سرورق
حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا
محبت کا ترے بندہ ہر اک کو اے صنم پایا
آئینہ سینۂ صاحب نظران ہے کہ جو تھا
چاندنی میں جب تجھے یاد آئے مہ تاباں کیا
اگر موتی نہ قطرہ ہاے ابر نیساں سے
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
جگر کو داغ میں مانند لالہ کیا کرتا
وحشت آکیں ہے فسانہ مری رسوائی کا
غنیمت ہی سمجھئے حلقہ احباب کرد اپنی
ادب تاچند اے دست ہوس قاتل کے دامن کا
روز مولود سے ساتھ اپنے ہوا غم پیدا
عالم منطق مصور ہو تری تصویر کا
دکھایا آئینہ فکر نے جب صفاے آداب سخن کا
کرم کیا جو صنم نے ستم زیادکیا
تن سے بار سر آمادۂ سودا اترا
کشتہ اے یار ہوں میں تیری وفاداری کا
فسق میں ممکن نہیں ہونا بخیر انجام کا
زخم کاری کے جو کھانے کو مرا دل دوڑا
اک جا کہیں میں مثل ریگ رواں نہ ٹھہرا
اپنی زباں کو بلبل اندوہگیں جلا
زخم دل بھرتا ہے جلوہ چہرۂ پرنور کا
صاف آئینہ سے رخسار ہے اس دلبر کا
آنکھیں عاشق کو نہ تو ایکل رعنا دکھلا
میں نے عریاں تجھے اے رشک قمر دیکھ لیا
وحشت دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
کہتے ہیں عطر جس کو یہ مردم کلاب کا
چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
ہنکام نزع محو ہوں تیرے خیال کا
عیسی سے نالہ درد دل کی خبر نہ کرتا
پیری نے قد راست کو اپنی نگوں کیا
کیجئے برق تجلی کو اشارا اپنا
رخ وزلف پر جان کھویا کیا
عشق کہتے ہیں اسے نیمچۂ ابرو کا
گلون نے کپڑے پہاڑی میں قبائے یار پر کیا کیا
سودے میں تیرے دھیان نہیں سودوزیاں کا
بیاباں کو بھی ہنکام جنوں میں سیر کر دیکھا
کمال کون سا ہے وہ جسے زوال نہیں
وحشت نے ہمیں جبکہ گلستاں سے نکالا
قبضہ ہے اس پر تمہارے حسن سے خونریز کا
ہاتھ قاتل کا مرے خنجر تک اگر رہ گیا
دل شب فراق میں ہے ارنسبکہ خواہاں مرگ کا
کیا دیجئے گا عاشق دلگیر کا جواب
نظر آتا ہے مجھے اپنا سفر آج کی رات
آئینہ کی طرف نہیں آتا خیال دوست
دو ٹکڑے کر چکے کہیں تیغ دوسر کی چوٹ
نازک حباب سے ہے دل سیرزا مزاج
عاشق مہجور کی مانند ہے بیتاب موج
ہوتی جو اے صنم تیری سیب ذقن کی شاخ
قاتل اپنا جر کرے کنج شہیداں آباد
قبر پر یار نے قرآن پڑھا میرے بعد
منہ پہ لپیٹوں میں تو دم کردے خیال یار بند
رکھتا ہے یار ابروے خمدار پر گھمنڈ
جلد ہو بہر سفر اے مہ کنعان تیار
خط سے کب جاتی ہیں عاشق کوئے جاناں چھوڑ کر
کیوں نہ پھانسی عاشقوں کی دل وہ طفل برہمن
دکھائی حسن نے قدرت خدا کی آکے جوبن پر
دل ہی حسن وعشق کو لایا ہے راہ پر
خون دل کے ساتھ ہے لخت جگر کا انتظار
جوش وخروش پر ہے بہار چمن ہنوز
