سرورق
فہرست
مقدمہ
دیوان بیان کے نسخے
بیان تذکرہ نگاروں کی نظر میں
فرہنگ الفاظ
گزروہ پنجۂ خورشید اگر ادھر کبھو کرتا
کیا کیجے بیاں اس کے وجوب اور قدم کا
بس عیادت کو اس کا آنا تھا
بیاںؔ تیرے کوچے سے چلتا رہے گا
میں ہی بلا کشی سے نہ مجبور ہو گیا
عالم کو لعل و گوہر و تاج دلوا دیا
سینے میں دل فگار کیا ہم نے کیا کیا
وہ بھی کیا دن تھے کہ ہم آغوش ہم سے یار تھا !
کوئی کسی کا کہیں ّشنا نہیں دیکھا
میں تو آنکھوں کو ہی روتا تھا کہ راز افشا کیا
کب تلک اس کی شکایت ہو نہ لب سے آشنا
یہ گر یہ آستیں میں کب ہم نشیں ! سماتا
دل نہیں عاشق تو ٹھنڈی سانس یہ بھرنا ہے کیا ؟
سب کچھ بیاں سے تب ہم جانیں گے ہو سکے گا
ان نے اک حرف مہر سر نہ کیا
تیرا ستم جو مجھ سے گدا نے سہا سہا
باک کیا شیشۂ دل گر ٹوٹا
میں ترے ڈر سے رو نہیں سکتا
لے کے دل اس شوخ نے اک داغ سینے پر دیا
ہم کو فلک نے سہو سے ٹک چین اگر دیا
آتے دیکھا اس کو پھر واقف نہیں دل کیا ہوا
سمجھے کہ ہجر ہی میں ہے اوقات کاٹنا
یار نے جب سے اٹھایا اپنے چہرے سے نقاب
ب
ہر چند ہو سخن پر میرے ہزار کیا خوب!
دل چاہتا ہے تو ہو بغل بیچ تنگ وخواب
مرتا ہوں غم گساری جواب نہیں تو پھر کب؟
کیوں کہ عیسیٰ کا دہن کہیے کہ ہے جام شراب
مے سے معشوقی کی ہے یاں تک نگاہ یار مست
ت
رو کے اس سے میں کہا مرتا ہے یہ بیمار آج
کیا بے طرح ہوئی تری دوری میں شام آج
ث
ج
پوچھتا کون ہے ؟ ڈرتا ہے تو اے یار ! عبث
چ
ح
مشت غبار میرے کوواں ہووے کیا پہنچ!
گرچہ تسکیں دل کو دیتا ہوں کہ اب ہوتی ہے صبح
نہ فقط یار بن شراب ہے تلخ
یہ لب شیریں نہ ہو جاویں گے اے گلفام ! تلخ
ہزار حیف کہ گل چیں رکھے ہے پاگستاخ
خ
یہ آرزو ہے کہ وہ نامہ بر سے لے کاغذ
د
ذ
مری بساط یہ بہر نثا ر ہے موجود
ر
آج تو کہہ دیکھتا ہوں اس سے بارے اس قدر
اس قدر تو ہے بھروسا مجھ کو اپنی آہ پر
اک بار فوج عشق پڑی مجھ پہ ٹوٹ کر
فرہاد کس امید پہ لاتا ہے جوے شیر؟
ذبح کر پھینکتا ہے قاتل دور
اول تو صاف مے پہ ساقی ہلا ہلا کر
یہی ہر لحظہ مجھ کو دل میں سوچ آتا ہے رہ رہ کر
س
صاف منہ پر میں نہیں کہتا کہ ہیگا اس کے پاس
مت ستا مجھ کو آن آن عزیز
ز
ص
ہے زبانی ہی رو برو اخلاص
کر آپ کو اس قدر فراموش
ش
مرے نامے کے ہے ازبس کہ رو اور پشت میں آتش
آہ اب وہ مدعی کرتا ہے کب آنے کی عرض
جانے لگے ہر ایک طرف صبح و شام خط
ط
ض
جو پتنگوں کے جلانے کا سبب ہوتی ہے شمع
بے جبراتی پہ دال ہے گر کیجے یاں لحاظ
ع
ظ
ف
جب دیکھتا ہے طائر آزاد کی طرف
آتا ہے جی کو دیکھ کے جوش بہار حیف
غ
جو نہ ہو اس شمع رو کے عشق کا سینے میں داغ
کروں شکوۂ درد و غم کت تلک!
بھلا سن تو اے دین و ایمان عاشق!
ک
ق
ہیں ایک وضع پہ سینے کے داغ تازہ و خشک
گو کہ صورت ہے خوب تیری لیک
ہمارے کیفی کا منہ ہے گلاب کا سا پھول
نامہ بر! خط کو مرے تو یہیں اب آب میں ڈال
رکھے گا حشر تک مانند نرگس چشم وابسمل
ل
ہزار واہ خط و زلف لاکھ واہ قلم
م
میں بھی میاں کچھ آدمی ہوں مجھ سے شرماتے ہو تم
ابرے ہم چشمی ان آنکھوں کی کیونکر ہو مدام؟
آگے تو زلف ہی فقط مار رکھے تھی جال میں
ن
چھٹے جب دام سے تیرے تو کب ہم ہاتھ لگتے ہیں
دیکھ گرمی تری کتنوں کے جگر جلتے ہیں
تو کہ ناصح کو اعتبار نہیں
ہمیں ہی شمع رو اپنا نہ دیوانے بناتے ہیں
در پر ترے کیا بے دل ارے یار ! کھڑا ہوں
یہ خوب رو نہ چھری نے کٹار رکھتے ہیں
کیا درد دل سنائیے! کچھ بات ہی نہیں
بغل میں اپنی سبھی اپنا یار رکھتے ہیں
جو زمیں پر فراغ رکھتے ہیں
شکوہ اپنے طالعوں کی نارسائی کا کروں؟
دل اب اس دل شکن کے پاس کہاں
جب کہ دلچسپ کسی شوخ کی صورت دیکھیں
چراغ صبح ہوں یا آفتاب روز آخر ہوں
ڈرتا نہیں مرنے سے کہ رنجور پڑا ہوں
اپنے ہی منہ سے کہیں کیونکر ہم ایسے ہیں
آہ اپنے سرد خوش رفتار کو دیکھا نہیں
علم سینے میں یا سفینے میں
شیخ کعبے میں بھٹکتا ہے برہمن دیر میں
یا کبھو محفل میں اس کی میں ہی میں تھا ہائے میں
و
رفع مخموری مری خست کو تم چھوڑو تو ہو
کہتا نہیں میں قاصد! لے کر جواب پھر یو
کافر ہوں جو زیادہ کچھ اس سے آرزو ہو
لاتے ہو وقت نزع کے تشریف کاہیکو؟
یارب! نہ ہندی میں یہ ماٹی خراب ہو
کچھ سلطنت سے عیش ہمارے تئیں نہ ہو
کہتا ہے کون ہجر مجھے صبح و شام ہو
جب کہ سیرت نہ ہو کب کھینچے گی صورت ہم کو
کہا اغیار کا حق میں مرے منظور مت کیجو
گرمی نالے کی بھی دب گئی نفس سرد کے ساتھ
ھ
ابھی سے دل کہیں اٹکا ہے کیا؟ اے نوجواں! سچ کہہ
سرکار دل میں عشق کا اب بندوبست ہے
ی
آج آمدنی باغ میں ہے آہ کسی کی
کبھو بھلا تو اکیلے ہی مجھ سے ٹک مل دیکھ
ہر چند ہے گل بہتر گلزار بہت تحفہ
کس کی یہ تیغ کا خاطر میں مرے مضموں ہے ؟
رات اس تنگ مزاج سے کچھ بات بڑھ گئی
چشم کرم کسوہی سے اپنے تئیں نہیں رہی
اک بے گنہ کو مارا کچھ بھی خدا کا ڈر ہے ؟
وہ چمن سنبل وریحاں کا جہاں ہاٹ لگے
مت آئیو اے وعدہ فراموش ! تو اب بھی
کوئی ایسا جہاں میں نکلے
شمشیر ہجر ہی سے کرتا ہے یار ٹکڑے
رخصت ہے عقل و ہوش کو چاہے جہاں رہے
رسوا نہ کر خدا سے ڈر اے چشم تر! مجھے
جادو تھی سحر تھی یا بلا تھی؟
تیغ چڑھ اس کی سان پر آئی
جا کہے کوے یار میں کوئی
کون کہتا ہے چاہ مشکل ہے
جرم کیا مجھ سے ہوا؟ وجہ غضب فرمائیے
کوئی سمجھائیو یارو! مرا محبوب جاتا ہے
چلتے چلتے میری حسرت پر نظر کرنی تو تھی
اے کہ تیری دوستی مجھ کو بجاے جان ہے
جس کو برا سمجھے وہ ہی کہیں بھلا ہے
پیش کش کیا کیجے اور لائیے کیا روبرو
ستم سے یار کے سنتا ہے اے دل ! آہ کیا کیجے
عشوہ ہے ناز ہے غمزہ ہے ادا ہے کیا ہے؟
نہ برسوں میں پوچھے تغافل کے صدقے
خنک ہے بوالہوسوں کی یہ سانس ٹھنڈی سی
جہاں روؤں تمنا میں تری اے شعلہ رو!پیارے
بہار آئی ہے اے ناصح! ہمیں بے باک رہنے دے
نہ ہوں آنکھیں بھی واقف اس طرح کی چاہ کے صدقے
مجھے غم سے اس واسطے پیار ہے
وفا تیرے وعدوں میں اے واہ دیکھی
جس واسطے آئے ہیں وہ کام تو کچھ کریے
اپنے نہ دامن میں گہر چاہیے
شب فراق کی دہشت ےسے جان جاتی ہے
آنسووں تک پونچھنے کی غیر کے تدبیر ہے
زلف تیری نے پریشان کی ایار! مجھے
بار بار اس امر کی تحریک کیا اے دل ! مجھے
کہیو قاصد! بت خود سے پھر صبح ہوئی
پیش از خزاں ہی ہاتھ اٹھایا بہار سے
ہاتھ لگ جانے سے خاطر تری دلگیر تو ہوئی
جھگڑتے تجھ سے پیارے حجاب آتا ہے
کھولیوں کان باغ میں گل کے
جس کا نیکی میں نام باجے ہے
میں نہ اب تک اے بت محجوب سمجھتا تھا تجھے
دل کو دیوانہ کیا زلف پری زادوں نے
مے حقیقت کوئی محقق جو ہو کے مست و خراب اچھلے
چشموں سے تجھ بن امڈا یہ بے شمار پانی
یا علی صدقے ترے کیا کیا مری کل بل ٹلی
آئے بھی اور آغوش سے بھر رات نہ نکلے
چھوڑے اپنا نہ کوئی آپ وطن پھرتا ہے
عمر ہیہات چلی جاتی ہے
آج ہم تیری گلی سے یار اپنے گھر چلے
تصور اس کا مری چشم ترسے کیا نکلے
ایک دن وہ تھے کہ جوں ہی صبح جاگے آگئے
کاجل آنکھوں میں جب سے منظور ہوا
رباعیات
در مبارکباد وسالگرہ حضور پرنور
تجھ سے کوئی چاہتا ہے فیل اور فرس
یہ ذات کہ ہے رحمت حق کی تصویر
بہ جناب حضرت پیرومرشد دام افضالہ
در مدح حضور پرنور
در تعریف خضاب عالم گیر بادشاہ
مخمس بر ریختہ مرزا رفیع السوداؔ
اب کہ بحروبر میں گریے کی ہمارے دھاک ہے
مری دشمن ہوئی شب مہتاب
یہ بے لحاظ باتیں کس نے سکھائیاں ہیں
مخمس بر غزل انعام اللہ خاں یقیںؔ
مخمس
اگر چہ ہم کو میسر ہے اس قدر کاغذ
دعائیہ حضور پرنور فی سنہ یک ہزار ودو صد و دہ ہجری۔۔۔۔۔۔۔
مخمس بر ابیات نعمت خاں
مخالف ہمیشہ ترا خوار رہیو
وصل کی شب کی کیفیت کیا کروں دوستو! رقم
مسدس
مسدس در مدح نواب آصف جاہ نظام الملک میر نظام علی خاں بہادر۔۔۔
یا الٰہی تاقیامت فتح و نصرت ہم رکاب
اول تو مصطفیٰ کو آداب عرض کیجو
عرض آداب بجناب حضرت پیغمبر علیہ السلام و آلہ الکرام
مرثیہ حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام
مرثیہ حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام
گیا یہ کون دنیا ہے نراسا
کیا سخن کا مرتبہ پہنچا ہے اب نام خدا
کس کے مقدم کی خوشی میں شاد پھرتی ہے صبا
قصیدہ در منقبت امیر االمومنین علیہ السلام
زہے فتوح کی کھولیں دلوں سے یار گرہ
قصیدہ در مدح
اگر ہزار برس تک بیاں کروں تقریر
قصیدہ در مدح ، نواب اعظم الامراشیرالملک معنی الدولہ غلام سید خاں بہادرسہراب۔۔۔۔
در مدح، بندگان عالی نواب نظام الملک میر نظام علی خاں بہادر آصف جاہ دام اقبالہ
جوں نبوت جناب اقدس پر
عجب بندہ کیا پیدا میں اس اللہ کے صدقے
ہے کہاں اے ساقی فرخندہ خو
مثنوی زوالابرادروے سخن سیمبر سجاد
داستان دویم
کیجیے پیغام بر ایسے کے تئیں
ایک خاقانی غلط کہتا اگر
آہ واویلا زدست روزگار
چپک نامہ
رہ کے دنیا میں کیجیے کچھ فکر
تعریف چاہ مومن
موش نامہ کہ درسال خوک در پانگل گفتہ شد
اس قدر ہے تمام روے زمیں
ناصح! تجھے ہے خبط اگر مجھ کو ہے جنوں
اے چرخ تیں ہمیشہ رکھا مجھ کو تلخ کام
قاصد! یہ کہیو اس سے گر ہو کہیں دو چار
کب تک ہیں سوز دل کو نہ لاؤں زباں تلک
واسوخت
آنکھیں ملا کے مجھ سے ٹک ارشاد کیجیے
اک یار رفتہ کیا کہوں میرا گیا کہاں
شاید مرے نصیب میں راحت بہت ہے کم
درمبارکباد حضور پرنور کہ 1210 ہجری شدہ
تاریخ وفات حضرت مرزامظہر جان جاناں علیہ الرحمہ
وہ چہااز مانہ رفت آن دم کہ یار ازدست رفت
غزل فارسی
سرورق
فہرست
مقدمہ
دیوان بیان کے نسخے
بیان تذکرہ نگاروں کی نظر میں
فرہنگ الفاظ
گزروہ پنجۂ خورشید اگر ادھر کبھو کرتا
کیا کیجے بیاں اس کے وجوب اور قدم کا
بس عیادت کو اس کا آنا تھا
بیاںؔ تیرے کوچے سے چلتا رہے گا
میں ہی بلا کشی سے نہ مجبور ہو گیا
عالم کو لعل و گوہر و تاج دلوا دیا
سینے میں دل فگار کیا ہم نے کیا کیا
وہ بھی کیا دن تھے کہ ہم آغوش ہم سے یار تھا !
کوئی کسی کا کہیں ّشنا نہیں دیکھا
میں تو آنکھوں کو ہی روتا تھا کہ راز افشا کیا
کب تلک اس کی شکایت ہو نہ لب سے آشنا
یہ گر یہ آستیں میں کب ہم نشیں ! سماتا
دل نہیں عاشق تو ٹھنڈی سانس یہ بھرنا ہے کیا ؟
سب کچھ بیاں سے تب ہم جانیں گے ہو سکے گا
ان نے اک حرف مہر سر نہ کیا
تیرا ستم جو مجھ سے گدا نے سہا سہا
باک کیا شیشۂ دل گر ٹوٹا
میں ترے ڈر سے رو نہیں سکتا
لے کے دل اس شوخ نے اک داغ سینے پر دیا
ہم کو فلک نے سہو سے ٹک چین اگر دیا
آتے دیکھا اس کو پھر واقف نہیں دل کیا ہوا
سمجھے کہ ہجر ہی میں ہے اوقات کاٹنا
یار نے جب سے اٹھایا اپنے چہرے سے نقاب
ب
ہر چند ہو سخن پر میرے ہزار کیا خوب!
دل چاہتا ہے تو ہو بغل بیچ تنگ وخواب
مرتا ہوں غم گساری جواب نہیں تو پھر کب؟
کیوں کہ عیسیٰ کا دہن کہیے کہ ہے جام شراب
مے سے معشوقی کی ہے یاں تک نگاہ یار مست
ت
رو کے اس سے میں کہا مرتا ہے یہ بیمار آج
کیا بے طرح ہوئی تری دوری میں شام آج
ث
ج
پوچھتا کون ہے ؟ ڈرتا ہے تو اے یار ! عبث
چ
ح
مشت غبار میرے کوواں ہووے کیا پہنچ!
گرچہ تسکیں دل کو دیتا ہوں کہ اب ہوتی ہے صبح
نہ فقط یار بن شراب ہے تلخ
یہ لب شیریں نہ ہو جاویں گے اے گلفام ! تلخ
ہزار حیف کہ گل چیں رکھے ہے پاگستاخ
خ
یہ آرزو ہے کہ وہ نامہ بر سے لے کاغذ
د
ذ
مری بساط یہ بہر نثا ر ہے موجود
ر
آج تو کہہ دیکھتا ہوں اس سے بارے اس قدر
اس قدر تو ہے بھروسا مجھ کو اپنی آہ پر
اک بار فوج عشق پڑی مجھ پہ ٹوٹ کر
فرہاد کس امید پہ لاتا ہے جوے شیر؟
ذبح کر پھینکتا ہے قاتل دور
اول تو صاف مے پہ ساقی ہلا ہلا کر
یہی ہر لحظہ مجھ کو دل میں سوچ آتا ہے رہ رہ کر
س
صاف منہ پر میں نہیں کہتا کہ ہیگا اس کے پاس
مت ستا مجھ کو آن آن عزیز
ز
ص
ہے زبانی ہی رو برو اخلاص
کر آپ کو اس قدر فراموش
ش
مرے نامے کے ہے ازبس کہ رو اور پشت میں آتش
آہ اب وہ مدعی کرتا ہے کب آنے کی عرض
جانے لگے ہر ایک طرف صبح و شام خط
ط
ض
جو پتنگوں کے جلانے کا سبب ہوتی ہے شمع
بے جبراتی پہ دال ہے گر کیجے یاں لحاظ
ع
ظ
ف
جب دیکھتا ہے طائر آزاد کی طرف
آتا ہے جی کو دیکھ کے جوش بہار حیف
غ
جو نہ ہو اس شمع رو کے عشق کا سینے میں داغ
کروں شکوۂ درد و غم کت تلک!
بھلا سن تو اے دین و ایمان عاشق!
ک
ق
ہیں ایک وضع پہ سینے کے داغ تازہ و خشک
گو کہ صورت ہے خوب تیری لیک
ہمارے کیفی کا منہ ہے گلاب کا سا پھول
نامہ بر! خط کو مرے تو یہیں اب آب میں ڈال
رکھے گا حشر تک مانند نرگس چشم وابسمل
ل
ہزار واہ خط و زلف لاکھ واہ قلم
م
میں بھی میاں کچھ آدمی ہوں مجھ سے شرماتے ہو تم
ابرے ہم چشمی ان آنکھوں کی کیونکر ہو مدام؟
آگے تو زلف ہی فقط مار رکھے تھی جال میں
ن
چھٹے جب دام سے تیرے تو کب ہم ہاتھ لگتے ہیں
دیکھ گرمی تری کتنوں کے جگر جلتے ہیں
تو کہ ناصح کو اعتبار نہیں
ہمیں ہی شمع رو اپنا نہ دیوانے بناتے ہیں
در پر ترے کیا بے دل ارے یار ! کھڑا ہوں
یہ خوب رو نہ چھری نے کٹار رکھتے ہیں
کیا درد دل سنائیے! کچھ بات ہی نہیں
بغل میں اپنی سبھی اپنا یار رکھتے ہیں
جو زمیں پر فراغ رکھتے ہیں
شکوہ اپنے طالعوں کی نارسائی کا کروں؟
دل اب اس دل شکن کے پاس کہاں
جب کہ دلچسپ کسی شوخ کی صورت دیکھیں
چراغ صبح ہوں یا آفتاب روز آخر ہوں
ڈرتا نہیں مرنے سے کہ رنجور پڑا ہوں
اپنے ہی منہ سے کہیں کیونکر ہم ایسے ہیں
آہ اپنے سرد خوش رفتار کو دیکھا نہیں
علم سینے میں یا سفینے میں
شیخ کعبے میں بھٹکتا ہے برہمن دیر میں
یا کبھو محفل میں اس کی میں ہی میں تھا ہائے میں
و
رفع مخموری مری خست کو تم چھوڑو تو ہو
کہتا نہیں میں قاصد! لے کر جواب پھر یو
کافر ہوں جو زیادہ کچھ اس سے آرزو ہو
لاتے ہو وقت نزع کے تشریف کاہیکو؟
یارب! نہ ہندی میں یہ ماٹی خراب ہو
کچھ سلطنت سے عیش ہمارے تئیں نہ ہو
کہتا ہے کون ہجر مجھے صبح و شام ہو
جب کہ سیرت نہ ہو کب کھینچے گی صورت ہم کو
کہا اغیار کا حق میں مرے منظور مت کیجو
گرمی نالے کی بھی دب گئی نفس سرد کے ساتھ
ھ
ابھی سے دل کہیں اٹکا ہے کیا؟ اے نوجواں! سچ کہہ
سرکار دل میں عشق کا اب بندوبست ہے
ی
آج آمدنی باغ میں ہے آہ کسی کی
کبھو بھلا تو اکیلے ہی مجھ سے ٹک مل دیکھ
ہر چند ہے گل بہتر گلزار بہت تحفہ
کس کی یہ تیغ کا خاطر میں مرے مضموں ہے ؟
رات اس تنگ مزاج سے کچھ بات بڑھ گئی
چشم کرم کسوہی سے اپنے تئیں نہیں رہی
اک بے گنہ کو مارا کچھ بھی خدا کا ڈر ہے ؟
وہ چمن سنبل وریحاں کا جہاں ہاٹ لگے
مت آئیو اے وعدہ فراموش ! تو اب بھی
کوئی ایسا جہاں میں نکلے
شمشیر ہجر ہی سے کرتا ہے یار ٹکڑے
رخصت ہے عقل و ہوش کو چاہے جہاں رہے
رسوا نہ کر خدا سے ڈر اے چشم تر! مجھے
جادو تھی سحر تھی یا بلا تھی؟
تیغ چڑھ اس کی سان پر آئی
جا کہے کوے یار میں کوئی
کون کہتا ہے چاہ مشکل ہے
جرم کیا مجھ سے ہوا؟ وجہ غضب فرمائیے
کوئی سمجھائیو یارو! مرا محبوب جاتا ہے
چلتے چلتے میری حسرت پر نظر کرنی تو تھی
اے کہ تیری دوستی مجھ کو بجاے جان ہے
جس کو برا سمجھے وہ ہی کہیں بھلا ہے
پیش کش کیا کیجے اور لائیے کیا روبرو
ستم سے یار کے سنتا ہے اے دل ! آہ کیا کیجے
عشوہ ہے ناز ہے غمزہ ہے ادا ہے کیا ہے؟
نہ برسوں میں پوچھے تغافل کے صدقے
خنک ہے بوالہوسوں کی یہ سانس ٹھنڈی سی
جہاں روؤں تمنا میں تری اے شعلہ رو!پیارے
بہار آئی ہے اے ناصح! ہمیں بے باک رہنے دے
نہ ہوں آنکھیں بھی واقف اس طرح کی چاہ کے صدقے
مجھے غم سے اس واسطے پیار ہے
وفا تیرے وعدوں میں اے واہ دیکھی
جس واسطے آئے ہیں وہ کام تو کچھ کریے
اپنے نہ دامن میں گہر چاہیے
شب فراق کی دہشت ےسے جان جاتی ہے
آنسووں تک پونچھنے کی غیر کے تدبیر ہے
زلف تیری نے پریشان کی ایار! مجھے
بار بار اس امر کی تحریک کیا اے دل ! مجھے
کہیو قاصد! بت خود سے پھر صبح ہوئی
پیش از خزاں ہی ہاتھ اٹھایا بہار سے
ہاتھ لگ جانے سے خاطر تری دلگیر تو ہوئی
جھگڑتے تجھ سے پیارے حجاب آتا ہے
کھولیوں کان باغ میں گل کے
جس کا نیکی میں نام باجے ہے
میں نہ اب تک اے بت محجوب سمجھتا تھا تجھے
دل کو دیوانہ کیا زلف پری زادوں نے
مے حقیقت کوئی محقق جو ہو کے مست و خراب اچھلے
چشموں سے تجھ بن امڈا یہ بے شمار پانی
یا علی صدقے ترے کیا کیا مری کل بل ٹلی
