Sufinama

حضرت مخدوم سماؤالدین سہروردی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت مخدوم سماؤالدین سہروردی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    دلی کے بائیس خواجہ۔ باب 13

    حضرت مخدوم سماؤالدین سہروردی دہلوی شمعِ انجمنِ توفیق، رکنِ روزگار، صاحبِ اسرار ہیں، تاج الاؤلیا اور سراج الاتقا ہیں۔

    خاندانی حالات : آپ کا سلسلۂ نسب سولہ واسطوں سے حضرت مصعب بن حضرت زیبر تک اس طرح پہنچتا ہے۔

    مخدوم سماؤالدین بن مولانا شیخ فخرالدین بن شیخ جمال الدین بن اسمٰعیل بن ابراہیم بن شیخ حسن بن شیخ کمال الدین بن شیخ حسن بن عیسیٰ بن نوح بن محمد سلیمان بن داؤد بن یعقوب بن ایوب بن ہادی بن عیسیٰ بن مصعب بن زبیر۔

    والد ماجد : آپ کے والد ماجد کا نام شیخ فخرالدین ہے جو سید صدرالدین محمد عرف راجو قتال کے مرید تھے۔

    بھائی : حضرت مولانا مخدوم شیخ اسحاق دہلوی آپ کے بڑے بھائی ہیں۔

    ولادت شریف : آپ 808ھ میں ملتان میں پیدائے۔

    نامِ نامی : آپ کا نام سماؤالدین ہے۔

    تعلیم و تربیت : آپ نے میر سید شریف جرجانی کے مشہور شاگرد مولانا ثناؤالدین سے علومِ ظاہری کی تحصیل و تکمیل کی اور فقہ، حدیث اور تفسیر میں دستگاہ حاصل کی، آپ کا شمار صاحبِ کمال اور سر آمد فضلائے روزگار میں ہونے لگا، علومِ باطنی کی تحصیل آپ نے اپنے والد ماجد سے کی، بارہ برس کی عمر میں آپ کے والد بزرگوار آدھی رات کے وقت اپنی خلوتِ خاص میں بلا کر آپ کو پندونصائح کرتے تھے اور اسرارِ الٰہی و رموز و نکات کی تعلیم و تلقین فرماتے تھے، آپ کے لئے نہایت خشوع و خضوع سے دعا کرتے تھے۔

    ”الٰہی اپنے کرمِ عمیم و لطفِ عظیم سے سماؤالدین کو سعادتِ ابدی و دواتِ سرمدی عطا فرما“

    بیعت و خلافت : اگر چہ آپ کے والدماجد آپ کے مرشدوپیر تھے لیکن آپ نے خرقۂ خلافت و ارشاد حضرت شیخ کبیرالدین اسمٰعیل سے جو شیخِ کبیر کہلاتے تھے حاصل کیا، آپ حضرت شیخ کبیر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت سے مشرف ہونے کی درخواست کی اور عرض کیا کہ ان کے کمالات میں ایسی صورت میں کچھ کمی نہ آئے گی۔

    کم نہ گردد تابشِ خورشید اگر

    در بدخشاں لعل سازد سنگ را

    ترجمہ : سورج کی روشنی میں کمی نہ ہوگی اگر بدخشاں میں پتھر کو لعل کرے۔

    حضرت شیخ کبیر نے فرمایا کہ وہ اپنے بھائی حضرت شیخ فضل اللہ سے ان کو خرقہ دلائیں گے، آپ نے چند بار عرض کیا لیکن وہی جواب ملا، آخر آپ نے ایک دن عرض کیا کہ

    ”بنا ارادت و معاملہ پیری و مریدی ربطِ قلب سے متعلق ہے، میں اس رابطہ کو حضور کے ساتھ مستحکم اور مستقیم پاتا ہوں“

    گر لطف کنی ور نکنی در نگذارم

    من در تو گرفتیم دگر جائے ندارم

    ترجمہ : اگر آپ مہربانی کریں یا نہ کریں، در نہیں چھوڑوں گا، میں نے تمہارا در پکڑ لیا ہے دوسری جگہ نہیں ہے۔

    یہ سن کر حضرت شیخ کبیر بہت خوش ہوئے، آپ کو بغل میں لیا، اپنے حجرۂ خاص میں لے جاکر مریدی کا شرف بخشا اور ذکرِ تلقین فرمایا، بعد ادائے دوگانہ آپ کو خرقۂ خاص سے سرفراز فرمایا۔

    خرقۂ خاص سے سرفراز ہونے کے بعد آپ کو خیال آیا کہ اب بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تعلیمِ ظاہری کو ترک کرکے تصفیۂ باطن میں مشغول ہونا چاہئے، آپ کے پیرومرشد آپ کے اس خیال سے آگاہ ہوئے، انہوں نے آپ سے فرمایا کہ