ذرہ خورشید ہو پہنچے جو در یار کے پاس
کرتے ہیں عبث یار سراغ پر طاوس
افت جاں ہے ترا اے سروکل اندام رقص
نشۂ عشق کا اثر ہے شرط
خاک ہو جاتی ہے جل کر ہمرہ پروانہ شمع
بزم میں رنگیں خیالوں کے جو ہو روشن چراغ
سن رکھی شام ہوتی ہے میرا سخن چراغ
رجوع بندے کی ہے اس طرح خدا کی طرف
لاتی ہے ہرنگہ میں نیا چشم یار رنگ
مومن کا مددگار ہے شاہ تجف اے دل
وہم ہے یار کا آغوش میں آیا شب وصل
غیرت مہرورشک ماہ ہو تم
آخر کار چلی تیر کی رفتار قدم
چمن میں رہنے دے کون آشیاں نہیں معلوم
پہنچا سزا کو اپنے ہی بیداد گر کہاں
قید ہستی سے ہنوز آزادگی حاصل کہاں
بلبل کو خار خار دبستاں ہے ان دنوں
ہوا تھا اس کو ایسا لطف کیا حاصل گلستاں میں
پسی دل اسکی چتوں پر ہزاروں
آشنا معنی سے صورت آشنا ہوتا نہیں
یہ چرچا اپنی رسوائی کا نہ پھیلا ہے دیاروں میں
دیوانگی نے کیا کیا عالم دکھائے ہیں
جلاد کی نہ پہنچی تلوار تابہ گردن
چاہتا ہوں جو وفا طینت دلبر میں نہیں
مرے دل کو شوق فغاں نہیں مرے لب تک آتی دعا نہیں
مضمون آہ کیا مری دیوان سے دور ہوں
طفلی سے اور قہر ہوا وہ شباب میں
ممکن نہیں ہے دوسرا تجھ سا ہزار میں
صدمے پہنچے ہیں ہماری بازوؤں پر سیکڑوں
تیری خوش چشمی کا افسانہ سناتا ہوں میں
اس شش جہت میں خوب تری جستجو کریں
گل کو نظر سے اشک خونیں اتارتی ہیں
شرف بخشا گھر کو صرف کرکے تونے زیور میں
نقاب یار سے کہہ دے کوئی اندھیر سے باز آ
رخ انور دکھا کر خاک کا پیوند کرتے ہیں
فکر میں مضمون عالی کو جودل آمادہ ہو
بید مجنوں دور سے خم ہو گیا تسلیم کو
چاند کہنا ہے غلط یار کے رخساروں کو
فکر اشعار میں کاٹی شب تاریک فراق
سردبستاں تجھ سے گو اے باد صرصر خشک ہو
کیجئے ثابت دہان روے رشک ماہ کو
حلقۂ دام ہین وہ نرگس فتاں مجھکو
کیا بادۂ گل کونسی مسرور کیا دل کو
سامنے آنکھوں کے پہروں ہے بٹھایا یار کو
کیا ہوا نادم دکھا کر آئینہ میں یار کو
یارب آغاز محبت کا بخیر انجام ہو
بیقراری میں مرے یارب اثر پیدا ہو
ہوس نعمت کی بعد مرگ بھی رہتی ہے انساں کو
ہے نرالی کشش عشق جفا کار کی راہ
اس قدر دل کو نہ کر اے بت سفاک سیاہ
معشوق نہیں کوئی حسین تم سے زیادہ
اونچا ہولا کہہ تاڑسے بھی سروچار ہاتھ
گیسوے مشکیں رخ محبوب تک آنے لگے
واقعہ دل کا جو موزوں ہے تو مضمون غم ہے
بوسے لیتا ہوں دہان ناپدید یار کے
عشق اس کا جان کھوتا ہے برناؤ پیرکے
کب تک وہ زلف دیتی ہے آزاد دیکھئے
مہندی سے تیرے ہاتھوں کی گل ضرب دست کھائے
وہ افسوں ہے ہماری شعر خوانی
رہ گیا چاک سے وحشت میں گریباں خالی
حسرت جلوۂ دیدار لئے پھرتی ہے
اثر رکھتی مے گلگوں کی کیفیت کا ہستی ہے
حسن امرد کا بہت مائل دل بیباک ہے
پیرہن تیرے شہیدوں کی گلستاں ہوگئی
وجد اہل حال سے یہ منکشف ہم کو ہوا
کوچہ تیرا عیش باغ اے یاربے تاویل ہے
گل سے افزوں مری آنکھوں میں ہیں دلجو کانٹے
پیری میں آئی وہ رخ روشن نظر مجھے
پاس رسوائی سے دل پر مردے کا سا جبر ہے
تیرہ وتار جہاں ہودل روشن ٹوٹے
سر شمع ساں کٹائی پر دم نہ مارے
کوچۂ یار کی نظارہ میں اغیار الجھے
غم نہیں کوئی بتاں میں جو نہیں جا خالی
برق بے پردہ اگر چہرۂ نورانی ہے
الٰہی آفعی گیسوے دلستاں کاٹی
ابکی زنن ہم اکریار کی در تک پہنچے
زاہد فریفتہ ہیں مرے نونہاں کے
میری قسمت میں لکھی موت جو تلوار کی تھی
گوش گل کو نالۂ مرغ خوش الحان چاہئے
عاشق ہوں میں نفرت ہے مری رنگ کو رو سے
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
مرغ دل کو ہدف ناوک مژگان کرتے
سینہ پر سنگ ملامت جو گران جان روکے
واقف ہوئی خزاں نہ ہماری بہار سے
خام کو شادے ہے غم پختہ کو ہے احسان سے
ساغر صاف مے حب علی مشرب ہے
نفس شقی بھی روح کی ہمراہ تن میں ہے
ایذا میں روح ہے تن خانہ خراب سے
کوئی اچھا نہیں ہوتا ہے برے چالوں سے
خواہاں ترے ہر رنگ میں اے یار ہمیں تھے
یہ کس رشک مسیحا کا مکاں ہے
خدا محفوظ رکھے دل کو اس افعی کاکل سے
تنک دنیا کی خرابی میں ہوں نازک خو سے
سائل نجات کا ہوں خدائے کریم سے
آج تک واقف نہیں کوئی ہمارے حال سے
کہاں تک آنکھوں میں سرخی شراب خوری سے
پیری سے میرا نوع دکر حال ہوا ہے
تیغ ابرو نہیں دی جانے کی اے دل خالی
صورت سے اسکی بہتر صورت نہیں ہے کوئی
بازو ادا ہے تجھ سے دل آرام کے لئے
کیا کہوں اسکی جو مجھ پر کرم پنہاں ہے
ہر چشم کو دیدار ترا مد نظر ہے
موت کو سمجھے رہیں گبرو مسلماں آئے
غم نہیں ثابت قدم کو گو جہاں گردش میں ہے
ماسوا تیرے نہیں رہنے کا کچھ یا باقی
کچھ نظر آیا نہ پھر جب تو نظر آیا مجھے
عاشق شیدا علی مرتضی کا ہوگیا
کام رہنے کا نہیں بند اپنا
لباس یار کو میں پارہ پارہ کیا کرتا
دل کو فزوں چمن کی مٹی سے سرد پایا
نالہ بلبل کا نہ سنتا یہ غرور آجاتا
حافظ رخ کتابی محبوب کے ہیں ہم
اک سال میں دس دن بھی جسے غم نہیں ہوتا
تری جو یاد اے دلخواہ بھولا
رعد کا شور ہو ہورونکی کی صدا سے پیدا
نالہ ہر روز نہیں ہو سکتا
اڑ جائے گا زخم دل بیتاب کا پھاہا
غزل
دکھلاتی ہے رنگینی رخسار عجب روپ
بل کھا سکے نہ صورت گیسوے یار سانپ
عجب تیری ہے اے محبوب صورت
دولت حسن کی بھی ہے کیا لوٹ
بہار آئی ہے چمن میں چلی ہوائے قدح
دیوانہ حسن سے خال سیاہ جاناں سرخ
وہ آستاں ہے ترا اے فلک جناب بلند
رتبہ رکھتے ہیں ترے ابروے خمدار بلند
نہ دے سکے گی زمستاں میں مجھکو ایذا ٹھنڈ
دکھاے حسن کی اپنے جسے کہ یار بہار
وہ گل جو آئی تو کیا لالہ زار میں ہو بہار
کانوں میں تیرے دیکھ کے سونے کی کرن پھول
غزل
ڈھلتی ہے عاشقانہ ہماری غزل تمام
یک سالہ راہ سے ہی چلی آئی باغمیں
خورشید حشر سے ہے سینہ کا داغ روشن
نرگس یار وہ آشوب زمانہ تو ہے
بہار لالہ و گل سے لگی ہے آگ گلشن میں
غزل
ادا وناز نہیں جس میں خوش جمال نہیں
غزل
رخ ہو خط رخسار سے کیا کام ہے ہم کو
غزل
ظاہر کسی کے دل کا ہو کیا خار خار مجھ پر
غزل
خوب آگاہ ہے نظارے کی دستور سے آنکھ
درد زباں جناب محمدؐ کا نام ہے
زخم دل میں تیری فرقت سے جگر میں داغ ہے
آئی ہے عید قرباں خنجر کو لال کرتے
عنّاب لب کا اپنی مزہ کچھ نہ پوچھئے
دو دن کی زندگی میں رہے ہم مرے ہوئے
یا علی کہہ کر بت پندار توڑا چاہئے
غزل
چپ ہو کیوں کچھ منہ سے فرماؤ خدا کے واسطے
اٹھتے ہی تیرے بزم سے سب اٹھ کھڑے ہوئے
ہواے دور مئے خوشگوار راہ میں ہے
غزل
ہمہ رہتا نہیں ایک چال پر اے دوست
فصل گل میں کس کو عقل ذوفنون درکارہے
غزل
کیا کام خاصگان خدا کو ہے عام سے
عنایت وکرم ابر بہادر کہتا ہے
ہنر فرشتے کا خاکی بشر نہیں رکھتے
گور میں دل سے خیالات جہاں دور رہے
ایضاً
گردن کو جھکائے صف احباب کھڑی ہے
ناظم ملک نظم آتش بود
YEAR1852
YEAR1852
سرورق
حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا
محبت کا ترے بندہ ہر اک کو اے صنم پایا
آئینہ سینۂ صاحب نظران ہے کہ جو تھا
چاندنی میں جب تجھے یاد آئے مہ تاباں کیا
اگر موتی نہ قطرہ ہاے ابر نیساں سے
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
جگر کو داغ میں مانند لالہ کیا کرتا
وحشت آکیں ہے فسانہ مری رسوائی کا
غنیمت ہی سمجھئے حلقہ احباب کرد اپنی
ادب تاچند اے دست ہوس قاتل کے دامن کا
روز مولود سے ساتھ اپنے ہوا غم پیدا
عالم منطق مصور ہو تری تصویر کا
دکھایا آئینہ فکر نے جب صفاے آداب سخن کا
کرم کیا جو صنم نے ستم زیادکیا
تن سے بار سر آمادۂ سودا اترا
کشتہ اے یار ہوں میں تیری وفاداری کا
فسق میں ممکن نہیں ہونا بخیر انجام کا
زخم کاری کے جو کھانے کو مرا دل دوڑا
اک جا کہیں میں مثل ریگ رواں نہ ٹھہرا
اپنی زباں کو بلبل اندوہگیں جلا
زخم دل بھرتا ہے جلوہ چہرۂ پرنور کا
صاف آئینہ سے رخسار ہے اس دلبر کا
آنکھیں عاشق کو نہ تو ایکل رعنا دکھلا
میں نے عریاں تجھے اے رشک قمر دیکھ لیا
وحشت دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
کہتے ہیں عطر جس کو یہ مردم کلاب کا
چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
ہنکام نزع محو ہوں تیرے خیال کا
عیسی سے نالہ درد دل کی خبر نہ کرتا
