سرورق
ماہیتوں کوروشن کرتا ہے نور تیرا
مدرسہ یادیر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا
مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کی رقم کا
اکسیر پر مہوش اتنا نہ ناز کرنا
گرچہ وہ خورشید رویت ہے مرے سامنے
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھنا
مثل نگیں جو ہم سے ہوا کام رہ گیا
جی میں ہے سیر عدم کیجئے گا
اگر یوں ہی یہ دل ستاتا رہیگا
جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
تو اپنے دل سے غیر کی الفت نہ کھو سکا
تم نے تو ایک دن بھی نہ ادھر گزرکیا
شب گزری اور آفتاب نکلا
دل کس کی چشم مست کا سر شار ہوگیا
سینہ ودل حسرتوں سے چھا گیا
کھلا دروازہ میرے دل پہ ازبس او رعالم کا
دنیا میں کون کون نہ یکبار ہو گیا
تو بن کہے گھر سے کل گیا تھا
یوں ہی ٹھہری کہ ابھی جائیگا
تشنہ کیا جانے وہ کہنے کو مے آشنا ہے شیشا
بظاہر کہیں غنچہ دل سے ملا تھا
اپنا تو نہیں تویار میں کچھ یار ہوں تیرا
تو کب تئیں مجھ ساتھ مری جاں ملیگا
جبتک ہے دل کے شیشہ میں رنگ امتیاز کا
مری بے صبریوں کی بات سن سب سے وہ کہتا ہے
رباعیات
کچھ کشش نے تری اثر نہ کیا
دیکھ کر حال پریشان عاشقان زار کا
ردیف الباء
تھا عدم میں بھی مجھے اک پیچ و تاب
ردیف الجیم
مذکور جب چلے ہے مرا انجمن کے بیچ
آئے کسواسطے اے درد میخانیکے بیچ
ردیف الراء
کیونکر میں خاک ڈالوں سوز دل طپاں پر
اسقدر تھا یا کرم یا ظلم رانی اس قدر
کیا ہوا مرگئے آرام ہے دشوار ہنوز
ردیف الزاء
لایا نہ تھا تو آج تلک ہاتھ سوے تیغ
ردیف الغین
کرتا رہا ہوں میں دیدۂ گریاں کی احتیاط
ردیف الطاء
کچھ دل ہی باغ میں نہیں تنہا شکستہ دل
حیران آئینہ دار ہیں ہم
ردیف الام
ردیف المیم
ابکی ترے در سے گر گئے ہم
کچھ لائے نہ تھے کہ کھو گئے ہم
مژگاں تر ہوں یار رک تاک بریدہ ہوں
گلیم بخت سیہ سایہ دار رکھتے ہیں
ردیف النون
نہ ہم غافل ہی رہتے ہیں نہ کچھ آگاہ ہوتے ہیں
تو مجھ سے نہ رکھ غبار جی میں
ہر چند تیری سمت سوا راہ ہی نہیں
غافل جہاں کی دید کو مفت نظر سمجھ
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں
نہ زلف بتاں کا گرفتار ہوں
باغ جہاں کے گل میں یار خار ہیں تو ہم ہیں
نہ ہم کچھ آپ طلب نے تلاش کرتے ہیں
جمع میں افراد عالم ایک ہیں
یاوری دیکھئے نصیبوں کی
کیوں نہ ڈوبے ہیں یہ دیدہ تر پانمیں
جی نہ اٹھوں کہیں پھر میں جو تو مار ے دامن
مرتا نہیں ہوں کچھ میں اس سخت دل کے ہاتھوں
اپنی قسمت کے ہاتھوں داغ ہوں میں
مجھے در سے تو اپنے ٹالے ہے یہ بتا مجھے تو کہاں نہیں
گھر تو دونون پاس ہیں لیکن ملاقاتیں کہاں
آگے ہی بن سنے تو کہے ہے نہیں نہیں
رباعیات
مرے ہاتھوں کے ہاتھوں اے مرنیاں
اس ذکر سے بھی مجھ کو کیا کام دلکے ہاتھوں
ردیف الواو
مانع نہیں ہم وہ بت خود کام کہیں ہو
کیا فرق داغ و گل میں جس گل میں بو نہ ہو
مست ہوں پیر مغاں کیا مجھ کو فرماتا ہے تو
ملاؤں کسکی آنکھوں سے کہو اس چشم حیراں کو
مجلس میں بار ہوے نہ شمع و چراغ کو
ردیف الہاء
ہر طرح زمانے کے ہاتھوں سے ستم دیدہ
دل پہ بے اختیار ہو کر آہ
ربط ہے باز بتاں کو تر مری جانکے ساتھ
کاش تا شمع نہ ہوتا گزر پروانہ
ردیف الیاء
دل سوا کسکو ہو اس زلف گرہگیر میں راہ
اسکی بہار حسن کا دلمیں ہمارے جوش ہے
اہل فنا کو نام سے ہستی کی ننگ ہے
وحدت نے ہر طرف جلوہ دکھا دے
دل مرا پھر دکھایا کس نے
گر باغ میں خنداں وہ مرا لب شکر آوے
چھاتی پہ گر پہاڑ بھی ہوے تو ٹل سکے
اذیت کوئی تیرے غم کی میرے جی سے جاتی ہے
یاں عیش کے پردے میں چھپی دل شکنی ہے
قسم ہے حضرت دل ہی کے آشیانے کی
کوئی بھی دوا اپنے تئیں راس نہیں ہے
آج نالوں نے مرے زوری دلسوزی کی
جوں سخن اب یاد اک عالم رہے
آرام سے کبھو بھی نہ یکبار ہو گئے
جی کی جی ہے میں رہی بات نہ ہونے پائی
نہ ہاتھ اٹھاے فلک کو ہمارے جینے سے
ہے سیف زبان تری یہ مست
فرصت زندگی بہت کم ہے
سر سبز تھا نیستاں میرے ہی اشک غم سے
دل مرا باغ دلکشا ہے مجھے
یارو مرا شکوہ ہی بھلا کیجئے اس سے
ہم چشمی ہے وحشت کو مری چشم شرر سے
کب ترا دیوانہ نہ آوے قید میں تدبیر سے
روندے ہے نقش پا کی طرح خلق یاں مجھے
دیا ہے کسکی نظر نے یہ اعتبار مجھے
اپنے تئیں تو ہر گھڑی غم ہے الم ہے داغ ہے
فرض کیا کہ اے ہوس اک دو قدم ہے باغ ہے
پھنسے کسی کی زلف میں کب ہمیں دماغ ہے
پہلو میں دل طپاں نہیں ہے
عشق ہر چند مری جان کو آ کھاتا ہے
کل کی طرح سے آج بھی اب نیند آچکی
یاں غیب کے جلوہ تئیں یہ جلوہ گری ہے
مجھ کو تجھ سے جو کچھ محبت ہے
بات جب آندان پڑتی ہے
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
اک آن سنبھلتے نہیں اب میرے سنبھالے
جو یاں کچھ چاہنے والے فریب یکد گر بیٹھے
ہوا جو کچھ کہ ہونا تھا کہیں کیا جی کو رو بیٹھے
کیف وکم کو دیکھ اسے بے کیف و کم کہنے لگے
دشوار ہوئی ظالم تجھ کو بھی نیند آنی
دل تجھے کیوں ہے بیکلی ایسی
آہستہ گزر یو تو صبا کوے یار سے
گر نام عاشقی ترے نزدیک ننگ ہے
جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹتی ہے
جب نظر سے بہار گزرے ہے
غمناکی بیہودہ رونے کو ڈبوتی ہے
نہ وہ نالوں کی سوزش سے نہ آہوں کی ہے ڈوہونی
تو اسقدر چو اسکا مشتاق ہو رہا ہے
رباعیات
دل سمت سینہ یا طرف سر کو منہ کرے
اے درد کیا عجب ہے مرے اشک و آہ سے
مدت تئیں باغ و بوستاں کو دیکھا
رباعیات متفرق
ہم نے بھی کبھو جام و سبو دیکھا تھا
رباعی مستزاد
مخمسات
باطن سے جنہوں کے تئیں خبر ہے
دیدار نما ہے شاہد گل
کیسی تم کو بھاوت ہیں اور کیسی تو سکھ پاوت ہیں
ترکیب بند
شاہنشہ ملک کفرو دین تو
میرے دم سرد سے نہیں دور
عاشق ہے اور اضطرار کرنا
YEAR1869
YEAR1869
سرورق
ماہیتوں کوروشن کرتا ہے نور تیرا
مدرسہ یادیر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا
مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کی رقم کا
اکسیر پر مہوش اتنا نہ ناز کرنا
گرچہ وہ خورشید رویت ہے مرے سامنے
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھنا
مثل نگیں جو ہم سے ہوا کام رہ گیا
جی میں ہے سیر عدم کیجئے گا
اگر یوں ہی یہ دل ستاتا رہیگا
جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
تو اپنے دل سے غیر کی الفت نہ کھو سکا
تم نے تو ایک دن بھی نہ ادھر گزرکیا
شب گزری اور آفتاب نکلا
دل کس کی چشم مست کا سر شار ہوگیا
سینہ ودل حسرتوں سے چھا گیا
کھلا دروازہ میرے دل پہ ازبس او رعالم کا
دنیا میں کون کون نہ یکبار ہو گیا
تو بن کہے گھر سے کل گیا تھا
یوں ہی ٹھہری کہ ابھی جائیگا
تشنہ کیا جانے وہ کہنے کو مے آشنا ہے شیشا
بظاہر کہیں غنچہ دل سے ملا تھا
اپنا تو نہیں تویار میں کچھ یار ہوں تیرا
تو کب تئیں مجھ ساتھ مری جاں ملیگا
جبتک ہے دل کے شیشہ میں رنگ امتیاز کا
مری بے صبریوں کی بات سن سب سے وہ کہتا ہے
رباعیات
کچھ کشش نے تری اثر نہ کیا
دیکھ کر حال پریشان عاشقان زار کا
ردیف الباء
تھا عدم میں بھی مجھے اک پیچ و تاب
ردیف الجیم
مذکور جب چلے ہے مرا انجمن کے بیچ
آئے کسواسطے اے درد میخانیکے بیچ
ردیف الراء
کیونکر میں خاک ڈالوں سوز دل طپاں پر
اسقدر تھا یا کرم یا ظلم رانی اس قدر
کیا ہوا مرگئے آرام ہے دشوار ہنوز
ردیف الزاء
لایا نہ تھا تو آج تلک ہاتھ سوے تیغ
ردیف الغین
کرتا رہا ہوں میں دیدۂ گریاں کی احتیاط
ردیف الطاء
کچھ دل ہی باغ میں نہیں تنہا شکستہ دل
حیران آئینہ دار ہیں ہم
ردیف الام
ردیف المیم
ابکی ترے در سے گر گئے ہم
کچھ لائے نہ تھے کہ کھو گئے ہم
مژگاں تر ہوں یار رک تاک بریدہ ہوں
گلیم بخت سیہ سایہ دار رکھتے ہیں
ردیف النون
نہ ہم غافل ہی رہتے ہیں نہ کچھ آگاہ ہوتے ہیں
تو مجھ سے نہ رکھ غبار جی میں
ہر چند تیری سمت سوا راہ ہی نہیں
غافل جہاں کی دید کو مفت نظر سمجھ
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں
نہ زلف بتاں کا گرفتار ہوں
باغ جہاں کے گل میں یار خار ہیں تو ہم ہیں
نہ ہم کچھ آپ طلب نے تلاش کرتے ہیں
جمع میں افراد عالم ایک ہیں
یاوری دیکھئے نصیبوں کی
کیوں نہ ڈوبے ہیں یہ دیدہ تر پانمیں
جی نہ اٹھوں کہیں پھر میں جو تو مار ے دامن
مرتا نہیں ہوں کچھ میں اس سخت دل کے ہاتھوں
اپنی قسمت کے ہاتھوں داغ ہوں میں
مجھے در سے تو اپنے ٹالے ہے یہ بتا مجھے تو کہاں نہیں
گھر تو دونون پاس ہیں لیکن ملاقاتیں کہاں
آگے ہی بن سنے تو کہے ہے نہیں نہیں
رباعیات
مرے ہاتھوں کے ہاتھوں اے مرنیاں
اس ذکر سے بھی مجھ کو کیا کام دلکے ہاتھوں
ردیف الواو
مانع نہیں ہم وہ بت خود کام کہیں ہو
کیا فرق داغ و گل میں جس گل میں بو نہ ہو
