سرورق
دیباچۂ کلیات مومن
الحمد لواہب العطایا
قصائد
چمن میں نغمۂ بلبل ہے یوں طرب مانوس
زمزمہ سنجی بہ مضمون بادخوانی نسیم گلشن نبوت وشمال چمن رسالت
ثوبان لال کہاں اور مدیح تاج خروس
مطالع ثانی
مطلع ثالت
قطعہ
ترے ہے فیض سے ہر قطرہ آبیار عجوس
اگر کہے مددے یا محمد عربی
کوئی اس دور میں جیے کیونکر
بیعت معانی بردست عبارت سراپا ایجاز بفیض مدیح اولین دستور صداقت طراز
لاؤں اس مفلسی میں سوزن زر
مطلع ثانی
اے مسیح درم روان پرور
مطلع ثالث
خطبہ خوانی دل وزبان بامید ثواب باثبات خلات امیر المومنین عمر بن الخطاب
ہو اسکی زلف کو دون اپنے عقدہ مشکل
دل ابکی بار ہوا ایسی بے جگہ مائل
مطلع ثانی
ہے یہی حسرت دیدار تو مرنا دشوار
نامۂ راجبہ چون مہروماہ نورانیست ہمانابفیض مدیح ذوالنورین درافشانی است
مطلع ثانی
نیکنامی نہ سہی مجھ کو ہے تم سے سروکار
مطلع ثالث
اے شہ عرش سریر ومہ خورشید عذار
کٹتی ہے میری تیغ زبان سے زبان تیغ
تیزی زبان کلک گوہر نثار برہان ساطع حقیقت امامت خداوند ذوالفقار
نہلا دیا عدو کو لہو میں بسان تیغ
مطلع ثانی
چاہنا خلق کو صہبا وصنم سے محروم
قصیدہ در مدح حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ
قصیدہ
یاد ایام عشرت فانی
قصیدہ در مدح راجہ اجیت سنگھ
صبح ہوئی تو کیا ہوا ہے وہی تیرہ اختری
ختم سخن دعا پہ ہوتا نہ اثر میں ہو کلام
غزلیات
آگ اشک گرم کو لگے جی کیا ہی جل گیا
نہ کیونکر مطلع دیوان ہو مطلع مہروحدت کا
گر وہاں بھی یہ خموشی اثر افغاں ہوگا
لگے خدنگ جب اس نالۂ سحر کاسا
بے سبب کیونکہ لب زخم پہ افغاں ہوگا
موے نہ عشق میں جبتک وہ مہرباں نہ ہوا
دیدۂ حیراں نے تماشا کیا
گر غیر کے گھر سے نہ دل آرام نکلتا
سم کھا موے تو درد دل زار کم ہوا
ڈر تو مجھے کسکا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
وصل کی شب شام سے میں سو گیا
رات کس کس طرح کہا نہ رہا
ٹانکنے چاک گریباں کو تو ہر بار لگا
شب غم فرقت ہمیں کیا کیا مزے دکھلاے تھا
میرے کوچے میں عدو مضطر و ناشاد رہا
ہماری جان تجھ بن شب دل ناکام لیتا تھا
وقت جوش بحر گر ہ میں جو گرم نالہ تھا
میں نے تمکو دل دیا تمنے مجھے رسوا کیا
محشر میں پاس کیوں دم فریاد آگیا
وعدۂ وصلت سے دل ہوشاد کیا
دل بیتاب کو گر باندھ کر رکھوں نہ ٹھہریگا
روز جزا جو قاتل دلجو خطاب تھا
یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا
دیکھ لو شوق ناتمام مرا
مجھ کو تیرے عتاب نے مارا
نازبیجا سے سواشرم کے حاصل نہ ہو
فراق غیر میں ہے بیقراری یاب اپنا سا
غیر کو سینہ کہے سے سیمبر دکھلا دیا
کیا مرتے دم کے لطف میں پنہاں ستم نہ تھا
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھا
کہہ رہا ہے کون کس سے بے شکیبائی ملا
ہم رنگ لاغری سے ہوں گل کی شمیم کا
جوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا
اے آرزوے قتل ذرا دل کو تھامنا
کیا قہر طعن بوالہوس بے ادب ہوا
لے اڑی لاشہ ہوالاغرزبس تن ہو گیا
قابو میں نہیں ہے دل کم حوصلہ اپنا
راز نہاں زباں اغیار تک نہ پہونچا
ہمسری زلف سے اب یہ بھی ایسا ہو گیا
وعدے کی جو ساعت دم کشتن ہے ہمارا
میں تو دیوانہ تھا اس کی عقل کو کیا ہو گیا
کیا رشک غیر تھا کہ تحمل نہ ہو سکا
شوخ کہتا ہے بے حیا جانا
اس وسعت کلام سے جی تنگ آگیا
وہ ہنسے سن کے نالہ بلبل کا
چلون کے بدلے مجھ کو زمیں پر گرا دیا
اشک واژونہ اثر باعث صد جوش ہوا
دل قابل محبت جاناں نہیں رہا
گر میں کمبخت وہ بخیل ہوا
کیا رم نہ کروگے اگر ابرام نہ ہوگا
غصہ بیگانہ وار ہونا تھا
کیا ہوا ہو اگر وہ بعد امتحان اپنا
اثر اسکو ذرا نہیں ہوتا
ہم جان فدا کرتے گر وعدہ وفا ہوتا
ردیف الباء
عدم میں رہتے تو شاد رہتے اسے بھی فکر ستم نہ ہوتا
