سرورق
فہرست
کس طرح ادا حمد ہو خلاق جہاں کا
المنت اللہ کہ سردار ہمارا
امت پہ محمد کے بہت پیار خدا کا
اجسام عنصری کے رکن چار ہیں کا
آل نبی کے ذکر سے آرام ہو گیا
آنک میں دشمن کے کنکر سل گیا
اشرف ہی سب عضو پر ہر وقت نام دل کا
کیا ذرا سی بات میں دل کا خلاصہ ہوگیا
ہے دلمیں روح آپی سب کام پر وہ قادر
آل نبی کے ذکر کو جب دل نے نکالا
نہیں کس کو کہنا شہنشاہ و روا
سرکشوں سرکشی سے سرنکوں حق نے کیا
بھیجا کیا خوب اب خدا بھیجا
کیا خوب ریاست میں ہے دیوان ہمارا
الوداع سب سے جلد ہو مہ رمضان چلا
شکستہ قلم دل شکستہ کیا
تو رنک میں آب سا ہمرنک ہو جا
جان قالب میں تلک دنیا
بیریا ہو کے بیر کو کھانا
رسم شادی میں اگر چہ ہے منم کا جھگڑا
کیا خوب آج عرس ہے شاہ کمال کا
شجیع و سخی قطب خاں نواب
قدم قدم پہ ہے انداز دلربائی کا
شہر میں اب دزوگیریک نوجوان پیدا ہو
یہی ہے شرط مردوں کی زبان دیکر نہ ٹل جانا
غلاموں سے ادنیٰ غلام ایک تیرا
دیکھ یہ سنگ دلی اور نیستجا اپنا
کیا سنجی فرزند میرا نوجوان پیدا ہوا
مثل نکن جو ہم سے ہو ا نام رہ گیا
رہتا ہے شوق مرد کو اکثر شکار کا
بوسہ تو کل کی رات عجایب مزا دیا
گھر میں میرے اچانک وہ پاک ذات آیا
یاد میں تیرے میں وفانہ کیا
تویاد سے کر لے عبادت ہے بقا دنیا فنا
قدرت سے خدائی کے تماشا نظر آیا
خود ہی پہ مسند وملک ومعاملہ ٹھہرا
سایل ہوں میں بارش کا تیریسے خدایا
پنج شعرا جمع ہوے ایک جا
رتبا سے ہوا ہے حکم وندا
کلی شب کو مجھے بشارہ ہوا
قابو گیروں کے خواب سے بیدا ررکھ خدا
شاہنوز میں لے رحم ہے قصاب جو بالا
شیشۂ دل کو میرے تو توڑا
شکر اللہ کہ دنیا میں میرا نام ہوا
میلا ہے آج حضرت بندہ نواز کا
زر زری زر بخش نظام الدین ہو تم اولیا
جاری رہیگا حشر تلک غم حسین کا
آخری چار شنبہ کا تورا
ریش سفید ہے سبز لباس تسبیح دانہ ذکر خدا
کچھ خدا کا بھی ڈر نہیں آتا
جو گیا پھیر کر نہیں آتا
جہاں کب کسی سے کر ے ہے وفا
بول اور چال میں پڑا لگڑا
عجب طرح ہے زمانے کا اتفاق ہوا
یاد حق میں تشنہ ہے مو تھی تلاب
ردیف الباء
مثل مسگس ہے حرص میں دنیا کے تو خراب
دروغ گو کے تو پیچھے نہ پھر نماز تراب
نایب خدا کا بادشاہ اس سے بنا نواب
داب ضرب سے میرے کمر میں تیرے وہی آب
سو ویں لپٹ کے اس صنم نازنیں سے کب
دنیا کے سب مرید ہیں مطلب ہے دین سے کب
جو کوئی پیویگا سیندی اور شراب
غیر پر کرنا ہم سے عداوت کیا خوب
برج گل کے تخت نشینی میں آفتاب
دربار سے خدا کے ہی تقسیم آج رات
ردیف التا
نت سے چہرے کی کیا بنی ہے کت
تین شخصوں پہ حق کیا لعنت
سو امن کا کیا ہم نے جو یہ روت
صدق دل سے کیا جو میں شربت
خاک میں ملنا ہے آخر خاک کی لے خاصیت
شمس وقمر کی چال سے دن رات آئے بات
آج کی شب ہے شب قدر کی رات
جس نے پیدا کیا ہے اس کی صفت
فضل فضال ہے کہ یہ دولت
کیا خوب نظر آئی مجھے چاندنی کی رات
جلیبی شیرنی میں دیتی لذت
سونہ کہا سنار سے آؤ تم میری ذات
بغیر یار کے ہے سیر لالہ زار عبث
علوم دین کا دنیا میں جو ہوا وارث
ردیف الثا
خواب خفلت ستی ہوشیارہوکر تو دولت
نہ کیجئے اس طرح زچ ہو کے یار ہم سے بحث
اٹھا نہ رنج ومحبت کا یہاں کی بار عبث
پیغمبر خدا کے نواسے ہیں دو سراج
ردیف الجیم
ہزار سچ ہے اس سر کو جس کے سر پنچ
یا امام حسین شہید گنج
فضل و کرم سے حق کے بلا دور ہوے آج
کیا خوب امنڈ گھمنڈ سے برستا ہے یہ راج
فضل خدا سے دور ہوا ہے گران آج
زخم تیر مژہ کا خبریار کس سے ہو علاج
یہ خواں لطف دیا بھیج جب حسین ملیح
ردیف الحا
چھپتے ہیں لوگ کام پہ جانے علی الصباح
رن مشرب سے کون ہو ناصح
ضعیف مرکب تن پر نجا سے ملاح
پھن کے نکلے ہے جو زادہ شاہ خوبان سرخ
ردیف الخاء
ہو تو بیدار کہ ہے وقت عبادت دم صبح
شوخ چشمی نہ کیجئے اے شوخ
کس جگا باندھا ہے دیجئکا یار کاخ
ردیف الدّال
نہال حسن کی یہ ہے لگائے شاخ
ہر خشک وتر میں کرے نظر ہے وہی مواد
فضل احمد سے ہے یہ باغ ایجاد
عشق کی مستی میں تیرے کھل کئے چولی کے پند
بندگی خالصاً خدا کو پسند
بازو پہ اپنے باندھ کے بیٹھی ہے باروبند
دن نکل جا کے بات رہتی یاد
مزاج شاہ کا بیشک حباب کے مانند
مرشد وجہ الدین شاہ میرے مجھکو کہئے مرید
نسن و سخن کو کسی کے میرے مقال کے بعد
درامیر پہ آتے ہمیشہ دولتمند
عشق کی مستی میں تیرے گھل گئے چوکی کے بند
کمر سے یار کے لپٹوں میں داب کے مانند
بس ہے بازو پہ میرے نام خدا کا تعویذ
ردیف الذال
لب یار کے ہیں پستہ وبادام سے لذیذ
وصال یار کا قاصد نے لادیا کاغذ
کمال وفضل میں ہے گرچہ یہ بدل استاذ
گر تمنا ہے کہ پاوے ہے نیازی کے لذوذ
ہر ایک درد کا ملتا ہے ہر کہیں تعویذ
مسند حضرت پیمبر کے صدر مہرسے ہیں چار
ردیف الرا
آج صندل ہے عرس کا بھرپور
حاکم کرے جو حکم نشہ سے غرور کر
دلیر جنگ کے سرکار نت رہے دربار
ہفت اقلیم کی حکومت پر
ماہ رمضان میں شب قدر سے نور
کیا نہیں پختہ یہ کھلے اسرار
ہیں بخیلوں سے زن پسر ناچار
سود خور ے کو حق کا نہیں دیدار
ہے شب قدر کا تو آج ظہور
جھوٹ سب خصلتوں سے ہے بدتر
بساط زمیں پر فلک کا چتر
بغض رکھنا صحاب سے ہے کفر
کاہلی حق کے بندگی میں نہ گر
جھوٹ کہنے میں جو ہوا مشہور
سدا دئے ہے خدا نام پنجتن میں اثر
ہاتھ رکھ کر میرے سینہ پر وہ بولی ہنس کر
نذر اللہ کی میں کیا ہوں ضرور
مشرکوں سے تو ہی غدا بیزار
ایسے خاکوں سے خاک پا بہتر
بادشاہی دل کی سارے جسم پر
کیا خوب ضرب دار ہیں سرکاری چوبدار
جھوٹ کہنے سے جس کو ہو سروکار
اے برہمن تیرے گلے زنار
شب جمعہ کو بشارہ میں نظر آیا نور
ہاتھ رکھ کر میرے سینہ پر وہ بولی ہنس کر
نکلا جو دستگیر کا چاند آسمان پر
ہاتھ رکھ کر میرے سینہ پر وہ بولی ہنس کر
ہرہراسم کے ہاتھ میں لائے ہے نیشکر
شاہوں کو جو پسند ہے شاہین کا شکار
احمد کے نام پر ہوں سدا جان و دل نثار
پسارا ہاتھ ہون تیرے حضور یا غفار
ردیف الزا
منظور نہیں ہم کو بخیر یار دلنواز
خبر وصل یار کشف نہ ہو کس پہ یہ رموز
خالص طلا نہ ہوے بخیر نار قلب سوز
قدر نہیں ہے مگر ہے تو جو ہری کے پاس
ردیف السین
صدق دل سے کیا ہوں میں نے نیاز
خدمت میں ہمجلیس کے ہے میری التماس
لبوں کی سرخی تیری کسی نے لے لیا ہے چوس
لبوں کی سرخ تیری کس نے لے گیا ہے چوس
یہ دنیا وہ ہے فاحشہ کر قیاس
ردیف الشین
ہمیں نے بار امانت لیا اٹھا ہر دوش
نظر میں رکھئے قدم دم پہ دہر سد ہرکر ہوش
پڑا ہے ہم کو ہمارے رفیق سے پر خاش
ہزار تیری دلیری پہ مرحبا شہباش
رہتی ہے ہر دم مجھے اکثر سخنداں کی تلاش
ریاض حسن عقیدت کا باغباں اخلاص
ردیف الصاد
گر گئے ہے وہ پیری پیکر نے ایسا کام رقص
لگا ہے دشمن دیں پیت آمیرے مخصوص
دیدۂ دل کھول روے یار سے رکھئے عرض
مطلب نہ گل سے ہے و نہ گلزار سے عرض
ردیف الضاد
عقل کے دفترکو میرے کر دیا دلبر غلط
ردیف الطا
قدم کو مقدم مخدوم پر تو دہر مضبوط
ہر جزوکل آعلم الٰہی ہے بس محیط
جانا تھا اپنا دوست تجھے جاوداں غلط
جس ریاست کا ہے خد حافظ
حضور باش رہے یار کے سدا محفوظ
ردیف الظا
کرم سے حق کے ہوے ہم نصیب کے تابع
ردیف العین
ہزار دل سے بدل ہم اسی کے ہیں تابع
شرق دل سے مہر عرفاں جب کہ ہو جس پر طلوع
کیجے جو کوئی کام بسم اللہ سے شروع
گل کی خوشبو سے معطر ہوگیا میرا دماغ
ردیف الغین
بوئے گل گلاب معطر کیا دماغ
خوشبو سے نعمتوں کے معطر ہوا دماغ
کسی کو اس بت بے پیر کا لگانہ سراغ
ہے شب دربار روشن شمع وقندیل وچراغ
سایل کو دیکھتے جو ہوویگا بد دماغ
اندھیری رات کا م مجھ کو دیا خدا نے چراغ
گل نے اپنا منہ بتایاپہارا غنچہ کا غلاف
فقیر خانہ دل تک تو لایئے تشریف
ردیف الفا
دلیر جنگ کی ریاست میں ہے دو دھارا سیف
پے زلیخا کے کسیوں رہا یوسف
آمد آمد ہوے ہے صبح صادق
ردیف القاف
دیکھ تجھ رخ کو پیری آج ہوئے ہم عاشق
ردیف الکاف
بلندی کی ہوا پستی سے فایق
دولت پہ بھول مانکتے حایل کو مت جھڑک
بہت ہشیار رہ ایدل کہ وہ دلدار ہے نازک
بہت ہشیار رہ ایدل کہ وہ دلدار ہے نازک
در دلیر پہ بجتا ہے روز دل بادل
محبو باغ ولایت کے وہ گلاب کے پھول
ردیف الّلام
دلون میں فوج کے بجتا ہے آج دلبادل
حق نے دیا ہے آل محمد پہ مورچل
آتے ہیں شرر آگ کے دامن کو لو سنبھال
جو ہے تیرے میں عیب سو حق کے حضور بول
بہار ہستیٔ گل پر نہ بھولئے بلبل
بہار آتے ہیں گلشن میں بلبلوں نے غل
محبو باغ ولایت کے وہ گلاب کے پھول
چشم معشوق جب ہویئے چنچل
راگ بھروں تو پھیلے ہے انمول
آج ہمارا مقام ہے ہریال
راستے میں مجھے ملاو نگل
صاف سینہ انکا انکا کفر ہے چھاتی پہ سل
جو ہے تیرے میں عیب سو حق کے حضور بول
ہے یہ دربار کی عجایب چال
بات جیسی ہوے ہے ویسی بول
میں نے صمدی سے یوں کیا ہوں تنہول
کر لکھیے کوئی کسی طور سے اشعار غزل
ردیف المیم
سلام لیوے نہ لیوے مجھےسلام سے کام
وہ نور حق کہ جسکا محمد ہوا ہے نام
برج دلونے کا تہہ دیا حوت کے قدم
عدالت برابر نہیں کوئی کام
اہل فنا کو نام سے ہر گز نہیں ہے کام
زیر دستوں کو کہاں تگ کے ستاوے حاکم
فضل حق کا بہت بڑا ہے عظیم
سچھ ہے ریاستوں کا عدالت سے انتظام
چار حرفوں سے ہے وکیل کانام
چار حرفوں سے ہے وکیل کانام
رسم شربت کا تمہیں آج مبارک جم جم
شب دیجور کیا کیا ہے کام
عام اور خاص میں عجب ہے عام
تیری کھوتی قسم تونے کرلی ہضم ہوگا روز حشر میں تجھے بد ہضم
اہل انصاف نے کیا ہے ترم
تیری جھوٹی قسم نے دی تجھ کو یہ رنج منہ بتا نہ خدا کو خدا کی قسم
کیا رویں صاحب بہادر نیک نام
تیری جھوٹی قسم نے دی تجھ کو یہ رنج کہ دوبارہ نہ کہا تو خدا کی قسم
اے تپسی دل سے لے صاحب کا نام
زخم گندم کو مرہم توبہ سوا نہیں
پیغمبر خدا تو ہیں مہتاب لامکاں
ردیف ا لنون
عطر آنے سے معطر ہوگئے دربار بان
دیدہ نہیں جس آنکھ میں دیدار حق اسکو کہاں
دیئے کی روشنی ہر دو جہان میں
کبھو قدم نہ رکھ باہر اپنے گھر میں ہوں
مت چھیڑ دل کو دل کا ستانا بھلا نہیں
شیشہ ہے پر شراب نشہ سے خبر نہیں
السلام اے شہسوار پردۂ عین الیقین
غوث الاعظم سپر میرے قادر جیلان ہمیں
تو میرا ہی وکیل سیف الدین
پیر بھلے کے نیاز کے روتان
کس کے ہانکے سے آیئے دنیا میں
جرح تامس چارلس بہادر مہربان
ارحم الراحمین کے درگاہ میں
جگر بند میرے ابولخیر خان
نہیں وہ مرشد میرے بدین تن
ہیں صدر کے جرح تم نیک نام اور مہرباں
خلل حساب کا آتا ہے ایک کوزے میں
زخم عطا کو مرہم توبہ سیوا نہیں
گر کوئی آوے گھر تیرے مہمان
چھوڑ لیلی کو کیوں رہا مجنوں
ایک شہر میں دوشہ سماتے نہیں
رہیے تا پاس پیمبر کے ہوس دنیا میں
بات میں بات جس کے نہیں یکساں
سب پہ مختار ہیں ابوالخیر خان
زیب اور زینت سرکار ابوالقاسم خان
آراستہ تیار ہیں عبدالکریم خان
باحسن وامتیاز ہیں عبد المجید خان
کوئی دنیا میں حق شناس نہیں
کیا نصیبہ دار ہے عبدالرؤف خان
جسکی زبان ہو شیریں تو کچھ گھات بھی نہیں
دنیا اچھی مت کھاو مچھی کانٹے حلق کے ہیں دشمن
مزاج ہلکا کھاے طبیب کے گھر جاوے کون
نیشکر کر دیا وہاں شیریں
مجرئی نو صد نو دزخم نو کھایا حسیں
شکر صد شکر بدر گاہ خداوند جہاں
شش یہ بانوں سے خدا ہی امان
کھڑے سلام کو سب مل ادب سے پیروجوان
صد شکر ہے اللہ کے قدرت کے میں قربان
شاہ کمال اولیا مکمل ہیں
بول بسم اللہ میں ایک ایک قدم بڑھتا ہوں
انگشتری ملی ہے مجھے نام پنجتن
سانچے ہوشاہ کمال ہو دیوان ہو تمہیں
بے نماز ی سے بیسر ہے مجھکو
ردیف الواو
دیوے نہ جو زکوٰۃ کہ صاحب نصاب ہو
وصل کی شب کھلا جو گل شبو
مخدوم دین ودنیا بندہ نواز تم ہو
اب طاق میں اس یار کے سر کو جھکا جو ہو سو ہو
نادیوے کا زکوٰۃ جو مالک نصاب ہو
رئیس پونہ کا بھاگا ہے تھو تھو تھو
گل کی شب کو کھلا تھا گل شبو
سجدہ کیا ہوں عشق میں سر کو رکھا جو ہوسو ہو
خوشی سے غیروں کینے پہ حجاب کاوے تو
ردیف الھا
ناخن صبح سے جب کھل گئی غنچے کی گیر
واہ کیا آپ کی تصویر ہے سبحان اللہ
ہو گیا گلزار ابراہیم پر آتش کدہ
کون ہے تو بھی کہاں کا اور یہ کسکا گلہ
سرخ رنگ ہے گل لالہ
مالک اس تخت گاہ کا ہے اللہ
طعام کھانا ہے بول بسم اللہ
نور چشمی کی مبارک ہو تمہیں بسم اللہ
حصہ ازلی سے جس کا تھا توشہ
اے نجومی تیرے قسمت کے ستارے کو دیکھ
چال تو الشی مت چل بالم ٹھوکر کھا کر گرے گا دیکھ
حق کی پرستش کرے مخفی مت جا کعبہ بت خانہ
ازل سے ہووے جدا ہے تو کیا کرے واللہ
در بہشت پہ لکھا ہے اللہ لالہ الااللہ
دور کر درد میرا یا شافی
ردیف الیاء
یک ماردری برادر اولاد ہے واللہ
ہر شیشہ اگر چیکہ یہاں مے سے بہرا ہے
کرم سے اپنے دیئے اپنے طریق مجھے
جو ہری جو ہر شمشیر کو کیا جانے ہے
مت اٹکیو کہ بحر میں یا بر میں کون ہے
دن پیر کے نیاز ہے پیران پیر کی
ندر اللہ کے نام کی کشتی
حوض کوثر کے باٹنے والے
بیٹھے بیٹھے تو دن یہ جاتا ہے
سبھی اچھے ہیں پر ہے کون برے
اللہ کی عنایت سے یہ شوکت ہماری ہے
شب معراج کی برکت سے مبارک شادی
تاریخ دسویں کو ہے شہادت نہیں کی
ایک درم سوز کو جو مرتا ہے
روت سوامن کا ہے نیاز علی
کم تول مانپ سے ہے کرانی اناج کی
گہر کی آبادی سو وہ اولاد ہے
صدقہ گنا اور خطا کومتایئے ہے
مدت سے ہمیں دربان میرے شیر شاہ ولی
معشوق کی جو آنکھ ہے لیمو کی پھانک ہے
خالی آتا ہے خالی جاتا ہے
زندگی تک حق کی کرے بندگی
نقاشی میں قدرت کے جو تصویر ہے نیاری
نمک اول تو کھانا مشکل ہے
اختراوج رسالت ہمیں محمد مصطفیٰ
رتبہ بہت بلندی کونچہ کا یار کے
میں ڈھونڈھتا ہوں تجھ کو تیرا نام جہاں ہے
انسان کو بس دیکھنا سونیکو کسوٹی
داد خواری کے زخم کو مرہم انصاف ہے
نت دلیر جنگ کا بول بالا ہے
نے ہاں لگاکے کرے بھجن تو رام سے نت ہے کام مجھے
کھلایئے لوگوں کو نواب نان اوغانی
اقبال پہ ڈال ہاتھ نہ تقدیر پھٹے گی
جان سے ہیکی جہاں ساری بندگی حق کو پیاری
جوش دریا میں ہے بو مشک ختن دیکھ چکے
برکت امام حسین کے کیا ظہور ہے
مستزاد
جب عشق تیرا میرے سے دنیا کو بھلایا
جب عشق تیرا میرے سے دنیا کو بھلایا
جب عشق تیرا میرے سے دنیا کو بھلایا
غزل
YEAR1860
YEAR1860
سرورق
فہرست
کس طرح ادا حمد ہو خلاق جہاں کا
المنت اللہ کہ سردار ہمارا
امت پہ محمد کے بہت پیار خدا کا
اجسام عنصری کے رکن چار ہیں کا
آل نبی کے ذکر سے آرام ہو گیا
آنک میں دشمن کے کنکر سل گیا
اشرف ہی سب عضو پر ہر وقت نام دل کا
کیا ذرا سی بات میں دل کا خلاصہ ہوگیا
ہے دلمیں روح آپی سب کام پر وہ قادر
آل نبی کے ذکر کو جب دل نے نکالا
نہیں کس کو کہنا شہنشاہ و روا
سرکشوں سرکشی سے سرنکوں حق نے کیا
بھیجا کیا خوب اب خدا بھیجا
کیا خوب ریاست میں ہے دیوان ہمارا
الوداع سب سے جلد ہو مہ رمضان چلا
شکستہ قلم دل شکستہ کیا
تو رنک میں آب سا ہمرنک ہو جا
جان قالب میں تلک دنیا
بیریا ہو کے بیر کو کھانا
رسم شادی میں اگر چہ ہے منم کا جھگڑا
کیا خوب آج عرس ہے شاہ کمال کا
شجیع و سخی قطب خاں نواب
قدم قدم پہ ہے انداز دلربائی کا
شہر میں اب دزوگیریک نوجوان پیدا ہو
یہی ہے شرط مردوں کی زبان دیکر نہ ٹل جانا
غلاموں سے ادنیٰ غلام ایک تیرا
دیکھ یہ سنگ دلی اور نیستجا اپنا
کیا سنجی فرزند میرا نوجوان پیدا ہوا
مثل نکن جو ہم سے ہو ا نام رہ گیا
رہتا ہے شوق مرد کو اکثر شکار کا
بوسہ تو کل کی رات عجایب مزا دیا
گھر میں میرے اچانک وہ پاک ذات آیا
یاد میں تیرے میں وفانہ کیا
تویاد سے کر لے عبادت ہے بقا دنیا فنا
قدرت سے خدائی کے تماشا نظر آیا
خود ہی پہ مسند وملک ومعاملہ ٹھہرا
سایل ہوں میں بارش کا تیریسے خدایا
پنج شعرا جمع ہوے ایک جا
رتبا سے ہوا ہے حکم وندا
کلی شب کو مجھے بشارہ ہوا
قابو گیروں کے خواب سے بیدا ررکھ خدا
شاہنوز میں لے رحم ہے قصاب جو بالا
شیشۂ دل کو میرے تو توڑا
شکر اللہ کہ دنیا میں میرا نام ہوا
میلا ہے آج حضرت بندہ نواز کا
زر زری زر بخش نظام الدین ہو تم اولیا
جاری رہیگا حشر تلک غم حسین کا
آخری چار شنبہ کا تورا
ریش سفید ہے سبز لباس تسبیح دانہ ذکر خدا
کچھ خدا کا بھی ڈر نہیں آتا
جو گیا پھیر کر نہیں آتا
جہاں کب کسی سے کر ے ہے وفا
بول اور چال میں پڑا لگڑا
عجب طرح ہے زمانے کا اتفاق ہوا
یاد حق میں تشنہ ہے مو تھی تلاب
ردیف الباء
مثل مسگس ہے حرص میں دنیا کے تو خراب
دروغ گو کے تو پیچھے نہ پھر نماز تراب
نایب خدا کا بادشاہ اس سے بنا نواب
داب ضرب سے میرے کمر میں تیرے وہی آب
سو ویں لپٹ کے اس صنم نازنیں سے کب
دنیا کے سب مرید ہیں مطلب ہے دین سے کب
جو کوئی پیویگا سیندی اور شراب
غیر پر کرنا ہم سے عداوت کیا خوب
برج گل کے تخت نشینی میں آفتاب
دربار سے خدا کے ہی تقسیم آج رات
ردیف التا
نت سے چہرے کی کیا بنی ہے کت
تین شخصوں پہ حق کیا لعنت
سو امن کا کیا ہم نے جو یہ روت
صدق دل سے کیا جو میں شربت
خاک میں ملنا ہے آخر خاک کی لے خاصیت
شمس وقمر کی چال سے دن رات آئے بات
آج کی شب ہے شب قدر کی رات
جس نے پیدا کیا ہے اس کی صفت
فضل فضال ہے کہ یہ دولت
کیا خوب نظر آئی مجھے چاندنی کی رات
جلیبی شیرنی میں دیتی لذت
سونہ کہا سنار سے آؤ تم میری ذات
بغیر یار کے ہے سیر لالہ زار عبث
علوم دین کا دنیا میں جو ہوا وارث
ردیف الثا
خواب خفلت ستی ہوشیارہوکر تو دولت
نہ کیجئے اس طرح زچ ہو کے یار ہم سے بحث
اٹھا نہ رنج ومحبت کا یہاں کی بار عبث
پیغمبر خدا کے نواسے ہیں دو سراج
ردیف الجیم
ہزار سچ ہے اس سر کو جس کے سر پنچ
یا امام حسین شہید گنج
فضل و کرم سے حق کے بلا دور ہوے آج
کیا خوب امنڈ گھمنڈ سے برستا ہے یہ راج
فضل خدا سے دور ہوا ہے گران آج
زخم تیر مژہ کا خبریار کس سے ہو علاج
یہ خواں لطف دیا بھیج جب حسین ملیح
ردیف الحا
چھپتے ہیں لوگ کام پہ جانے علی الصباح
رن مشرب سے کون ہو ناصح
ضعیف مرکب تن پر نجا سے ملاح
پھن کے نکلے ہے جو زادہ شاہ خوبان سرخ
ردیف الخاء
ہو تو بیدار کہ ہے وقت عبادت دم صبح
شوخ چشمی نہ کیجئے اے شوخ
کس جگا باندھا ہے دیجئکا یار کاخ
ردیف الدّال
نہال حسن کی یہ ہے لگائے شاخ
ہر خشک وتر میں کرے نظر ہے وہی مواد
فضل احمد سے ہے یہ باغ ایجاد
عشق کی مستی میں تیرے کھل کئے چولی کے پند
بندگی خالصاً خدا کو پسند
بازو پہ اپنے باندھ کے بیٹھی ہے باروبند
دن نکل جا کے بات رہتی یاد
مزاج شاہ کا بیشک حباب کے مانند
مرشد وجہ الدین شاہ میرے مجھکو کہئے مرید
نسن و سخن کو کسی کے میرے مقال کے بعد
درامیر پہ آتے ہمیشہ دولتمند
عشق کی مستی میں تیرے گھل گئے چوکی کے بند
کمر سے یار کے لپٹوں میں داب کے مانند
بس ہے بازو پہ میرے نام خدا کا تعویذ
ردیف الذال
لب یار کے ہیں پستہ وبادام سے لذیذ
وصال یار کا قاصد نے لادیا کاغذ
کمال وفضل میں ہے گرچہ یہ بدل استاذ
گر تمنا ہے کہ پاوے ہے نیازی کے لذوذ
ہر ایک درد کا ملتا ہے ہر کہیں تعویذ
مسند حضرت پیمبر کے صدر مہرسے ہیں چار
ردیف الرا
آج صندل ہے عرس کا بھرپور
حاکم کرے جو حکم نشہ سے غرور کر
دلیر جنگ کے سرکار نت رہے دربار
ہفت اقلیم کی حکومت پر
ماہ رمضان میں شب قدر سے نور
کیا نہیں پختہ یہ کھلے اسرار
ہیں بخیلوں سے زن پسر ناچار
سود خور ے کو حق کا نہیں دیدار
ہے شب قدر کا تو آج ظہور
جھوٹ سب خصلتوں سے ہے بدتر
بساط زمیں پر فلک کا چتر
بغض رکھنا صحاب سے ہے کفر
کاہلی حق کے بندگی میں نہ گر
جھوٹ کہنے میں جو ہوا مشہور
سدا دئے ہے خدا نام پنجتن میں اثر
ہاتھ رکھ کر میرے سینہ پر وہ بولی ہنس کر
نذر اللہ کی میں کیا ہوں ضرور
مشرکوں سے تو ہی غدا بیزار
ایسے خاکوں سے خاک پا بہتر
بادشاہی دل کی سارے جسم پر
کیا خوب ضرب دار ہیں سرکاری چوبدار
جھوٹ کہنے سے جس کو ہو سروکار
اے برہمن تیرے گلے زنار
شب جمعہ کو بشارہ میں نظر آیا نور
ہاتھ رکھ کر میرے سینہ پر وہ بولی ہنس کر
نکلا جو دستگیر کا چاند آسمان پر
ہاتھ رکھ کر میرے سینہ پر وہ بولی ہنس کر
ہرہراسم کے ہاتھ میں لائے ہے نیشکر
شاہوں کو جو پسند ہے شاہین کا شکار
احمد کے نام پر ہوں سدا جان و دل نثار
پسارا ہاتھ ہون تیرے حضور یا غفار
ردیف الزا
منظور نہیں ہم کو بخیر یار دلنواز
خبر وصل یار کشف نہ ہو کس پہ یہ رموز
خالص طلا نہ ہوے بخیر نار قلب سوز
قدر نہیں ہے مگر ہے تو جو ہری کے پاس
ردیف السین
صدق دل سے کیا ہوں میں نے نیاز
خدمت میں ہمجلیس کے ہے میری التماس
لبوں کی سرخی تیری کسی نے لے لیا ہے چوس
لبوں کی سرخ تیری کس نے لے گیا ہے چوس
یہ دنیا وہ ہے فاحشہ کر قیاس
ردیف الشین
ہمیں نے بار امانت لیا اٹھا ہر دوش
نظر میں رکھئے قدم دم پہ دہر سد ہرکر ہوش
پڑا ہے ہم کو ہمارے رفیق سے پر خاش
ہزار تیری دلیری پہ مرحبا شہباش
رہتی ہے ہر دم مجھے اکثر سخنداں کی تلاش
ریاض حسن عقیدت کا باغباں اخلاص
ردیف الصاد
گر گئے ہے وہ پیری پیکر نے ایسا کام رقص
لگا ہے دشمن دیں پیت آمیرے مخصوص
دیدۂ دل کھول روے یار سے رکھئے عرض
مطلب نہ گل سے ہے و نہ گلزار سے عرض
ردیف الضاد
عقل کے دفترکو میرے کر دیا دلبر غلط
ردیف الطا
قدم کو مقدم مخدوم پر تو دہر مضبوط
ہر جزوکل آعلم الٰہی ہے بس محیط
جانا تھا اپنا دوست تجھے جاوداں غلط
جس ریاست کا ہے خد حافظ
حضور باش رہے یار کے سدا محفوظ
ردیف الظا
کرم سے حق کے ہوے ہم نصیب کے تابع
ردیف العین
ہزار دل سے بدل ہم اسی کے ہیں تابع
شرق دل سے مہر عرفاں جب کہ ہو جس پر طلوع
کیجے جو کوئی کام بسم اللہ سے شروع
گل کی خوشبو سے معطر ہوگیا میرا دماغ
ردیف الغین
بوئے گل گلاب معطر کیا دماغ
خوشبو سے نعمتوں کے معطر ہوا دماغ
کسی کو اس بت بے پیر کا لگانہ سراغ
ہے شب دربار روشن شمع وقندیل وچراغ
سایل کو دیکھتے جو ہوویگا بد دماغ
اندھیری رات کا م مجھ کو دیا خدا نے چراغ
گل نے اپنا منہ بتایاپہارا غنچہ کا غلاف
فقیر خانہ دل تک تو لایئے تشریف
ردیف الفا
دلیر جنگ کی ریاست میں ہے دو دھارا سیف
پے زلیخا کے کسیوں رہا یوسف
آمد آمد ہوے ہے صبح صادق
ردیف القاف
دیکھ تجھ رخ کو پیری آج ہوئے ہم عاشق
ردیف الکاف
بلندی کی ہوا پستی سے فایق
دولت پہ بھول مانکتے حایل کو مت جھڑک
بہت ہشیار رہ ایدل کہ وہ دلدار ہے نازک
بہت ہشیار رہ ایدل کہ وہ دلدار ہے نازک
در دلیر پہ بجتا ہے روز دل بادل
محبو باغ ولایت کے وہ گلاب کے پھول
ردیف الّلام
دلون میں فوج کے بجتا ہے آج دلبادل
حق نے دیا ہے آل محمد پہ مورچل
آتے ہیں شرر آگ کے دامن کو لو سنبھال
جو ہے تیرے میں عیب سو حق کے حضور بول
بہار ہستیٔ گل پر نہ بھولئے بلبل
بہار آتے ہیں گلشن میں بلبلوں نے غل
محبو باغ ولایت کے وہ گلاب کے پھول
چشم معشوق جب ہویئے چنچل
راگ بھروں تو پھیلے ہے انمول
آج ہمارا مقام ہے ہریال
راستے میں مجھے ملاو نگل
صاف سینہ انکا انکا کفر ہے چھاتی پہ سل
جو ہے تیرے میں عیب سو حق کے حضور بول
ہے یہ دربار کی عجایب چال
بات جیسی ہوے ہے ویسی بول
میں نے صمدی سے یوں کیا ہوں تنہول
کر لکھیے کوئی کسی طور سے اشعار غزل
ردیف المیم
سلام لیوے نہ لیوے مجھےسلام سے کام
وہ نور حق کہ جسکا محمد ہوا ہے نام
برج دلونے کا تہہ دیا حوت کے قدم
عدالت برابر نہیں کوئی کام
اہل فنا کو نام سے ہر گز نہیں ہے کام
زیر دستوں کو کہاں تگ کے ستاوے حاکم
فضل حق کا بہت بڑا ہے عظیم
سچھ ہے ریاستوں کا عدالت سے انتظام
چار حرفوں سے ہے وکیل کانام
چار حرفوں سے ہے وکیل کانام
رسم شربت کا تمہیں آج مبارک جم جم
شب دیجور کیا کیا ہے کام
عام اور خاص میں عجب ہے عام
تیری کھوتی قسم تونے کرلی ہضم ہوگا روز حشر میں تجھے بد ہضم
اہل انصاف نے کیا ہے ترم
تیری جھوٹی قسم نے دی تجھ کو یہ رنج منہ بتا نہ خدا کو خدا کی قسم
کیا رویں صاحب بہادر نیک نام
تیری جھوٹی قسم نے دی تجھ کو یہ رنج کہ دوبارہ نہ کہا تو خدا کی قسم
اے تپسی دل سے لے صاحب کا نام
زخم گندم کو مرہم توبہ سوا نہیں
پیغمبر خدا تو ہیں مہتاب لامکاں
ردیف ا لنون
عطر آنے سے معطر ہوگئے دربار بان
دیدہ نہیں جس آنکھ میں دیدار حق اسکو کہاں
دیئے کی روشنی ہر دو جہان میں
کبھو قدم نہ رکھ باہر اپنے گھر میں ہوں
مت چھیڑ دل کو دل کا ستانا بھلا نہیں
شیشہ ہے پر شراب نشہ سے خبر نہیں
السلام اے شہسوار پردۂ عین الیقین
غوث الاعظم سپر میرے قادر جیلان ہمیں
تو میرا ہی وکیل سیف الدین
پیر بھلے کے نیاز کے روتان
کس کے ہانکے سے آیئے دنیا میں
جرح تامس چارلس بہادر مہربان
ارحم الراحمین کے درگاہ میں
جگر بند میرے ابولخیر خان
نہیں وہ مرشد میرے بدین تن
ہیں صدر کے جرح تم نیک نام اور مہرباں
خلل حساب کا آتا ہے ایک کوزے میں
زخم عطا کو مرہم توبہ سیوا نہیں
گر کوئی آوے گھر تیرے مہمان
چھوڑ لیلی کو کیوں رہا مجنوں
ایک شہر میں دوشہ سماتے نہیں
رہیے تا پاس پیمبر کے ہوس دنیا میں
بات میں بات جس کے نہیں یکساں
سب پہ مختار ہیں ابوالخیر خان
زیب اور زینت سرکار ابوالقاسم خان
آراستہ تیار ہیں عبدالکریم خان
باحسن وامتیاز ہیں عبد المجید خان
کوئی دنیا میں حق شناس نہیں
کیا نصیبہ دار ہے عبدالرؤف خان
جسکی زبان ہو شیریں تو کچھ گھات بھی نہیں
دنیا اچھی مت کھاو مچھی کانٹے حلق کے ہیں دشمن
مزاج ہلکا کھاے طبیب کے گھر جاوے کون
نیشکر کر دیا وہاں شیریں
مجرئی نو صد نو دزخم نو کھایا حسیں
شکر صد شکر بدر گاہ خداوند جہاں
شش یہ بانوں سے خدا ہی امان
کھڑے سلام کو سب مل ادب سے پیروجوان
صد شکر ہے اللہ کے قدرت کے میں قربان
شاہ کمال اولیا مکمل ہیں
بول بسم اللہ میں ایک ایک قدم بڑھتا ہوں
انگشتری ملی ہے مجھے نام پنجتن
سانچے ہوشاہ کمال ہو دیوان ہو تمہیں
بے نماز ی سے بیسر ہے مجھکو
ردیف الواو
دیوے نہ جو زکوٰۃ کہ صاحب نصاب ہو
وصل کی شب کھلا جو گل شبو
مخدوم دین ودنیا بندہ نواز تم ہو
اب طاق میں اس یار کے سر کو جھکا جو ہو سو ہو
نادیوے کا زکوٰۃ جو مالک نصاب ہو
رئیس پونہ کا بھاگا ہے تھو تھو تھو
گل کی شب کو کھلا تھا گل شبو
سجدہ کیا ہوں عشق میں سر کو رکھا جو ہوسو ہو
خوشی سے غیروں کینے پہ حجاب کاوے تو
ردیف الھا
ناخن صبح سے جب کھل گئی غنچے کی گیر
واہ کیا آپ کی تصویر ہے سبحان اللہ
ہو گیا گلزار ابراہیم پر آتش کدہ
کون ہے تو بھی کہاں کا اور یہ کسکا گلہ
سرخ رنگ ہے گل لالہ
مالک اس تخت گاہ کا ہے اللہ
طعام کھانا ہے بول بسم اللہ
نور چشمی کی مبارک ہو تمہیں بسم اللہ
حصہ ازلی سے جس کا تھا توشہ
اے نجومی تیرے قسمت کے ستارے کو دیکھ
چال تو الشی مت چل بالم ٹھوکر کھا کر گرے گا دیکھ
حق کی پرستش کرے مخفی مت جا کعبہ بت خانہ
ازل سے ہووے جدا ہے تو کیا کرے واللہ
در بہشت پہ لکھا ہے اللہ لالہ الااللہ
دور کر درد میرا یا شافی
ردیف الیاء
یک ماردری برادر اولاد ہے واللہ
ہر شیشہ اگر چیکہ یہاں مے سے بہرا ہے
کرم سے اپنے دیئے اپنے طریق مجھے
جو ہری جو ہر شمشیر کو کیا جانے ہے
مت اٹکیو کہ بحر میں یا بر میں کون ہے
دن پیر کے نیاز ہے پیران پیر کی
ندر اللہ کے نام کی کشتی
حوض کوثر کے باٹنے والے
بیٹھے بیٹھے تو دن یہ جاتا ہے
سبھی اچھے ہیں پر ہے کون برے
اللہ کی عنایت سے یہ شوکت ہماری ہے
شب معراج کی برکت سے مبارک شادی
تاریخ دسویں کو ہے شہادت نہیں کی
ایک درم سوز کو جو مرتا ہے
روت سوامن کا ہے نیاز علی
کم تول مانپ سے ہے کرانی اناج کی
گہر کی آبادی سو وہ اولاد ہے
صدقہ گنا اور خطا کومتایئے ہے
مدت سے ہمیں دربان میرے شیر شاہ ولی
معشوق کی جو آنکھ ہے لیمو کی پھانک ہے
خالی آتا ہے خالی جاتا ہے
زندگی تک حق کی کرے بندگی
نقاشی میں قدرت کے جو تصویر ہے نیاری
نمک اول تو کھانا مشکل ہے
اختراوج رسالت ہمیں محمد مصطفیٰ
رتبہ بہت بلندی کونچہ کا یار کے
میں ڈھونڈھتا ہوں تجھ کو تیرا نام جہاں ہے
انسان کو بس دیکھنا سونیکو کسوٹی
داد خواری کے زخم کو مرہم انصاف ہے
نت دلیر جنگ کا بول بالا ہے
نے ہاں لگاکے کرے بھجن تو رام سے نت ہے کام مجھے
کھلایئے لوگوں کو نواب نان اوغانی
اقبال پہ ڈال ہاتھ نہ تقدیر پھٹے گی
جان سے ہیکی جہاں ساری بندگی حق کو پیاری
جوش دریا میں ہے بو مشک ختن دیکھ چکے
برکت امام حسین کے کیا ظہور ہے
مستزاد
جب عشق تیرا میرے سے دنیا کو بھلایا
جب عشق تیرا میرے سے دنیا کو بھلایا
جب عشق تیرا میرے سے دنیا کو بھلایا
غزل
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।