مست ہوں پیر مغاں کیا مجھ کو فرماتا ہے تو
ملاؤں کسکی آنکھوں سے کہو اس چشم حیراں کو
مجلس میں بار ہوے نہ شمع و چراغ کو
ردیف الہاء
ہر طرح زمانے کے ہاتھوں سے ستم دیدہ
دل پہ بے اختیار ہو کر آہ
ربط ہے باز بتاں کو تر مری جانکے ساتھ
کاش تا شمع نہ ہوتا گزر پروانہ
ردیف الیاء
دل سوا کسکو ہو اس زلف گرہگیر میں راہ
اسکی بہار حسن کا دلمیں ہمارے جوش ہے
اہل فنا کو نام سے ہستی کی ننگ ہے
وحدت نے ہر طرف جلوہ دکھا دے
دل مرا پھر دکھایا کس نے
گر باغ میں خنداں وہ مرا لب شکر آوے
چھاتی پہ گر پہاڑ بھی ہوے تو ٹل سکے
اذیت کوئی تیرے غم کی میرے جی سے جاتی ہے
یاں عیش کے پردے میں چھپی دل شکنی ہے
قسم ہے حضرت دل ہی کے آشیانے کی
کوئی بھی دوا اپنے تئیں راس نہیں ہے
آج نالوں نے مرے زوری دلسوزی کی
جوں سخن اب یاد اک عالم رہے
آرام سے کبھو بھی نہ یکبار ہو گئے
جی کی جی ہے میں رہی بات نہ ہونے پائی
نہ ہاتھ اٹھاے فلک کو ہمارے جینے سے
ہے سیف زبان تری یہ مست
فرصت زندگی بہت کم ہے
سر سبز تھا نیستاں میرے ہی اشک غم سے
دل مرا باغ دلکشا ہے مجھے
یارو مرا شکوہ ہی بھلا کیجئے اس سے
ہم چشمی ہے وحشت کو مری چشم شرر سے
کب ترا دیوانہ نہ آوے قید میں تدبیر سے
روندے ہے نقش پا کی طرح خلق یاں مجھے
دیا ہے کسکی نظر نے یہ اعتبار مجھے
اپنے تئیں تو ہر گھڑی غم ہے الم ہے داغ ہے
فرض کیا کہ اے ہوس اک دو قدم ہے باغ ہے
پھنسے کسی کی زلف میں کب ہمیں دماغ ہے
پہلو میں دل طپاں نہیں ہے
عشق ہر چند مری جان کو آ کھاتا ہے
کل کی طرح سے آج بھی اب نیند آچکی
یاں غیب کے جلوہ تئیں یہ جلوہ گری ہے
مجھ کو تجھ سے جو کچھ محبت ہے
بات جب آندان پڑتی ہے
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
اک آن سنبھلتے نہیں اب میرے سنبھالے
جو یاں کچھ چاہنے والے فریب یکد گر بیٹھے
ہوا جو کچھ کہ ہونا تھا کہیں کیا جی کو رو بیٹھے
کیف وکم کو دیکھ اسے بے کیف و کم کہنے لگے
دشوار ہوئی ظالم تجھ کو بھی نیند آنی
دل تجھے کیوں ہے بیکلی ایسی
آہستہ گزر یو تو صبا کوے یار سے
گر نام عاشقی ترے نزدیک ننگ ہے
جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹتی ہے
جب نظر سے بہار گزرے ہے
غمناکی بیہودہ رونے کو ڈبوتی ہے
نہ وہ نالوں کی سوزش سے نہ آہوں کی ہے ڈوہونی
تو اسقدر چو اسکا مشتاق ہو رہا ہے
رباعیات
دل سمت سینہ یا طرف سر کو منہ کرے
اے درد کیا عجب ہے مرے اشک و آہ سے
مدت تئیں باغ و بوستاں کو دیکھا
رباعیات متفرق
ہم نے بھی کبھو جام و سبو دیکھا تھا
رباعی مستزاد
مخمسات
باطن سے جنہوں کے تئیں خبر ہے
دیدار نما ہے شاہد گل
کیسی تم کو بھاوت ہیں اور کیسی تو سکھ پاوت ہیں
ترکیب بند
شاہنشہ ملک کفرو دین تو
میرے دم سرد سے نہیں دور
عاشق ہے اور اضطرار کرنا
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