    ”بِناءِ شرع و اساسِ دین علم سے قائم ہے، اسے ترک نہ کرو، میں نے خداوند تعالیٰ سے چاہا ہے کہ اہلِ ظاہروباطن دونوں تم سے فائدہ اٹھائیں اور جس طرح ہمارے پیرانِ طریقت نعمتِ صدری و دولتِ معنوی سے معمور ہوئے ہیں، مجھ کو امید ہے کہ تم بھی مثل ان کے آراستہ و پیراستہ ہو“

    شجرۂ طریقت : آپ کا شجرۂ طریقت حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی تک اس طرح پہنچتا ہے۔

    ”سماؤالدین مرید اپنے والد حضرت شیخ فریدالدین و حضرت شیخ کبیر و مرید حضرت سید صدرالدین محمد عرف راجو قتال و مرید حضرت سید احمد کبیر و مرید حضرت شیخ رکن الدین ابوالفتح و مرید حضرت شیخ صدرالدین عارف و مرید حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا و مرید حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی۔

    ترکِ سکونت : ملتان سے سکونت ترک کرکے آپ کچھ عرصہ انتبور اور بیانہ میں رہے پھر سلطان بہلول لودی کے زمانے میں رونق افروز ہوئے اور وہیں سکونت اختیار کی۔

    بادشاہوں کی باریابی : سلطان بہلول لودی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے اس کو نصیحت فرمائی۔

    ”اے بادشاہ تونے بڑھاپے میں سلطنت پائی ہے، خدا سے ڈر اور کذب و معصیت سے بچتا رہ، اس کا شکر بھیج، شکرِ نعت کو بڑھاتا ہے، لئن شکر تم لازیدنّکم (شکر کروگے تو اور دوں گا) اور معصیت سے کنارہ کش ہو، لئن کفرتم اِنَّ عذابی لَشدیدٌ (اگر ناشکری کروگے تو میرا عذاب سخت ہے) میں داخل نہ ہوجاوے“

    آپ نے اپنا مصلائے خاص بادشاہ کو عنایت فرمایا، بادشاہ نے مصلیٰ سر پر رکھا اور واپس ہوا۔

    سلطان بہلول لودی کے انتقال کے بعد اس کا لڑکا نظام خان جو سلطان سکندر لودی کے لقب سے مشہور ہے، دہلی سے روانگی سے قبل آپ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوا اور استدعا کی کہ ”میں میزان الصرف حضرت سے پڑھنا چاہتا ہوں“ اس نے سبق کے بہانے سے اسعدک اللہ فی الدارینِ کے معنیٰ آپ سے پوچھے، آپ نے فرمایا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ”نیک بخت کرے تجھ کو خدائے تعالیٰ دونوں جہان میں“ شہ زادہ نظام خاں نے عرض کیا پھر فرمائے کہ اس طرح تین مرتبہ تکرار کرائی پھر اس نے آپ کے ہاتھ چومے اور بصد عاجزی عرض کیا کہ میری مراد حاصل ہوگئی، میں یہی چاہتا تھا کہ آپ کی زبانِ مبارک سے یہ کلمات نکلیں“

    آپ کو اس کا حسنِ ادب بہت پسند آیا، آپ نے کچھ دیر مراقبہ کیا اور پھر زبانِ فیضِ ترجمان سے فرمایا کہ

    ”نظام ! میں نے خدا سے چاہا کہ تو سکندرِ وقت ہو اور بہت بندگانِ خدا تجھ سے فائدہ اٹھائیں“ چنانچہ نظام خاں سلطان سکندر لودی کے لقب سے مشہور ہوا۔

    شادی اور اولاد : آپ کے دو لڑکے تھے، ایک حضرت شیخ عبداللہ بیابانی اور دوسرے حضرت نصیرالدین جو آپ کے قائم مقام اور جانشین تھے۔

    آخری ایام : آپ کے خاص مرید اور خلیفہ حضرت مولانا شیخ جمالی نے سفیرِ بیت اللہ سے واپس آکر آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت شیخ عبداللہ بیابانی سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا اور ان کو آپ کی خدمت میں لانے کی خواہش کا اظہار کیا، یہ سن کر آپ بہت خوش ہوئے، حضرت شیخ جمالی کو سینے سے لگایا اور ان کو ملبوسِ خاص عطا فرمایا، ایک خط لکھ کر آپ کے حوالے کیا، سرنامہ پر یہ شعر تحریر فرمایا کہ

    طاقتِ صبر مرانیست دریں بحرِ طویل

    قدمِ زود بنہ بر سرِ ایں پیرِ علیل

    دوسرے دن حضرت شیخ جمالی کو بلا کر فرمایا کہ

    واللہ اعلم میرے فرزند شیخ عبداللہ کا دیدار تم کو میسر ہو کہ نہ ہو، میں نہیں چاہتا تھا کہ تم میرے پاس سے جدا ہو جاؤ، میرے جنازے کی نماز کے لئے حاضر ہو۔

    وفات شریف : اس کے ایک ہفتہ بعد 17 جمادی الاولیٰ 901ھ کو آپ رحمتِ حق میں پیوست ہوگئے۔

    مدفن : وفات سے چند سال قبل آپ نے قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو خواب میں دیکھا کہ آپ حوضِ شمسی کے کنارے کھڑے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ جگہ تمہاری ہے، چنانچہ آپ کا مزارِ پُرانوار مہرولی میں حوض شمسی کے قریب مرجع خلائق ہے، آپ کا عرس ہر سال ہوتا ہے، ”قضا“ ”مہتاب جنت“ اور ”عارف متقی“ آپ کی وفات کی تاریخیں ہیں۔

    آپ کے خلفا : آپ کے ممتاز خلفا حسبِ ذیل ہیں۔

    حضرت نصیرالدین ، مولانا شیخ جمالی، شیخ ادہن۔

    سیرِ پاک : آپ جامعِ علومِ شریعت و طریقت تھے، آپ کی سخاوت کا یہ حال تھا کہ ہزاروں روپئے آتے تھے لیکن آپ فتوح کر روپیوں میں سے کچھ بھی نہ بچاتے تھے، سب رقم فقرا، غربا، مساکین اور یتیوں پر خرچ کر دیتے تھے، اکثر قرض لے کر آپ دوسروں کی ضروریات پوری کرتے تھے، آپ کی ذات والا صفات صوری و معنوی خوبیوں سے متصف تھی، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ

    ’’شیخ سماؤالدین ورع و تقویٰ اور علومِ رسمی و حقیقی کے جامع تھے، جذبِ خاطر میں آپ کو تصرف کامل تھا جس بیمار کو بہ نگاہِ لطف دیکھ لیتے، امراضِ روحانی سے سینہ اس کا پاک ہوجاتا اور جس طالب کی طرف مسکرا کر نظر کرتے اس کا دامن امیدگل ہائے مراد سے بھرتا جاتا“

    علمی ذوق : آپ نے لمعات شیخ الدین عراقی پر حواشی تحریر فرمائے ہیں، ایک رسالہ ”مفتاح الاسرار“ آپ کی علمی یادگار ہے۔

    تعلیمات : آپ فرماتے ہیں کہ ”تین شخص خداوند تعالیٰ کے انعام مستدام سے محروم رہیں گے، اول وہ بوڑھے جو معصیت میں ڈوبے ہوئے ہیں دوسرے وہ جوان جو بہ امیدِ توبہ گناہ نہیں چھوڑتے، تیسرے بادشاہ دروغ گو“

    قولِ صادق : صورت کی ریزہ چینی سے مراد یہ ہے کہ درویشوں کے طریق حالی کے اختیار اور تتبع کی توفیق نہ ہو تو ان کے اقوال، افعال اور اعمال ہی کی متابعت کی جائے تاکہ درویشوں کی ظاہری صورت کا اثر کدروتِ باطنی کے زنگ کو دور کردے۔

    اورادووظائف : آپ آدھی رات کو اٹھ کر وضو کرکے نماز پڑھتے تھے، ایک پہر نوافل پڑھتے تھے پھر صبح تک مراقبہ میں رہتے تھے نمازِ فجر، نمازِ چاشت اور نمازِ اشراق ادا کرتے تھے، ظہر کی نماز سے فارغ ہوتے، عصر کی نماز کے بعد سے مراقبے میں رہتے، مغرب کی اذان سن کر آنکھیں کھولتے، مغرب کی نماز اور نوافل اوّابین ادا کرتے پھر مراقبہ کرتے اور عشا کی نماز ادا کرکے دولت خانہ تشریف لے جاتے۔

    کشف و کرامات : حضرت شیخ جمالی بیت اللہ سے واپس ہوکر گجرات تک آئے ہوں گے کہ آپ نے فرمایا ”الحمد اللہ جمالی نے مراجعت کی“ چند دن کے بعد ایک شخص ادھر سے آیا ور اس نے حضرت جمالی کی آمد کی خبر دی۔

    حضرت جمالی بیان کرتے ہیں کہ سفر میں آپ کو بہت خطرات پیش آئے، بعض اوقات ایسا ہوا کہ زندگی سے بھی نا امید ہوگئے، ایسے موقعوں پر انہوں نے آپ کو اچھی طرح سے دکھا کہ خوشی خوشی ان کو برگِ پان دیتے ہیں اور ہمت باندھتے ہیں اور اطمینان دلاتے ہیں، حضرت جمالی فرماتے ہیں کہ آپ کی اس دستگیری و اعانت سے وہ زحمت فی الفور راحت و اطمینان میں تبدیل ہوگئی۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے