Sufinama

خواجہ باقی باللہ نقشبندی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

خواجہ باقی باللہ نقشبندی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    دلی کے بائیس خواجہ۔ حصہ چہارم۔ باب 14

    حضرت خواجہ باقی باللہ شمس حقیقت، شہبازِ طریقت اور جانِ شریعت ہیں، آپ رفیع المرتب اور خیرالمناقب ہیں۔

    خاندانی حالات : نانا کی طرف سے آپ کا سلسلہ حضرت خواجہ احرار کے نانا حضرت شیخ عمر یاغستانی تک پہنچتا ہے، آپ کی نانی خاندانِ سادات سے تعلق رکھتی تھیں۔

    والدماجد : آپ کے والد کا نام قاضی عبدالسلام ہے، حضرت قاضی صاحب نے کابل میں سکونت اختیار کر لی تھی، ان کا شمار اہلِ علم اور اربابِ کمال میں ہوتا تھا، آپ تصوف اور فقہ اور حدیث میں اپنی نظیر آپ تھے، مذہبی تقدس کے ساتھ ساتھ حضرت قاضی صاحب دنیاوی اعزاز اور دولت کے بھی مالک تھے۔

    ولادت شریف : آپ کابل میں پیدا ہوئے، آپ کی تاریخِ ولادت میں اختلاف ہے، بعض نے آپ کی تاریخِ پیدائش 971ھ اور بعض نے 972ھ لکھی ہے۔

    نام نامی : آپ کا نام سید رضی الدین ہے، آپ خواجہ محمد باقی باللہ کے نام سے مشہور ہیں۔

    تعلیم و تربیت : آپ کے والد کی تعلیم و تربیت سے غافل نہ تھے، جب آپ پانچ سال کے ہوئے آپ کو ایک مکتب میں داخل کردیا، مکتب میں قرآن مجید ختم کیا، ابتدائی علوم سے فارغ ہوکر آپ مولانا صادق حلوائی کی خدمت میں پہنچے، آپ ان کےساتھ کابل سے ماوراالنہر گئے، ابھی علومِ رسمیہ پورے ہونے میں کچھ دیر تھی کہ آپ نے تصوف کے راستے میں قدم رکھا، ماوراالنہر کی ایک علمی مجلس کے ایک فاضل رکن نے افسوس کیا کہ آپ نے اتنی جلدی علومِ رسمیہ کی تحصیل کو کیوں ترک کردیا، جب آپ نے یہ سنا تو فرمایا کہ وہ مشکل سے مشکل کتاب پیش کریں، اگر ان کی تسلی اور تشفی نہ ہو تو ان کا افسوس حق بجانب ہوگا۔

    تلاشِ حق : آپ نے تحصیلِ علومِ ظاہری کی بجائے علومِ باطنی کے اکتساب میں کوشش کرنا شروع کی، آپ ماوراالنہر میں درویشوں، فقیروں اور اہلِ دل کی تلاش میں گھوما کرتے تھے، اسی تلاش میں آپ بلخ، بدخشاں اور سمرقند تشریف لے گئے، لاہور میں تشریف لائے جن بزرگوں کے روحانی فیوض و برکات سے آپ مستفید ومستفیض ہوئے ان میں حضرت خواجہ عبید، حجرت امیر عبداللہ بلخی، حضرت شیخ سمرقندی، حضرت شیخ بابائی والی قابلِ ذکر ہیں۔

    مجذوب سے ملاقات : لاہور میں ایک مجذوب رہا کرتا تھا، آپ نے اس سے ملنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے آخر کار ایک دن اس مجذوب نے آپ کو اپنے پاس بلا کر بہت سی دعائیں اور بہت سی باطنی نعمتیں دیں۔

    بیعت و خلافت : لاہور سے ماوراالنہر تشریف لے گئے، آپ نے حضرت خواجہ امکنگی کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں کہ

    ”اے فرزند ! ہم تمہارے منتظر ہیں، جلد آو اور ہمارے انتظار کی تشویش کو دور کرو“

    آپ جلد ہی حضرت خواجہ امکنگی کی خدمتِ بابرکت میں پہنچے، آپ نے ان سے بیعت کی، حضرت خواجہ امکنگی نے تین شبانہ روز اپنے اس رکھا، یہ تین دن آپ نے خلوت میں گزارے، ان تین دن میں آپ اپنے پیرومرشد حضرت خواجہ امکنگی کے احوال اور مقامات سے بخوبی واقف ہوئے اور ان کے فیوضِ باطنی اور دیگر فوائد سے بہرہ مند ہوئے، آپ کے پیرومرشد نے آپ کو خلافت سے مشرف فرمایا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند کی روحِ پُرفتوح سے بھی فیض یاب ہوئے ہیں۔

