Sufinama

خواجہ محی الدین کاشانی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

خواجہ محی الدین کاشانی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    دلی کے بائیس خواجہ۔ باب 11

    حضرت خواجہ محی الدین کاشانی عارفِ ربانی، نظام الحقیقت اور نصیرالطریقت ہیں۔

    خاندانی حالات : آپ کے بزرگان نے ایک عرصے تک مالکِ طبرستان میں حکومت کی، ان کا دارالخلافت کاشان تھا، آپ کے داد حضرت خواجہ قطب الدین کاشانی کو چنگیز خاں کی قتل و غارت گری نے ترکِ سکونت پر مجبور کیا، آپ سلطان شمس الدین التمس کے عہد میں ہندوستان تشریف لائے، آپ ملتان میں رہتے تھے اور علیحدہ مدرسے میں پڑھایا کرتے تھے، آپ علم و دیانت میں مشہور تھے، حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی روز وہاں جاکر نماز ادا کرتے تھے، ایک روز قاضی صاحب نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیوں اپنے یہاں سے اس قدر دور آکر اور مقتدی بن کر نماز ادا کرتے ہیں، حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا نے جواب دیا کہ ”اس حدیث پر عمل کرتا ہوں” من صلی خلف عالم تقی کانہ صلی خلف نبی مرسل“ (جس نے پرہیزگار عالم کے پیچھے نماز ادا کی گویا اس نے نبیِ مرسل کے پیچھے نماز ادا کی) آپ ملتان سے دہلی تشریف لائے، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ بادشاہ نے آپ کو طلب کیا، جب آپ تشریف لے گئے، بادشاہ حرم گاہ میں تھا اور سید نورالدین مبارک بادشاہ کے دائیں طرف اور قاضی فخرالائمہ بادشاہ کے دوسری طرف حرم گاہ سے باہر بیٹھے ہوئے تھے، قاضی صاحب جب باہر تشریف لائے، انہوں نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ کہاں بیٹھئے گا؟ قاضی صاحب نے جواب دیا کہ

    ”علوم کے سائے کے نیچے“

    جب آپ بادشاہ کے قریب پہنچے اور سلام کیا، بادشاہ آپ کی تعظیم کے لئے کھڑا ہوا، آپ کا دستِ مبارک پکڑا، آپ کو حرم گاہ کے اندر لے گیا اور نہایت عزت سے اپنے پاس بٹھایا، آپ کے سپرد بادشاہ نے قضا اودھ کا ممتاز عہدہ کیا اور آپ اس عہدۂ جلیلہ پر فائز رہ کر اپنے فرائض بہ حسن و خوبی انجام دیتے رہے۔

    والد ماجد : آپ کے والدماجد کا نام حضرت قاضی جلال الدین کاشانی ہے، اپنے والد حضرت قاضی قطب الدین کاشانی کی وفات کے بعد ان کی جگہ قضا اودھ کے عہدے پر مامور ہوئے۔

    سلسلۂ نسب : آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے۔

    قاضی محیدالدین کاشانی بن قاضی جلال الدین کاشانی بن قاضی قطب الدین کاشانی از اولاد حضرت زید اسود بن سید ابراہیم بن سید محمد اسی بن امام قاسم اسی بن حضرت ابراہیم طباطبا سلطان طبرستان بن حضرت اسمٰعیل بن حضرت ابراہیم حضرت عمر بن حضرت حسن مثنیٰ بن حضرت امام حسن علیہ السلام بن امام لاؤلیا حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہٗ۔

    نام : آپ کا نام محی الدین ہے لیکن آپ مشہور قاضی محی الدین کاشانی کے نام سے ہیں۔

    تعلیم و تربیت : آپ کی ابتدائی تعلیم والدماجد کی آغوشِ عاطفت میں ہوئی، علومِ ظاہری کی تحصیل و تکمیل سے آپ جلد ہی فارغ ہوگئے اپنے والد کے انتقال کے بعد آپ نے قضا اودھ کے ممتاز عہدے کو عزت و زینت بخشی۔

