سرورق
دل کو رہتا ہے وظیفہ صبح وشام اللہ کا
جسے حاصل ہوا بوسہ در شاہ رسالت کا
مرے دل میں تصور ہے گل رخسار حضرت کا
مصروف میکشی جو کوئی رشک حور تھا
ہجر میں گھل گھل کے آنکھوں سے نہاں ہو جائیگا
کب غیض میں بدلے ہوئے تیور نہیں ہوتا
جس رات کو پہلو میں وہ دلبر نہیں ہوتا
وحشت میں جان دینے کا سامان ہوگیا
یاد جاڑوں میں ہے چھپ کے وہ آنا تیرا
پھیلے نہ اگر جلوۂ رخسار تمہارا
خوش ہوتے جہاں میں دل انساں نہیں دیکھا
شب فراق میں دل جس گھڑی تپاں ہوگا
قیامت میں دعوی ہوا ہر کسی کا
کلیجہ جو پانی ہوا ہے کسی کا
سب دشمنوں کو بزم حسینان سے نکالا
تڑپ یہ قلب وجگر کی یہ اضطراب نہ تھا
مہمان میرے گھر جو وہ گل پیرہن ہوا
وہ ظلم چھوڑ کر بھی ستمگار ہی رہا
کرتا لپٹ لپٹ کے تجھے پیار ہی رہا
شرک خفی میں شیخ گرفتار ہی رہا
میرے گھر چھپ کے اگر شب کو وہ مہماں ہوتا
نہ یہ اضطراب ہوتا نہ یہ انتشار ہوتا
دیکھتے چھپ کے پس پردۂ دردیکھ لیا
شباب میں نہ لگاوٹ نہ کچھ شعور آیا
جب کبھی ذکر بتان ستم ایجا آیا
ہجر دلدار میں جینا او نہیں مشکل نہ ہو
وہ ستمگر تیغ جب اپنی علم کرنے لگا
کچھ بھی اثر نہ آہ رسا ہے ذرا ہوا
نہ چین دل کو ملا اور نہ شب کو خواب آیا
کبھی نہ گھر پہ نہ وہ گل سر مزار آیا
درد فرقت سے نہ بیتاب کلیجا ہوتا
سر کر بہر قتل جب میں نے قدم پر رکھ دیا
ہم سے تمہاری بزم میں جایا نہ جائیگا
گلستاں میں ہوا سنبل کو سودا تیرے گیسو کا
یاد آتا نہیں بھولے سے نشانا دل کا
خیال آیا خداوند یہ کس رشک گلستاں کا
پوچھتے ہو حال کیا ہنس ہنس کے مجھ ناشاد کا
خواب میں دیکھے گا جلوہ احمد مختار کا
راز دل ہی میں رہے تیغ نگاہ یار کا
مانوس جب میں زلف گرہ گیر سے ہوا
ہم نے گھر بیٹھے کسی شوخ کا جلوہ دیکھا
بزم میں جب رقص کرنے وہ پری پیکر اٹھا
داغ دل کام نہ آیا پس مردن اپنا
توادجڑے ہوے دل کو آباد نہیں کرتا
اک فقط میں تیرے شمع رخ پہ کیا پروانہ تھا
تصور ہے مجھے صلی علی روے پیمبر کا
شکر کیونکر نہ کروں ہے وہ پیمبر اپنا
نعت احمد شغل جس دن سے ہمارا ہو گیا
جس سنا اس ماہ پیکر نے کہ قیصر مر گیا
یہ مطلب ہے پس مردن ہمارا
نہ پوچھو حال کچھ مجھ سے وفور ناتوانی کا
طپش دل سے آب ہوا
اس گیسوئے پیچاں میں مرا دل نہیں ملتا
روے خورشید مبیں زیر سحاب آہی گیا
دیکے دم دروازے سے اغیار کو چلتا کیا
جو لب پہ حرف تمنا دم سوال آیا
ردیف بائے موحدہ
فصل گل میں ہے چمن دار الشفاے عندلیب
گھر میں ہمارے آئیگا وہ گلعذار کب
ردیف پائے فارسی
مہربان مجھ پہ ہوا لالہ عذار آپ سے آپ
عارض روشن پہ چھائے رہتے ہیں گیسوے دوست
دیکھ لی ہے جو مرے زخم جگر کی صورت
اے صبا گوشۂ نقاب الٹ
ردیف دال ہندی
ردیف ثائے مثلثہ
جب کہے تو خود کہ تم مرتے ہو کیو مجھ پر عبث
اتنا تو میر آہوں میں یارب ہواثرآج
ردیف جیم عربی
ردیف جیم فارسی
ہاتھ اپنا قتل سے اب اے بت بے پیر کھینچ
بہارآج ہے مقتل میں بوستاں کی طرح
ردیف حاے حطی
ابھی لباس نہ پہنے وہ رشک گلشن سرخ
ردیف خائے معجمہ
ردیف دال مہملہ
جس گل کو پھولوں کا بھی نہ ہو رنگ و بو پسند
تجھ کو ہے ساقی شراب ارغوانی پر گھمنڈ
ردیف دال ہندی
کرتے نہ تمہیں جو پیار تعویذ
ردیف ذال معجمہ
اگر پڑتیں نگاہیں اس گل باغ لطافت پر
ردیف راے مہملہ
ہزاروں مرمٹے اے جان تیری چشم فتاں پر
شب وعدہ قدم رنجہ نہ تم گر اے قمر کرتے
دکھاتی ہے سماں زنار کا ہر رگ مرے تن پر
نظر باز بیٹھے ہیں اوڑھو سنبھل کر
دیکھے آج اترتا ہے یہ غصا کس پر
نہیں معلوم کہ اتریگا یہ غصہ کن پر
کیا ڈورے ڈالوں یار کے حسن شباب پر
چار دن بھی نہ چمن میں رہے خنداں ہو کر
جہاں میں ہو نہ کیونکر فخر اسکو فرق فرقد پر
ملیگا کیا تجھے مجھ کو ستا کر
منہ جو آیا تھا روے دلبر پر
یوں ہیں گل ترعارض جاناں کی برابر
کیا سیکھ لی ہے چشم فسوں گر سے چھیڑ چھاڑ
ردیف زاے معجمہ
رانا نہیں اچھا ہے بلا وجہ یہ ہر روز
نہ کبھی وہ دیں گے بوے نہ مجھے جواب ہر گز
ردیف راے ہندی
بیہودہ گویوں سے نہ کیونکر چبائے ژاژ
ردیف سین مہملہ
نہ ملا بادۂ گلرنگ کا ساغر افسوس
تل نہیں ہے یہ تری ابروے خمدار کے پاس
ردیف شین معجمہ
جستجو سیم کی ہو مجھ کو نہ ہوزر کی تلاش
دیکھ لیتے باغ میں تیرا اگر اک یار رقص
ردیف صادمہملہ
بلبلوں کو نظر آئے جو بہار عارض
ردیف صاد منقوطہ
شب کو رہتے نہیں گھونگھٹ میں بھی پنہاں عارض
جتنا ہے طبع یار کو ظلم وجفا سے ربط
ردیف طاے مہملہ
کیا ہو گی میر ہجر کی شب غمگسار شمع
میں تجھ سے صاف یہ کہتا ہوں کہ قبلہ رو واعظ
ردیف عین مہملہ
ردیف طاء منقوطہ
جو دیکھے بزم میں وہ روے تابدار چراغ
ردیف غین معجمہ
عمر آخر ہوگئی آیا نہ وہ دلدار حیف
ردیف فا
ردیف قاف
ردیف کاف تازی
دعوی رہیں ہیں ضبط کے صبر وقرار تک
ترقی کر گیا ہے ان دنوں جوش جنوں یاں تک
ردیف کاف فارسی
دکھلائیں گے جو دشت میں پائے فگار رنگ
مہندی ملے وہ پاؤں اگر دیکھ پاے گل
ردیف لام
ممکن نہیں بچے میں بچاؤں ہزار دل
ردیف میم
خود نہ ہو جاؤنگا جب تک کہ میں اے یار تمام
جاں عشاق کی خاطر ہیں بلاے مو صنم
ہے کس سے برسر جنگ آسماں نہیں معلوم
ردیف نون منقوطہ
نہ لی آکر خیر میری شب تار جدائی ہیں
اتنا ہو میری آہ میں یارب اثر کہیں
مرغان صبح شام سے چلاے جاتے ہیں
عیاں ہیں داغ بدن گو نحیف وزار ہوں میں
سرخی نظر آتی ہے جو تیرے کیف پا میں
مانا کوئی تم سا نہیں ظلم اور جفا میں
اسیروں پر نئے ظلم وستم صیاد کرتے ہیں
بھلا وہ کب خیال گردش ایام کرتے ہیں
توڑ وہ ناوک نظر میں نہیں
ردیف واؤ
اپنی نظروں سے گراؤ گے اگر تم مجھ کو
دے مدد وصل میں اے دست تمنا مجھ کو
جو دیکھا ہے پردے کے اندر کسی کو
جوڑا شب وصال میں انکا کھلا نہ ہوا
زینت فزائے جور جو میرا لہو نہ ہو
غشق بتاں شوخ میں شورو فغاں نہ ہو
چھوڑ دو بہر خدا بیدا د کو
دل بک گیا ہے جب سے کسی مہ لقا کے ہاتھ
ردیف ہاے ہوز
ہوگی جو تیری مشق ستم اور یادہ
کیوں ہو ذلیل الجھ کے کسی خوبرو کے ساتھ
مجھے مار ڈالیگی الفت کسی کی
ردیف یاے تحتانی
بلاے ناگہاں اے ماہ طلعت آہی جاتی ہے
بوسہ ان کے لب کا لینا چاہئے
اک غزل میں ہوں سناتا اور بھی
رخ کو پھولوں سے ملانا چاہئے
بوسہ لینا چشم درد کا چاہئے
جو میرے گھر میں وہ آئے بھی تو لجائے ہوئے
ہجر کی رات مختصر نہ ہوئی
مرے دل کو جس پھول کی جستجو ہے
طبع واعظ ساقیا بیڈھب ہے للچائی ہوئی
کسی پری کا خیال وصال رہتا ہے
میر شب فراق کی یارب سحر بھی ہے
صل کی ہائے رات جاتی ہے
جھروکے سے رخ روشن ترا جس دم نکلتا ہے
تجھ کو اے بوالہوس خبر کیا ہے
میں یہ تڑپا کہ آبلے دل کے
یہ نئے جور دیکھو قاتل کے
چمن میں موسم گل آرہا ہے
تصور مہ جبینوں کا رہا ہے
تمنا تھی کہ ملتی خاک پائے یار تھوڑی سی
جہاں میں رنگ یہ پھیلا رہا ہے
نظر پاک سے پاکیزہ ہے طلعت تیری
کوئی گلچیں رہے گلشن میں نہ صیاد رہے
مجھ سے مقتل میں بھی کھنچتے ستم ایجاد رہے
وفور گر یہ وذاری میں کیاآہ رسا ٹھہرے
کب پردہ سے غیروں کو وہ جھانکا نہیں کرتے
جان پہچان رکھتے ہیں دربان ہم سے
غزل دکھاتا ہے اپنی ابولکلام مجھے
غیر پر رہتی ہے ہر وقت عتاب کیسی
مے ہے دلدار ہے گھنگھور گھٹا چھائی ہے
نگاہوں سے غائب جو اک مہ جبیں ہے
اے پری رو جو تجھے دیکھے وہ ایماں چھوڑ دے
صبر عشاق کہیں تجھ پہ نہ اے یار پڑے
اگر کچھ یاوری کرتی مری تقدیر تھوڑی سی
بے وجہ تو کیوں جناب آتے
تری فرقت میں آہ آتشیں جب دل سے نکلے گی
تپ ہجر کے ہم تو بیمار ٹھہرے
ہو اس کو ہمدردی کس طرح سے کہ جس میں خون کا نہیں اثر ہے
خط پہ خط جب آپ کے آیا کئے
نظر جس وقت آئی مشکل مجھ کو اس ستمگرکی
درد نقرس کی اب یہ شدت ہے
نہ اتنا اگر بخت بیدار سوتے
ملا غیر کا جب مکاں آتے آتے
طائر فکر کب شاہ کے در تک پہونچے
قطعہ در تہنیت بواپسی مہم تیراہ جناب کیپٹن جارج ہائنیس صاحب سول سرجن۔۔۔
قطعہ برتبادلہ ڈاکٹر ہاوٹ سن صاحب پولیس سرجن واسسٹنٹ ۔۔۔۔۔
نظم الوداعی محب قلبی جناب ڈاکٹر اننّت پرشاد صاحب ایل ایم پی نائب ۔۔۔۔۔
قطعہ بروقت واپسی داراگنج ڈسپنسری آزلیونیٹک اسائلم ہاسپٹل آگرہ
قطعہ در تقریب زنار بندی (جنیو) عزیزی گرودت پسر جناب ڈاکٹر پنڈت۔۔۔
قطعہ الوداعی کرنل جے ایف میکلا رن صاحب بہادر ایم ۔ بی۔ آئی۔ ایم ۔ ایس۔ ایف۔ اے۔۔۔
قطعہ خیر مقدم بحضور جناب کرنل جے کے کلوز ایم ڈی ایم سی ایچ ایم اے آئی ایس سول سرجن ۔۔۔
نظم الوداعی بہ حضور کرنل ڈبلوینگ صاحب ایم اے بی آئی ایم ایس سول سرجن۔۔۔۔
قطعہ الوداعی لفٹنٹ کرنل سلبی ہنڈرسن صاحب ایم بی آئی ایم ایس انسپکٹر ۔۔۔۔
الوداعی قطعہ بہ حضور کرنل ڈبلوینگ ایم بی ایم سول سرجن۔۔۔
نظم الوداعی بہ حضور لفٹنٹ کرنل ڈبلوینگ صاحبایم اے ایم بی آئی ایس سول سرجن۔۔۔
قطعہ در تولد شدن ماسٹر ینگ پسر خباب کرنل ڈبلوینگ ایم اے بی آئی ایم ایس۔۔۔۔
قطعہ زخمی شدن انگشت شہاد ت بلڈپائزنگ بوقت اپریشن(عمل جراح)
بارے شفا ہوئی مرض دیابطیس سے
بال کٹوا کے بچھیروں میں وہ شامل نہ ہوا
ہیں شہر خموشاں کے عقب میں جو مطایع
خمخانۂ خیال
تھی وطن کی یاد میں جب تک وطن سے دور تھا
ملا کے برف میں پانی جو آبدار آیا
لاریب تھے وہ فخر زمانہ فرشتہ خو
جوان اس کلب کی جو ہیں لیڈیاں
مل گیا سوت تو کپاس نہیں
ہنٹر سے خبر لیتا ہے وہ غربت گلشن
دعوت تھی آج شام کو مسٹر طفیل کی
نہیں ہیں موم کے کچھ ناک ہم بھی
شیوراج پور جاتے ہو ہفتے میں چار بار
خمسہ برغل عالیجناب نواب محمد کلب علی خان بہادر نواب والی ریاست رامپور
رباعیات
تعریف کروں حضرت قیصر کی رقم کیا
تاریخ ہائے بقدی حروف تہجی
مرے مہرباں ہیں جو صادق علی
دیوان یہ کہا ہے خوب قیصر
جو صادق علی ڈاکٹر ذی شرف ہیں
مضموں بھی نئے کلام اچھا
طبع دیوان ہوا جو قیصر کا
وہ دیوان قیصرے ہے خورشید نو
زہے حضرت قیصر ذی وقار
ہے عجیب چیز گلشن ایجاد
ڈاکٹر صادق علی عالی مقام
قیصر سحر بیان شاعر جادو تقریر
شکر ہے قیصر کا دیوان چھپ گیا
مہ آسماں معانی ہیں قیصر
قلم لکھ پہلے بسم اللہ جو قرآن کا در ہے
قطعہ تاریخ از نتیجۂ فکر شعر ناز کخیال جناب منشی برج بھوشن لال۔۔۔
AUTHORसादिक़ अली क़ैसर
AUTHORसादिक़ अली क़ैसर
سرورق
دل کو رہتا ہے وظیفہ صبح وشام اللہ کا
جسے حاصل ہوا بوسہ در شاہ رسالت کا
مرے دل میں تصور ہے گل رخسار حضرت کا
مصروف میکشی جو کوئی رشک حور تھا
ہجر میں گھل گھل کے آنکھوں سے نہاں ہو جائیگا
کب غیض میں بدلے ہوئے تیور نہیں ہوتا
جس رات کو پہلو میں وہ دلبر نہیں ہوتا
وحشت میں جان دینے کا سامان ہوگیا
یاد جاڑوں میں ہے چھپ کے وہ آنا تیرا
پھیلے نہ اگر جلوۂ رخسار تمہارا
خوش ہوتے جہاں میں دل انساں نہیں دیکھا
شب فراق میں دل جس گھڑی تپاں ہوگا
قیامت میں دعوی ہوا ہر کسی کا
کلیجہ جو پانی ہوا ہے کسی کا
سب دشمنوں کو بزم حسینان سے نکالا
تڑپ یہ قلب وجگر کی یہ اضطراب نہ تھا
مہمان میرے گھر جو وہ گل پیرہن ہوا
وہ ظلم چھوڑ کر بھی ستمگار ہی رہا
کرتا لپٹ لپٹ کے تجھے پیار ہی رہا
شرک خفی میں شیخ گرفتار ہی رہا
میرے گھر چھپ کے اگر شب کو وہ مہماں ہوتا
نہ یہ اضطراب ہوتا نہ یہ انتشار ہوتا
دیکھتے چھپ کے پس پردۂ دردیکھ لیا
شباب میں نہ لگاوٹ نہ کچھ شعور آیا
جب کبھی ذکر بتان ستم ایجا آیا
ہجر دلدار میں جینا او نہیں مشکل نہ ہو
وہ ستمگر تیغ جب اپنی علم کرنے لگا
کچھ بھی اثر نہ آہ رسا ہے ذرا ہوا
نہ چین دل کو ملا اور نہ شب کو خواب آیا
کبھی نہ گھر پہ نہ وہ گل سر مزار آیا
درد فرقت سے نہ بیتاب کلیجا ہوتا
سر کر بہر قتل جب میں نے قدم پر رکھ دیا
ہم سے تمہاری بزم میں جایا نہ جائیگا
گلستاں میں ہوا سنبل کو سودا تیرے گیسو کا
یاد آتا نہیں بھولے سے نشانا دل کا
خیال آیا خداوند یہ کس رشک گلستاں کا
پوچھتے ہو حال کیا ہنس ہنس کے مجھ ناشاد کا
خواب میں دیکھے گا جلوہ احمد مختار کا
راز دل ہی میں رہے تیغ نگاہ یار کا
مانوس جب میں زلف گرہ گیر سے ہوا
ہم نے گھر بیٹھے کسی شوخ کا جلوہ دیکھا
بزم میں جب رقص کرنے وہ پری پیکر اٹھا
داغ دل کام نہ آیا پس مردن اپنا
توادجڑے ہوے دل کو آباد نہیں کرتا
اک فقط میں تیرے شمع رخ پہ کیا پروانہ تھا
تصور ہے مجھے صلی علی روے پیمبر کا
شکر کیونکر نہ کروں ہے وہ پیمبر اپنا
نعت احمد شغل جس دن سے ہمارا ہو گیا
جس سنا اس ماہ پیکر نے کہ قیصر مر گیا
یہ مطلب ہے پس مردن ہمارا
نہ پوچھو حال کچھ مجھ سے وفور ناتوانی کا
طپش دل سے آب ہوا
اس گیسوئے پیچاں میں مرا دل نہیں ملتا
روے خورشید مبیں زیر سحاب آہی گیا
دیکے دم دروازے سے اغیار کو چلتا کیا
جو لب پہ حرف تمنا دم سوال آیا
ردیف بائے موحدہ
فصل گل میں ہے چمن دار الشفاے عندلیب
گھر میں ہمارے آئیگا وہ گلعذار کب
ردیف پائے فارسی
مہربان مجھ پہ ہوا لالہ عذار آپ سے آپ
عارض روشن پہ چھائے رہتے ہیں گیسوے دوست
دیکھ لی ہے جو مرے زخم جگر کی صورت
اے صبا گوشۂ نقاب الٹ
ردیف دال ہندی
ردیف ثائے مثلثہ
جب کہے تو خود کہ تم مرتے ہو کیو مجھ پر عبث
اتنا تو میر آہوں میں یارب ہواثرآج
ردیف جیم عربی
ردیف جیم فارسی
ہاتھ اپنا قتل سے اب اے بت بے پیر کھینچ
بہارآج ہے مقتل میں بوستاں کی طرح
ردیف حاے حطی
ابھی لباس نہ پہنے وہ رشک گلشن سرخ
ردیف خائے معجمہ
ردیف دال مہملہ
جس گل کو پھولوں کا بھی نہ ہو رنگ و بو پسند
تجھ کو ہے ساقی شراب ارغوانی پر گھمنڈ
ردیف دال ہندی
کرتے نہ تمہیں جو پیار تعویذ
ردیف ذال معجمہ
اگر پڑتیں نگاہیں اس گل باغ لطافت پر
ردیف راے مہملہ
ہزاروں مرمٹے اے جان تیری چشم فتاں پر
شب وعدہ قدم رنجہ نہ تم گر اے قمر کرتے
دکھاتی ہے سماں زنار کا ہر رگ مرے تن پر
نظر باز بیٹھے ہیں اوڑھو سنبھل کر
دیکھے آج اترتا ہے یہ غصا کس پر
نہیں معلوم کہ اتریگا یہ غصہ کن پر
کیا ڈورے ڈالوں یار کے حسن شباب پر
چار دن بھی نہ چمن میں رہے خنداں ہو کر
جہاں میں ہو نہ کیونکر فخر اسکو فرق فرقد پر
ملیگا کیا تجھے مجھ کو ستا کر
منہ جو آیا تھا روے دلبر پر
یوں ہیں گل ترعارض جاناں کی برابر
کیا سیکھ لی ہے چشم فسوں گر سے چھیڑ چھاڑ
ردیف زاے معجمہ
رانا نہیں اچھا ہے بلا وجہ یہ ہر روز
نہ کبھی وہ دیں گے بوے نہ مجھے جواب ہر گز
ردیف راے ہندی
بیہودہ گویوں سے نہ کیونکر چبائے ژاژ
ردیف سین مہملہ
نہ ملا بادۂ گلرنگ کا ساغر افسوس
تل نہیں ہے یہ تری ابروے خمدار کے پاس
ردیف شین معجمہ
جستجو سیم کی ہو مجھ کو نہ ہوزر کی تلاش
دیکھ لیتے باغ میں تیرا اگر اک یار رقص
ردیف صادمہملہ
بلبلوں کو نظر آئے جو بہار عارض
ردیف صاد منقوطہ
شب کو رہتے نہیں گھونگھٹ میں بھی پنہاں عارض
جتنا ہے طبع یار کو ظلم وجفا سے ربط
ردیف طاے مہملہ
کیا ہو گی میر ہجر کی شب غمگسار شمع
میں تجھ سے صاف یہ کہتا ہوں کہ قبلہ رو واعظ
ردیف عین مہملہ
ردیف طاء منقوطہ
جو دیکھے بزم میں وہ روے تابدار چراغ
ردیف غین معجمہ
عمر آخر ہوگئی آیا نہ وہ دلدار حیف
ردیف فا
ردیف قاف
ردیف کاف تازی
دعوی رہیں ہیں ضبط کے صبر وقرار تک
ترقی کر گیا ہے ان دنوں جوش جنوں یاں تک
ردیف کاف فارسی
دکھلائیں گے جو دشت میں پائے فگار رنگ
مہندی ملے وہ پاؤں اگر دیکھ پاے گل
ردیف لام
ممکن نہیں بچے میں بچاؤں ہزار دل
ردیف میم
خود نہ ہو جاؤنگا جب تک کہ میں اے یار تمام
جاں عشاق کی خاطر ہیں بلاے مو صنم
ہے کس سے برسر جنگ آسماں نہیں معلوم
ردیف نون منقوطہ
نہ لی آکر خیر میری شب تار جدائی ہیں
اتنا ہو میری آہ میں یارب اثر کہیں
مرغان صبح شام سے چلاے جاتے ہیں
عیاں ہیں داغ بدن گو نحیف وزار ہوں میں
سرخی نظر آتی ہے جو تیرے کیف پا میں
مانا کوئی تم سا نہیں ظلم اور جفا میں
اسیروں پر نئے ظلم وستم صیاد کرتے ہیں
بھلا وہ کب خیال گردش ایام کرتے ہیں
توڑ وہ ناوک نظر میں نہیں
ردیف واؤ
اپنی نظروں سے گراؤ گے اگر تم مجھ کو
دے مدد وصل میں اے دست تمنا مجھ کو
جو دیکھا ہے پردے کے اندر کسی کو
جوڑا شب وصال میں انکا کھلا نہ ہوا
زینت فزائے جور جو میرا لہو نہ ہو
غشق بتاں شوخ میں شورو فغاں نہ ہو
چھوڑ دو بہر خدا بیدا د کو
دل بک گیا ہے جب سے کسی مہ لقا کے ہاتھ
ردیف ہاے ہوز
ہوگی جو تیری مشق ستم اور یادہ
کیوں ہو ذلیل الجھ کے کسی خوبرو کے ساتھ
مجھے مار ڈالیگی الفت کسی کی
ردیف یاے تحتانی
بلاے ناگہاں اے ماہ طلعت آہی جاتی ہے
بوسہ ان کے لب کا لینا چاہئے
اک غزل میں ہوں سناتا اور بھی
رخ کو پھولوں سے ملانا چاہئے
بوسہ لینا چشم درد کا چاہئے
جو میرے گھر میں وہ آئے بھی تو لجائے ہوئے
ہجر کی رات مختصر نہ ہوئی
مرے دل کو جس پھول کی جستجو ہے
طبع واعظ ساقیا بیڈھب ہے للچائی ہوئی
کسی پری کا خیال وصال رہتا ہے
میر شب فراق کی یارب سحر بھی ہے
صل کی ہائے رات جاتی ہے
جھروکے سے رخ روشن ترا جس دم نکلتا ہے
تجھ کو اے بوالہوس خبر کیا ہے
میں یہ تڑپا کہ آبلے دل کے
یہ نئے جور دیکھو قاتل کے
چمن میں موسم گل آرہا ہے
تصور مہ جبینوں کا رہا ہے
تمنا تھی کہ ملتی خاک پائے یار تھوڑی سی
جہاں میں رنگ یہ پھیلا رہا ہے
نظر پاک سے پاکیزہ ہے طلعت تیری
کوئی گلچیں رہے گلشن میں نہ صیاد رہے
مجھ سے مقتل میں بھی کھنچتے ستم ایجاد رہے
وفور گر یہ وذاری میں کیاآہ رسا ٹھہرے
کب پردہ سے غیروں کو وہ جھانکا نہیں کرتے
جان پہچان رکھتے ہیں دربان ہم سے
غزل دکھاتا ہے اپنی ابولکلام مجھے
غیر پر رہتی ہے ہر وقت عتاب کیسی
مے ہے دلدار ہے گھنگھور گھٹا چھائی ہے
نگاہوں سے غائب جو اک مہ جبیں ہے
اے پری رو جو تجھے دیکھے وہ ایماں چھوڑ دے
صبر عشاق کہیں تجھ پہ نہ اے یار پڑے
اگر کچھ یاوری کرتی مری تقدیر تھوڑی سی
بے وجہ تو کیوں جناب آتے
تری فرقت میں آہ آتشیں جب دل سے نکلے گی
تپ ہجر کے ہم تو بیمار ٹھہرے
ہو اس کو ہمدردی کس طرح سے کہ جس میں خون کا نہیں اثر ہے
خط پہ خط جب آپ کے آیا کئے
نظر جس وقت آئی مشکل مجھ کو اس ستمگرکی
درد نقرس کی اب یہ شدت ہے
نہ اتنا اگر بخت بیدار سوتے
ملا غیر کا جب مکاں آتے آتے
طائر فکر کب شاہ کے در تک پہونچے
قطعہ در تہنیت بواپسی مہم تیراہ جناب کیپٹن جارج ہائنیس صاحب سول سرجن۔۔۔
قطعہ برتبادلہ ڈاکٹر ہاوٹ سن صاحب پولیس سرجن واسسٹنٹ ۔۔۔۔۔
نظم الوداعی محب قلبی جناب ڈاکٹر اننّت پرشاد صاحب ایل ایم پی نائب ۔۔۔۔۔
قطعہ بروقت واپسی داراگنج ڈسپنسری آزلیونیٹک اسائلم ہاسپٹل آگرہ
قطعہ در تقریب زنار بندی (جنیو) عزیزی گرودت پسر جناب ڈاکٹر پنڈت۔۔۔
قطعہ الوداعی کرنل جے ایف میکلا رن صاحب بہادر ایم ۔ بی۔ آئی۔ ایم ۔ ایس۔ ایف۔ اے۔۔۔
قطعہ خیر مقدم بحضور جناب کرنل جے کے کلوز ایم ڈی ایم سی ایچ ایم اے آئی ایس سول سرجن ۔۔۔
نظم الوداعی بہ حضور کرنل ڈبلوینگ صاحب ایم اے بی آئی ایم ایس سول سرجن۔۔۔۔
قطعہ الوداعی لفٹنٹ کرنل سلبی ہنڈرسن صاحب ایم بی آئی ایم ایس انسپکٹر ۔۔۔۔
الوداعی قطعہ بہ حضور کرنل ڈبلوینگ ایم بی ایم سول سرجن۔۔۔
نظم الوداعی بہ حضور لفٹنٹ کرنل ڈبلوینگ صاحبایم اے ایم بی آئی ایس سول سرجن۔۔۔
قطعہ در تولد شدن ماسٹر ینگ پسر خباب کرنل ڈبلوینگ ایم اے بی آئی ایم ایس۔۔۔۔
قطعہ زخمی شدن انگشت شہاد ت بلڈپائزنگ بوقت اپریشن(عمل جراح)
بارے شفا ہوئی مرض دیابطیس سے
بال کٹوا کے بچھیروں میں وہ شامل نہ ہوا
ہیں شہر خموشاں کے عقب میں جو مطایع
خمخانۂ خیال
تھی وطن کی یاد میں جب تک وطن سے دور تھا
ملا کے برف میں پانی جو آبدار آیا
لاریب تھے وہ فخر زمانہ فرشتہ خو
جوان اس کلب کی جو ہیں لیڈیاں
مل گیا سوت تو کپاس نہیں
ہنٹر سے خبر لیتا ہے وہ غربت گلشن
دعوت تھی آج شام کو مسٹر طفیل کی
نہیں ہیں موم کے کچھ ناک ہم بھی
شیوراج پور جاتے ہو ہفتے میں چار بار
خمسہ برغل عالیجناب نواب محمد کلب علی خان بہادر نواب والی ریاست رامپور
رباعیات
تعریف کروں حضرت قیصر کی رقم کیا
تاریخ ہائے بقدی حروف تہجی
مرے مہرباں ہیں جو صادق علی
دیوان یہ کہا ہے خوب قیصر
جو صادق علی ڈاکٹر ذی شرف ہیں
مضموں بھی نئے کلام اچھا
طبع دیوان ہوا جو قیصر کا
وہ دیوان قیصرے ہے خورشید نو
زہے حضرت قیصر ذی وقار
ہے عجیب چیز گلشن ایجاد
ڈاکٹر صادق علی عالی مقام
قیصر سحر بیان شاعر جادو تقریر
شکر ہے قیصر کا دیوان چھپ گیا
مہ آسماں معانی ہیں قیصر
قلم لکھ پہلے بسم اللہ جو قرآن کا در ہے
قطعہ تاریخ از نتیجۂ فکر شعر ناز کخیال جناب منشی برج بھوشن لال۔۔۔
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।