    ہندوستان میں قیام : اپنے پیرومرشد کے حکم کے مطابق ہندوستان تشریف لائے اور دوبارہ لاہور پہنچ کر ایک سال وہاں قیام فرمایا، لاہور سے سکونت ترک کرکے آپ دہلی میں رونق افروز ہوئے، دہلی میں آپ نے قلعۂ فیروزی میں قیام فرمایا، آپ پانچوں وقت کی نماز مسجدِ فیروزی میں ادا کرتے تھے۔

    ازواج و اولاد : آپ نے دو شادیاں کی آپ کے دو لڑکے ہوئے، حضرت خواجہ محمد عبید اللہ ایک بیوی سے ہیں اور حضرت خواجہ محمد عبداللہ دوسری بیوی سے، حضرت خواجہ محمد عبداللہ اپنے بڑے خواجہ محمد عبیداللہ سے چار سال چھوٹے ہیں، یہ دونوں بھائی دو سال کے بھی نہ ہوئے تھے کہ والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔

    وفات : آپ نے 25 جمادی الآخر 1012ھ میں رحلت فرمائی، وفات کے وقت آپ کی عمر چالیس کی تھی، آپ کا مزارِ مبارک دہلی میں مرجع خاص و عام ہے۔

    آپ کے خلفا : آپ کے خلفا میں حضرت شیخ احمد سرہندی جو مجدد الف ثانی کے خطاب سے مشہور ہیں، سب سے زیادہ عالم، کامل اور ممتاز تھے، آپ نے حضرت شیخ احمد سرہندی کو تاکید فرمائی تھی کہ ان کے دونوں لڑکوں کو کچھ دن اپنی صحبت میں رکھیں، ان دونوں کو تعلیم و تلقین سے بہرہ مند کریں۔

    آپ کے دیگر ممتاز خلفاء حسبِ ذیل ہیں:

    شیخ تاج الدین سنبھلی، خواجہ حسام الدین، شیخ الہداد۔

    سیرتِ مبارک : حضرت خواجہ باقی باللہ سلسلۂ نقشبندیہ میں ایک نمایاں اور ممتاز درجہ رکھتے ہیں، سلسلۂ نقشبندیہ کی ہندوستان میں مقبولیت کا راز حضرت خواجہ باقی باللہ کی پُرکشش ذاتِ والا صفات میں مضمر ہے، آپ تواضع، خشوع و خضوع، عجز و انکساری میں اپنی نظیر آپ تھے، آپ عزلت اور گوشہ نشینی کو پسند فرماتے تھے، آپ زیادہ تر خاموش رہتے تھے، بہت کم بولتے تھے، درویشوں، عالموں، سادات کی بے حد عزت کرتے تھے، شفقت، ترحم اور عفو و درگذر میں آپ لاثانی تھے، رفعتِ طبع کا یہ حال تھا کہ کسی کی تکلیف نہیں دیکھ سکتے تھے، آپ نے تحمل اور بردباری، زہد و استغنا فیاضی، سادہ مزاجی اور احتیاط کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کیا، آپ عبادات اور مراقبہ میں مشغول رہتے تھے، آپ تفرید میں اعلیٰ مرتبہ رکھتے تھے، آپ کا شوکتِ وقار آپ کے چہرے سے نمایاں تھا، آپ کی عظمت اور علوِ مرتبت کے سب معترف تھے۔

    علمی ذوق : آپ نے ایک رسالہ بھی تحریر فرمایا ہے یہ رسالہ آیت کریمہ وَھُوا معلم اینما کنتم اور اینما تولّوُ فَثَمَّ وجہُ اللہِ کی تفسیر ہے، آپ کے مکتوبات بھی آپ کے علمی ذوق کا آئینہ دار ہیں، آپ کو شعروشاعری کا بھی ذوق تھا، آپ نے اپنے دونوں لڑکوں کی پیدائش پر قصیدے لکھے ہیں۔

