو حقارت سے مت دیکھو۔

    اپنے کو سب سے زیادہ کم تر و قاصر جانو۔

    اپنی طاعت و عبادت پر ناز مت کرو۔

    جتنا ممکن ہو مخالفتِ نفس کرنی چاہئے لیکن اس قدر بھی نہیں کہ تنگ ہوجائے اور طاعت میں نشاطِ شوق نہ بڑھے۔

    اوراد و وظائف : آپ کے خاص اورادووظائف حسبِ ذیل ہیں۔

    رحت دل کے لئے آپ فرماتے ہیں کہ دعائے حزب البحر ہر روز پڑھنا چاہئے۔

    برائے دفعِ شر : آپ فرماتے ہیں کہ آفات سے محفوظ رہنے کے لئے صبح و شام سورۂ لایلاف پڑھنا چاہئے، دفع شر کے لئے فجر کے نماز کے بعد سورۂ لایلاف ایک سو ایک بار پڑھیں، یا گیارہ مرتبہ، شروع اور آخر میں پانچ پانچ بار درود پڑھنا ضروری ہے۔

    خیروبرکت کے لئے ختم خواجگان اور ختم حضرت مجدد صبح کی نماز کے بعد پابندی سے پڑھنا موجبِ خیروبرکت ہے۔

    کرامات : نجف خاں کا غلام جس نے آپ پر حملہ کیا تھا اسی سال مرگیا، تمام توابع و حواشی بھی ختم ہوگئے، فخرِزماں و قطبِ دوراں حضرت شاہ محمد آفاق دہلوی آپ کی دعا سے پیدا ہوئے تھے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے