سرورق
مشکل ہے وصف کرنا محبوب کبریا کا
بود ونمود ہستی خمیازہ ہے عدم کا
جس کے سرتاج ہو شفاعت کا
محشر میں اور کون ہے مجھ رو سیاہ کا
نہ کچھ عیب ٹھہرے اگر دیکھ لینا
کہا یہ کس نے کہ وعدے کا اعتبارنہ تھا
اس محبت میں نہ پوچھو کیا کیا
نہ آجائے کسی پر دل کسی کا
یہ تو انہیں کی بات انہیں کا کہا ہوا
وہ رہ رہ کے چاہت جتانا کسی کا
ابتو نہیں آسرا کسی کا
محبت میں ضرر بیشک ہے جی کا
غم ہے کیا اس کا جو دل گم ہوگیا جاتا رہا
کیوں مجھ سے ہے یہ مفت کی تکرار کیا ہوا
ہم کو دکھا دکھا کر غیروں کے عطر ملنا
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ ایسا ہو نہیں سکتا
عبث کہتا ہے ناصح وصل اس کا ہو نہیں سکتا
کوئی تجھ سا حسین نہیں ملتا
نقشہ جو ان آنکھوں میں جما تھا مرے دل کا
وصل کی رات بھی پردہ نہ اٹھا گھونگھٹ کا
دیکھے نہ آنکھ اٹھا کے جو ہو چاند عید کا
مجکو پاس ضبط اس کو حوصلہ بیداد کا
اوپری جی سے تھیں دم بھر یہ پیار آیا تو کیا
کچھ پاس جب رہا نہ انہیں سرم و راہ کا
منہ مرا ایک ایک تکتا تھا
قید میں اتنا زمانہ ہو گیا
چمن ہی جب چھٹا ہم سے خیال آشیاں کیسا
جدائی میں تری دل کی قرار ابتک نہیں آیا
خراب و خستہ ہوے خاک میں شباب ملا
تم مجھ سے پوچھتے ہو مرے جی کا حال کیا
دنیا میں یوں تو ہر کوئی اپنی سی کر گیا
بتکدہ نزدیک کعبہ دور تھا
اے پیر مغان در سے تیری میں کہاں جاتا
پھونچے اس کو سلام میرا
کرنا جو محبت کا اقرار سمجھ لینا
پوچھ کر حال سنے کوئی تو کہنا اچھا
آغاز محبت میں برسوں یوں ضبط سے ہم نے کام لیا
آنکھ اس سے پھرے کیا یہ تقاضا ہے وفا کا
کیا یہی ایک دک کا آنا تھا
کچھ ٹھکانا ہے دل کی وسعت کا
کہتا ہے مجبت میں بدنام نہوجانا
اکتا کے کسی کا ہاے کہنا
اور تو کون چمن میں ہے مقابل میرا
ذکر جس بزم میں ان کا نرہا
کیا چیز ہے یہ وعدۂ فردا بھی یار کا
مرکے زندہ وفا کا نام کیا
کسی کو دیکھ کر بیخود دل خود کام ہو جانا
نام بانوں میں نہ لے ناصح نادان ان کا
کل جو آباد تھا گھر آج اسے ویران دیکھا
حفیظ وصل میں کچھ ہجر کا خیال نہ تھا
لحاظ اس نے کچھ کفر و دین کا نہ رکھا
ہوتا ہے غم کے ہاتھوں اب خون آرزو کا
دیوانے ہوے صحرا میں پھر سے یہ حال تمہارے غم نے کیا
آنکھوں سے آج دیکھا یہ حال بیکسی کا
خاک میں ہم کو ملا دو مگر اتنا کرنا
چاک داماں نرہا چاک گریباں نہ رہا
کسے منظور تم سے ملک کے کھچنا دور ہو جانا
جنون کے جوش میں پھر تی ہیں ماری ماری اب
ہنگامہ حشر کا دمِ رفتار ہو چکا
ایسے کو کیا پلائے گا پیر مغان شراب
آپ ہی سے نہ جب رہا مطلب
ہر دم یہی دعا ہے گزر جاؤں جی سے اب
مجھ سے بگڑے ہیں جو بے تقصیر آپ
لیتے ہی میرا دل خود کام آپ
یاد ہے پہلے پہل کی وہ ملاقات کی بات
دل میں ہیں وصل کے ارمان بہت
دل پر لگا رہی ہے وہ نیچی نگاہ چوٹ
اے کاش نظر آئے اب موت ہی کی صورت
شب وصل ہے بحث و حجت عبث
گھر کونسا ہے جس میں نہیں کچھ نفاق آج
کسنے ہنس کر ناز سے پوچھا مزاج
کسے قیام یہاں عمر جاو دان کی طرح
جان شوخی نے لی حیا کی طرح
دل کو اسی سبب سے ہے اضطراب شاید
لون بلائیں کہیں جو اب گستاخ
زمانے میں رہے گی کیا تیری یاد
ملی دولت وصل فرقت کے بعد
یونہی ہے شام سے تا صبح فریاد
اس قدر زاہد عبادت پر گھمنڈ
لکھدے عامل کوئی ایسا تعویذ
مرادل آگیا ہے اک حسین پر
دل لے کے ہر بشر کا ستم گر نہ چال کر
میلے نہ تیور ان کے ہوں گرد وغبار دیکھ کر
جلاؤ غیر کو بجلی گر اگر
جھکایا سر جو اس کے آستان پر
پڑھ کر در ود ساقیِ کوثر کے نام پر
اکڑے نہ سرو آمدِ فصلِ بہار پر
ہر ادا سے ہو جس کی پیدا ناز
کیا ان کی نذر کیجئے اب کیا رہا ہے پاس
سنتے ہیں اب نہ رہا ہوں کے گرفتار قفس
جب دل سے گئی ان کی ملاقات کی خواہش
قاصد کو وہاں لے گئی انعام کی خواہش
یارب مرے دماغ تک آئے نہ بوے عیش
اسقدر بیتاب ہے جو آج میرے دل کی حرص
ایسے کہیں کے لوگ نہیں عیش
یوں اٹھا دے ہمارے جی سے غرض
کچھ میکدے ہی میں نہیں جانے سے احتیاط
اٹھ گیا جی سے زندگی کا لحاظ
ہائے رے اس کی سادگی کی وضع
پھر دے رہا ہے دل کہیں آنے کی اطلاع
غرور کیا جو ہوا حسنِ عارضی کو فروغ
جو ہو چکے ہیں زمانے کے حال سے واقف
یہ دن اور مجھ پہ یہ بیداد صد حیف
بڑھ چلے ہیں پاؤں وحشت میں بیابان کیطرف
کوئی جہاں میں نہ یارب ہو مبتلائے فراق
دل کو ہے اس رہگزر کا اشتیاق
ہر چند تجھے رونا ہر شب ہے مگر کب تک
عیادت کو میری وہ آئے نہ ابتک
کیا ہوگا جوش جنون کا بہار تک
ترا پاس نزاکت ہے یہاں تک
غش ہوئے موسی پہونچ کے طور تک
پاک طینت ہیں میکدے کے لوگ
آگیا تھا یک دن ترک محبت کا خیال
دشمن بھی یہ کہے جو سنے میرے جی کا حال
نہ پوچھو مرے جی کا حال آجکل
سنور کر ہوئی لاش تربت میں داخل
گناہ اپنی کہاں اب شمار کے قابل
ہمیں سے پوچھتے ہو کیا ہوا دل
تمہیں جب کہو دل لگانے سے حاصل
جان ہی جائے تو جائے درد دل
بیٹھے ہیں آج ہاتھ اٹھا کر دعا سے ہم
کرم ہو غیر پہ خوش ہیں ترے ستم سے ہم
یہ ہوئے بیتاب دردِ دل سے ہم
رکھا ہے پاؤں جب سے محبت کی راہ میں
وہ کیسے لوگ ہیں جو عہدو پیماں سے مکرتے ہیں
الٹے یہ سیکڑوں الزام لگاد یتے ہیں
محبت کیا بڑھی ہے وہم باہم بڑھتے جاتے ہیں
ناز میں جن کے کچھ نیاز
ملاتھا میکشی کا لطف کچھ کچھ ہم کو اول میں
محبت میں یوں تو مزا کچھ نہیں
ہے غضب پینے پلانے کا مزا برسات میں
کدھر وہ آئے گئے کچھ ہمیں خیال نہیں
دشمن کا ذکر آپ نہ چھیڑیں وصال میں
ہاں دوائے درد دل تو صبر سے بہتر نہیں
دل کی طالب زلفیں آنکھیں دشمن جاں ہو گئیں
ہمارے ساتھ غیروں کے ہوے ہیں امتحان برسوں
دنیامیں حسن ہے مگر ایسے حسین نہیں
احسان ہے کسی کا جو ہم پر کرم نہیں
تاک جھانک ان کی صف محشر میں بھی جاتی نہیں
مرے ضبط فغاں پر غیر کیا آوازے کستے ہیں
وہی کچھ ترا بھید پائے ہوئے ہیں
شکوہ کرتے ہیں زبان سے نہ گلا کرتے ہیں
خوگر یہ چھیڑ کا ہوں کہ آتا مزا نہیں
ہم ان کو بانی جور و جفا سمجھتے ہیں
دل ہے تو ترے وصل کی ارمان بہت ہیں
وہ تڑپتے ہیں عدو کی یاد میں
یوں تو کیا کوئی کسی پر مہربان ہوتا نہیں
کسی کو جو کچھ مہربان پار ہے ہیں
ذکر دشمن پہ جو وہ چین بجبیں ہوتے ہیں
کیا کروں عذر گنہ حشر میں حیران ہوں میں
اب لگاوٹ سے طبعیت نہ مری شاد کریں
محبت کی بلا میں گھر گئے ناچار بیٹھے ہیں
میں نے پوچھا کیا مری آہ و فغاں کچھ بھی نہیں
ہم سے ترک دوستی اچھی نہیں
وصل اگر آپ کو منظور نہیں
ہر گھڑی چرچا عدو کا کچھ نہیں
تم ایسے خود غرض سے محبت جتائے کون
نہ میں سناؤں نہ کوئی سنے زمانے میں
رنجش بھی عشق میں ہو تو بھی مزے بڑے ہیں
کہیں مرنے والے کہا مانتے ہیں
اٹھے بالیں سے کیا جانے وہ کیا کہکر اشاروں میں
جو آنکھیں ہیں نظر کر رنج ہے راحت کے سامان میں
افسردگی دل سے یہہ رنگ ہے سخن میں
کام لیں ضبط سے کھل کر وہ مرا غم نہ کریں
کوئی جہاں میں ایسا بھی نامراد نہ ہو
تو جو کہتا تو بڑا فخر تھا اس کا مجکو
قاصد خلافِ خط کہیں تیرا بیان نہو
کون ہاتھوں سے جدائی میں سنبھالے دل کو
ملی ہے ہمت عالی وہ بادہ نوشوں کو
سوہان روح ٹھہرا یہہ روگ آدمی کو
بچا کر کتنے پہلو لکھ رہا ہوں حرف مطلب کو
خدا ہو آپ ہوں ہم ہوں عدو ہو
حسینوں میں جو پایا پیار کے قابل ہزاروں کو
بتاؤں کیا کسی کو میں کہ تم کیا چیز ہو کیا ہو
مفت دیدوں تمہیں ایسا نہیں دوبھر مجکو
ملنے والوں سے ملو حسن پہ غرانہ کرو
سن کے میرے عشق کی روداد کو
وہ آئے میرے گھر میں بخت یاد ہو تو ایسا ہو
ہمارے سامنے پھروں ہماری ہی شکایت ہو
مناؤں کیوں تمہیں یہہ تو بتاؤ ایسے کیا تم ہو
رقیبوں سے تمہیں ملنا اگر ہو
ان کو سمجھایئے آتے ہیں جو سمجھانے کو
پی ہم نے بہت شراب تو بہ
یہہ قفس ہو خیر سے صیاد ہو
بتائیں کیا چمن میں آشیانہ
عارضی حسن پہ کیوں ناز ہے یہہ
کس قدر ہے صاف دل پاکیزہ طینت آئینہ
جان جاتی ہے کہ یہ رات بسر ہوتی ہے
ان کو دل دے کے پشیمانی ہے
بعد تو بہ بھی وہی ہے میخانے کی
ٹکڑے جگر کے ہوں گے مرے دل کی آہ سے
ان لوگوں کے مشرب ہیں زمانی سے نرالے
یہ چتون یہ ادا یہ آنکھ یہ سج دھج نرالی ہے
دشمن سے تو کہو مری چتون بلا کی ہے
نہو نامراد مجھ سا کہ جیون تو کل نہ آئے
کچھ گلہ اس کا نہ شکوا چاہئے
ادا پریوں کی صورت حور کی آنکھیں غزالوں کی
ہائے وہ دن جب سرور وصل حاصل تھا مجھے
بگڑ جاتے تھے سن کر یاد ہے کچھ وہ زمانہ بھی
غیر اچھے ہم برے یو نہیں سہی
سوخ ہے چتون نظر چالاک ہے
اب اگلی تذکرے جانے بھی دو کیا اس سے وصل ہے
کوئی پردہ نشیں نکلے نہ گھر سے
حشر ہے وعدۂ دیدار وفا ہوتا ہے
یوں تو حسین اکثر ہوتے ہیں شان والے
عدو کی شکل محفل میں برغبت دیکھنے والے
حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی
آدمی مست خواب ہوتا ہے
جو دیوانوں نے پیمائش کی میدان قیامت کی
کب ایسے ویسے مرے دل کے خواستگار رہے
دنیا وہ نہیں ٹال دو جو قول و قسم سے
عجب زمانے کی گردشیں ہیں خدا ہی بس یاد آرہا ہے
بلا ان کی کرے غم کام کیا ان کو مرے غم سے
وصل میں آپس کی حجت اور ہے
ذرا تھمتی نہیں چنچل نگاہ یار کیسی ہے
مژگان ہیں غضب ابروخمدار کے آگے
شب وصال یہ کہتے ہیں وہ سنا کے مجھے
وہ بیٹھے آج جو سننے کو داستان میری
تری یاد گو دل مسلتی رہی
جنت کی آرزو ہے نہ حوروں کی چاہ ہے
دیا جب جام مے ساقی نے بھر کے
ان کی یہ ضد کہ مرے گھر میں نہ آئے کوئی
زمانے کا بھروسہ کیا ابھی کچھ ہی ابھی کچھ ہے
صبح کو آئے ہو نکلے شام کے
سنو جو تم سے شکایت کرے عدو میری
جب کہتے محبت ہے ہمیں ایک حسین سے
اسیری میں صبا نے جب خبر دی موسم گل کی
کون صورت ہے عرض مطلب کی
نظر ملاتے ہی دل کا سوال کر بیٹھے
ہمیں حاصل بتوں کی التجا سے
ہر گھڑی عمر گذشتہ کا نہ کیوں کر غم رہنے
اب اتنے ظالموں میں کیا بچیگی جان بسمل کی
اس کو آزادی نہ ملنے کا ہمیں مقدور ہے
جب تک کہ طبیعت سے طبیعت نہیں ملتی
ختم ہے اک نگہ ناز پہ قیمت دل کی
گویہ رکھتی نہیں انسان کی حالت اچھی
ہو ہمکنار ہے جام شراب ہاتھ میں ہے
بسر کرنے نہ پایا عیش کے دن سادمانی سے
عرصۂ حشر میں فریاد تری کیا کرتے
یہی مسئلہ ہے جو زاہد و تو مجھے کچھ اس میں کلام ہے
دینا مری نگاہ میں صحراے یاس ہے
محشر کی بازپرس سے جی بے ہراس ہے
تری جس میں حسرت ہے وہ دل یہی ہے
دن رات بھگوئیں دامن کو اور اشکوں سے کیا ہوتا ہے
ہر شب جو مشورے ہیں یہی پاسبان سے
ہائے اب کون لگی دل کی بجھانے آئے
صدمے جو کچھ ہوں دل پہ سہیے
مرے عیبوں کی اصلاحیں ہوا کیں بحث دشمن سے
داورحشر سے کیا ہوگی شکایت ان کی
پٹکوں سر اسقدر کہ جبیں خون چکان رہے
طاقت ضبط نہ یار اسے شکیبائی ہے
کچھ کم نہیں تلوار سے دنیا میں ہنربھی
جس روز درد دل میں ذرا بھی کمی ہوئی
اچھا نہیں ہے روز کا قول و قرار بھی
ہوئی زار فرقت میں حالت کچھ ایسی
یا تو بگڑے ہوئے تیور مرے پہچان گئے
وصل آسان ہے کیا مشکل ہے
اپنے گزرے ہوئے زمانے
ہم سے بھی مدتوں تک عہد وفارہا ہے
آتے آتے ایک مدت ہو گئی
گھٹ گھٹ کے جان دینا شرط وفا نہیں ہے
سنا کیا جو آنسو نکلنے لگے
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
دور کے نامۂ و پیغام میں کیا رکھا ہے
اللہ کس کے درپہ جبین نیاز ہے
بعد میرے جب زبانوں پر شکایت آئے گی
شکوے اب تک نہ کبھی سوز نہاں کے آئے
داور حشر سے انصاف طلب ہے کوئی
آج درگاہ جانا ہے کہ نوچندی ہے
جاتا رہا جب شباب کیا ہے
بے بلائے ہوے آئے کہ بلائے آئے
خود بخود آنکھ بدل کر یہ سوال اچھا ہے
امید وصل ہے تعویذ حفظ جان کے لئے
ہو ترک کسی سے نہ ملاقات کسی کی
مصیبتیں تو اٹھا کر بڑی بڑی بھولے
جب ملا کوئی حسین جان پر آفت آئی
قسم نباہ کی کھائی تھی عمر بھر کے لئے
محبت کی ناصح دوا ہو چکی
کہوں کیا درد فرقت کی اذیت ایسی ہوتی ہے
جاؤ بھی جگر کیا ہے جو بیداد کرو گے
شب وصال لگایا جو ان کو سینے سے
جو دیکھا مرادم نکلتے ہوے
صدقے ترے ادھر بھی دے کوئی جام ساقی
وہ مرے دل کا درد کیا جائے
وصل اس پردہ نشین کا کس قدر دشوار ہے
ادھر ہوتے ہوتے ادھر ہوتے ہوتے
اب پر کبھی فغان ہے کبھی آہِ سرد ہے
پاس تیرے رہے قاتل تو یہ قاتل ہو جاے
کیا وہ نادان مدعا سمجھے
جب سے شوخی کا گذران شرمگیں آنکھوں میں ہے
کبھی تھا وصل کا اقرار ہم سے
ان سے کرتی ہے سفارش جو محبت میری
سننے والوں کے کلیجوں کو ہلا دیتی ہے
خطا معاف جو رسوائیوں سے ڈر جاتے
نبھ جائے محبت جو مری طرح بنا ہے
وہ طبیعت جو صلح جو نہ رہی
ہوئے عشق میں امتحان کیسے کیسے
حسینوں سے جس سے ملاقات ہے
ساز ہے دل کی اس کی چتون سے
وہ میرے بس میں ہوے تو بھی بے بسی ہو گی
پہلے ہی موت سے یہ غم مارتے ڈالتا ہے
آج روکا جو انہیں غیر کے گھر جانے سے
یہ عیش جبھی تک ہے جب تک یہ جوانی ہے
زندگی خود موت کا پیغام ہے
پڑ گئی ہے دونوں عالم میں دہائی آپ کی
کیا چیز ساتھ لائے ہیں کوے حبیب سے
ہم سے کھنچ کر غیرسے ملنے کی بھی اچھی کہی
کیا ہو امید وصل کہ ان کا یہ حال ہے
زاہد کورٹ لگی ہے شراب طہور کی
خمسۂ برغزل خود
اشعار متفرقات
عرضی بحضورسید محمد علی صاحب ڈسٹرک و ششن جج جونپور
قطعہ در تہنیت غسل صحت عالی جناب سید محمد سعادت علی خان صاحب مالک ریاست پیغمبر پور
قصائد
مطلع
وصف اس کان ریاست کا ہے منظور نظر
سرنگوں دیکھ کے کوٹھی کی بلندی جو ہوا
تیرے اصطبل میں بھی ابلق ایام کی طرح
دیکھئے جس سمت چھایا ہے خوشی کا اک سمان
گاڑ ایان دیکھ کے حور اپنا چھپر کھٹ بھولے
غسل صحت ہے مرے سرکار کا
حفیظ اب کے ہے جمعۂ وعید باہم
سرپر ہے قلم کے نور کا تاج
کہ سیر جو کل عالم تصویر کی میں نے
سعادت علی خان والا کو یارب
جناب سعادت علیخان کو یارب
رشک مجکو کیوں کسی شاعر کی ہو تقدیر پر
آئی ہے حفیظ عید قربان
صبحدم مجکو جگا کر یہ مرے دل نے کہا
سیر کو جارہی ہے نکہت گل
رباعیات
پھر کے نینی تال سے بابو مہیشور آگئے
پھولی ہے آنکھوں میں سرسوں ایسی مے ساقی نے دی
مناجات
سلام
قومی نظم
مسدس
فیضان باران 1909
ساقی نامہ
ساقی نامہ
1908کے قحط کا ساقی نامہ
ساقی نامہ 1910
بسنت
عرضی
ایڈریس
ناتمام نظم
تردید
صحت نامہ دیوان اول حفیظ
YEAR1903
YEAR1903
سرورق
مشکل ہے وصف کرنا محبوب کبریا کا
بود ونمود ہستی خمیازہ ہے عدم کا
جس کے سرتاج ہو شفاعت کا
محشر میں اور کون ہے مجھ رو سیاہ کا
نہ کچھ عیب ٹھہرے اگر دیکھ لینا
کہا یہ کس نے کہ وعدے کا اعتبارنہ تھا
اس محبت میں نہ پوچھو کیا کیا
نہ آجائے کسی پر دل کسی کا
یہ تو انہیں کی بات انہیں کا کہا ہوا
وہ رہ رہ کے چاہت جتانا کسی کا
ابتو نہیں آسرا کسی کا
محبت میں ضرر بیشک ہے جی کا
غم ہے کیا اس کا جو دل گم ہوگیا جاتا رہا
کیوں مجھ سے ہے یہ مفت کی تکرار کیا ہوا
ہم کو دکھا دکھا کر غیروں کے عطر ملنا
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ ایسا ہو نہیں سکتا
عبث کہتا ہے ناصح وصل اس کا ہو نہیں سکتا
کوئی تجھ سا حسین نہیں ملتا
نقشہ جو ان آنکھوں میں جما تھا مرے دل کا
وصل کی رات بھی پردہ نہ اٹھا گھونگھٹ کا
دیکھے نہ آنکھ اٹھا کے جو ہو چاند عید کا
مجکو پاس ضبط اس کو حوصلہ بیداد کا
اوپری جی سے تھیں دم بھر یہ پیار آیا تو کیا
کچھ پاس جب رہا نہ انہیں سرم و راہ کا
منہ مرا ایک ایک تکتا تھا
قید میں اتنا زمانہ ہو گیا
چمن ہی جب چھٹا ہم سے خیال آشیاں کیسا
جدائی میں تری دل کی قرار ابتک نہیں آیا
خراب و خستہ ہوے خاک میں شباب ملا
تم مجھ سے پوچھتے ہو مرے جی کا حال کیا
دنیا میں یوں تو ہر کوئی اپنی سی کر گیا
بتکدہ نزدیک کعبہ دور تھا
اے پیر مغان در سے تیری میں کہاں جاتا
پھونچے اس کو سلام میرا
کرنا جو محبت کا اقرار سمجھ لینا
پوچھ کر حال سنے کوئی تو کہنا اچھا
آغاز محبت میں برسوں یوں ضبط سے ہم نے کام لیا
آنکھ اس سے پھرے کیا یہ تقاضا ہے وفا کا
کیا یہی ایک دک کا آنا تھا
کچھ ٹھکانا ہے دل کی وسعت کا
کہتا ہے مجبت میں بدنام نہوجانا
اکتا کے کسی کا ہاے کہنا
اور تو کون چمن میں ہے مقابل میرا
ذکر جس بزم میں ان کا نرہا
کیا چیز ہے یہ وعدۂ فردا بھی یار کا
مرکے زندہ وفا کا نام کیا
کسی کو دیکھ کر بیخود دل خود کام ہو جانا
نام بانوں میں نہ لے ناصح نادان ان کا
کل جو آباد تھا گھر آج اسے ویران دیکھا
حفیظ وصل میں کچھ ہجر کا خیال نہ تھا
لحاظ اس نے کچھ کفر و دین کا نہ رکھا
ہوتا ہے غم کے ہاتھوں اب خون آرزو کا
دیوانے ہوے صحرا میں پھر سے یہ حال تمہارے غم نے کیا
آنکھوں سے آج دیکھا یہ حال بیکسی کا
خاک میں ہم کو ملا دو مگر اتنا کرنا
چاک داماں نرہا چاک گریباں نہ رہا
کسے منظور تم سے ملک کے کھچنا دور ہو جانا
جنون کے جوش میں پھر تی ہیں ماری ماری اب
ہنگامہ حشر کا دمِ رفتار ہو چکا
ایسے کو کیا پلائے گا پیر مغان شراب
آپ ہی سے نہ جب رہا مطلب
ہر دم یہی دعا ہے گزر جاؤں جی سے اب
مجھ سے بگڑے ہیں جو بے تقصیر آپ
لیتے ہی میرا دل خود کام آپ
یاد ہے پہلے پہل کی وہ ملاقات کی بات
دل میں ہیں وصل کے ارمان بہت
دل پر لگا رہی ہے وہ نیچی نگاہ چوٹ
اے کاش نظر آئے اب موت ہی کی صورت
شب وصل ہے بحث و حجت عبث
گھر کونسا ہے جس میں نہیں کچھ نفاق آج
کسنے ہنس کر ناز سے پوچھا مزاج
کسے قیام یہاں عمر جاو دان کی طرح
جان شوخی نے لی حیا کی طرح
دل کو اسی سبب سے ہے اضطراب شاید
لون بلائیں کہیں جو اب گستاخ
زمانے میں رہے گی کیا تیری یاد
ملی دولت وصل فرقت کے بعد
یونہی ہے شام سے تا صبح فریاد
اس قدر زاہد عبادت پر گھمنڈ
لکھدے عامل کوئی ایسا تعویذ
مرادل آگیا ہے اک حسین پر
دل لے کے ہر بشر کا ستم گر نہ چال کر
میلے نہ تیور ان کے ہوں گرد وغبار دیکھ کر
جلاؤ غیر کو بجلی گر اگر
جھکایا سر جو اس کے آستان پر
پڑھ کر در ود ساقیِ کوثر کے نام پر
اکڑے نہ سرو آمدِ فصلِ بہار پر
ہر ادا سے ہو جس کی پیدا ناز
کیا ان کی نذر کیجئے اب کیا رہا ہے پاس
سنتے ہیں اب نہ رہا ہوں کے گرفتار قفس
جب دل سے گئی ان کی ملاقات کی خواہش
قاصد کو وہاں لے گئی انعام کی خواہش
یارب مرے دماغ تک آئے نہ بوے عیش
اسقدر بیتاب ہے جو آج میرے دل کی حرص
ایسے کہیں کے لوگ نہیں عیش
یوں اٹھا دے ہمارے جی سے غرض
کچھ میکدے ہی میں نہیں جانے سے احتیاط
اٹھ گیا جی سے زندگی کا لحاظ
ہائے رے اس کی سادگی کی وضع
پھر دے رہا ہے دل کہیں آنے کی اطلاع
غرور کیا جو ہوا حسنِ عارضی کو فروغ
جو ہو چکے ہیں زمانے کے حال سے واقف
یہ دن اور مجھ پہ یہ بیداد صد حیف
بڑھ چلے ہیں پاؤں وحشت میں بیابان کیطرف
کوئی جہاں میں نہ یارب ہو مبتلائے فراق
دل کو ہے اس رہگزر کا اشتیاق
ہر چند تجھے رونا ہر شب ہے مگر کب تک
عیادت کو میری وہ آئے نہ ابتک
کیا ہوگا جوش جنون کا بہار تک
ترا پاس نزاکت ہے یہاں تک
غش ہوئے موسی پہونچ کے طور تک
پاک طینت ہیں میکدے کے لوگ
آگیا تھا یک دن ترک محبت کا خیال
دشمن بھی یہ کہے جو سنے میرے جی کا حال
نہ پوچھو مرے جی کا حال آجکل
سنور کر ہوئی لاش تربت میں داخل
گناہ اپنی کہاں اب شمار کے قابل
ہمیں سے پوچھتے ہو کیا ہوا دل
تمہیں جب کہو دل لگانے سے حاصل
جان ہی جائے تو جائے درد دل
بیٹھے ہیں آج ہاتھ اٹھا کر دعا سے ہم
کرم ہو غیر پہ خوش ہیں ترے ستم سے ہم
یہ ہوئے بیتاب دردِ دل سے ہم
رکھا ہے پاؤں جب سے محبت کی راہ میں
وہ کیسے لوگ ہیں جو عہدو پیماں سے مکرتے ہیں
الٹے یہ سیکڑوں الزام لگاد یتے ہیں
محبت کیا بڑھی ہے وہم باہم بڑھتے جاتے ہیں
ناز میں جن کے کچھ نیاز
ملاتھا میکشی کا لطف کچھ کچھ ہم کو اول میں
محبت میں یوں تو مزا کچھ نہیں
ہے غضب پینے پلانے کا مزا برسات میں
کدھر وہ آئے گئے کچھ ہمیں خیال نہیں
دشمن کا ذکر آپ نہ چھیڑیں وصال میں
ہاں دوائے درد دل تو صبر سے بہتر نہیں
دل کی طالب زلفیں آنکھیں دشمن جاں ہو گئیں
ہمارے ساتھ غیروں کے ہوے ہیں امتحان برسوں
دنیامیں حسن ہے مگر ایسے حسین نہیں
احسان ہے کسی کا جو ہم پر کرم نہیں
تاک جھانک ان کی صف محشر میں بھی جاتی نہیں
مرے ضبط فغاں پر غیر کیا آوازے کستے ہیں
وہی کچھ ترا بھید پائے ہوئے ہیں
شکوہ کرتے ہیں زبان سے نہ گلا کرتے ہیں
خوگر یہ چھیڑ کا ہوں کہ آتا مزا نہیں
ہم ان کو بانی جور و جفا سمجھتے ہیں
دل ہے تو ترے وصل کی ارمان بہت ہیں
وہ تڑپتے ہیں عدو کی یاد میں
یوں تو کیا کوئی کسی پر مہربان ہوتا نہیں
کسی کو جو کچھ مہربان پار ہے ہیں
ذکر دشمن پہ جو وہ چین بجبیں ہوتے ہیں
کیا کروں عذر گنہ حشر میں حیران ہوں میں
اب لگاوٹ سے طبعیت نہ مری شاد کریں
محبت کی بلا میں گھر گئے ناچار بیٹھے ہیں
میں نے پوچھا کیا مری آہ و فغاں کچھ بھی نہیں
ہم سے ترک دوستی اچھی نہیں
وصل اگر آپ کو منظور نہیں
ہر گھڑی چرچا عدو کا کچھ نہیں
تم ایسے خود غرض سے محبت جتائے کون
نہ میں سناؤں نہ کوئی سنے زمانے میں
رنجش بھی عشق میں ہو تو بھی مزے بڑے ہیں
کہیں مرنے والے کہا مانتے ہیں
اٹھے بالیں سے کیا جانے وہ کیا کہکر اشاروں میں
جو آنکھیں ہیں نظر کر رنج ہے راحت کے سامان میں
افسردگی دل سے یہہ رنگ ہے سخن میں
کام لیں ضبط سے کھل کر وہ مرا غم نہ کریں
کوئی جہاں میں ایسا بھی نامراد نہ ہو
تو جو کہتا تو بڑا فخر تھا اس کا مجکو
قاصد خلافِ خط کہیں تیرا بیان نہو
کون ہاتھوں سے جدائی میں سنبھالے دل کو
ملی ہے ہمت عالی وہ بادہ نوشوں کو
سوہان روح ٹھہرا یہہ روگ آدمی کو
بچا کر کتنے پہلو لکھ رہا ہوں حرف مطلب کو
خدا ہو آپ ہوں ہم ہوں عدو ہو
حسینوں میں جو پایا پیار کے قابل ہزاروں کو
بتاؤں کیا کسی کو میں کہ تم کیا چیز ہو کیا ہو
مفت دیدوں تمہیں ایسا نہیں دوبھر مجکو
ملنے والوں سے ملو حسن پہ غرانہ کرو
سن کے میرے عشق کی روداد کو
وہ آئے میرے گھر میں بخت یاد ہو تو ایسا ہو
ہمارے سامنے پھروں ہماری ہی شکایت ہو
مناؤں کیوں تمہیں یہہ تو بتاؤ ایسے کیا تم ہو
رقیبوں سے تمہیں ملنا اگر ہو
ان کو سمجھایئے آتے ہیں جو سمجھانے کو
پی ہم نے بہت شراب تو بہ
یہہ قفس ہو خیر سے صیاد ہو
بتائیں کیا چمن میں آشیانہ
عارضی حسن پہ کیوں ناز ہے یہہ
کس قدر ہے صاف دل پاکیزہ طینت آئینہ
جان جاتی ہے کہ یہ رات بسر ہوتی ہے
ان کو دل دے کے پشیمانی ہے
بعد تو بہ بھی وہی ہے میخانے کی
ٹکڑے جگر کے ہوں گے مرے دل کی آہ سے
ان لوگوں کے مشرب ہیں زمانی سے نرالے
یہ چتون یہ ادا یہ آنکھ یہ سج دھج نرالی ہے
دشمن سے تو کہو مری چتون بلا کی ہے
نہو نامراد مجھ سا کہ جیون تو کل نہ آئے
کچھ گلہ اس کا نہ شکوا چاہئے
ادا پریوں کی صورت حور کی آنکھیں غزالوں کی
ہائے وہ دن جب سرور وصل حاصل تھا مجھے
بگڑ جاتے تھے سن کر یاد ہے کچھ وہ زمانہ بھی
غیر اچھے ہم برے یو نہیں سہی
سوخ ہے چتون نظر چالاک ہے
اب اگلی تذکرے جانے بھی دو کیا اس سے وصل ہے
کوئی پردہ نشیں نکلے نہ گھر سے
حشر ہے وعدۂ دیدار وفا ہوتا ہے
یوں تو حسین اکثر ہوتے ہیں شان والے
عدو کی شکل محفل میں برغبت دیکھنے والے
حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی
آدمی مست خواب ہوتا ہے
جو دیوانوں نے پیمائش کی میدان قیامت کی
کب ایسے ویسے مرے دل کے خواستگار رہے
دنیا وہ نہیں ٹال دو جو قول و قسم سے
عجب زمانے کی گردشیں ہیں خدا ہی بس یاد آرہا ہے
بلا ان کی کرے غم کام کیا ان کو مرے غم سے
وصل میں آپس کی حجت اور ہے
ذرا تھمتی نہیں چنچل نگاہ یار کیسی ہے
مژگان ہیں غضب ابروخمدار کے آگے
شب وصال یہ کہتے ہیں وہ سنا کے مجھے
وہ بیٹھے آج جو سننے کو داستان میری
تری یاد گو دل مسلتی رہی
جنت کی آرزو ہے نہ حوروں کی چاہ ہے
دیا جب جام مے ساقی نے بھر کے
ان کی یہ ضد کہ مرے گھر میں نہ آئے کوئی
زمانے کا بھروسہ کیا ابھی کچھ ہی ابھی کچھ ہے
صبح کو آئے ہو نکلے شام کے
سنو جو تم سے شکایت کرے عدو میری
جب کہتے محبت ہے ہمیں ایک حسین سے
اسیری میں صبا نے جب خبر دی موسم گل کی
کون صورت ہے عرض مطلب کی
نظر ملاتے ہی دل کا سوال کر بیٹھے
ہمیں حاصل بتوں کی التجا سے
ہر گھڑی عمر گذشتہ کا نہ کیوں کر غم رہنے
اب اتنے ظالموں میں کیا بچیگی جان بسمل کی
اس کو آزادی نہ ملنے کا ہمیں مقدور ہے
جب تک کہ طبیعت سے طبیعت نہیں ملتی
ختم ہے اک نگہ ناز پہ قیمت دل کی
گویہ رکھتی نہیں انسان کی حالت اچھی
ہو ہمکنار ہے جام شراب ہاتھ میں ہے
بسر کرنے نہ پایا عیش کے دن سادمانی سے
عرصۂ حشر میں فریاد تری کیا کرتے
یہی مسئلہ ہے جو زاہد و تو مجھے کچھ اس میں کلام ہے
دینا مری نگاہ میں صحراے یاس ہے
محشر کی بازپرس سے جی بے ہراس ہے
تری جس میں حسرت ہے وہ دل یہی ہے
دن رات بھگوئیں دامن کو اور اشکوں سے کیا ہوتا ہے
ہر شب جو مشورے ہیں یہی پاسبان سے
ہائے اب کون لگی دل کی بجھانے آئے
صدمے جو کچھ ہوں دل پہ سہیے
مرے عیبوں کی اصلاحیں ہوا کیں بحث دشمن سے
داورحشر سے کیا ہوگی شکایت ان کی
پٹکوں سر اسقدر کہ جبیں خون چکان رہے
طاقت ضبط نہ یار اسے شکیبائی ہے
کچھ کم نہیں تلوار سے دنیا میں ہنربھی
جس روز درد دل میں ذرا بھی کمی ہوئی
اچھا نہیں ہے روز کا قول و قرار بھی
ہوئی زار فرقت میں حالت کچھ ایسی
یا تو بگڑے ہوئے تیور مرے پہچان گئے
وصل آسان ہے کیا مشکل ہے
اپنے گزرے ہوئے زمانے
ہم سے بھی مدتوں تک عہد وفارہا ہے
آتے آتے ایک مدت ہو گئی
گھٹ گھٹ کے جان دینا شرط وفا نہیں ہے
سنا کیا جو آنسو نکلنے لگے
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
دور کے نامۂ و پیغام میں کیا رکھا ہے
اللہ کس کے درپہ جبین نیاز ہے
بعد میرے جب زبانوں پر شکایت آئے گی
شکوے اب تک نہ کبھی سوز نہاں کے آئے
داور حشر سے انصاف طلب ہے کوئی
آج درگاہ جانا ہے کہ نوچندی ہے
جاتا رہا جب شباب کیا ہے
بے بلائے ہوے آئے کہ بلائے آئے
خود بخود آنکھ بدل کر یہ سوال اچھا ہے
امید وصل ہے تعویذ حفظ جان کے لئے
ہو ترک کسی سے نہ ملاقات کسی کی
مصیبتیں تو اٹھا کر بڑی بڑی بھولے
جب ملا کوئی حسین جان پر آفت آئی
قسم نباہ کی کھائی تھی عمر بھر کے لئے
محبت کی ناصح دوا ہو چکی
کہوں کیا درد فرقت کی اذیت ایسی ہوتی ہے
جاؤ بھی جگر کیا ہے جو بیداد کرو گے
شب وصال لگایا جو ان کو سینے سے
جو دیکھا مرادم نکلتے ہوے
صدقے ترے ادھر بھی دے کوئی جام ساقی
وہ مرے دل کا درد کیا جائے
وصل اس پردہ نشین کا کس قدر دشوار ہے
ادھر ہوتے ہوتے ادھر ہوتے ہوتے
اب پر کبھی فغان ہے کبھی آہِ سرد ہے
پاس تیرے رہے قاتل تو یہ قاتل ہو جاے
کیا وہ نادان مدعا سمجھے
جب سے شوخی کا گذران شرمگیں آنکھوں میں ہے
کبھی تھا وصل کا اقرار ہم سے
ان سے کرتی ہے سفارش جو محبت میری
سننے والوں کے کلیجوں کو ہلا دیتی ہے
خطا معاف جو رسوائیوں سے ڈر جاتے
نبھ جائے محبت جو مری طرح بنا ہے
وہ طبیعت جو صلح جو نہ رہی
ہوئے عشق میں امتحان کیسے کیسے
حسینوں سے جس سے ملاقات ہے
ساز ہے دل کی اس کی چتون سے
وہ میرے بس میں ہوے تو بھی بے بسی ہو گی
پہلے ہی موت سے یہ غم مارتے ڈالتا ہے
آج روکا جو انہیں غیر کے گھر جانے سے
یہ عیش جبھی تک ہے جب تک یہ جوانی ہے
زندگی خود موت کا پیغام ہے
پڑ گئی ہے دونوں عالم میں دہائی آپ کی
کیا چیز ساتھ لائے ہیں کوے حبیب سے
ہم سے کھنچ کر غیرسے ملنے کی بھی اچھی کہی
کیا ہو امید وصل کہ ان کا یہ حال ہے
زاہد کورٹ لگی ہے شراب طہور کی
خمسۂ برغزل خود
اشعار متفرقات
عرضی بحضورسید محمد علی صاحب ڈسٹرک و ششن جج جونپور
قطعہ در تہنیت غسل صحت عالی جناب سید محمد سعادت علی خان صاحب مالک ریاست پیغمبر پور
قصائد
مطلع
وصف اس کان ریاست کا ہے منظور نظر
سرنگوں دیکھ کے کوٹھی کی بلندی جو ہوا
تیرے اصطبل میں بھی ابلق ایام کی طرح
دیکھئے جس سمت چھایا ہے خوشی کا اک سمان
گاڑ ایان دیکھ کے حور اپنا چھپر کھٹ بھولے
غسل صحت ہے مرے سرکار کا
حفیظ اب کے ہے جمعۂ وعید باہم
سرپر ہے قلم کے نور کا تاج
کہ سیر جو کل عالم تصویر کی میں نے
سعادت علی خان والا کو یارب
جناب سعادت علیخان کو یارب
رشک مجکو کیوں کسی شاعر کی ہو تقدیر پر
آئی ہے حفیظ عید قربان
صبحدم مجکو جگا کر یہ مرے دل نے کہا
سیر کو جارہی ہے نکہت گل
رباعیات
پھر کے نینی تال سے بابو مہیشور آگئے
پھولی ہے آنکھوں میں سرسوں ایسی مے ساقی نے دی
مناجات
سلام
قومی نظم
مسدس
فیضان باران 1909
ساقی نامہ
ساقی نامہ
1908کے قحط کا ساقی نامہ
ساقی نامہ 1910
بسنت
عرضی
ایڈریس
ناتمام نظم
تردید
صحت نامہ دیوان اول حفیظ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