    آپ کی تعلیمات : نقشبندیہ سلسلہ کی بنیاد چند اصلاحات پر ہے، وہ حسبِ ذیل ہیں۔

    ہوش دردم، نظر برقدم، سفر در وطن، خلوت در انجمن، یاد کرد، باز گشت، نگہداشت، یاد داشت ان کے علاوہ تین اور اصطلاح ہیں جو حسبِ ذیل ہیں۔

    وقوفِ زمانی، وقوفِ قلبی، وقوفِ عددی۔

    آپ کی تعلیمات معارف و حقائق کا خزانہ ہیں۔

    توکل : آپ نے فرمایا کہ

    توکل یہ نہیں ہے کہ اسباب کو چھوڑ کر بیٹھ جائیں بلکہ توکل کا مطلب یہ ہے کہ اسبابِ مشروع کو اختیار کریں اور سبب کی طرف نظر نہ کریں“

    قطعِ علائق : آپ نے فرمایا کہ

    ”قطع علائق سے مراد یہ ہے کہ دل دنیا اور آخرت کی تمام نعمتوں سے رِہا ہوجائے اور تمام احوال اور مشاہدات سے یک سوئی اور بے نیازی ہوجائے اور کش و قلق دائمی احدیت کی طرف ہو“

    اقوالِ زریں :

    زہر یہ ہے کہ آدمی رغبت کے کاموں سے باز آئے۔

    قناعت فضول چیزوں سے نکل جانے اور بقدرِ حاجت پر اکتفا کرنے اور کھانے پینے اور رہنے کی چیزوں میں اسراف سے پرہیز کو کہتے ہیں۔

    صبر لذاتِ نفس سے نکل جانے اور مرغوب و محبوب اشیا سے باز رہنے کو کہتے ہیں۔

    پیر، تین طرح کے ہوتے ہیں، ایک پیرِ خرقہ، دوسرے پیرِ تعلیم، تیسرے پیرِ صحبت۔

    جو لوگ خدا کے آگے گردنِ تسلیم و رضا خم کئے ہوئے ہیں وہ مصیبت و بلا کو بلا کی صورت میں نہیں دیکھ سکتے۔

    دوامِ مراقبہ بہت بڑی دولت ہے جو دلوں میں مقبولیت کا سبب ہوتی ہے۔

    اوراد و وظائف : ذکر کے علاوہ آپ اثباتِ مجرد کی تلقین فرماتے تھے یعنی فقط اللہ کا ذکر کیاجائے، بدونِ نفی اور اثبات کے کچھ کو آپ ذکرِ قلبی کی تعلیم فرماتے، کچھ کو لا الٰہ اِلّا اللہ اور کچھ اسمِ اللہ کا ذکر کراتے تھے۔

    کشف و کرامات : وفات سے کچھ دن قبل آپ نے فرمایا کہ بعض خوابوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نقشبندی سلسلے کا کوئی بڑا شخص عنقریب فوت ہونے والا ہے۔

    ایک روز آپ کے سائیس کا لڑکا آپ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ اس کے باپ کے پیٹ میں سخت درد ہے، آپ نے فرمایا کہ اس نے گھوڑے کا حق لیا ہے، گھوڑے کا حق گھوڑے کو واپس کردے گا، اچھا ہوجائے گا، اس لڑکے نے اپنے باپ سے جاکر آپ کا فرمان سنایا۔،سائیس نے کہا کہ واقعی گھوڑے کا حق غصب کیا ہے، کچھ روغن اور دانہ گھوڑے کو دیا اور وہ اسی وقت اچھا ہوگیا۔

    آپ کے پڑوس میں ایک شخص رہتا تھا، اس پر ایک حاکم نے جبروتشدد کیا اور اس کو گھر سے نکال دینے کی کوشش کی، یہ خبر آپ کے پاس پہنچی، آپ نے اس ظالم حاکم سے فرمایا کہ محلے میں فقرا رہتے ہیں، ظلم کرنا جائز نہیں وہ ظالم حاکم حکومت کے نشے میں اتنا چور تھا کہ آپ کے کہنے کی کچھ پرواہ نہ کی، ایک بار اور آپ نے اس کو نصیحت فرمائی، اس پر کچھ اثر نہ ہوا، دو تین دن کے بعد وہ ظالم حاکم چوری کے الزام میں گرفتار ہوا اور معہ اپنے رشتہ داروں اور گھر والوں کے قتل کیا گیا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے