ادریس کا جذب نام اللہ
ادریس کا نام لے کے چوکا
سبب نظم مثنوی
وجہ انتخاب ہنس وجواہر
اظہار کا حال آ گیا ہے
اے بلبل فکر کس طرف ہے
تولد ہنس
دیتا ہے خدا جو مال اور ملک
وفات برہان شاہ
اے طبع رسا ذرا سنبھل جا
روم کا سفر
خواب
ہاں جذبہ دل کرم تو کرنا
اے عشق ترا ہو بول بالا
چین کی پری جمال
آئی ہے جو سیر پر طبیعت
سیر باغ
شادی کا پیغام
اے حسن عجیب ہے ترا کام
روم کا نوجوان
لکھتا ہوں حکایت خوش اسلوب
ہان نالۂ دل کسین ثر کر
بیتابی جواہر
ایک نظر
اب چین نہیں ہے اودل زار
ہنس اور سپہیا
ہے عشق بتان بھی کیا بلا خیز
حق بحقدار رسید
پہونچی ہے جو آکے لیل اسریٰ
فراق اور جدائی
کرتا نہیں کوئی وقت کی قدر
اے خامہ سنوار زلف مضمون
شرو فساد
جوگی
مردود رقیب ہو چکا ہے
ہنس مہجور
محبوب کے ہجر کا جو غم ہے
آمادہ سرکشی ہے خناس
نیرنگ سحر
شبدنیر قلم نہ کیجو تندی
بارہ ماسہ فراق
پیغام
ہان بلبل فکر پھر چہکنا
چین کا سفر
ہے عزم سفر جو سوے دلدار
اے طوطی طبع اب نہ کر دیر
کوہ سموہ
ساون گڑھ
ڈاسنے جو منزلیں بہت کیں
دیو گڑھ
شب بھر تو رہا وہاں بہ مشکل
شیام گڑھ
جب زحمت دیو سے بچے وہ
جب ہنس چلا وہاں سے آگے
بھوپ گڑھ
جب ہنس گیا وہاں سے بھی بڑھ
رتن گڑھ
ہفتم بھی پہاڑ جب کیا طے
ممیر
کام آئی نہ جب کوئی نصیحت
عبور سمندر
دیار دلدار
وصل
اک رات کا ہے سماں نظر میں
مدت میں ہوا ہے خوش جو دل گیر
عیش وعشرت
اسٹیج بیان پہ پھر میں آؤں
الوداع
پھر جدائی ہوئی
آ پہونچا ہے امتحان کا حال
تلاش دلدار
پھر ہجر کا آیا جو بیاں ہے
بچھڑوں کی ملاقات
عرصہ سے جو یار دو جدا ہیں
دوسری دولھن
منظور جو عقد دوسرا ہے
معاودت روم
پلٹا ہے سفر جو کرکے ہیروؔ
جنگ وجدل
ہے پیش نظر جو جنگ لکھنا
اعادہ سلطنت و تولد فرزند
پھر بزم کی داستاں سناؤں
آئی ہے جو داستان غم کی
آخر فنا آخر فنا
سن لو اے عارفان اسرار
رموز ونکات
فریادوحشی بحضور بنی قریشی
اے گوہر قلزم معانی
فضل خدا سے ختم ہوئی آج مثنوی
تاریخ تصنیف مثنوی ہذا از مصنف
تصنیف کی جو نظم فصیح وبلیغ میں
ازنتائج طبع شاعر بے بدل جناب مولوی ممتاز احمد صاحب افضل نگرامی
ازا فکاروبار ناظم اللسان منشی محمد مصطفی خاں صاحب آفت قنوجی
بہت اچھا ہوا قصہ یہ منظوم
YEAR1897
YEAR1897
ادریس کا جذب نام اللہ
ادریس کا نام لے کے چوکا
سبب نظم مثنوی
وجہ انتخاب ہنس وجواہر
اظہار کا حال آ گیا ہے
اے بلبل فکر کس طرف ہے
تولد ہنس
دیتا ہے خدا جو مال اور ملک
وفات برہان شاہ
اے طبع رسا ذرا سنبھل جا
روم کا سفر
خواب
ہاں جذبہ دل کرم تو کرنا
اے عشق ترا ہو بول بالا
چین کی پری جمال
آئی ہے جو سیر پر طبیعت
سیر باغ
شادی کا پیغام
اے حسن عجیب ہے ترا کام
روم کا نوجوان
لکھتا ہوں حکایت خوش اسلوب
ہان نالۂ دل کسین ثر کر
بیتابی جواہر
ایک نظر
اب چین نہیں ہے اودل زار
ہنس اور سپہیا
ہے عشق بتان بھی کیا بلا خیز
حق بحقدار رسید
پہونچی ہے جو آکے لیل اسریٰ
فراق اور جدائی
کرتا نہیں کوئی وقت کی قدر
اے خامہ سنوار زلف مضمون
شرو فساد
جوگی
مردود رقیب ہو چکا ہے
ہنس مہجور
محبوب کے ہجر کا جو غم ہے
آمادہ سرکشی ہے خناس
نیرنگ سحر
شبدنیر قلم نہ کیجو تندی
بارہ ماسہ فراق
پیغام
ہان بلبل فکر پھر چہکنا
چین کا سفر
ہے عزم سفر جو سوے دلدار
اے طوطی طبع اب نہ کر دیر
کوہ سموہ
ساون گڑھ
ڈاسنے جو منزلیں بہت کیں
دیو گڑھ
شب بھر تو رہا وہاں بہ مشکل
شیام گڑھ
جب زحمت دیو سے بچے وہ
جب ہنس چلا وہاں سے آگے
بھوپ گڑھ
جب ہنس گیا وہاں سے بھی بڑھ
رتن گڑھ
ہفتم بھی پہاڑ جب کیا طے
ممیر
کام آئی نہ جب کوئی نصیحت
عبور سمندر
دیار دلدار
وصل
اک رات کا ہے سماں نظر میں
مدت میں ہوا ہے خوش جو دل گیر
عیش وعشرت
اسٹیج بیان پہ پھر میں آؤں
الوداع
پھر جدائی ہوئی
آ پہونچا ہے امتحان کا حال
تلاش دلدار
پھر ہجر کا آیا جو بیاں ہے
بچھڑوں کی ملاقات
عرصہ سے جو یار دو جدا ہیں
دوسری دولھن
منظور جو عقد دوسرا ہے
معاودت روم
پلٹا ہے سفر جو کرکے ہیروؔ
جنگ وجدل
ہے پیش نظر جو جنگ لکھنا
اعادہ سلطنت و تولد فرزند
پھر بزم کی داستاں سناؤں
آئی ہے جو داستان غم کی
آخر فنا آخر فنا
سن لو اے عارفان اسرار
رموز ونکات
فریادوحشی بحضور بنی قریشی
اے گوہر قلزم معانی
فضل خدا سے ختم ہوئی آج مثنوی
تاریخ تصنیف مثنوی ہذا از مصنف
تصنیف کی جو نظم فصیح وبلیغ میں
ازنتائج طبع شاعر بے بدل جناب مولوی ممتاز احمد صاحب افضل نگرامی
ازا فکاروبار ناظم اللسان منشی محمد مصطفی خاں صاحب آفت قنوجی
بہت اچھا ہوا قصہ یہ منظوم
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.