    والد کا وصال : اپنے والد کے انتقال کے بعد آپ نے قضا اودھ کے ممتاز عہدے کو عزت و زینت بخشی۔

    بیعت و خلافت : کچھ عرصے قضا کے عہدے پر مامور رہنے کے بعد آپ کا دل دنیا سے اور دنیاوی معاملات سے یک سر سرد ہوگیا، آپ کو محبوبِ الٰہی حضرت نظام الدین اؤلیا کے حلقۂ ارادت میں داخل ہونے کی سعادت حاصل کرنے کی تمنا حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمتِ بابرکت میں لے گئی، حضرت محبوبِ الٰہی نے بیعت سے آپ کو مشرف فرمایا اور پھر خرقۂ خلافت سے آپ کو سرفراز فرمایا۔

    حضرت محبوبِ الٰہی کا عطیہ : حضرت محبوبِ الٰہی نے آپ کو اپنا ایک کمبل عنایت فرمایا، آپ اس کمبل کو تعظیم و تکریم کے ساتھ اپنے گھر لائے اور بہت احتیاط سے ایک صندوق میں رکھ دیا، اس کمبل میں نہایت عمدہ خوشبو بسی ہوئٰ تھی، آپ اسی طرح سے صندوق کھولتے رہے اور کمبل کی زیارت کرتے رہے، کئی سال گزر گئے لیکن کمبل کی خوشبو میں کوئی کمی نہ ہوئی، آپ کو سخت تعجب ہوا، آخر ایک دن کمبل کو خوب اچھی طرح دھویا جتنا آپ کمبل کو دھوتے جاتے خوشبو تیز ہوتی جاتی تھی، یہ واقعہ آپ نے اپنے پیرومرشد حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں عرض کیا، حضرت محبوبِ الٰہی نے چشمِ پُرآب ہوکر فرمایا کہ

    ’’قاضی صاحب یہ میری ہمت ہے جس کو محبّابِ باری تعالیٰ کی ذات میں رکھا گیا ہے۔

    پند و نصائح : حضرت محبوبِ الٰہی نے جو خلافت نامہ آپ کو عطا فرمایا تھا اس می چند پندونصائح تھے، وہ خلافت نامہ یہ ہے۔

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    می باید کہ تارکِ دنیا باشی، بسوئے دنیا و اربابِ دنیا مائل شوی و دیہہ قبول نہ کنی، و صلۂ بادشاہ نہ گیری، و اگر مسافراں بر تو آیند و بر تو چیزے نباشد ایں حال را غنیمتے و نعمتے شمری از نعمت ہائے الٰہی فَاِن فَعَلت ما اَمرتُکَ فَظَنِّی بِکَ اَن تفعل کَذالک فَانتَ خَلَفتنی و ان لم تفعل واللہ خَلِیفَتِی عَلیَ المسلمین۔

    ترجمہ : تم کو تارکِ دنیا رہنا چاہئے، دنیا و اہلِ دنیا کی طرف میل نہ کرنا اور جاگیر قبول نہ کرنا اور بادشاہوں کا صلہ قبول نہ کرنا اور اگر مسافر تمہارے پاس مہمان آئیں اور تمہارے پاس کچھ نہ ہو تو ایسے موقع کو خدا کی نعمتوں میں سے نعمت اور غنیمت سمجھنا۔

    اگر تم نے ایسا ہی کیا اور مجھ کو یقین ہے کہ تم ایسا ہی کروگے تب تم میرے خلیفہ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو خدا مسلمانوں پر خلیفہ ہے۔

    ترک تجرید : سعادتِ ارادت سے مشرف اور خرقۂ خلافت سے سرفراز ہونے کے بعد آپ دنیا اور اہلِ دنیا اور دنیاوی معاملات سے بالکل علیحدہ ہوگئے, ترک و تجرید آپ کا شعار ہوگیا, قضا کے عہدے سے مستعفیٰ ہوگئے اور سندِ قضا حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں لاکر چاک کردی۔

    سلطان کی پیش کش : دنیاوی وسائل منقطع کرنے کے بعد آپ کو سخت دشواری پیش آئی, فقروفاقہ کی نوبت پہنچی, تنگی اور عسرت سے گزرنے لگی, آپ کے ایک معتقد نے بغیر آپ کے علم اور اجازت کے اس حال کی خبر سلطان علاؤالدین خلجی کو کی، سلطان علاؤالدین خلجی کو جب آپ کا یہ حال معلوم ہوا اس نے حکم دیا کہ قضا کا عہدہ جو قاضی صاحب کی میراث ہے، ان کو بہت انعام و قریات کے ساتھ تفویض کیا جائے، چنانچہ قضا اودھ کے عہدے کی سند تیار کی گئی، سلطان علاؤالدین خلجی نے بہت کوشش کی وہ عہدہ آپ قبول فرمالیں۔

    معروضہ : آپ کو جب یہ معلوم ہوا، آپ نے اپنے پیرِروشن ضمیر حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ عرض کیا کہ سلطان علاؤالدین خلجی بغیر ان کی درخواست اور خواہش کے ان کو قضا اودھ کی عہدہ کی سند دینا چاہتا ہے جیسا حکم عالی ہو اس پر عمل کیا جائے۔

    جواب : حضرت محبوبِ الٰہی نے اس بات کو پسند نہ فرمایا، ارشاد ہوا کہ

    ”تمہارے دل میں اس کا خطرہ ضرور گزرا ہوگا جو یہ بات ظہور میں آئی ہے“ آپ کو رنج ہوا کہ ایسی بات حضرت محبوبِ الٰہی سے کیوں عرض کی، آپ نے اسی طرح سے فقروفاقہ میں زندگی گزری، ترک و تجرید پر قائم رہے، فقر کو اپنے لئے باعثِ فخر اور سعادت سمجھا۔

    پیرومرشد کی شفقت : ایک بار آپ سخت بیمار ہوئے، بظاہر بچنے کی کوئی امید نہ تھی، حضرت محبوبِ الٰہی کو جب ان کی بیماری کا علم ہوا، بہ نفسِ نفیس عیادت کو تشریف لائے، آپ حضرت محبوبِ الٰہی کی تعظیم کے لئے اٹھے، اسی وقت سے مرض میں کمی ہوئی، جب حضرت محبوبِ الٰہی واپس تشریف لے گئے آپ نے کہا کہ حضرت محبوبِ الٰہی بظاہر عیادت کو تشریف لائے تھے مگر در پردہ وہ مرض کو سلب کرگئے۔

    آپ کے مشہور شاگرد : حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کی صاحبزادی حضرت بی بی مستورہ کے صاحبزادے حضرت شیخ عزیزالدین بحکم حضرت محبوبِ الٰہی آپ کے شاگرد ہوئے اور آپ سے تعلیم حاصل کی، حضرت نصیرالدین چراغ دہلی نے آپ سے ”بزْدَوی“ پڑھی۔

    وفات شریف : آپ 15 ربیع الاول 719ھ کو رحمتِ حق میں پیوست ہوئے۔

    سیرتِ مبارک : آپ صاحبِ کرامت تھے، علم و حلم عبادت و ریاضت، زہدوتقویٰ و ورع میں مشہور تھے، آپ استادِ شہر تھے، حضرت محبوبِ الٰہی کی بہت عزت کرتے تھے، آپ طریقۂ اہلِ سلف پر کاربند تھے، طبیعت میں انتہائی سادگی تھی، تکلف سے بری تھے، ایثار پسند تھے، ارادت و خلافت سے مشرف ہونے کے بعد آپ دنیاوی معاملات سے کنارہ کش ہوگئے تھے، باقی زندگی فقروفاقہ، عسرت و تنگی، قناعت و توکل میں گزاری۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے