سر ورق
فہرست
عرض مرتب
تصوف
درد کی شخصیت
عشق مجازی
عشق حقیقی
طریقۂ محمدیہ
شاعری: صوفیانہ
عاشقانہ
خصوصیات کلام
الف
مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کے رقم کا
مدرسہ! دیر تھا یا کعبہ یا تنجانہ تھا
کبھو خوش بھی کیا ہے جی کسی رند شرابی کا
اکسیر پر مہوس اتنا نہ ناز کرنا
جان پہ کھیلا ہوں میں میرا جگر دیکھنا
مثل نگیں جو ہم سے ہوا کام رہ گیا
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
عاشق بیدل ترا یاں تک تو جی سے سیر تھا
اگر یوں ہی یہ دل ستاتا رہے گا
ہم نے کس رات نالہ سرنہ کیا
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا
انداز وہ ہی سمجھے مرے دل کی آہ کا
دل کس کی چشم مست کا سر شار ہو گیا
ٹھہر جا ٹک بات کی بات اے صبا
گزری شب و آفتاب نکلا
کھلا در وازہ میرے دل پہ از بس اور عالم کا
سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا
نشہ کیا جانے وہ کہنے کو مئے آشام ہے شیشا
یوں ہی ٹہری کہ ابھی جایئے گا
تو بن کہے گھر سے کل گیا تھا
بظاہر کہیں غنچہ دل سے ملا تھا
اپنا تو نہیں یار میں کچھ یار ہوں تیرا
تو کب تئیں مجھ ساتھ مری جان ملے گا
ترے کہنے سے میں از بسکہ باہر ہو نہیں سکتا
سحر سوتے سے اٹھ کر وہ جو گھر سے باہر آنکلا
جب تک ہے دل کے شیشہ میں رنگ امتیاز کا
گل و گلزار خوش نہیں آتا
بھرا مے سے نہیں یہ نور سے معمور ہے شیشا
اہل زمانہ آگے بھی تھے اور زمانہ تھا
اے شمع روز بسکہ ترا انتطار تھا
تھا عدم میں بھی مجھے یک پیچ و تاب
زاہد اگر نہیں کی تو نے کسو سے بیعت
وہ مو کمر کہیں تو ہوا بے حجاب رات
جائیے کس واسطے اے درد میخانے کے بیچ
اس قدر تھا یا کرم یا ظم رانی اس قدر
کیونکر میں خاک ڈالوں سوز دل طپاں پر
کیا ہوا مر گئے آرام ہے دشوار ہنوز
مشہور خلق میں نہیں اپنے کمال کر
نہ کیا تونے ایک بار افسوس
کرتا رہا میں دیدۂ گریاں کی احتیاط
لایا نہ تھا تو آج تئیں ہاتھ سوئے تیغ
پیغام یاس بھیج نہ مجھ بے قرار تک
کچھ دل ہی باغ میں نہیں تنہا شکستہ دل
حیراں آئینہ وار ہیں ہم
چمن میں صبح یہ کہتی تھی ہو کر چشم تر شبنم
گلیم بخت سیہ سایہ دار رکھتے ہیں
آہ مشتاق ترے مفت ہوئے جاتے ہیں
مژگان تر ہوں یا رگ تاک بریدہ ہوں
نہ ہم غافل ہی رہتے ہیں نہ کچھ آگاہ ہوتے ہیں
گر دیکھئے تو مظہر آثار بقا ہوں
تو مجھ سے نہ رکھ غبار جی میں
ہر چند تیری سمت سو ارادہ ہی نہیں
اس کو سکھلائی یہ جفا تو نیں
ہستی ہے جب تلک ہیں اسی اضطراب میں
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں
ان نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں
یہ زلفِ بتاں کا گرفتار میں ہوں
باغِ جہاں کے گل ہیں باخار ہیں تو ہم ہیں
بے زبان ہے یہ زباں سوسن
مرتا نہیں ہوں کچھ اس سخت دل کے ہاتھوں
جی نہ اٹھو کہیں پھر میں جو تومار دامن
اپنے قسمت کے ہاتھوں داغ ہوں میں
کیوں نہ ڈوبی رہی یہ دیدۂ تر پانی میں
کیا ہے سبب کہ نامہ بر آج تلک پھرا نہیں
معلوم نہیں آنکھیں یہ کیوں پھوٹ یہی ہیں
دل مرا پھر دکھا دیا کنیں
گھر تو دونوں پاس ہیں لیکن ملاقاتیں کہاں
دل کو لیجاتی ہیں معشوقوں کی خوش اسلوبیاں
مجھے در سے اپنے تو ٹالے ہے یہ بتا مجھے تو کہاں نہیں
پڑے جو سایہ ہم تجھ بن ادھر ادھر بھٹکتے ہیں
نزع میں تو ہوں ولے تیر اگلا کرتا نہیں
آہ پردہ تو کوئی مانع دیدار نہیں
میرے ہاتھوں کے ہاتھوں اے عزیزاں
دل تو سمجھائے سمجھتا بھی نہیں
زلفوں میں تو سدا سے یہ کج ادائیا ں ہیں
کہیں ہوئے ہیں سوال و جواب آنکھوں میں
مانع نہیں ہم وہ بت خود کام کہیں ہو
مجلس میں بار ہوے نہ شمع و چراغ کو
سمجھنا فہم گر کچھ ہے طبیعی سے الٰہی کو
ملاؤں کس کی آنکھوں سے کہو اس چشم حیراں کو
مست ہوں پیر مغاں کیا مجھ کو فرمائے ہے تو
بی مطلب ہے گدائی سے نہ یہ خواہش کہ شاہی ہو
اے درد یاں کسو سے نہ دل کو پھنسائیو
ہر طرح زمانہ کے ہاتھوں سے ستم دیدہ
کاش تا شمع نہ ہوتا گزر پروانہ
ربط ہے ناز بتاں کو تو تری جان کے ساتھ
دل یہ بے اختیار ہو کر آہ
دل سوا کس کو ہو اس زلف گرہ گیر میں راہ
اس کی بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے
آفت جان و دل یاں وہ بت خود فروش ہے
اہل فنا کو نام سے ہستی کے ننگ ہے
وہ حدت نے ہر طرف ترے جلوے دکھا دیئے
گر باغ میں خنداں دو مرالب شکر آوے
اذیت کوئی تیرے غم کی میرے جی سے جاتی ہے
چھاتی پہ گر پہاڑ بھی ہووے تو ٹل سکے
سرسبز تھا نیستاں میرے ہی اشک غم سے
قسم ہے حضرت دل ہی کے آستانے کی
کوئی بھی دوا اپنےتئیں راس نہیں ہے
یاں عیش کے پردے میں چھپی دل شکنی ہے
ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
آتش عشق جی جلاتی ہے
آرام سے کبھو بھی نہ یکبار سو گئے
آج نالوں نے مرے زور ہی دلسوزی کی
جوں سخن اب یاد یک عالم رہے
بلبل نہ بر آئی باغباں سے
نہ ہاتھ اٹھائے فلک نے ہمارے کینے سے
جی کی جی میں رہی کچھ بات نہ ہونے پائی
دل مرا باغ دل کشا ہے مجھے
فرصتِ زندگی بہت کم ہے
یارو مرا شکوا ہی بھلا کیجئے اس سے
مراجی ہے جب تک تری جستجو ہے
روندے ہے نقش پا کی طرح خلق یاں مجھے
کب ترا دیوانہ آوے قید میں تدبیر سے
ہم چشمی ہے وحشت کو مری چشم شرر سے
گر خاک مری سرمہ ابصار نہ ہو وے
دیا ہے کس کی نظر نے یہ اعتبار مجھے
فر ض کیا کہ اے ہوس یک دو قدم ہی باغ ہے
عشق ہر چند مری جان سدا کھاتا ہے
پہلو میں دل طپاں نہیں ہے
یہ تحقیق ہے یا کہ افواہ ہے
دشنام دے ہے غیر کو تو جان کر مجھے
یاں غیب کے جلوے کے تئیں جلوہ گری ہے
مجھ کو تجھ سے جو کچھ محبت ہے
گل اگر سنکھ ہو بعضے بھید کچھ کہہ کر گئے
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
بات جب آندان پڑتی ہے
ایک آن سنبھلتے نہیں اب میرے سنبھالے لے
غیر جو بے فائدہ ہاتھوں پہ گل کھا یا کئے
ہوا جو کچھ کے ہونا تھا کہیں کیا جی کو روبیٹھے
ہر گھڑی ڈہانپنا چھپانا ہے
کبھو تو بے وفائی یاد آجی کو ڈراتی ہے
دل تجھے کیوں ہے بے کلی ایسی
دشوار ہوتی ظالم تجھ کو بھی نیند آنی
کیف و کم کو دیکھ اسے بے کیف و کم کہنے لگے
تیری گلی میں میں نہ پھروں اور صبا چلے
جب کہا میں کہ ٹک خبر لینا
جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹتی ہے
آہستہ گذریو تو صبا کوئے یار سے
دیکھ لوں گا میں اسے دیکھئے مرتے مرتے
گرچہ بیزار تو ہے پر کچھ اسے پیار بھی ہے
مدت ہوئی کہ دیسی عنایات رہ گئی
غم ناکئ بے ہودہ رونے کو ڈبوتی ہے
تو چونکتا عبث ہے کسی بات کے لئے
درد اپنے حال سے تجھے آگاہ کیا کرے
جو ملتا ہے مل پھر کہاں زندگانی
آنکھوں کی راہ ہر دم اب خوں ہی رواں ہے
دل تڑپتا ہے درد پہلو ہے
ہستی ہے سفر عدم وطن ہے
نہ وہ نالوں کی شورش ہے نہ وہ آہوں کی ہے دھونی
تو اس قدر جو اس کا مشتاق ہور ہا ہے
لخت جگر سب آنسوؤں کے ساتھ بہہ گئے
جگرپہ داغ نے میرے یہ گل فشانی کی
یک خلق سیہ مست نئے بے خبری ہے
فردیات
قطعات
رباعیات
مستزاد رباعیات
ترکیب بند
مخمس
ہم وحشیوں کے دل میں کچھ اور ہی امنگ
کئی قیمت میں اوس کے پاس نقد دین کو لائے
ستاتی ہے مجھے ہر لحظہ کج ادائی دوست
فرہنگ
YEAR1963
YEAR1963
سر ورق
فہرست
عرض مرتب
تصوف
درد کی شخصیت
عشق مجازی
عشق حقیقی
طریقۂ محمدیہ
شاعری: صوفیانہ
عاشقانہ
خصوصیات کلام
الف
مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کے رقم کا
مدرسہ! دیر تھا یا کعبہ یا تنجانہ تھا
کبھو خوش بھی کیا ہے جی کسی رند شرابی کا
اکسیر پر مہوس اتنا نہ ناز کرنا
جان پہ کھیلا ہوں میں میرا جگر دیکھنا
مثل نگیں جو ہم سے ہوا کام رہ گیا
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
عاشق بیدل ترا یاں تک تو جی سے سیر تھا
اگر یوں ہی یہ دل ستاتا رہے گا
ہم نے کس رات نالہ سرنہ کیا
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا
انداز وہ ہی سمجھے مرے دل کی آہ کا
دل کس کی چشم مست کا سر شار ہو گیا
ٹھہر جا ٹک بات کی بات اے صبا
گزری شب و آفتاب نکلا
کھلا در وازہ میرے دل پہ از بس اور عالم کا
سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا
نشہ کیا جانے وہ کہنے کو مئے آشام ہے شیشا
یوں ہی ٹہری کہ ابھی جایئے گا
تو بن کہے گھر سے کل گیا تھا
بظاہر کہیں غنچہ دل سے ملا تھا
اپنا تو نہیں یار میں کچھ یار ہوں تیرا
تو کب تئیں مجھ ساتھ مری جان ملے گا
ترے کہنے سے میں از بسکہ باہر ہو نہیں سکتا
سحر سوتے سے اٹھ کر وہ جو گھر سے باہر آنکلا
جب تک ہے دل کے شیشہ میں رنگ امتیاز کا
گل و گلزار خوش نہیں آتا
بھرا مے سے نہیں یہ نور سے معمور ہے شیشا
اہل زمانہ آگے بھی تھے اور زمانہ تھا
اے شمع روز بسکہ ترا انتطار تھا
تھا عدم میں بھی مجھے یک پیچ و تاب
زاہد اگر نہیں کی تو نے کسو سے بیعت
وہ مو کمر کہیں تو ہوا بے حجاب رات
جائیے کس واسطے اے درد میخانے کے بیچ
اس قدر تھا یا کرم یا ظم رانی اس قدر
کیونکر میں خاک ڈالوں سوز دل طپاں پر
کیا ہوا مر گئے آرام ہے دشوار ہنوز
مشہور خلق میں نہیں اپنے کمال کر
نہ کیا تونے ایک بار افسوس
کرتا رہا میں دیدۂ گریاں کی احتیاط
لایا نہ تھا تو آج تئیں ہاتھ سوئے تیغ
پیغام یاس بھیج نہ مجھ بے قرار تک
کچھ دل ہی باغ میں نہیں تنہا شکستہ دل
حیراں آئینہ وار ہیں ہم
چمن میں صبح یہ کہتی تھی ہو کر چشم تر شبنم
گلیم بخت سیہ سایہ دار رکھتے ہیں
آہ مشتاق ترے مفت ہوئے جاتے ہیں
مژگان تر ہوں یا رگ تاک بریدہ ہوں
نہ ہم غافل ہی رہتے ہیں نہ کچھ آگاہ ہوتے ہیں
گر دیکھئے تو مظہر آثار بقا ہوں
تو مجھ سے نہ رکھ غبار جی میں
ہر چند تیری سمت سو ارادہ ہی نہیں
اس کو سکھلائی یہ جفا تو نیں
ہستی ہے جب تلک ہیں اسی اضطراب میں
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں
ان نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں
یہ زلفِ بتاں کا گرفتار میں ہوں
باغِ جہاں کے گل ہیں باخار ہیں تو ہم ہیں
بے زبان ہے یہ زباں سوسن
مرتا نہیں ہوں کچھ اس سخت دل کے ہاتھوں
جی نہ اٹھو کہیں پھر میں جو تومار دامن
اپنے قسمت کے ہاتھوں داغ ہوں میں
کیوں نہ ڈوبی رہی یہ دیدۂ تر پانی میں
کیا ہے سبب کہ نامہ بر آج تلک پھرا نہیں
معلوم نہیں آنکھیں یہ کیوں پھوٹ یہی ہیں
دل مرا پھر دکھا دیا کنیں
گھر تو دونوں پاس ہیں لیکن ملاقاتیں کہاں
دل کو لیجاتی ہیں معشوقوں کی خوش اسلوبیاں
مجھے در سے اپنے تو ٹالے ہے یہ بتا مجھے تو کہاں نہیں
پڑے جو سایہ ہم تجھ بن ادھر ادھر بھٹکتے ہیں
نزع میں تو ہوں ولے تیر اگلا کرتا نہیں
آہ پردہ تو کوئی مانع دیدار نہیں
میرے ہاتھوں کے ہاتھوں اے عزیزاں
دل تو سمجھائے سمجھتا بھی نہیں
زلفوں میں تو سدا سے یہ کج ادائیا ں ہیں
کہیں ہوئے ہیں سوال و جواب آنکھوں میں
مانع نہیں ہم وہ بت خود کام کہیں ہو
مجلس میں بار ہوے نہ شمع و چراغ کو
سمجھنا فہم گر کچھ ہے طبیعی سے الٰہی کو
ملاؤں کس کی آنکھوں سے کہو اس چشم حیراں کو
مست ہوں پیر مغاں کیا مجھ کو فرمائے ہے تو
بی مطلب ہے گدائی سے نہ یہ خواہش کہ شاہی ہو
اے درد یاں کسو سے نہ دل کو پھنسائیو
ہر طرح زمانہ کے ہاتھوں سے ستم دیدہ
کاش تا شمع نہ ہوتا گزر پروانہ
ربط ہے ناز بتاں کو تو تری جان کے ساتھ
دل یہ بے اختیار ہو کر آہ
دل سوا کس کو ہو اس زلف گرہ گیر میں راہ
اس کی بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے
آفت جان و دل یاں وہ بت خود فروش ہے
اہل فنا کو نام سے ہستی کے ننگ ہے
وہ حدت نے ہر طرف ترے جلوے دکھا دیئے
گر باغ میں خنداں دو مرالب شکر آوے
اذیت کوئی تیرے غم کی میرے جی سے جاتی ہے
چھاتی پہ گر پہاڑ بھی ہووے تو ٹل سکے
سرسبز تھا نیستاں میرے ہی اشک غم سے
قسم ہے حضرت دل ہی کے آستانے کی
کوئی بھی دوا اپنےتئیں راس نہیں ہے
یاں عیش کے پردے میں چھپی دل شکنی ہے
ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
آتش عشق جی جلاتی ہے
آرام سے کبھو بھی نہ یکبار سو گئے
آج نالوں نے مرے زور ہی دلسوزی کی
جوں سخن اب یاد یک عالم رہے
بلبل نہ بر آئی باغباں سے
نہ ہاتھ اٹھائے فلک نے ہمارے کینے سے
جی کی جی میں رہی کچھ بات نہ ہونے پائی
دل مرا باغ دل کشا ہے مجھے
فرصتِ زندگی بہت کم ہے
یارو مرا شکوا ہی بھلا کیجئے اس سے
مراجی ہے جب تک تری جستجو ہے
روندے ہے نقش پا کی طرح خلق یاں مجھے
کب ترا دیوانہ آوے قید میں تدبیر سے
ہم چشمی ہے وحشت کو مری چشم شرر سے
گر خاک مری سرمہ ابصار نہ ہو وے
دیا ہے کس کی نظر نے یہ اعتبار مجھے
فر ض کیا کہ اے ہوس یک دو قدم ہی باغ ہے
عشق ہر چند مری جان سدا کھاتا ہے
پہلو میں دل طپاں نہیں ہے
یہ تحقیق ہے یا کہ افواہ ہے
دشنام دے ہے غیر کو تو جان کر مجھے
یاں غیب کے جلوے کے تئیں جلوہ گری ہے
مجھ کو تجھ سے جو کچھ محبت ہے
گل اگر سنکھ ہو بعضے بھید کچھ کہہ کر گئے
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
بات جب آندان پڑتی ہے
ایک آن سنبھلتے نہیں اب میرے سنبھالے لے
غیر جو بے فائدہ ہاتھوں پہ گل کھا یا کئے
ہوا جو کچھ کے ہونا تھا کہیں کیا جی کو روبیٹھے
ہر گھڑی ڈہانپنا چھپانا ہے
کبھو تو بے وفائی یاد آجی کو ڈراتی ہے
دل تجھے کیوں ہے بے کلی ایسی
دشوار ہوتی ظالم تجھ کو بھی نیند آنی
کیف و کم کو دیکھ اسے بے کیف و کم کہنے لگے
تیری گلی میں میں نہ پھروں اور صبا چلے
جب کہا میں کہ ٹک خبر لینا
جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹتی ہے
آہستہ گذریو تو صبا کوئے یار سے
دیکھ لوں گا میں اسے دیکھئے مرتے مرتے
گرچہ بیزار تو ہے پر کچھ اسے پیار بھی ہے
مدت ہوئی کہ دیسی عنایات رہ گئی
غم ناکئ بے ہودہ رونے کو ڈبوتی ہے
تو چونکتا عبث ہے کسی بات کے لئے
درد اپنے حال سے تجھے آگاہ کیا کرے
جو ملتا ہے مل پھر کہاں زندگانی
آنکھوں کی راہ ہر دم اب خوں ہی رواں ہے
دل تڑپتا ہے درد پہلو ہے
ہستی ہے سفر عدم وطن ہے
نہ وہ نالوں کی شورش ہے نہ وہ آہوں کی ہے دھونی
تو اس قدر جو اس کا مشتاق ہور ہا ہے
لخت جگر سب آنسوؤں کے ساتھ بہہ گئے
جگرپہ داغ نے میرے یہ گل فشانی کی
یک خلق سیہ مست نئے بے خبری ہے
فردیات
قطعات
رباعیات
مستزاد رباعیات
ترکیب بند
مخمس
ہم وحشیوں کے دل میں کچھ اور ہی امنگ
کئی قیمت میں اوس کے پاس نقد دین کو لائے
ستاتی ہے مجھے ہر لحظہ کج ادائی دوست
فرہنگ
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।