Sufinama

حضرت مولانا شمس الدین محمد یحییٰ

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت مولانا شمس الدین محمد یحییٰ

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    دلی کے بائیس خواجہ۔ باب 9

    حضرت مولانا شمس الدین محمد بن یحییٰ شمسِ ملت و دین ہیں، آپ زاہدِ ممکن، عباد متدیّن، وصّافِ حقائق اور کشافِ دقائق ہیں۔

    والدِ بزرگوار : آپ کے والدبزرگوا کا نامِ نامی محمد یحییٰ ہے۔

    نام : آپ کا نام شمس الدین محمد ہے۔

    تعلیم و تربیت : آپ نے مولانا ظہیرالدین سے ”بزودی“ پڑھی، آپ نے علمِ اصول، فقہ، تفسیر اور حدیث میں وہ درجہ حاصل کیا تھا کہ آپ کی شاگردی باعثِ فکرومباہات بھی، بہت سے علمائے شہر آپ کے شاگرد تھے اور علومِ ظاہری کی سند اور علومِ دینی کی تحقیق آپ کی نسبت سے منسوب کرتے تھے۔

    حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں باریابی : آپ اور مولانا صدرالدین ناولی ساتھ ساتھ رہتے تھے اور دونوں مولانا ظہیرالدین کے پاس پڑھتے تھے، جب تعطیل ہوتی اور آپ اور مولانا صدرالدین ناولی دریائے جمان پر کپڑے دھونے غیاث پور آتے تھے، آپ سنا کرتے تھے کہ حضرت محبوبِ الٰہی بڑی شان کے بزرگ ہیں، ان کی عظمت و کرامات کے قصے سنتے تھے، آپ سنا کرتے تھے کہ شہر کے بڑے بڑے لوگ، علما اور فضلائے روزگار حضرت محبوِ الٰہی کی خدمت میں حاضر ہوکر زمین بوس ہوتے ہیں اور قدم چومتے ہیں، ایک دن آپ اور مولانا صدرالدین ناولی غیاث پور کپڑے دھونے آئے دونوں میں آپ میں مشورہ ہوا کہ حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں چل کر دیکھنا چاہئے کہ وہ علم کیسا رکھتے ہیں لیکن جب ہم ان کے پاس جائیں گے، زمین بوس نہ ہوں گے اور نہ قدم چومیں گے، بس اسلامی شعار کے موافق سلام علیک کرکے بیٹھ جائیں گے، اس صلاح و مشورہ کے بعد آپ اور مولانا صدرالدین ناولی عجیب عجیب خیالات کے ساتھ حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے، حضرت محبوبِ الٰہی کے روئے انور پر نگاہ پڑتے ہی آپ اور مولانا صدرالدین پر جمالِ مبارک کا ایسا رعت طاری ہوا اور ایسی ہیبت بیٹھی کہ آپ دونوں نے سرِ نیاز زمین پر رکھ دیا۔

    حضرت محبوبِ الٰہی نے آپ دونوں سے بیٹھنے کو فرمایا، آپ دونوں با ادب بیٹھ گئے، تھوڑی دیر کے بعد حضرت محبوبِ الٰہی نے دریافت فرمایا کہ شہر میں رہتے ہو“ آپ دونوں نے جواب دیا کہ ”جی شہر میں رہتے ہیں“

    پھر محبوبِ الٰہی نے پوچھا کہ ”کچھ پڑھتے ہو؟“

    عرض کیا کہ ”جی ہاں، مولانا ظہیرالدین سے بزودی کی بحث کرتے ہیں“

    حضرت محبوبِ الٰہی نے ”بزودی“ کے اس حصہ میں جو انہوں نے پڑھ لیا تھا، ایک سوال پوچھا کہ جو مولانا ظہیرالدین سے بھی حل نہ ہوا تھا، دونوں کو سخت تعجب ہوا، نہایت ادب اور عاجزی سے عرض کیا کہ ”مخدوم، یہی مشکل مسئلہ حل ہونے سے رہ گیا ہے، ہمارے استاد مولانا ظہیرالدین فرناتے تھے کہ اس مسئلہ کی تحقیقات کریں گے“

    یہ سن کر حضرت محبوبِ الٰہی مسکرائے اور اس مسئلہ پر اتنی روشنی ڈالی کہ ان دونوں کی تسلی و تشفی بخوبی ہوگئی، واپسی کے وقت حضرت محبوبِ الٰہی نے مولانا شمس الدین کو پائجامہ اور مولانا صدرالدین کو دستار دے کر سرفراز فرمایا، اس کے بعد جو آپ مولانا ظہیرالدین کے پاس پڑھنے گے وہ پائجامہ جو آپ کو حضرت محبوبِ الٰہی نے عطا فرمایا تھا، سر سے باندھ کرگئے۔

    بیعت و خلافت : دوسری بار جو آپ حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں حاضر ہوئے، سعادتِ ارادت سے مشرف ہوئے، بیعت سے مشرف ہونے کے بعد آپ حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں حاضر رہنے لگے، آپ کی خدمت، صدق، خلوص اور محبت نے اپنا کام کیا اور آخر کار خرقۂ خلافت پاکر ممتازوسرفراز ہوئے۔