آئے بھی اور آغوش سے بھر رات نہ نکلے
چھوڑے اپنا نہ کوئی آپ وطن پھرتا ہے
عمر ہیہات چلی جاتی ہے
آج ہم تیری گلی سے یار اپنے گھر چلے
تصور اس کا مری چشم ترسے کیا نکلے
ایک دن وہ تھے کہ جوں ہی صبح جاگے آگئے
کاجل آنکھوں میں جب سے منظور ہوا
رباعیات
در مبارکباد وسالگرہ حضور پرنور
تجھ سے کوئی چاہتا ہے فیل اور فرس
یہ ذات کہ ہے رحمت حق کی تصویر
بہ جناب حضرت پیرومرشد دام افضالہ
در مدح حضور پرنور
در تعریف خضاب عالم گیر بادشاہ
مخمس بر ریختہ مرزا رفیع السوداؔ
اب کہ بحروبر میں گریے کی ہمارے دھاک ہے
مری دشمن ہوئی شب مہتاب
یہ بے لحاظ باتیں کس نے سکھائیاں ہیں
مخمس بر غزل انعام اللہ خاں یقیںؔ
مخمس
اگر چہ ہم کو میسر ہے اس قدر کاغذ
دعائیہ حضور پرنور فی سنہ یک ہزار ودو صد و دہ ہجری۔۔۔۔۔۔۔
مخمس بر ابیات نعمت خاں
مخالف ہمیشہ ترا خوار رہیو
وصل کی شب کی کیفیت کیا کروں دوستو! رقم
مسدس
مسدس در مدح نواب آصف جاہ نظام الملک میر نظام علی خاں بہادر۔۔۔
یا الٰہی تاقیامت فتح و نصرت ہم رکاب
اول تو مصطفیٰ کو آداب عرض کیجو
عرض آداب بجناب حضرت پیغمبر علیہ السلام و آلہ الکرام
مرثیہ حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام
مرثیہ حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام
گیا یہ کون دنیا ہے نراسا
کیا سخن کا مرتبہ پہنچا ہے اب نام خدا
کس کے مقدم کی خوشی میں شاد پھرتی ہے صبا
قصیدہ در منقبت امیر االمومنین علیہ السلام
زہے فتوح کی کھولیں دلوں سے یار گرہ
قصیدہ در مدح
اگر ہزار برس تک بیاں کروں تقریر
قصیدہ در مدح ، نواب اعظم الامراشیرالملک معنی الدولہ غلام سید خاں بہادرسہراب۔۔۔۔
در مدح، بندگان عالی نواب نظام الملک میر نظام علی خاں بہادر آصف جاہ دام اقبالہ
جوں نبوت جناب اقدس پر
عجب بندہ کیا پیدا میں اس اللہ کے صدقے
ہے کہاں اے ساقی فرخندہ خو
مثنوی زوالابرادروے سخن سیمبر سجاد
داستان دویم
کیجیے پیغام بر ایسے کے تئیں
ایک خاقانی غلط کہتا اگر
آہ واویلا زدست روزگار
چپک نامہ
رہ کے دنیا میں کیجیے کچھ فکر
تعریف چاہ مومن
موش نامہ کہ درسال خوک در پانگل گفتہ شد
اس قدر ہے تمام روے زمیں
ناصح! تجھے ہے خبط اگر مجھ کو ہے جنوں
اے چرخ تیں ہمیشہ رکھا مجھ کو تلخ کام
قاصد! یہ کہیو اس سے گر ہو کہیں دو چار
کب تک ہیں سوز دل کو نہ لاؤں زباں تلک
واسوخت
آنکھیں ملا کے مجھ سے ٹک ارشاد کیجیے
اک یار رفتہ کیا کہوں میرا گیا کہاں
شاید مرے نصیب میں راحت بہت ہے کم
درمبارکباد حضور پرنور کہ 1210 ہجری شدہ
تاریخ وفات حضرت مرزامظہر جان جاناں علیہ الرحمہ
وہ چہااز مانہ رفت آن دم کہ یار ازدست رفت
غزل فارسی
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