سرورق
ہر طرح انداز بن کون ومکاں تو ہی تو تھا
کس قدر دھیان ہے اے کاکل پیچاں تیرا
قندیل میں اک نور تر اجلوہ فشاں تھا
اللہ رے حسن احمد عالی وقار کا
مصحف ناطق رخ پر نور ہے اس ماہ کا
شکل جب بس گئی آنکھوں میں تو چھپنا کیسا
مجھے بھی حبیب خدا بخشوانا
بخشوانے تامکیں لامکاں لیجائے گا
کیا انتشار اب ہمیں رد وقبول کا
اے بے نیاز مالک مالک ہے نام تیرا
بیاں کس سے ہو رتبہ اے محمد مصطفی تیرا
اللہ غنی ایک مدینہ میں جواں تھا
ہر شے میں جلوہ گر ہے واللہ نور تیرا
گو اہل وفا سے وہ ستمگر نہیں ملتا
گل وگوہر تو کیا ہر شے میں ہے جلوہ عیاں تیرا
ہے فیض ابر رحمت رب رحیم کا
محو ایسا تری صورت میں ہے شیدا تیرا
ہے آپ کے باعث سے وجود ارض وسما کا
حسن ہے میرے شہ ہر دوسرا کا ایسا
کوئے جاناں میں بجز رنج والم پائیں گے کیا
گلشن میں اسنے رخ سے جو پردہ اٹھا دیا
ڈھونڈھ لیتا جو انہیں ڈھونڈھنے والا ہوتا
انسان سے ضرور ہے ہونا قصور کا
اک جہاں شیدا ترا اے مہر طلعت ہو گیا
میں نالہ کش جو اپنے وطن سے نکل گیا
ایک عالم اس کو روتا ہی رہا
سراپا درد ہے افسانۂ رنج والم میرا
کوئی ارمان مرے دل کا نکلنے نہ دیا
کیا بڑی سرکار تھی اور کیا بڑا دربار تھا
نکلی جو روح جسم سے پھر ہے بدن میں کیسا
خوف عصیاں سے خدا کے پاس روتا جاؤں گا
یہ کس کو دیکھتے ہی اڑے ہوش نقش پا
سرمہ جو زیب چشم سیہ فام ہو گیا
تو نے خنجر مری گردن پہ نہ پھیرا اچھا
اس بت سفاک پر جب تک کہ دل آیا نہ تھا
حسن اپنا جو دکھانا اسے منظور ہوا
بھولے طریق اہل عدم رسم وراہ کا
کمی جو قاتل نے قتل میں کی تو مجھ سے اس سے کلام ہوگا
میری کیفیت کا افسانہ ہے حال نقش پا
نظارہ عبادت ہے رخ پاک علی کا
سبق پڑھتا ہے گیسو مصحف رخسار جاناں کا
عرصۂ حشر سے بھی طول ہے دفتر اپنا
کس قدر ثابت قدم اللہ اکبر میں رہا
دنیا دیکھی زمانہ دیکھا
قد موزوں حضرت میں ہے جلوہ کس قیامت کا
کیوں انمیں نظر بنکے سمایا نہیں جاتا
رنگ اپنا نہ جماان پہ اثر کچھ نہ ہوا
زلف کافر میں رہا چشم فسوں گر میں رہا
بوسہ لیتا ہے جام اس لب کا
انا تھی نور تھا بجلی تھی کہ جلوہ کیا تھا
اگر میں وصف لکھوں زلف مشکیں پیمبر کا
فلک تیرا چکر ہے کس کام کا
کیا کہیں کس کی ہمیں یاد دلاتی ہے گھٹا
سر جھکا ہے اسکے آگے ہر جوان وپیر کا
ہند سے ہم کو نکال اور مدینہ دکھلا
دل میں وہ بحر لطافت جلوہ فرما ہوگیا
جلوہ گر دل میں نہیں ہے وہ رخ پر نور کیا
ردیف بے
مرحبا علی عزت وشان محبوب
ردیف پے
ہونگے آگاہ جو اس عشق کے انجام سے آپ
ہے ہمارے روح شبنم روئے دلبرآفتاب
ردیف تے
کیوں نہ معراج میں ہو دھوم بڑی آجکی رات
کس لئے خوب منائیں نہ خوشی آجکی رات
اللہ رے فیض شکل عدیم المثال دوست
صلح کے بعد ہے رنجش کا پھر اظہار عبث
ردیف ثے
ردیف جیم
وقت در محبوب ہوئی اپنی جبیں آج
ہے دل میں میرے کاوش مژگاں کا اثر آج
کہتا ہے یہ کون آپ تھے تنہا شب معراج
محبوب چلا عرش پہ جس دم شب معراج
ردیف ح
ردیف چ
حسن کا طالب اگر ہے عشق کے آزار کھینچ
ہزار عشق محمد نے باغباں کی طرح
ردیف خ
عطر بوئے مصطفی ہر گل پہ جھکا شاخ شاخ
منظور ہوا حق کو جو اظہار محمد
پاک بے ہمتا ہے تیری ذات اللہ الصمد
ردیف دال
ردیف ذال
قل ہواللہ احد کے ساتھ اللہ الصمد
اے جان شک نہیں کہ ہے سب کو وفا لذیذ
دنگ ہیں قدسی تری محفل کا ساماں دیکھ کر
ردیف رے
ہے بہار باغ دنیا چند روز
یوں خوبرو ہیں میرے گل تر کے آس پاس
ردیف سین
نہ ہو کیوں ہم کو کل عالم فراموش
ردیف صاد
لئے پھرتی ہے مجھ کو جا بجا حرص
ردیف شین
ردیف ضاد
کیا بتاؤں ہے میرے واسطے کیاآپ کا خط
ردیف طو
واہ کس رنگ پہ ہے حسن بہار عارض
کیوں نہ ہو عشاق کو اس شاہ خوباں کا لحاظ
ردیف ظو
ردیف عین
یہ کسکے عشق میں اسدرجہ بیقرار ہے شمع
خلوت کی شب میں بھی وہی باقی رہا لحاظ
ردیف غین
آساں نہیں ہے دیکھنا اس یار کی طرف
ردیف ف
نور احمد سے ہے مہر اوج ایماں کو فروغ
تک رہے ہیں حشر میں سب میرے مولا کی طرف
ردیف کاف
ردیف قاف
گنج سرمد ہے نصیب دل دیوانۂ عشق
دل کو چھیدیگی پری رو تیر چتوں کب تک
پھونکی غم فراق نے یہ تن بدن میں آگ
ردیف گاف
کس کو معلوم ہوئی عزدت شان بلبل
بیچین ہو کر دیکھو نہ تو راہ فصل گل
ردیف لام
ردیف میم
گرم سخن ہیں مجمع اہل سخن میں ہم
ہوں وہ مومن جسے ایماں سے سروکار نہیں نہیں
جب سے گدائے کوئے شہ دیں پناہ ہوں
ردیف نون
ہند والے انہیں مکی مدنی کہتے ہیں
ہے نو رمحمد کی جھلک رنگ چمن میں
تجھ پر جو مٹ نجائے وہ دل اے قمر نہیں
ہزاروں راز نہاں ہیں دہن کے پردے میں
گئے ہیں آن میں خیرالبشر کہاں سے کہاں
آوارہ وسرگشتہ نہیں قیس ہی بن میں
قبۂ سبز مدینہ اتر آیا دل میں
نہیں عکس اسکے شمع رخ کا اپنی چشم روشن میں
وصل اس ستم شعار کا دشوار بھی نہیں
کوئی حرف غلط ہوں یا خطوط نقش باطل ہوں
نہیں چھوٹا خیال مرقد جانا نہ مرقد میں
میرے انکے وصل کے اقرار کچھ یونہیں سے ہیں
پوشیدہ ہیں دل میں کہ کلیجہ میں نہاں ہیں
عیش میں ہوں چین میں ہوں رات دن راحت میں ہوں
نظر جب وہ تجلی آئی پروانہ کی آنکھوں میں
فتنے تو جمع ہو گئے میدان حشر میں
غیر جس بزم میں مختار بنے بیٹھے ہیں
گزری ہے خیال غم گیسوئے دوتا میں
مارے بہت زمیں پہ بسمل نے ہاتھ پاؤں
ازل سے ان بتوں کی ناز برداری میں میں ہی ہوں
ردیف واو
آؤ اے جنتیو گنبد خضرا دیکھو
خلا ایسا کرے تم بھی کسی معشوق کو چاہو
ہم ساتھ لیکے آئے ہیں تصویر یار کو
اس بنی کو نور میں کیوں شان یکتائی نہ ہو
کیا برباد قسمت نے غریبوں کے مزاروں کو
ہمارے واسطے اے چرخ نوایجاد کچھ بھی ہو
تم شوخ وشریر آدمی ہو
اس شوخ کو دل دیکے بیتاب نہ کیوں ہو
خوف کیا ہے دین لو ایمان لو
ردیف ہ
جاتی ہی نہیں دل سے تمنائے مدینہ
وقت زینت دیکھئے توقیر پشت آئینہ
کروں کیا میں وصف بہار مدینہ
ردیف زے
ردیف ے
زخم کھا کر بڑھ گیا شوق شہادت او ر بھی
نادم مرگ نہ کی ترک رفاقت میری
میری جمعیت دل کا نہیں ساماں کوئی
جنت میں مکاں اپنا بناتے ہیں نمازی
اپنی محفل میں تو خوش ہو کے بلالے ساقی
زمیں مل جائے طیبہ میں مجھے سرکار تھوڑی سی
میں صدقے ترے نور کے تاج والے
روضۂ دسید مظلوم کے جانے والے
سنگ کو آپ چھوئیں جوہر قابل ہے وہی
بشر سے ثنا کیا ہو حضرت علی کو
نہیں ہم کو خوف عذاب سے کہ تو عاصیوں کا کفیل ہے
جو جستجو ہے تو ہے تیری جستجو باقی
یا نبی دکھلائیے مکھڑا خدا کے واسطے
ابھی آئے تھے ابھی چل بسے مرنے والے
سیہ کاریاں بخشوا کملی والے
ہمیں زمانہ ہوا انسے دل لگائے ہوئے
کہتے ہیں خالق یہاں محبوب جانی چاہیے
آج بیتاب وہ رشک گل تر کتنا ہے
مہر ذرہ ہے شہ ارض وسما کے آگے
زلف شبگوں سے جو وہ عارض زیبا نکلے
مدینہ کی عجب روشن زمیں ہے
مرا دل وہی دلربا بھی وہی ہے
زلف عنبر بوسر رخسار رہنے دیجئے
اب توکچھ کام ہمارے بھی صبا آتی ہے
رقیب جوڑ چلا تم ملال کر بیٹھے
واہ کیا خوب اسیری میری تقدیر میں ہے
کملی اوڑھے ہوئے اے ناز کے پالے آجا
قطعہ
رباعی
سرورق
ہر طرح انداز بن کون ومکاں تو ہی تو تھا
کس قدر دھیان ہے اے کاکل پیچاں تیرا
قندیل میں اک نور تر اجلوہ فشاں تھا
اللہ رے حسن احمد عالی وقار کا
مصحف ناطق رخ پر نور ہے اس ماہ کا
شکل جب بس گئی آنکھوں میں تو چھپنا کیسا
مجھے بھی حبیب خدا بخشوانا
بخشوانے تامکیں لامکاں لیجائے گا
کیا انتشار اب ہمیں رد وقبول کا
اے بے نیاز مالک مالک ہے نام تیرا
بیاں کس سے ہو رتبہ اے محمد مصطفی تیرا
اللہ غنی ایک مدینہ میں جواں تھا
ہر شے میں جلوہ گر ہے واللہ نور تیرا
گو اہل وفا سے وہ ستمگر نہیں ملتا
گل وگوہر تو کیا ہر شے میں ہے جلوہ عیاں تیرا
ہے فیض ابر رحمت رب رحیم کا
محو ایسا تری صورت میں ہے شیدا تیرا
ہے آپ کے باعث سے وجود ارض وسما کا
حسن ہے میرے شہ ہر دوسرا کا ایسا
کوئے جاناں میں بجز رنج والم پائیں گے کیا
گلشن میں اسنے رخ سے جو پردہ اٹھا دیا
ڈھونڈھ لیتا جو انہیں ڈھونڈھنے والا ہوتا
انسان سے ضرور ہے ہونا قصور کا
اک جہاں شیدا ترا اے مہر طلعت ہو گیا
میں نالہ کش جو اپنے وطن سے نکل گیا
ایک عالم اس کو روتا ہی رہا
سراپا درد ہے افسانۂ رنج والم میرا
کوئی ارمان مرے دل کا نکلنے نہ دیا
کیا بڑی سرکار تھی اور کیا بڑا دربار تھا
نکلی جو روح جسم سے پھر ہے بدن میں کیسا
خوف عصیاں سے خدا کے پاس روتا جاؤں گا
یہ کس کو دیکھتے ہی اڑے ہوش نقش پا
سرمہ جو زیب چشم سیہ فام ہو گیا
تو نے خنجر مری گردن پہ نہ پھیرا اچھا
اس بت سفاک پر جب تک کہ دل آیا نہ تھا
حسن اپنا جو دکھانا اسے منظور ہوا
بھولے طریق اہل عدم رسم وراہ کا
کمی جو قاتل نے قتل میں کی تو مجھ سے اس سے کلام ہوگا
میری کیفیت کا افسانہ ہے حال نقش پا
نظارہ عبادت ہے رخ پاک علی کا
سبق پڑھتا ہے گیسو مصحف رخسار جاناں کا
عرصۂ حشر سے بھی طول ہے دفتر اپنا
کس قدر ثابت قدم اللہ اکبر میں رہا
دنیا دیکھی زمانہ دیکھا
قد موزوں حضرت میں ہے جلوہ کس قیامت کا
کیوں انمیں نظر بنکے سمایا نہیں جاتا
رنگ اپنا نہ جماان پہ اثر کچھ نہ ہوا
زلف کافر میں رہا چشم فسوں گر میں رہا
بوسہ لیتا ہے جام اس لب کا
انا تھی نور تھا بجلی تھی کہ جلوہ کیا تھا
اگر میں وصف لکھوں زلف مشکیں پیمبر کا
فلک تیرا چکر ہے کس کام کا
کیا کہیں کس کی ہمیں یاد دلاتی ہے گھٹا
سر جھکا ہے اسکے آگے ہر جوان وپیر کا
ہند سے ہم کو نکال اور مدینہ دکھلا
دل میں وہ بحر لطافت جلوہ فرما ہوگیا
جلوہ گر دل میں نہیں ہے وہ رخ پر نور کیا
ردیف بے
مرحبا علی عزت وشان محبوب
ردیف پے
ہونگے آگاہ جو اس عشق کے انجام سے آپ
ہے ہمارے روح شبنم روئے دلبرآفتاب
ردیف تے
کیوں نہ معراج میں ہو دھوم بڑی آجکی رات
کس لئے خوب منائیں نہ خوشی آجکی رات
اللہ رے فیض شکل عدیم المثال دوست
صلح کے بعد ہے رنجش کا پھر اظہار عبث
ردیف ثے
ردیف جیم
وقت در محبوب ہوئی اپنی جبیں آج
ہے دل میں میرے کاوش مژگاں کا اثر آج
کہتا ہے یہ کون آپ تھے تنہا شب معراج
محبوب چلا عرش پہ جس دم شب معراج
ردیف ح
ردیف چ
حسن کا طالب اگر ہے عشق کے آزار کھینچ
ہزار عشق محمد نے باغباں کی طرح
ردیف خ
عطر بوئے مصطفی ہر گل پہ جھکا شاخ شاخ
منظور ہوا حق کو جو اظہار محمد
پاک بے ہمتا ہے تیری ذات اللہ الصمد
ردیف دال
ردیف ذال
قل ہواللہ احد کے ساتھ اللہ الصمد
اے جان شک نہیں کہ ہے سب کو وفا لذیذ
دنگ ہیں قدسی تری محفل کا ساماں دیکھ کر
ردیف رے
ہے بہار باغ دنیا چند روز
یوں خوبرو ہیں میرے گل تر کے آس پاس
ردیف سین
نہ ہو کیوں ہم کو کل عالم فراموش
ردیف صاد
لئے پھرتی ہے مجھ کو جا بجا حرص
ردیف شین
ردیف ضاد
کیا بتاؤں ہے میرے واسطے کیاآپ کا خط
ردیف طو
واہ کس رنگ پہ ہے حسن بہار عارض
کیوں نہ ہو عشاق کو اس شاہ خوباں کا لحاظ
ردیف ظو
ردیف عین
یہ کسکے عشق میں اسدرجہ بیقرار ہے شمع
خلوت کی شب میں بھی وہی باقی رہا لحاظ
ردیف غین
آساں نہیں ہے دیکھنا اس یار کی طرف
ردیف ف
نور احمد سے ہے مہر اوج ایماں کو فروغ
تک رہے ہیں حشر میں سب میرے مولا کی طرف
ردیف کاف
ردیف قاف
گنج سرمد ہے نصیب دل دیوانۂ عشق
دل کو چھیدیگی پری رو تیر چتوں کب تک
پھونکی غم فراق نے یہ تن بدن میں آگ
ردیف گاف
کس کو معلوم ہوئی عزدت شان بلبل
بیچین ہو کر دیکھو نہ تو راہ فصل گل
ردیف لام
ردیف میم
گرم سخن ہیں مجمع اہل سخن میں ہم
ہوں وہ مومن جسے ایماں سے سروکار نہیں نہیں
جب سے گدائے کوئے شہ دیں پناہ ہوں
ردیف نون
ہند والے انہیں مکی مدنی کہتے ہیں
ہے نو رمحمد کی جھلک رنگ چمن میں
تجھ پر جو مٹ نجائے وہ دل اے قمر نہیں
ہزاروں راز نہاں ہیں دہن کے پردے میں
گئے ہیں آن میں خیرالبشر کہاں سے کہاں
آوارہ وسرگشتہ نہیں قیس ہی بن میں
قبۂ سبز مدینہ اتر آیا دل میں
نہیں عکس اسکے شمع رخ کا اپنی چشم روشن میں
وصل اس ستم شعار کا دشوار بھی نہیں
کوئی حرف غلط ہوں یا خطوط نقش باطل ہوں
نہیں چھوٹا خیال مرقد جانا نہ مرقد میں
میرے انکے وصل کے اقرار کچھ یونہیں سے ہیں
پوشیدہ ہیں دل میں کہ کلیجہ میں نہاں ہیں
عیش میں ہوں چین میں ہوں رات دن راحت میں ہوں
نظر جب وہ تجلی آئی پروانہ کی آنکھوں میں
فتنے تو جمع ہو گئے میدان حشر میں
غیر جس بزم میں مختار بنے بیٹھے ہیں
گزری ہے خیال غم گیسوئے دوتا میں
مارے بہت زمیں پہ بسمل نے ہاتھ پاؤں
ازل سے ان بتوں کی ناز برداری میں میں ہی ہوں
ردیف واو
آؤ اے جنتیو گنبد خضرا دیکھو
خلا ایسا کرے تم بھی کسی معشوق کو چاہو
ہم ساتھ لیکے آئے ہیں تصویر یار کو
اس بنی کو نور میں کیوں شان یکتائی نہ ہو
کیا برباد قسمت نے غریبوں کے مزاروں کو
ہمارے واسطے اے چرخ نوایجاد کچھ بھی ہو
تم شوخ وشریر آدمی ہو
اس شوخ کو دل دیکے بیتاب نہ کیوں ہو
خوف کیا ہے دین لو ایمان لو
ردیف ہ
جاتی ہی نہیں دل سے تمنائے مدینہ
وقت زینت دیکھئے توقیر پشت آئینہ
کروں کیا میں وصف بہار مدینہ
ردیف زے
ردیف ے
زخم کھا کر بڑھ گیا شوق شہادت او ر بھی
نادم مرگ نہ کی ترک رفاقت میری
میری جمعیت دل کا نہیں ساماں کوئی
جنت میں مکاں اپنا بناتے ہیں نمازی
اپنی محفل میں تو خوش ہو کے بلالے ساقی
زمیں مل جائے طیبہ میں مجھے سرکار تھوڑی سی
میں صدقے ترے نور کے تاج والے
روضۂ دسید مظلوم کے جانے والے
سنگ کو آپ چھوئیں جوہر قابل ہے وہی
بشر سے ثنا کیا ہو حضرت علی کو
نہیں ہم کو خوف عذاب سے کہ تو عاصیوں کا کفیل ہے
جو جستجو ہے تو ہے تیری جستجو باقی
یا نبی دکھلائیے مکھڑا خدا کے واسطے
ابھی آئے تھے ابھی چل بسے مرنے والے
سیہ کاریاں بخشوا کملی والے
ہمیں زمانہ ہوا انسے دل لگائے ہوئے
کہتے ہیں خالق یہاں محبوب جانی چاہیے
آج بیتاب وہ رشک گل تر کتنا ہے
مہر ذرہ ہے شہ ارض وسما کے آگے
زلف شبگوں سے جو وہ عارض زیبا نکلے
مدینہ کی عجب روشن زمیں ہے
مرا دل وہی دلربا بھی وہی ہے
زلف عنبر بوسر رخسار رہنے دیجئے
اب توکچھ کام ہمارے بھی صبا آتی ہے
رقیب جوڑ چلا تم ملال کر بیٹھے
واہ کیا خوب اسیری میری تقدیر میں ہے
کملی اوڑھے ہوئے اے ناز کے پالے آجا
قطعہ
رباعی
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।