    پندونصائح : آپ کے خلافت نامہ میں جو پندونصائح حضرت محبوبِ الٰہی کے درج ہیں، ان کا ترجمہ حسبِ ذیل ہے۔

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    ”تمام تعریف اس خدا کے واسطے ہے جس کے دوستوں کی ہمت نے تمام عالم کو چھوڑ کر خاص اس کی طرف بلند پروازی کی اور ان کے دلی مقصد ایک بخشنے والے کے ساتھ از روئے نیک نامی کے وابستہ ہیں، پس ان دوستوں پر ان کے محبوب کے کوثر سے صبح و شام جام ہائے محبت دَور کرتے ہیں، ایسا دَور کہ جس کو زوال نہیں ہے اور جب رات آتی ہے تو ان کے دل آتشِ شوق سے مشتعل ہوجاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کا مینہ برسنا شروع ہوتا ہے، یہ دوست پوشیدہ طور پر اپنے حبیب کی مناجات سے نفع اٹھاتے ہیں اور اپنی فکر کے ساتھ سرا پردۂ عزت کا طواف کرتے ہیں، ان میں سے ہمیشہ ایک نہ ایک ایسا شخص موجود ہوتا ہے جس کے دل پر عرفان کی تروتازگی اور اطرافِ عالم میں اس کے آثار ظاہر اور انوار روشن ہوتے ہیں، زبان ان کی ناطق بحق اور وہ مخلوقِ خدا کی طرف بلانے والا ہوتا ہے تاکہ مخلوق کو ظلمت سے روشنی کی طرف نکالے اور پروردگار بخشنے والے کا مقرب بنائے پھر رحمتِ کاملہ روشن شریعت اور تابابِ طریقت والے رسولِ رحمت پر ناز ہو جو مقامِ بیعت میں پروردگار کی خلافت کے ساتھ مخصوص ہیں اور ان کے خلفائے راشدین پر جو ہر ایک مقام میں کامیاب اور ان کی آل و اصحاب پر جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں، امابعد بے شک خدائے واحد علام کی طرف اس کے بندوں کو بلانا مقاصدِ اسلامی کا بلند ترین مقصد اور ایمان کی محکم ترین دستگی ہے۔

    جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوتا ہے، فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اگر تم چاہو تو میں اور قسم کھا کر بیان کروں کہ خدا کو اپنے سب بندوں میں زیادہ محبوب وہ بندے ہیں جو خدا کو اس کے بندوں کا اور خدا کے بندوں کو خدا کا محبوب بناتے ہیں اور زمین میں چل پھر کر نصیحت اور نیک باتوں کا حکم کرتے ہیں اور خدا نے اپنے ان بندوں کی تعریف فرمائی ہے جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ! ہمارے ہماری بیویوں اور اولاد میں سے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہم کو نصیب فرما اور ہم کو پرہیز گاروں کا رہنما بنا اور نیز خداوندِ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حضرت سیدالمرسلین و قائدالغرالمتحجلین کی پیروی فرض کی ہے۔

    فرمایا کہ اے محمد ! کہہ دو کہ اے لوگو ! یہ میرا راستہ ہے، میں خدا کی طرف تم کو بلاتا ہوں، بینائی پر میں اور وہ لوگ جو میرے پیرو ہیں اور آنحضرت کی پیروی بغیر ان کے اقوال کی نگہداشت اور ان کے اعمال و افعال کی اقتدا اور دل کے وجود میں کل ما سوا اللہ سے پاک کرنے اور معبود کی طرف منقطع ہوجانے کے حاصل نہیں ہوتی ہے پھر معلوم ہو کہ فرزندِ عزیز پرہیزگار عالمِ پسندیدہ خدا کی طرف متوجہ ہونے والا شمس الملۃ والدین محمد بن یحییٰ خدائے واحد اپنے انوار اہلِ تقویٰ و یقین پر نازل فرمائے، جب ہماری طرف اس کا قصد درست ہو اور اہم سے اُس نے ارادت کا خرقہ پہنا اور ہماری محبت سے پورا حصہ حاصل کیا تو میں نے ان کو اجازت دی کہ جب وہ سیدِکائنات کے اتباع اور طاعت و عبادت میں وقت کو مصروف کرنے اور نفس کو نفسانی خواہشوں اور خطرات سے محفوظ رکھنے پر قائم ہوں اور دنیا اور اس کے اسباب سے اعراض کریں۔

    اور اہلِ دنیا کی طرف میلان نہ کریں۔

    اور بالکل خدا کی طرف منقطع ہوجائیں۔

    اور ان کے دل میں انوارِ قدسی اور اسرارِ ملکوتی روشن ہوں اور تعریفاتِ الٰہیہ کی سمجھ کا دروازہ کھل جائے۔

    آپ کے شاگرد : آپ کے بہت شاگرد تھے، حضرت نصیرالدین چراغ دہلی آپ کے مایۂ ناز شاگرد ہیں، حضرت مخدوم نے آپ سے ”بزودی“ پڑھی تھی، حضرت مخدوم آپ کا بہت ادب و احترام کرتے تھے، آپ نے اپنے استاد حضرت مولانا کی تعریف میں یہ شعر کہا کہ

    سألتُ العِلمَ مَن حیَّاکَ حقّا

    فقالَ العِلمُ شمسُ الدِّین یحییٰ

    ترجمہ : میں نے علم سے دریافت کیا کہ تجھ کو حقیقی طور سے کس نے زندہ کیا ہے، علم نے جواب دیا کہ شمس الدین یحییٰ نے۔

    آخری ایام : عمر کے آخری حصے میں سلطان محمد بن تغلق نے آپ کو طلب کرکے کشمیر جانے کا حکم دیا، آپ واپس دولت خانے پر تشریف لائے اور کشمیر جانے کی تیاری میں مصروف ہوئے، سلطان محمد تغلق نے آپ کو کشمیر جانے کے واسطے کچھ لوگوں کو مقرر کر دیا تھا، آپ نے جو لوگ آپ کے دولت خانے پر موجود تھے، ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ

    ”یہ لوگ کیا کہتے ہیں؟ میں نے اپنے پیر روشن ضمیر کو خواب میں دیکھا ہے مجھ کو طلب فرماتے ہیں، میں اپنے پیرومرشد کی خدمت میں جاتاہوں، وہ لوگ مجھے کہاں بھیجتے ہیں؟“

    دوسرے دن آپ کے سینے پر ایک پھوڑا نکلا، نوبت یہاں تک پہنچی کہ شگاف دیا گیا، آپ کی بیماری کی خبر سلطان کو پہنچی، اس کو یقین نہ آیا، اس نے آپ کو دیکھ کر اپنا اطمینان کرنا چاہا، آپ پالکی میں بیٹھ کر سلطان محمد بن تغلق کے پاس تشریف لےگئے، وہاں سے آکر تکلیف بڑھ گئی۔

    وفات شریف : آپ 747ھ میں جوارِ رحمت رب العالمین میں پیوست ہوئے، آپ کا مزارِمبارک دہلی میں حضرت محبوبِ الٰہی کے آستانہ کے قریب واقع ہے۔

    سیرتِ پاک : آپ نے شادی نہیں کی، ساری عمر مجاہدات، ریاضات اور عبادات میں مشغول رہے، آپ کی زندگی کو طور طریق سالکانِ راہِ طریقت کی طرح تھا، آپ کا ظاہروباطن پاک و صاف تھا، تغلق تزویج سے مبرا تھے، تکلفات سے عاری تھے، دنیادار سے ملنا آپ کو سخت ناگوار ہوتا تھا، آپ فتوحات کو دیکھتے تک نہ تھے، آپ کے خادم مسمیّٰ فتوح ساری فتوحات کو لوگوں پر خرچ کردیتے تھے، علما میں آپ کا درجہ بہت اونچا تھا، آپ محققِ روزگار تھے، علومِ دینی سے متعلق آپ کی چند تصنیفات بھی ہیں، آپ شریعت اور طریقت میں ایک کامل فرد تھے، علمائے عصر اور مشائخِ روزگار آپ کے منقاد اور معتقد تھے جس کو صادق پاتے اس کو بیعت کرتے جہاں تک ممکن ہوتا گریز کرتے۔

    ذوقِ سماع : آپ کو سماع کا شوق تھا، وصال سے چند روز قبل حضرت محبوبِ الٰہی کی درگاہ میں عرس کے موقع پر محفلِ سماع میں آپ حضرت نصیرالدین چراغ دہلی اور شیخ قطب الدین منور اور بہت سے لوگ تھے، آپ کو اس غزل پر وجد طاری ہوا، آپ کھڑے ہوگئے اور پنے سینے پر ہاتھ ملتے تھے۔

    غزل

    غمے کز تو دارم بہ پیشِ کہ گویم

    دوائے دلِ درد مند از کہ جویم

    اگر کشتہ گردم بہ تیغِ جفایت

    بہ پیشِ کس ایں ماجرا را نگویم

    طبیبم تو باشی علاج از کہ خواہم

    اسیرِ تو باشم خلاص از کہ جویم

    ز سعدیؔ چہ گویم چہ جویم چہ پویم

    غمے کز تو دارم بہ پیشِ کہ گویم

    کشف و کرامت : حضرت نصیرالدین محمود چراغ دہلی کے مرید مولانا سلمان ایک مرتبہ جمعہ کی نماز کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ کپڑے اتار کر کتابت میں مشغول ہوئے، مولانا سلیمان کے دل میں یہ خیال گزرا کہ جمعہ کی نماز کے بعد مشائخ کے واسطے مشغولی کا وقت ہے اور یہ کیسے بزرگ ہیں کہ کتابت میں مصروف ہوگئے، مولانا سلیمان کے دل میں اس خیال کا آنا تھا کہ آپ نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ

    ”اے سلیمان ! میں اس سے بھی خالی نہیں ہوں“

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے