سرورق
مجلس ادارت
حرف آغاز
تعارف
مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کے رقم کا
ماہیّتوں کو روشن کرتا ہے نور تیرا
کبھو خوش بھی کیا ہے جی کسی رند شرابی کا
مدردہ یا دیر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا
جان پہ کھیلا ہوں میں مرا جگر دیکھنا
اکسیر پر مہوس! اتنا نہ ناز کرنا
مثل نگیں جو ہم سے ہوا کام رہ گیا
عاشق بے دل ترا یاں تک تو جی سے سیر تھا
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
کام یاں جو کہ جس نے ٹھہرایا
جی میں ہے سیر عدم کیجیے گا
اگر یوں ہی یہ دل ستاتا رہے گا
ہم نے کس رات نالہ سر نہ کیا
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا
تو اپنے دل سے غیر کی الفت نہ کھو سکا
انداز وہ ہی سمجھے مرے دل کی آہ کا
دل کس کی چشم مست کا سرشار ہو گیا
تم نے تو ایک دن بھی نہ ادھر گزر کیا
شب گزری اور آفتاب نکلا
مانند فلک دل متوطن ہے سفر کا
کھلا دروازہ ازبس میرے دل پر اور عالم کا
ٹھہر جا ٹک بات کی بات اے صبا
سینۂ و دل حسرتوں سے چھا گیا
دنیا میں کون کون نہ پک بار ہو گیا
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا
تو بن کہے گھر سے کل گیا تھا
یوں ہی ٹھہری کہ ابھی جائیے گا
بہ ظاہر کہیں غنچہ دل سے ملا تھا
اپنا تو نہیں یار میں کچھ یار ہوں تیرا
تو کب تئیں مجھ ساتھ مری جان ملے گا
ترے کہنے سے میں ازبس کہ باہر ہو نہیں سکتا
سحر سوتے سے اٹھ کر وہ جو گھر سے باہر آنکلا
گل و گل زار خوش نہیں آتا
جب تک ہے دل کے شیشے میں رنگ امتیاز کا
اہل زمانہ آگے بھی تھے اور زمانہ تھا
اے شانہ! تو نہ ہو جو دشمن ہمارے جی کا
کہاں کا ساقی اور مینا کدھر کا جام و مے خانا
اے شمع رو زبس کہ ترا انتظار تھا
ایک تو ہوں شکستہ دل تس پہ یہ جور یہ جفا
ناصح ! میں دین و دل کے تئیں اپنے کھو چکا
فلک پر کون کہتا ہے گزر آہ سحر کرنا
وہ مو کمر کہیں تو ہوا بے حجاب رات
تھا عدم میں بھی مجھے اک پیچ و اب
جائیے کس واسطے اے دردؔ ! مے خانہ کے بیچ
زاہد ! اگر نہیں کی تو نے کسوسے بیعت
کیوں کر میں خاک ڈالوں سوز دل تپاں پر
ساقی! ہے چڑھا آج یہ رنگ ہوا پر
مشہور خلق میں نہیں اپنے کمال کر
کیا ہوا مرگئے آرام ہے دشوار ہنوز
لایا نہ تھا تو آج تئیں ہاتھ سوے تیغ
کرتا رہا میں دیدۂ گریاں کی احتیاط
پھرتا رہا میں سعی میں اک عمر جوں فلک
پیغام یاس بھیج نہ مجھ بے قرار تک
حیراں آئینہ دار ہیں ہم
اب کے ترے در سے گر گئے ہم
کچھ لائے نہ تھے کہ کھو گئے ہم
چمن میں صبح یہ کہتی تھی ہو کر چشم تر شبنم
گلیم بخت سیم سایہ دار رکھتے ہیں
مژگان تر ہوں یارگ تاک بریدہ ہوں
آہ! مشتاق ترے مفت ہوئے جاتے ہیں
گر دیکھے تو مظہر آثار بقا ہوں
تو مجھ سے نہ رکھ غبار جی میں
نہ ہم غال ہی رہتے ہیں نہ کچھ آگاہ ہوتے ہیں
ہر چند تیری سمت سوا راہ ہی نہیں
ہستی ہے جب تک ہم ہیں اسی اضطراب میں
ہم تھ سے کس ہوس کی فلک! جستجو کریں
یہ زلف بتاں کا گرفتار میں ہوں
ان نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں
بے زباں ہے بہ دہ زباں سو سن
نہ ہم کچھ آپ طلب نے تلاش کرتے ہیں
باغ جہاں کے گل ہیں یا خار ہیں تو ہم ہیں
جمع میں افراد عالم ایک ہیں
کام مردوں کے جو ہیں سو وہی کر جاتے ہیں
مرتا نہیں ہوں کچھ میں اس سخت دل کے ہاتھوں
اپنی قسمت کے ہاتھوں داغ ہوں میں
جی نہ اٹھوں کہیں پھر میں جو تو مارے دامن
نزع میں تو ہوں وے تیرا گلا کرتا نہیں
کیوں نہ ڈوبے رہیں یہ دیدۂ تر پانی میں
معلوم نہیں آنکھیں یہ کیوں پھوٹ بہی ہیں
مجھے در سے اپنے تو ٹالے ہے یہ بتا مجھے تو کہاں نہیں
گھر تو دونوں پاس ہیں پر وہ ملاقاتیں کہاں
دل کو لے جاتی ہیں معشوقوں کی خوش اسلوبیاں
پڑے جوں سایہ ہم تجھ بن ادھر ادھر بھٹکے ہیں
اے ہجر کوئی شب نہیں جس کو سحر نہیں
میں تو سب باتیں نصیحت کی کہیں
زلفوں میں تو سدا سے یہ کج ادائیاں ہیں
اس ذکر سے بھی مجھ کو کیا کام دل کے ہاتھوں
کیا فرق داغ و گل میں اگر گل میں بو نہ ہو
سمجھنا فہم گر کچھ ہے طبیعی سے الٰہی کو
مجلس میں بار ہووے نہ شمع و چراغ کو
مست ہوں پیر مغاں! کیا مجھ کو فرماتا ہے تو
ملاؤں کس کی آنکھوں سے میں اپنی فشم حیراں کو
اپنے بندے پہ جو کچھ چاہو سو بے داد کرو
دل نالاں کو یاد کرکے صبا
ہر طرح زمانے کے ہاتھوں ہوں ستم دیدہ
رکھتی ہے میرے غنچۂ دل میں وطن گرہ
رطب ہے ناز بتاں کو تو مری جان کے ساتھ
کاش تا شمع نہ ہوتا گزر پروانہ
دل پہ بے اختیار ہو کر آہ!
نشہ کیا جانے وہ کہنے کو مے آشام ہے شیشہ
جوں جرس دل کے ساتھ میرے آہ
اس کو سکھلائی یہ جفا تو نے
اس کی بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے
دل مرا پھر دکھا دیا کن نے
اہل فنا کو نام سے ہستی کے ننگ ہے
وحدت نے ہر طرف ترے جلوے دکھا دیے
گر باغ میں خنداں وہ مرا لب شکر آوے
اذیت کوئی تیرے غم کی میرے جی سے جانی ہے
چھاتی پہ گر پہاڑ بھی ہووے تو ٹل سکے
قسم ہے حضرت دل ہی کے آستانے کی
کوئی بھی دوا اپنے تئیں راس نہیں ہے
یاں عیش کے پردے میں چھپی دل شکنی ہے
جوں سخن اب یاد یک عالم رہے
آن نالوں نے مرے زور ہی دل سوزی کی
ہے غلط گر گماں میں کچھ ہے
آرام سے کبھو بھی نہ یک بار سو گئے
بلبل نہ بر آئے باغ باں سے
نہ ہاتھ اٹحائے فلک گو ہمارے کینے سے
جی کی جی ہی میں رہی بات نہ ہونے پائی
فرصت زندگی بہت کم ہے
یارو! مرا شکوہ بھی بھلا کیجیے اس سے
دل مرا باغ دل کشا ہے مجھے
سر سبز تھا نیستاں میرے ہی اشک غم سے
روندے ہے نقش پا کی طرح خلق یاں مجھے
مرا جی ہے جب تک تری جستجو ہے
ہم چشمی ہے وحشت کو مری چشم شرر سے
کب ترا دیوانہ آوے قید میں تدبیر سے
گر خاک مری سرمۂ ابصار نہ ہووے
دیا ہے کس کی نظر نے یہ اعتبار مجھے
فرض کیا کہ اے ہوس! یک دو قدم ہی باغ ہے
اپنے گئیں تو ہر گھڑی غم ہے الم ہے داغ ہے
پھنسیے جو زلف میں کسی کب یہ ہمیں فراغ ہے
پہلو میں دل تپاں نہیں ہے
عشق ہر چند مری جان سدا کھاتا ہے
دشنام دے ہے غیر کو تو جان کر مجھے
یہ تحقیق ہے یا کہ افواہ ہے
یاں غیب کے جلوے کے تئیں جلوہ گری ہے
گل اگر سنمکھ ہو بعضے بھید کچھ کہہ کر گئے
مجھ کو تجھ سے جو کچھ محبت ہے
تہمت چند اپنے ذمے دھر لے
شخص و عکس اس آئنے میں جلوہ فرما ہو گئے
ایک آن سنبھلتے نہیں وہ میرے سنبھالے
بات جب آ ندان پڑتی ہے
غیرجوں بے فائدہ ہاتھوں پہ گل کھایا کیے
ہوا جو کچھ کہ ہونا تھا کہیں کیا جی کو رو بیٹھے
کبھو تو بے وفائی یاد آ جی کو ڈراتی ہے
جو یاں دو چاہنے والے قریب ہم دگر بیٹھے
ہر گھڑی ڈھانپنا چھپانا ہے
دل! تجھے کیوں ہے بے کلی ایسی
دشوار ہوتی ظالم! تجھ کو بھی نیند آنی
کیف وکم کو دیکھ اسے بے کیف و کم کہنے لگے
جب کہا میں کہ ٹک خبر لینا
تیری گلی میں میں نہ چلوں اور صبا چلے!
جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹتی ہے
گر نام عاشقی ترے نزدیک ننگ ہے
دیکھ لوں گا میں اسے دیکھیے مرتے مرتے
گرچہ بیزار تو ہے پر اسے کچھ پیار بھی ہے
غم ناکی بے ہودہ رونے کو ڈبوتی ہے
آنکھوں کی راہ ہر دم اب خون دل رواں ہے
نہ وہ نالوں کی شورش ہے نہ آہوں کی ہے وہ دھونی
نے وہ بہار واں ہے نہ یاں ہم جواں ہے
یہ زاہد کب خطا سے بے خطر ہے
مت اٹکیو تو اس میں کہ مشہود کون ہے
بس ہے یہی مزار پہ میرے کہ گاہ گاہ
ہمارے جامۂ تن میں نہیں کچھ اور بس باقی
نہ کچھ غیر سے کام نے یار سے
اس تیغ آب دار کا گر یہ ہی وار ہے
نالہ ہے سو بےاثر اور آہ بے تاثیر ہے
باطن سے جنھوں کے تئیں خبر ہے
مخمسات
ہم وحشیوں کے دل میں کچھ اور ہی امنگ ہے
کئی قیمت میں اس کے پاس نقد دین کو لائے
رباعیات
مدت تئیں باغ و بوستاں کو دیکھا
شاہنشہ ملک کفرودیں تو
ترکیب بند
میرے دم سرد سے نہیں دور
میں منتظر دم صبا ہوں
مت کہہ کہ فلک میں ہیں برے ڈھنگ
اس زیست کا اعتبار کیا ہے
مدت تئیں عشق دل پہ در تھا
عاشق ہے اور اضطرار کرنا
بجھے شعلے بھی کتنے کتنی ہی موجیں مٹیں یارب!
ضمیمہ
تیرے سوا نہیں کوئی دونوں جہان میں
ہم یہ کہتے تھے کہ احمق ہو جو دل کو دیوے
ممکن نہیں وصل میں بھی عاشق
نامۂ درد کو مرے لے کر
فرہنگ
YEAR1989
YEAR1989
سرورق
مجلس ادارت
حرف آغاز
تعارف
مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کے رقم کا
ماہیّتوں کو روشن کرتا ہے نور تیرا
کبھو خوش بھی کیا ہے جی کسی رند شرابی کا
مدردہ یا دیر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا
جان پہ کھیلا ہوں میں مرا جگر دیکھنا
اکسیر پر مہوس! اتنا نہ ناز کرنا
مثل نگیں جو ہم سے ہوا کام رہ گیا
عاشق بے دل ترا یاں تک تو جی سے سیر تھا
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
کام یاں جو کہ جس نے ٹھہرایا
جی میں ہے سیر عدم کیجیے گا
اگر یوں ہی یہ دل ستاتا رہے گا
ہم نے کس رات نالہ سر نہ کیا
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا
تو اپنے دل سے غیر کی الفت نہ کھو سکا
انداز وہ ہی سمجھے مرے دل کی آہ کا
دل کس کی چشم مست کا سرشار ہو گیا
تم نے تو ایک دن بھی نہ ادھر گزر کیا
شب گزری اور آفتاب نکلا
مانند فلک دل متوطن ہے سفر کا
کھلا دروازہ ازبس میرے دل پر اور عالم کا
ٹھہر جا ٹک بات کی بات اے صبا
سینۂ و دل حسرتوں سے چھا گیا
دنیا میں کون کون نہ پک بار ہو گیا
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا
تو بن کہے گھر سے کل گیا تھا
یوں ہی ٹھہری کہ ابھی جائیے گا
بہ ظاہر کہیں غنچہ دل سے ملا تھا
اپنا تو نہیں یار میں کچھ یار ہوں تیرا
تو کب تئیں مجھ ساتھ مری جان ملے گا
ترے کہنے سے میں ازبس کہ باہر ہو نہیں سکتا
سحر سوتے سے اٹھ کر وہ جو گھر سے باہر آنکلا
گل و گل زار خوش نہیں آتا
جب تک ہے دل کے شیشے میں رنگ امتیاز کا
اہل زمانہ آگے بھی تھے اور زمانہ تھا
اے شانہ! تو نہ ہو جو دشمن ہمارے جی کا
کہاں کا ساقی اور مینا کدھر کا جام و مے خانا
اے شمع رو زبس کہ ترا انتظار تھا
ایک تو ہوں شکستہ دل تس پہ یہ جور یہ جفا
ناصح ! میں دین و دل کے تئیں اپنے کھو چکا
فلک پر کون کہتا ہے گزر آہ سحر کرنا
وہ مو کمر کہیں تو ہوا بے حجاب رات
تھا عدم میں بھی مجھے اک پیچ و اب
جائیے کس واسطے اے دردؔ ! مے خانہ کے بیچ
زاہد ! اگر نہیں کی تو نے کسوسے بیعت
کیوں کر میں خاک ڈالوں سوز دل تپاں پر
ساقی! ہے چڑھا آج یہ رنگ ہوا پر
مشہور خلق میں نہیں اپنے کمال کر
کیا ہوا مرگئے آرام ہے دشوار ہنوز
لایا نہ تھا تو آج تئیں ہاتھ سوے تیغ
کرتا رہا میں دیدۂ گریاں کی احتیاط
پھرتا رہا میں سعی میں اک عمر جوں فلک
پیغام یاس بھیج نہ مجھ بے قرار تک
حیراں آئینہ دار ہیں ہم
اب کے ترے در سے گر گئے ہم
کچھ لائے نہ تھے کہ کھو گئے ہم
چمن میں صبح یہ کہتی تھی ہو کر چشم تر شبنم
گلیم بخت سیم سایہ دار رکھتے ہیں
مژگان تر ہوں یارگ تاک بریدہ ہوں
آہ! مشتاق ترے مفت ہوئے جاتے ہیں
گر دیکھے تو مظہر آثار بقا ہوں
تو مجھ سے نہ رکھ غبار جی میں
نہ ہم غال ہی رہتے ہیں نہ کچھ آگاہ ہوتے ہیں
ہر چند تیری سمت سوا راہ ہی نہیں
ہستی ہے جب تک ہم ہیں اسی اضطراب میں
ہم تھ سے کس ہوس کی فلک! جستجو کریں
یہ زلف بتاں کا گرفتار میں ہوں
ان نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں
بے زباں ہے بہ دہ زباں سو سن
نہ ہم کچھ آپ طلب نے تلاش کرتے ہیں
باغ جہاں کے گل ہیں یا خار ہیں تو ہم ہیں
جمع میں افراد عالم ایک ہیں
کام مردوں کے جو ہیں سو وہی کر جاتے ہیں
مرتا نہیں ہوں کچھ میں اس سخت دل کے ہاتھوں
اپنی قسمت کے ہاتھوں داغ ہوں میں
جی نہ اٹھوں کہیں پھر میں جو تو مارے دامن
نزع میں تو ہوں وے تیرا گلا کرتا نہیں
کیوں نہ ڈوبے رہیں یہ دیدۂ تر پانی میں
معلوم نہیں آنکھیں یہ کیوں پھوٹ بہی ہیں
مجھے در سے اپنے تو ٹالے ہے یہ بتا مجھے تو کہاں نہیں
گھر تو دونوں پاس ہیں پر وہ ملاقاتیں کہاں
دل کو لے جاتی ہیں معشوقوں کی خوش اسلوبیاں
پڑے جوں سایہ ہم تجھ بن ادھر ادھر بھٹکے ہیں
اے ہجر کوئی شب نہیں جس کو سحر نہیں
میں تو سب باتیں نصیحت کی کہیں
زلفوں میں تو سدا سے یہ کج ادائیاں ہیں
اس ذکر سے بھی مجھ کو کیا کام دل کے ہاتھوں
کیا فرق داغ و گل میں اگر گل میں بو نہ ہو
سمجھنا فہم گر کچھ ہے طبیعی سے الٰہی کو
مجلس میں بار ہووے نہ شمع و چراغ کو
مست ہوں پیر مغاں! کیا مجھ کو فرماتا ہے تو
ملاؤں کس کی آنکھوں سے میں اپنی فشم حیراں کو
اپنے بندے پہ جو کچھ چاہو سو بے داد کرو
دل نالاں کو یاد کرکے صبا
ہر طرح زمانے کے ہاتھوں ہوں ستم دیدہ
رکھتی ہے میرے غنچۂ دل میں وطن گرہ
رطب ہے ناز بتاں کو تو مری جان کے ساتھ
کاش تا شمع نہ ہوتا گزر پروانہ
دل پہ بے اختیار ہو کر آہ!
نشہ کیا جانے وہ کہنے کو مے آشام ہے شیشہ
جوں جرس دل کے ساتھ میرے آہ
اس کو سکھلائی یہ جفا تو نے
اس کی بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے
دل مرا پھر دکھا دیا کن نے
اہل فنا کو نام سے ہستی کے ننگ ہے
وحدت نے ہر طرف ترے جلوے دکھا دیے
گر باغ میں خنداں وہ مرا لب شکر آوے
اذیت کوئی تیرے غم کی میرے جی سے جانی ہے
چھاتی پہ گر پہاڑ بھی ہووے تو ٹل سکے
قسم ہے حضرت دل ہی کے آستانے کی
کوئی بھی دوا اپنے تئیں راس نہیں ہے
یاں عیش کے پردے میں چھپی دل شکنی ہے
جوں سخن اب یاد یک عالم رہے
آن نالوں نے مرے زور ہی دل سوزی کی
ہے غلط گر گماں میں کچھ ہے
آرام سے کبھو بھی نہ یک بار سو گئے
بلبل نہ بر آئے باغ باں سے
نہ ہاتھ اٹحائے فلک گو ہمارے کینے سے
جی کی جی ہی میں رہی بات نہ ہونے پائی
فرصت زندگی بہت کم ہے
یارو! مرا شکوہ بھی بھلا کیجیے اس سے
دل مرا باغ دل کشا ہے مجھے
سر سبز تھا نیستاں میرے ہی اشک غم سے
روندے ہے نقش پا کی طرح خلق یاں مجھے
مرا جی ہے جب تک تری جستجو ہے
ہم چشمی ہے وحشت کو مری چشم شرر سے
کب ترا دیوانہ آوے قید میں تدبیر سے
گر خاک مری سرمۂ ابصار نہ ہووے
دیا ہے کس کی نظر نے یہ اعتبار مجھے
فرض کیا کہ اے ہوس! یک دو قدم ہی باغ ہے
اپنے گئیں تو ہر گھڑی غم ہے الم ہے داغ ہے
پھنسیے جو زلف میں کسی کب یہ ہمیں فراغ ہے
پہلو میں دل تپاں نہیں ہے
عشق ہر چند مری جان سدا کھاتا ہے
دشنام دے ہے غیر کو تو جان کر مجھے
یہ تحقیق ہے یا کہ افواہ ہے
یاں غیب کے جلوے کے تئیں جلوہ گری ہے
گل اگر سنمکھ ہو بعضے بھید کچھ کہہ کر گئے
مجھ کو تجھ سے جو کچھ محبت ہے
تہمت چند اپنے ذمے دھر لے
شخص و عکس اس آئنے میں جلوہ فرما ہو گئے
ایک آن سنبھلتے نہیں وہ میرے سنبھالے
بات جب آ ندان پڑتی ہے
غیرجوں بے فائدہ ہاتھوں پہ گل کھایا کیے
ہوا جو کچھ کہ ہونا تھا کہیں کیا جی کو رو بیٹھے
کبھو تو بے وفائی یاد آ جی کو ڈراتی ہے
جو یاں دو چاہنے والے قریب ہم دگر بیٹھے
ہر گھڑی ڈھانپنا چھپانا ہے
دل! تجھے کیوں ہے بے کلی ایسی
دشوار ہوتی ظالم! تجھ کو بھی نیند آنی
کیف وکم کو دیکھ اسے بے کیف و کم کہنے لگے
جب کہا میں کہ ٹک خبر لینا
تیری گلی میں میں نہ چلوں اور صبا چلے!
جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹتی ہے
گر نام عاشقی ترے نزدیک ننگ ہے
دیکھ لوں گا میں اسے دیکھیے مرتے مرتے
گرچہ بیزار تو ہے پر اسے کچھ پیار بھی ہے
غم ناکی بے ہودہ رونے کو ڈبوتی ہے
آنکھوں کی راہ ہر دم اب خون دل رواں ہے
نہ وہ نالوں کی شورش ہے نہ آہوں کی ہے وہ دھونی
نے وہ بہار واں ہے نہ یاں ہم جواں ہے
یہ زاہد کب خطا سے بے خطر ہے
مت اٹکیو تو اس میں کہ مشہود کون ہے
بس ہے یہی مزار پہ میرے کہ گاہ گاہ
ہمارے جامۂ تن میں نہیں کچھ اور بس باقی
نہ کچھ غیر سے کام نے یار سے
اس تیغ آب دار کا گر یہ ہی وار ہے
نالہ ہے سو بےاثر اور آہ بے تاثیر ہے
باطن سے جنھوں کے تئیں خبر ہے
مخمسات
ہم وحشیوں کے دل میں کچھ اور ہی امنگ ہے
کئی قیمت میں اس کے پاس نقد دین کو لائے
رباعیات
مدت تئیں باغ و بوستاں کو دیکھا
شاہنشہ ملک کفرودیں تو
ترکیب بند
میرے دم سرد سے نہیں دور
میں منتظر دم صبا ہوں
مت کہہ کہ فلک میں ہیں برے ڈھنگ
اس زیست کا اعتبار کیا ہے
مدت تئیں عشق دل پہ در تھا
عاشق ہے اور اضطرار کرنا
بجھے شعلے بھی کتنے کتنی ہی موجیں مٹیں یارب!
ضمیمہ
تیرے سوا نہیں کوئی دونوں جہان میں
ہم یہ کہتے تھے کہ احمق ہو جو دل کو دیوے
ممکن نہیں وصل میں بھی عاشق
نامۂ درد کو مرے لے کر
فرہنگ
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।