پیری نے قد راست کو اپنی نگوں کیا
کیجئے برق تجلی کو اشارا اپنا
رخ وزلف پر جان کھویا کیا
عشق کہتے ہیں اسے نیمچۂ ابرو کا
گلون نے کپڑے پہاڑی میں قبائے یار پر کیا کیا
سودے میں تیرے دھیان نہیں سودوزیاں کا
بیاباں کو بھی ہنکام جنوں میں سیر کر دیکھا
کمال کون سا ہے وہ جسے زوال نہیں
وحشت نے ہمیں جبکہ گلستاں سے نکالا
قبضہ ہے اس پر تمہارے حسن سے خونریز کا
ہاتھ قاتل کا مرے خنجر تک اگر رہ گیا
دل شب فراق میں ہے ارنسبکہ خواہاں مرگ کا
کیا دیجئے گا عاشق دلگیر کا جواب
نظر آتا ہے مجھے اپنا سفر آج کی رات
آئینہ کی طرف نہیں آتا خیال دوست
دو ٹکڑے کر چکے کہیں تیغ دوسر کی چوٹ
نازک حباب سے ہے دل سیرزا مزاج
عاشق مہجور کی مانند ہے بیتاب موج
ہوتی جو اے صنم تیری سیب ذقن کی شاخ
قاتل اپنا جر کرے کنج شہیداں آباد
قبر پر یار نے قرآن پڑھا میرے بعد
منہ پہ لپیٹوں میں تو دم کردے خیال یار بند
رکھتا ہے یار ابروے خمدار پر گھمنڈ
جلد ہو بہر سفر اے مہ کنعان تیار
خط سے کب جاتی ہیں عاشق کوئے جاناں چھوڑ کر
کیوں نہ پھانسی عاشقوں کی دل وہ طفل برہمن
دکھائی حسن نے قدرت خدا کی آکے جوبن پر
دل ہی حسن وعشق کو لایا ہے راہ پر
خون دل کے ساتھ ہے لخت جگر کا انتظار
جوش وخروش پر ہے بہار چمن ہنوز
ذرہ خورشید ہو پہنچے جو در یار کے پاس
کرتے ہیں عبث یار سراغ پر طاوس
افت جاں ہے ترا اے سروکل اندام رقص
نشۂ عشق کا اثر ہے شرط
خاک ہو جاتی ہے جل کر ہمرہ پروانہ شمع
بزم میں رنگیں خیالوں کے جو ہو روشن چراغ
سن رکھی شام ہوتی ہے میرا سخن چراغ
رجوع بندے کی ہے اس طرح خدا کی طرف
لاتی ہے ہرنگہ میں نیا چشم یار رنگ
مومن کا مددگار ہے شاہ تجف اے دل
وہم ہے یار کا آغوش میں آیا شب وصل
غیرت مہرورشک ماہ ہو تم
آخر کار چلی تیر کی رفتار قدم
چمن میں رہنے دے کون آشیاں نہیں معلوم
پہنچا سزا کو اپنے ہی بیداد گر کہاں
قید ہستی سے ہنوز آزادگی حاصل کہاں
بلبل کو خار خار دبستاں ہے ان دنوں
ہوا تھا اس کو ایسا لطف کیا حاصل گلستاں میں
پسی دل اسکی چتوں پر ہزاروں
آشنا معنی سے صورت آشنا ہوتا نہیں
یہ چرچا اپنی رسوائی کا نہ پھیلا ہے دیاروں میں
دیوانگی نے کیا کیا عالم دکھائے ہیں
جلاد کی نہ پہنچی تلوار تابہ گردن
چاہتا ہوں جو وفا طینت دلبر میں نہیں
مرے دل کو شوق فغاں نہیں مرے لب تک آتی دعا نہیں
مضمون آہ کیا مری دیوان سے دور ہوں
طفلی سے اور قہر ہوا وہ شباب میں
ممکن نہیں ہے دوسرا تجھ سا ہزار میں
صدمے پہنچے ہیں ہماری بازوؤں پر سیکڑوں
تیری خوش چشمی کا افسانہ سناتا ہوں میں
اس شش جہت میں خوب تری جستجو کریں
گل کو نظر سے اشک خونیں اتارتی ہیں
شرف بخشا گھر کو صرف کرکے تونے زیور میں
نقاب یار سے کہہ دے کوئی اندھیر سے باز آ
رخ انور دکھا کر خاک کا پیوند کرتے ہیں
فکر میں مضمون عالی کو جودل آمادہ ہو
بید مجنوں دور سے خم ہو گیا تسلیم کو
چاند کہنا ہے غلط یار کے رخساروں کو
فکر اشعار میں کاٹی شب تاریک فراق
سردبستاں تجھ سے گو اے باد صرصر خشک ہو
کیجئے ثابت دہان روے رشک ماہ کو
حلقۂ دام ہین وہ نرگس فتاں مجھکو
کیا بادۂ گل کونسی مسرور کیا دل کو
سامنے آنکھوں کے پہروں ہے بٹھایا یار کو
کیا ہوا نادم دکھا کر آئینہ میں یار کو
یارب آغاز محبت کا بخیر انجام ہو
بیقراری میں مرے یارب اثر پیدا ہو
ہوس نعمت کی بعد مرگ بھی رہتی ہے انساں کو
ہے نرالی کشش عشق جفا کار کی راہ
اس قدر دل کو نہ کر اے بت سفاک سیاہ
معشوق نہیں کوئی حسین تم سے زیادہ
اونچا ہولا کہہ تاڑسے بھی سروچار ہاتھ
گیسوے مشکیں رخ محبوب تک آنے لگے
واقعہ دل کا جو موزوں ہے تو مضمون غم ہے
بوسے لیتا ہوں دہان ناپدید یار کے
عشق اس کا جان کھوتا ہے برناؤ پیرکے
کب تک وہ زلف دیتی ہے آزاد دیکھئے
مہندی سے تیرے ہاتھوں کی گل ضرب دست کھائے
وہ افسوں ہے ہماری شعر خوانی
رہ گیا چاک سے وحشت میں گریباں خالی
حسرت جلوۂ دیدار لئے پھرتی ہے
اثر رکھتی مے گلگوں کی کیفیت کا ہستی ہے
حسن امرد کا بہت مائل دل بیباک ہے
پیرہن تیرے شہیدوں کی گلستاں ہوگئی
وجد اہل حال سے یہ منکشف ہم کو ہوا
کوچہ تیرا عیش باغ اے یاربے تاویل ہے
گل سے افزوں مری آنکھوں میں ہیں دلجو کانٹے
پیری میں آئی وہ رخ روشن نظر مجھے
پاس رسوائی سے دل پر مردے کا سا جبر ہے
تیرہ وتار جہاں ہودل روشن ٹوٹے
سر شمع ساں کٹائی پر دم نہ مارے
کوچۂ یار کی نظارہ میں اغیار الجھے
غم نہیں کوئی بتاں میں جو نہیں جا خالی
برق بے پردہ اگر چہرۂ نورانی ہے
الٰہی آفعی گیسوے دلستاں کاٹی
ابکی زنن ہم اکریار کی در تک پہنچے
زاہد فریفتہ ہیں مرے نونہاں کے
میری قسمت میں لکھی موت جو تلوار کی تھی
گوش گل کو نالۂ مرغ خوش الحان چاہئے
عاشق ہوں میں نفرت ہے مری رنگ کو رو سے
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
مرغ دل کو ہدف ناوک مژگان کرتے
سینہ پر سنگ ملامت جو گران جان روکے
واقف ہوئی خزاں نہ ہماری بہار سے
خام کو شادے ہے غم پختہ کو ہے احسان سے
ساغر صاف مے حب علی مشرب ہے
نفس شقی بھی روح کی ہمراہ تن میں ہے
ایذا میں روح ہے تن خانہ خراب سے
کوئی اچھا نہیں ہوتا ہے برے چالوں سے
خواہاں ترے ہر رنگ میں اے یار ہمیں تھے
یہ کس رشک مسیحا کا مکاں ہے
خدا محفوظ رکھے دل کو اس افعی کاکل سے
تنک دنیا کی خرابی میں ہوں نازک خو سے
سائل نجات کا ہوں خدائے کریم سے
آج تک واقف نہیں کوئی ہمارے حال سے
کہاں تک آنکھوں میں سرخی شراب خوری سے
پیری سے میرا نوع دکر حال ہوا ہے
تیغ ابرو نہیں دی جانے کی اے دل خالی
صورت سے اسکی بہتر صورت نہیں ہے کوئی
بازو ادا ہے تجھ سے دل آرام کے لئے
کیا کہوں اسکی جو مجھ پر کرم پنہاں ہے
ہر چشم کو دیدار ترا مد نظر ہے
موت کو سمجھے رہیں گبرو مسلماں آئے
غم نہیں ثابت قدم کو گو جہاں گردش میں ہے
ماسوا تیرے نہیں رہنے کا کچھ یا باقی
کچھ نظر آیا نہ پھر جب تو نظر آیا مجھے
عاشق شیدا علی مرتضی کا ہوگیا
کام رہنے کا نہیں بند اپنا
لباس یار کو میں پارہ پارہ کیا کرتا
دل کو فزوں چمن کی مٹی سے سرد پایا
نالہ بلبل کا نہ سنتا یہ غرور آجاتا
حافظ رخ کتابی محبوب کے ہیں ہم
اک سال میں دس دن بھی جسے غم نہیں ہوتا
تری جو یاد اے دلخواہ بھولا
رعد کا شور ہو ہورونکی کی صدا سے پیدا
نالہ ہر روز نہیں ہو سکتا
اڑ جائے گا زخم دل بیتاب کا پھاہا
غزل
دکھلاتی ہے رنگینی رخسار عجب روپ
بل کھا سکے نہ صورت گیسوے یار سانپ
عجب تیری ہے اے محبوب صورت
دولت حسن کی بھی ہے کیا لوٹ
بہار آئی ہے چمن میں چلی ہوائے قدح
دیوانہ حسن سے خال سیاہ جاناں سرخ
وہ آستاں ہے ترا اے فلک جناب بلند
رتبہ رکھتے ہیں ترے ابروے خمدار بلند
نہ دے سکے گی زمستاں میں مجھکو ایذا ٹھنڈ
دکھاے حسن کی اپنے جسے کہ یار بہار
وہ گل جو آئی تو کیا لالہ زار میں ہو بہار
کانوں میں تیرے دیکھ کے سونے کی کرن پھول
غزل
ڈھلتی ہے عاشقانہ ہماری غزل تمام
یک سالہ راہ سے ہی چلی آئی باغمیں
خورشید حشر سے ہے سینہ کا داغ روشن
نرگس یار وہ آشوب زمانہ تو ہے
بہار لالہ و گل سے لگی ہے آگ گلشن میں
غزل
ادا وناز نہیں جس میں خوش جمال نہیں
غزل
رخ ہو خط رخسار سے کیا کام ہے ہم کو
غزل
ظاہر کسی کے دل کا ہو کیا خار خار مجھ پر
غزل
خوب آگاہ ہے نظارے کی دستور سے آنکھ
درد زباں جناب محمدؐ کا نام ہے
زخم دل میں تیری فرقت سے جگر میں داغ ہے
آئی ہے عید قرباں خنجر کو لال کرتے
عنّاب لب کا اپنی مزہ کچھ نہ پوچھئے
دو دن کی زندگی میں رہے ہم مرے ہوئے
یا علی کہہ کر بت پندار توڑا چاہئے
غزل
چپ ہو کیوں کچھ منہ سے فرماؤ خدا کے واسطے
اٹھتے ہی تیرے بزم سے سب اٹھ کھڑے ہوئے
ہواے دور مئے خوشگوار راہ میں ہے
غزل
ہمہ رہتا نہیں ایک چال پر اے دوست
فصل گل میں کس کو عقل ذوفنون درکارہے
غزل
کیا کام خاصگان خدا کو ہے عام سے
عنایت وکرم ابر بہادر کہتا ہے
ہنر فرشتے کا خاکی بشر نہیں رکھتے
گور میں دل سے خیالات جہاں دور رہے
ایضاً
گردن کو جھکائے صف احباب کھڑی ہے
ناظم ملک نظم آتش بود
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।