گئے وہ خواب سے اٹھ غیر کے گھر آخر شب
قتل عدو میں عذر نزاکت گران ہے اب
تم بھی رہنے لگے خفا صاحب
یان سے کیا دنیا سے اٹھ جاؤں اگر رکتے ہیں آپ
تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
کیا دیکھتا خوشی سے ہے غیروں کے گھر بسنت
سودا تھا بلاے جوش پر رات
باب التاء
ردیف الثاء
کرتے ہیں عدو وصل میں حرماں کی شکایت
اظہار شوق شکوہ اثر اس سے تھا عبث
ہو نہ بیتاب ادا تمہاری آج
پنجۂ شانہ سے تو زلف گرہ گیر نہ کھینچ
ردیف الجیم
ریا کرینگے آپ بھی پہروں اسی طرح
گر چندے اور یہ ہی رہی یار کی طرح
ردیف الحاء
ردیف الدال
عدونے دیکھے کہاں اشک چشم گریاں سرخ
ردیف الخاء
ہم دام محبت سے ادھر چھوٹے ادھر بند
غربت میں گل کھلاے ہے کیا کیا وطن کی یاد
نامہ رونے میں جو لکھا تو یہ بھیگا کاغذ
ردیف الراے
اے تند خو آجا کہیں تیغا کمر سے باندھ کر
نہ کیونکر بس مواجاؤں کہ یاد آتا ہے رہ رہ کر
یاد اسکی گرمی صحبت دلاتی ہےبہار
جاتے تھے صبح رہ گئے بیتاب دیکھ کر
مومن خدا کے واسطے ایسا مکاں نہ چھوڑ
ردیف الزاء
ردیف الراء ہندی
ہے چشم بند تو بھی ہے آنسو واں ہنوز
لب پہ دم آیا دلے نالہ نہیں ہے ہنوز
ہجراں کا شکوہ لب تلک آیا نہیں ہنوز
ردیف السین
کھا گیا جی غم نہاں افسوس
یوں ہے شعاع داغ مرے دل کے آس پاس
ردیف الشین
کہاں نیند تجھ بن مگر آئے غش
کل دیکھ کے وہ عذار آتش
ردیف الصاد
بے صبر کو کہاں تپ داغ جگر سے فیض
ردیف الضاد
روز ہوتا ہے بیان غیر کا اپنا اخلاص
ہاں مان کہا بیچ بوے زلف دوتا قرض
ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غلط
ردیف الطاء
ہاں تو کیونکر نہ کرے ترک بتاں اے واعظ
ردیف الظاء
ردیف العین
کس ضبط پر شرار فشاں ہے فغان شمع
ردیف الغین
محفل فروز تھی تب و تاب نہاں شمع
مت کہہ شب وصال کہ ٹھںڈا نہ کر چراغ
گلشن میں لالہ میں ہوں کہ ہے دلمیں جاے داغ
مجلس میں تا نہ دیکھ سکوں یار کی طرف
ردیف القاف
ردیف الفاء
وہ جو زندگی میں نصیب تھا وہی بعد مرگ رہا قلق
قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق
امتحان کے لیے جا کب تک
ردیف الکاف
پھرنہ چھوڑوں گو وہ کردے چاک جیب جاں تلک
ہم ہیں اور نزع شب ہجر میں جان ہونے تک
ردیف اللام
لگائی آہ نے غیروں کے گھر آپ
مجھ پر بھی تجھ کو رحم نہیں یہ کرخت دل
ردیف الکاف فارسی
مرد عشق ستیزہ کار ہے دل
کیا کروں کیونکر رکوں ناصح رکا جاتا ہے دل
سرمہ نہیں اس چشم جادوفن میں ہم
ردیف المیم
شام سے تا صبح مضطر صبح سے تا شام ہم
غم ابرو میں بھرتے ہیں دم شمشیر اکثر ہم
پاتے تھے چین کب غم دوری سے گھر میں ہم
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
کب چھوڑتے ہیں اس ستم ایجاد کے قدم
جو پہلے دن ہی سے دل کا کہا نہ کرتے ہم
دل آگ ہے اور لگائیں گے ہم
الجھے نہ زلف سے جو پریشانیوں میں ہم
اب اور سے لو لگائیں گے ہم
ردیف نون
صفحۂ جیحون پر جو کبھی ہم سوزش دل لکھواتے ہیں
عشق نے یہ کیا خراب ہمیں
لاش پر آنے کی شہرت شب غم دیتے ہیں
کہے ہے چھیڑنے کو میرے گر سب ہوں مرے بس میں
ناصح نادان یہ دانائی نہیں
چین آتا ہی نہیں سوتے ہیں جس پہلو ہمیں
ہو گئی گھر میں خبر ہے منع واں جانا ہمیں
بزم میں اس کی بیان درد و غم کیونکر کریں
غیر بے مروت ہے آنکھ وہ دکھا دیکھیں
ہے جلوہ ریز نور نظر گرد راہ میں
نہ تن ہی کے ترے بسمل کے ٹکڑے ٹکڑے ہیں
جیب درست لائق لطف و کرم نہیں
تانہ پڑے خلل کہیں آپ کے خواب ناز میں
غنچہ ساں خاموش بیٹھے ہیں سخن کی فکر میں
دن بھی دراز رات بھی کیوں ہے فراق یار میں
کون کہتا ہے دم عشق عدو بھرتے ہیں
بے مزہ ہو کر نمک کو بیوفا کہنے کو کہیں
مانے نہ مانے منع تپشہاے دل کروں
وہ علی الرغم عدو مجھ پہ کرم کرتے ہیں
سوز دل کے ہاتھ سے ڈھونڈھوں جو مامن آب میں
ہجراں میں بھی زیست کیوں نہ چاہوں
دکھائے آئینہ ہو اور مجھ میں جاں نہیں
ہر دم رہیں کشمکش دست یار ہیں
آہ فلک فگن ترے غم سے کہاں نہیں
شب وصل اسکے تغافل کی زبس تاب نہیں
تاثیر صبر میں نہ اثر اضطراب میں
جلتا ہوں ہجر شاہد و یاد شراب میں
سرمہ گیں آنکھ سے تم نامہ لگاتے کیوں ہو
بیم بیداد ستم کچھ دل مضطر میں نہیں
ردیف الواؤ
کیسے مجھ سے بگڑے تم اللہ اکبر رات کو
اگر زنجیر کش سوے بیاباں اپنی وحشت ہو
یہ قدرت ضعف میں بھی ہے فغاں کو
آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ایسے سے کیا درستی پیماں بستہ ہو
آئے ہو جب بڑھا کر دل کی جلن گئے ہو
پونچھنے سے ہمدمودریا ہے کیونکر خشک ہو
اے ناصحو آہی گیا وہ فتنہ ایام لو
یہ مایوسی دل و جان نالۂ شبگیر تو کھینچو
ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو
صد حیف سینہ سوز فغاں کار گر نہ ہو
چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ
خالی ہو اے فتنہ سے گاہے جہاں نہ ہو
ردیف الہاء
سیماب ہے پہلو میں مرے دل تو نہیں یہ
جو تیرے منہ سے نہ ہو شرمسار آئینہ
دلبستگی سی ہے کسی زلف دوتا کے ساتھ
تکلیف سے جوں پنجۂ گل لال ہوا ہاتھ
الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور سک ادا کے ساتھ
ہم میں فلک نگہ کی بھی طاقت نہ چھوڑ دیکھ
منظور نظر غیر سہی اب ہمیں کیا ہے
ردیف الیاء
خوشی نہ ہو مجھے کیونکر قضا کے آنے کی
میں اگر آپ سے جاؤں تو قرار آجائے
تیری پابوسی سے اپنی خاک بھی مایوس ہے
دیتے ہو تسکین مرے آزار سے
زہر ٹپکے ہے نگاہ یار سے
ہوئی تاثیر آہ وزاری کی
ہے نگاہ لطف دشمن پر تو بندہ جائے ہے
دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہونگے
منہ کو نہ سیاناصح کی بخیہ گری اتنی
سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلا کے اٹھے
پامال اک نظر میں قرار و ثبات ہے
پھر وہ وحشت کے خیالات ہیں سر میں پھرتے
مجھے یاد آگئی بس دو ہیں اس کے قدوقامت کی
نہ دینا بوسۂ گو فلک جھکتا زمین پر ہے
وہ گردوں دیکھ یہ حالت ہوئی تغییر شیشہ کی
گشتۂ حسرت دیدار ہیں یارب کس کے
تمہیں تقصیر اس بت کی کہ ہے میری خطا لگتی
مجھے طوفان اٹھائے لوگوں نے
دیکھ گرماں مجھے وہ چشم تر کرتا ہے
کیوں بنی خوننابہ نوشی بادہ خواری آپ کی
صبر وحشت اثر نہ ہو جائے
جہاں سے شکل کو تری ترس ترس گزرے
نہ انتظار میں یاں آنکھ ایک آن لگی
کیا مرے قتل پہ ہامی کوئی جلاد بھرے
کہاں تک دم بخود رہیے نہ ہوں کیجیے نہ ہاں کیجیے
کرتا ہے قتل عام وہ اغیار کے لئے
اجل سے خوش ہوں کسی طرح ہو وصال تو ہے
تسلی دم واپسیں ہو چکی
اجل جان بلب تیرے شیون سے ہے
دربدر ناصیہ فرسائی سے کیا ہوتا ہے
ہے دلمیں غبار اسکے گھر اپنا نہ کریں گے
توبہ ہے کہ ہم عشق بتوں کا نہ کریں گے
نہ کٹی ہم سے شب جدائی کی
ازبس جنوں جدائی گل پیرہن سے ہے
شب تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے
وہ کہاں ساتھ سلاتے ہیں مجھے
پھر سینہ سوز داغ غم شعلہ فام ہے
جذب دل زور آزمانا چھوڑ دے
میں احوال دل مر گیا کہتے کہتے
مشورہ کیا کیجے چرخ پیر سے
کیونکہ پوچھے حال تلخی عاشق دلگیر سے
جل گئے اختر یہ کس کے حسن کی تنویر سے
ہے فسانہ ساتھ سوے کب کسی تدبیر سے
مومن سوے شرق اس بت کافر کا تو گھر ہے
دل میں اس شوخ کے جو راہ نہ کی
بندھا خیال جناں بعد ترک یار مجھے
دعا بلا تھی مشب غم سکوں جان کے لیے
اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
نہ ربط اس سے نہ یاری آسماں سے
قلق نے شب یہ گھبرایا نہ جب وہ ماہرو آیا
فردیات
متفرقات
کیفیت وصال بس اب کچھ نہیں رہی
وہ نوجوان عابد وزاہد کہ سب جسے
عم بزرگوار کہ ہیں عیسی زمان
موا جاتا ہوں اب جی میں ہے اس بیدرد کو لکھوں
کہاں تک تغافل بس اب لے خبر
اے وزیر بلند پایہ تجھے
لذت فزاست دردل شبہا گریستن
مثلث برغزل مولانا عرفی شیرازی
دور ایام دگر شرم و حجابے دارد
تخمیس غزل خواجہ حافظ علیہ الرحمہ
خندہ زن چاک گریبان تو بے چیزے نیست
تضمین مصرع خواجہ حافظ بطریق تخمیس
خانہ زاد عشقم واندوہ ہمزاد من است
تخمیس غزل رئیس المتغزلین مولانا نظیری نیشاپوری
تضمین مصرعے ازواسوخت وحشی یزدی بطریق تخمیس
من زپیش آمد اغیار چور فتم رفتم
چوں شکوہ ام بدشمنم آں دل شکن کند
مخمس برغزل مرزا قلی میلی
تخمیس غزل ابو طالب ہمدانی کلیم تخلیص
طبع سنبل کدہ گاہیست پریشان ازمن
کہتے ہیں سب کہ تم نہیں بچنے کے شب تلک
تخمیس غزل نواب محمد مصطفی خان بہادر شیفتہ تخلیص
تضمین شعر خواجہ میر درد قدس اللہ سرہ بطریق تسدیس
جاے عبرت ہے مرا حال پریشاں یارو
تضمین شعر طوطی شکرستان ہند
کیا کہوں کچھ نہ پوچھ ہاے رات کا حال ہمنفس
ہوں تو عاشق مگر اطلاق یہ ہے بے ادبی
تخمیس برغزل قدسی در نعت سرور عالم ﷺ
یہ رنگ زرد جو ہے اور اشک آتے ہیں لال
تضمین شعر منشی فضل عظیم
اے ستمگر کہاں تلک بیداد
مسدس بہ مضمون واسوخت
دوستو عشق نہفتہ نے ستایا ہے مجھے
ایضاً واسوخت بہمان قلب مسدس
اے چارہ گر آچک کہ دم چارہ گری ہے
مثمن روضۂ گلستاں دلفروزوگلفشانی مضامین واسوز
ترجیع بند
ساقی مئے سرخ رائگاں ہے
لو چھوڑ مجھے چلا گیا دل
پردے میں ہے رشک ماہ میرا
درد طلب و غم جدائی
طالع میں نہیں طرب ذری بھی
اللہ ری دل کی ہرزہ تازی
اک لخطہ نہیں قرار جی کو
ہے مجھ پہ نگاہ لطف منظور
پھل پایا فلک نے کیا ستا کر
ترکیب بند بہ مضمون مرثیہ معشوقۂ حور طلعت شیم حصلنی وصالہافی جنت النعیم
خمیازہ عیش کا مرا دل کھینچتا ہے آج
بدعدوں سے بات بن نہ آئی
یہ گلستاں سراے تماشا نہیں رہا
دل کی طرح سے یہ بھی چلی جان کو کیا ہوا
اس حوروش سے ہاے کیا ہے جدا ہمیں
کیا ماجرا لکھوں میں کہ تاب رقم نہیں
میں مر رہا ہوں ا س کی بلا کو خبر نہیں
ویران ہے خانہ جلوۂ حیرت طراز کا
مدفن بنے زمین چمن وامصیبتا
کھودی خزاں نے رونق گلزار ہاے ہاے
کیا میرا سد راہ ہے سنگ مزار حیف
وہ مہر جلوہ ریز زمین اے فلک دریغ
اے جوش نالہ کاوش ہر دم کہاں تلک
مثنویات
این نالہ شکایت ستم نام
ایک دن مجھ کو جوش بیہوشی
نام ایں چند نالۂ پیہم
مثنوی دوم
اس شہر میں ایک نوجوان تھا
آغاز داستان
ساقیا زہر پلادے مجھ کو
مثنوی سوم
ایک دن جاتے تھے اک یار کے پاس
مشاہدہ خوش حرکاتے پس چلمن درسیدن بہ عشرت کدۂ رشک چمن
غزل
پھر محبت میں مزا آتا ہے
گرچہ اس نے مجھے آگاہ کیا
رجوع بقصہ
غزل
کیا لگا دست دل آرام سے ہاتھ
اس غزل نے اسے آگاہ کیا
آگاہ شدن معشوق ازافغاں شررریز و گلفشانی سخنہاے ناز آمیز
سمجھی میں ناز کی یہ باتیں ہیں
قطعہ
غزل
میں نے آنکھوں سے لگایا اسکو
کاکل آشفتہ وپیچاں کیوں ہے
اب گیا واں تو تکلم برلب
جلوہ اس بت نے دکھایا مجھ کو
سفر معشوقۂ دلنواز وقلق و آرارگی عاشق جانباز
جب سفر قافلۂ شب نے کیا
حکایت بہ تمثیل اثر عشق دل آزار و ذکر جان دادن معشوق وعاشق جان نثار
اک جوان تھا بہ الم خو کردہ
رجوع بقصہ
بو کچھ آتی ہے صبا سے تیری
یہ غزل سنتے ہی بیتاب ہوا
مثنوی چہارم
کھولیو ساقی منہ کو سبو کے
حکایت
عشق جلبت اک جوان تھا
مثںوی پنجم
ساقیا اب ناز بیجا کس لیے
الٰہی نالۂ اخگر فشاں دے
مثنوی ششم
آغاز داستان
کہ تھا اس شہر میں اک خانہ ویران
اے چارہ گر مریض بیتاب
تمام شد مثںوی
نامۂ باسوزوگدازبہ سمت معشوقۂ طناز
اے گل گلستاں رعنائی
اشعار مثنوی ناتمام
کہاں ہے تو اے ساقی تیز ہوش
پلا ساقیا جام کوثر مجھے
مثنوی بمضمون جہاد
پلا مجھ کو ساقی شراب طہور
خاتمہ
فہرست منتخب دواوین اردو
YEAR1930
YEAR1930
سرورق
دیباچۂ کلیات مومن
الحمد لواہب العطایا
قصائد
چمن میں نغمۂ بلبل ہے یوں طرب مانوس
زمزمہ سنجی بہ مضمون بادخوانی نسیم گلشن نبوت وشمال چمن رسالت
ثوبان لال کہاں اور مدیح تاج خروس
مطالع ثانی
مطلع ثالت
قطعہ
ترے ہے فیض سے ہر قطرہ آبیار عجوس
اگر کہے مددے یا محمد عربی
کوئی اس دور میں جیے کیونکر
بیعت معانی بردست عبارت سراپا ایجاز بفیض مدیح اولین دستور صداقت طراز
لاؤں اس مفلسی میں سوزن زر
مطلع ثانی
اے مسیح درم روان پرور
مطلع ثالث
خطبہ خوانی دل وزبان بامید ثواب باثبات خلات امیر المومنین عمر بن الخطاب
ہو اسکی زلف کو دون اپنے عقدہ مشکل
دل ابکی بار ہوا ایسی بے جگہ مائل
مطلع ثانی
ہے یہی حسرت دیدار تو مرنا دشوار
نامۂ راجبہ چون مہروماہ نورانیست ہمانابفیض مدیح ذوالنورین درافشانی است
مطلع ثانی
نیکنامی نہ سہی مجھ کو ہے تم سے سروکار
مطلع ثالث
اے شہ عرش سریر ومہ خورشید عذار
کٹتی ہے میری تیغ زبان سے زبان تیغ
تیزی زبان کلک گوہر نثار برہان ساطع حقیقت امامت خداوند ذوالفقار
نہلا دیا عدو کو لہو میں بسان تیغ
مطلع ثانی
چاہنا خلق کو صہبا وصنم سے محروم
قصیدہ در مدح حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ
قصیدہ
یاد ایام عشرت فانی
قصیدہ در مدح راجہ اجیت سنگھ
صبح ہوئی تو کیا ہوا ہے وہی تیرہ اختری
ختم سخن دعا پہ ہوتا نہ اثر میں ہو کلام
غزلیات
آگ اشک گرم کو لگے جی کیا ہی جل گیا
نہ کیونکر مطلع دیوان ہو مطلع مہروحدت کا
گر وہاں بھی یہ خموشی اثر افغاں ہوگا
لگے خدنگ جب اس نالۂ سحر کاسا
بے سبب کیونکہ لب زخم پہ افغاں ہوگا
موے نہ عشق میں جبتک وہ مہرباں نہ ہوا
دیدۂ حیراں نے تماشا کیا
گر غیر کے گھر سے نہ دل آرام نکلتا
سم کھا موے تو درد دل زار کم ہوا
ڈر تو مجھے کسکا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
وصل کی شب شام سے میں سو گیا
رات کس کس طرح کہا نہ رہا
ٹانکنے چاک گریباں کو تو ہر بار لگا
شب غم فرقت ہمیں کیا کیا مزے دکھلاے تھا
میرے کوچے میں عدو مضطر و ناشاد رہا
ہماری جان تجھ بن شب دل ناکام لیتا تھا
وقت جوش بحر گر ہ میں جو گرم نالہ تھا
میں نے تمکو دل دیا تمنے مجھے رسوا کیا
محشر میں پاس کیوں دم فریاد آگیا
وعدۂ وصلت سے دل ہوشاد کیا
دل بیتاب کو گر باندھ کر رکھوں نہ ٹھہریگا
روز جزا جو قاتل دلجو خطاب تھا
یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا
دیکھ لو شوق ناتمام مرا
مجھ کو تیرے عتاب نے مارا
نازبیجا سے سواشرم کے حاصل نہ ہو
فراق غیر میں ہے بیقراری یاب اپنا سا
غیر کو سینہ کہے سے سیمبر دکھلا دیا
کیا مرتے دم کے لطف میں پنہاں ستم نہ تھا
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھا
کہہ رہا ہے کون کس سے بے شکیبائی ملا
ہم رنگ لاغری سے ہوں گل کی شمیم کا
جوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا
اے آرزوے قتل ذرا دل کو تھامنا
کیا قہر طعن بوالہوس بے ادب ہوا
لے اڑی لاشہ ہوالاغرزبس تن ہو گیا
قابو میں نہیں ہے دل کم حوصلہ اپنا
راز نہاں زباں اغیار تک نہ پہونچا
ہمسری زلف سے اب یہ بھی ایسا ہو گیا
وعدے کی جو ساعت دم کشتن ہے ہمارا
میں تو دیوانہ تھا اس کی عقل کو کیا ہو گیا
کیا رشک غیر تھا کہ تحمل نہ ہو سکا
شوخ کہتا ہے بے حیا جانا
اس وسعت کلام سے جی تنگ آگیا
وہ ہنسے سن کے نالہ بلبل کا
چلون کے بدلے مجھ کو زمیں پر گرا دیا
اشک واژونہ اثر باعث صد جوش ہوا
دل قابل محبت جاناں نہیں رہا
گر میں کمبخت وہ بخیل ہوا
کیا رم نہ کروگے اگر ابرام نہ ہوگا
غصہ بیگانہ وار ہونا تھا
کیا ہوا ہو اگر وہ بعد امتحان اپنا
اثر اسکو ذرا نہیں ہوتا
ہم جان فدا کرتے گر وعدہ وفا ہوتا
ردیف الباء
عدم میں رہتے تو شاد رہتے اسے بھی فکر ستم نہ ہوتا
گئے وہ خواب سے اٹھ غیر کے گھر آخر شب
قتل عدو میں عذر نزاکت گران ہے اب
تم بھی رہنے لگے خفا صاحب
یان سے کیا دنیا سے اٹھ جاؤں اگر رکتے ہیں آپ
تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
کیا دیکھتا خوشی سے ہے غیروں کے گھر بسنت
سودا تھا بلاے جوش پر رات
باب التاء
ردیف الثاء
کرتے ہیں عدو وصل میں حرماں کی شکایت
اظہار شوق شکوہ اثر اس سے تھا عبث
ہو نہ بیتاب ادا تمہاری آج
پنجۂ شانہ سے تو زلف گرہ گیر نہ کھینچ
ردیف الجیم
ریا کرینگے آپ بھی پہروں اسی طرح
گر چندے اور یہ ہی رہی یار کی طرح
ردیف الحاء
ردیف الدال
عدونے دیکھے کہاں اشک چشم گریاں سرخ
ردیف الخاء
ہم دام محبت سے ادھر چھوٹے ادھر بند
غربت میں گل کھلاے ہے کیا کیا وطن کی یاد
نامہ رونے میں جو لکھا تو یہ بھیگا کاغذ
ردیف الراے
اے تند خو آجا کہیں تیغا کمر سے باندھ کر
نہ کیونکر بس مواجاؤں کہ یاد آتا ہے رہ رہ کر
یاد اسکی گرمی صحبت دلاتی ہےبہار
جاتے تھے صبح رہ گئے بیتاب دیکھ کر
مومن خدا کے واسطے ایسا مکاں نہ چھوڑ
ردیف الزاء
ردیف الراء ہندی
ہے چشم بند تو بھی ہے آنسو واں ہنوز
لب پہ دم آیا دلے نالہ نہیں ہے ہنوز
ہجراں کا شکوہ لب تلک آیا نہیں ہنوز
ردیف السین
کھا گیا جی غم نہاں افسوس
یوں ہے شعاع داغ مرے دل کے آس پاس
ردیف الشین
کہاں نیند تجھ بن مگر آئے غش
کل دیکھ کے وہ عذار آتش
ردیف الصاد
بے صبر کو کہاں تپ داغ جگر سے فیض
ردیف الضاد
روز ہوتا ہے بیان غیر کا اپنا اخلاص
ہاں مان کہا بیچ بوے زلف دوتا قرض
ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غلط
ردیف الطاء
ہاں تو کیونکر نہ کرے ترک بتاں اے واعظ
ردیف الظاء
ردیف العین
کس ضبط پر شرار فشاں ہے فغان شمع
ردیف الغین
محفل فروز تھی تب و تاب نہاں شمع
مت کہہ شب وصال کہ ٹھںڈا نہ کر چراغ
گلشن میں لالہ میں ہوں کہ ہے دلمیں جاے داغ
مجلس میں تا نہ دیکھ سکوں یار کی طرف
ردیف القاف
ردیف الفاء
وہ جو زندگی میں نصیب تھا وہی بعد مرگ رہا قلق
قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق
امتحان کے لیے جا کب تک
ردیف الکاف
پھرنہ چھوڑوں گو وہ کردے چاک جیب جاں تلک
ہم ہیں اور نزع شب ہجر میں جان ہونے تک
ردیف اللام
لگائی آہ نے غیروں کے گھر آپ
مجھ پر بھی تجھ کو رحم نہیں یہ کرخت دل
ردیف الکاف فارسی
مرد عشق ستیزہ کار ہے دل
کیا کروں کیونکر رکوں ناصح رکا جاتا ہے دل
سرمہ نہیں اس چشم جادوفن میں ہم
ردیف المیم
شام سے تا صبح مضطر صبح سے تا شام ہم
غم ابرو میں بھرتے ہیں دم شمشیر اکثر ہم
پاتے تھے چین کب غم دوری سے گھر میں ہم
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
کب چھوڑتے ہیں اس ستم ایجاد کے قدم
جو پہلے دن ہی سے دل کا کہا نہ کرتے ہم
دل آگ ہے اور لگائیں گے ہم
الجھے نہ زلف سے جو پریشانیوں میں ہم
اب اور سے لو لگائیں گے ہم
ردیف نون
صفحۂ جیحون پر جو کبھی ہم سوزش دل لکھواتے ہیں
عشق نے یہ کیا خراب ہمیں
لاش پر آنے کی شہرت شب غم دیتے ہیں
کہے ہے چھیڑنے کو میرے گر سب ہوں مرے بس میں
ناصح نادان یہ دانائی نہیں
چین آتا ہی نہیں سوتے ہیں جس پہلو ہمیں
ہو گئی گھر میں خبر ہے منع واں جانا ہمیں
بزم میں اس کی بیان درد و غم کیونکر کریں
غیر بے مروت ہے آنکھ وہ دکھا دیکھیں
ہے جلوہ ریز نور نظر گرد راہ میں
نہ تن ہی کے ترے بسمل کے ٹکڑے ٹکڑے ہیں
جیب درست لائق لطف و کرم نہیں
تانہ پڑے خلل کہیں آپ کے خواب ناز میں
غنچہ ساں خاموش بیٹھے ہیں سخن کی فکر میں
دن بھی دراز رات بھی کیوں ہے فراق یار میں
کون کہتا ہے دم عشق عدو بھرتے ہیں
بے مزہ ہو کر نمک کو بیوفا کہنے کو کہیں
مانے نہ مانے منع تپشہاے دل کروں
وہ علی الرغم عدو مجھ پہ کرم کرتے ہیں
سوز دل کے ہاتھ سے ڈھونڈھوں جو مامن آب میں
ہجراں میں بھی زیست کیوں نہ چاہوں
دکھائے آئینہ ہو اور مجھ میں جاں نہیں
ہر دم رہیں کشمکش دست یار ہیں
آہ فلک فگن ترے غم سے کہاں نہیں
شب وصل اسکے تغافل کی زبس تاب نہیں
تاثیر صبر میں نہ اثر اضطراب میں
جلتا ہوں ہجر شاہد و یاد شراب میں
سرمہ گیں آنکھ سے تم نامہ لگاتے کیوں ہو
بیم بیداد ستم کچھ دل مضطر میں نہیں
ردیف الواؤ
کیسے مجھ سے بگڑے تم اللہ اکبر رات کو
اگر زنجیر کش سوے بیاباں اپنی وحشت ہو
یہ قدرت ضعف میں بھی ہے فغاں کو
آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ایسے سے کیا درستی پیماں بستہ ہو
آئے ہو جب بڑھا کر دل کی جلن گئے ہو
پونچھنے سے ہمدمودریا ہے کیونکر خشک ہو
اے ناصحو آہی گیا وہ فتنہ ایام لو
یہ مایوسی دل و جان نالۂ شبگیر تو کھینچو
ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو
صد حیف سینہ سوز فغاں کار گر نہ ہو
چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ
خالی ہو اے فتنہ سے گاہے جہاں نہ ہو
ردیف الہاء
سیماب ہے پہلو میں مرے دل تو نہیں یہ
جو تیرے منہ سے نہ ہو شرمسار آئینہ
دلبستگی سی ہے کسی زلف دوتا کے ساتھ
تکلیف سے جوں پنجۂ گل لال ہوا ہاتھ
الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور سک ادا کے ساتھ
ہم میں فلک نگہ کی بھی طاقت نہ چھوڑ دیکھ
منظور نظر غیر سہی اب ہمیں کیا ہے
ردیف الیاء
خوشی نہ ہو مجھے کیونکر قضا کے آنے کی
میں اگر آپ سے جاؤں تو قرار آجائے
تیری پابوسی سے اپنی خاک بھی مایوس ہے
دیتے ہو تسکین مرے آزار سے
زہر ٹپکے ہے نگاہ یار سے
ہوئی تاثیر آہ وزاری کی
ہے نگاہ لطف دشمن پر تو بندہ جائے ہے
دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہونگے
منہ کو نہ سیاناصح کی بخیہ گری اتنی
سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلا کے اٹھے
پامال اک نظر میں قرار و ثبات ہے
پھر وہ وحشت کے خیالات ہیں سر میں پھرتے
مجھے یاد آگئی بس دو ہیں اس کے قدوقامت کی
نہ دینا بوسۂ گو فلک جھکتا زمین پر ہے
وہ گردوں دیکھ یہ حالت ہوئی تغییر شیشہ کی
گشتۂ حسرت دیدار ہیں یارب کس کے
تمہیں تقصیر اس بت کی کہ ہے میری خطا لگتی
مجھے طوفان اٹھائے لوگوں نے
دیکھ گرماں مجھے وہ چشم تر کرتا ہے
کیوں بنی خوننابہ نوشی بادہ خواری آپ کی
صبر وحشت اثر نہ ہو جائے
جہاں سے شکل کو تری ترس ترس گزرے
نہ انتظار میں یاں آنکھ ایک آن لگی
کیا مرے قتل پہ ہامی کوئی جلاد بھرے
کہاں تک دم بخود رہیے نہ ہوں کیجیے نہ ہاں کیجیے
کرتا ہے قتل عام وہ اغیار کے لئے
اجل سے خوش ہوں کسی طرح ہو وصال تو ہے
تسلی دم واپسیں ہو چکی
اجل جان بلب تیرے شیون سے ہے
دربدر ناصیہ فرسائی سے کیا ہوتا ہے
ہے دلمیں غبار اسکے گھر اپنا نہ کریں گے
توبہ ہے کہ ہم عشق بتوں کا نہ کریں گے
نہ کٹی ہم سے شب جدائی کی
ازبس جنوں جدائی گل پیرہن سے ہے
شب تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے
وہ کہاں ساتھ سلاتے ہیں مجھے
پھر سینہ سوز داغ غم شعلہ فام ہے
جذب دل زور آزمانا چھوڑ دے
میں احوال دل مر گیا کہتے کہتے
مشورہ کیا کیجے چرخ پیر سے
کیونکہ پوچھے حال تلخی عاشق دلگیر سے
جل گئے اختر یہ کس کے حسن کی تنویر سے
ہے فسانہ ساتھ سوے کب کسی تدبیر سے
مومن سوے شرق اس بت کافر کا تو گھر ہے
دل میں اس شوخ کے جو راہ نہ کی
بندھا خیال جناں بعد ترک یار مجھے
دعا بلا تھی مشب غم سکوں جان کے لیے
اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
نہ ربط اس سے نہ یاری آسماں سے
قلق نے شب یہ گھبرایا نہ جب وہ ماہرو آیا
فردیات
متفرقات
کیفیت وصال بس اب کچھ نہیں رہی
وہ نوجوان عابد وزاہد کہ سب جسے
عم بزرگوار کہ ہیں عیسی زمان
موا جاتا ہوں اب جی میں ہے اس بیدرد کو لکھوں
کہاں تک تغافل بس اب لے خبر
اے وزیر بلند پایہ تجھے
لذت فزاست دردل شبہا گریستن
مثلث برغزل مولانا عرفی شیرازی
دور ایام دگر شرم و حجابے دارد
تخمیس غزل خواجہ حافظ علیہ الرحمہ
خندہ زن چاک گریبان تو بے چیزے نیست
تضمین مصرع خواجہ حافظ بطریق تخمیس
خانہ زاد عشقم واندوہ ہمزاد من است
تخمیس غزل رئیس المتغزلین مولانا نظیری نیشاپوری
تضمین مصرعے ازواسوخت وحشی یزدی بطریق تخمیس
من زپیش آمد اغیار چور فتم رفتم
چوں شکوہ ام بدشمنم آں دل شکن کند
مخمس برغزل مرزا قلی میلی
تخمیس غزل ابو طالب ہمدانی کلیم تخلیص
طبع سنبل کدہ گاہیست پریشان ازمن
کہتے ہیں سب کہ تم نہیں بچنے کے شب تلک
تخمیس غزل نواب محمد مصطفی خان بہادر شیفتہ تخلیص
تضمین شعر خواجہ میر درد قدس اللہ سرہ بطریق تسدیس
جاے عبرت ہے مرا حال پریشاں یارو
تضمین شعر طوطی شکرستان ہند
کیا کہوں کچھ نہ پوچھ ہاے رات کا حال ہمنفس
ہوں تو عاشق مگر اطلاق یہ ہے بے ادبی
تخمیس برغزل قدسی در نعت سرور عالم ﷺ
یہ رنگ زرد جو ہے اور اشک آتے ہیں لال
تضمین شعر منشی فضل عظیم
اے ستمگر کہاں تلک بیداد
مسدس بہ مضمون واسوخت
دوستو عشق نہفتہ نے ستایا ہے مجھے
ایضاً واسوخت بہمان قلب مسدس
اے چارہ گر آچک کہ دم چارہ گری ہے
مثمن روضۂ گلستاں دلفروزوگلفشانی مضامین واسوز
ترجیع بند
ساقی مئے سرخ رائگاں ہے
لو چھوڑ مجھے چلا گیا دل
پردے میں ہے رشک ماہ میرا
درد طلب و غم جدائی
طالع میں نہیں طرب ذری بھی
اللہ ری دل کی ہرزہ تازی
اک لخطہ نہیں قرار جی کو
ہے مجھ پہ نگاہ لطف منظور
پھل پایا فلک نے کیا ستا کر
ترکیب بند بہ مضمون مرثیہ معشوقۂ حور طلعت شیم حصلنی وصالہافی جنت النعیم
خمیازہ عیش کا مرا دل کھینچتا ہے آج
بدعدوں سے بات بن نہ آئی
یہ گلستاں سراے تماشا نہیں رہا
دل کی طرح سے یہ بھی چلی جان کو کیا ہوا
اس حوروش سے ہاے کیا ہے جدا ہمیں
کیا ماجرا لکھوں میں کہ تاب رقم نہیں
میں مر رہا ہوں ا س کی بلا کو خبر نہیں
ویران ہے خانہ جلوۂ حیرت طراز کا
مدفن بنے زمین چمن وامصیبتا
کھودی خزاں نے رونق گلزار ہاے ہاے
کیا میرا سد راہ ہے سنگ مزار حیف
وہ مہر جلوہ ریز زمین اے فلک دریغ
اے جوش نالہ کاوش ہر دم کہاں تلک
مثنویات
این نالہ شکایت ستم نام
ایک دن مجھ کو جوش بیہوشی
نام ایں چند نالۂ پیہم
مثنوی دوم
اس شہر میں ایک نوجوان تھا
آغاز داستان
ساقیا زہر پلادے مجھ کو
مثنوی سوم
ایک دن جاتے تھے اک یار کے پاس
مشاہدہ خوش حرکاتے پس چلمن درسیدن بہ عشرت کدۂ رشک چمن
غزل
پھر محبت میں مزا آتا ہے
گرچہ اس نے مجھے آگاہ کیا
رجوع بقصہ
غزل
کیا لگا دست دل آرام سے ہاتھ
اس غزل نے اسے آگاہ کیا
آگاہ شدن معشوق ازافغاں شررریز و گلفشانی سخنہاے ناز آمیز
سمجھی میں ناز کی یہ باتیں ہیں
قطعہ
غزل
میں نے آنکھوں سے لگایا اسکو
کاکل آشفتہ وپیچاں کیوں ہے
اب گیا واں تو تکلم برلب
جلوہ اس بت نے دکھایا مجھ کو
سفر معشوقۂ دلنواز وقلق و آرارگی عاشق جانباز
جب سفر قافلۂ شب نے کیا
حکایت بہ تمثیل اثر عشق دل آزار و ذکر جان دادن معشوق وعاشق جان نثار
اک جوان تھا بہ الم خو کردہ
رجوع بقصہ
بو کچھ آتی ہے صبا سے تیری
یہ غزل سنتے ہی بیتاب ہوا
مثنوی چہارم
کھولیو ساقی منہ کو سبو کے
حکایت
عشق جلبت اک جوان تھا
مثںوی پنجم
ساقیا اب ناز بیجا کس لیے
الٰہی نالۂ اخگر فشاں دے
مثنوی ششم
آغاز داستان
کہ تھا اس شہر میں اک خانہ ویران
اے چارہ گر مریض بیتاب
تمام شد مثںوی
نامۂ باسوزوگدازبہ سمت معشوقۂ طناز
اے گل گلستاں رعنائی
اشعار مثنوی ناتمام
کہاں ہے تو اے ساقی تیز ہوش
پلا ساقیا جام کوثر مجھے
مثنوی بمضمون جہاد
پلا مجھ کو ساقی شراب طہور
خاتمہ
فہرست منتخب دواوین اردو
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.