سرورق
مقدمہ
دیوان غزلیات اردو
مدحیات
ہجویات
مثنویات
رباعیات
مر ثیے اور اسلام
تضمین و گرہ بند
متفرقات
کلیات سودا
مقددر نہیں اسکی
ردیف الف
دلادریالے رحمت قطرہ ہے آب محمد کا
کعبہ جاوے پوچھتا کب ہے چلن آگاہ کا
ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا
ساقی سے کہہ کہ ہے شب مہتاب جلوہ گر
ہمارے نالۂ سوزانسے ہے یہ ڈھنگ آتش کا
جھٹنا ضرور بکھر پہ ہے زلف سیاہ کا
اسیری کی جو لذت سے پڑاڈھب آشنائی کا
گلا لکھوں میں اگر تیری بیوفائی کا
ڈردن ہوں بہ نہ جاوے شہر بندھکر تاررونے کا
شب کو جو چھپا مہ تو سحر کہنے یہ لاگا
دل مرا پند گو سمجھے گا
جو چلن چلتے ہو تم کیا اس سے حاصل ہوئیگا
ٹوٹے تری نگہ سے اگر دل حباب کا
جب خیال آتا ہے اس دلمیں ترے اطوار کا
ہر مژہ پر ہے ترے لخت دل اس رنجور کا
ملکے اوس بدخو سے ایدل جب تو رسوا ہوئیگا
لگے ہے جام جو منھ دل ہے آب شیشے کا
تھی لا نا مجالس میں نہیں دستور شیشے کا
قدروان بن ہے بہت حال برا شیشے کا
نجانے حال کس ساقی کو یاد آتا ہے شیشے کا
تو ہی اے رات سن اب سوز ٹک اس چھاتی کا
نہ بار خاطر یہ دل ہے گل کا نہ ناز بردار گلستان کا
باطل ہے ہمسے دعوا شاعر کو ہمسری کا
کھینچا نہ میں چمن میں آرام یک نقس کا
جی مرا مجسے یہ کہتا ہے کہ ٹل جاؤنگا
ہو یہ دیوانہ مرید اس زلف چھٹ کس پیر کا
چمن ہے کسکے گرفتار زلف و کا کل کا
نہ کھینچ اے شانہ ان زلفوں کو یان سودا کا دل اٹکا
ترے خط آنے سے دلکو مرے آرام کیا ہوگا
اے دیدہ خانما تو ہمارا ڈبو سکا
کریں شمار بہم دل کے یارداغون کا
ہوا ہے یار کو یہ اشتیاق آئینہ کا
دل مت ٹپک نظر سے کہ پایا نجائیگا
کیونکر ہو باغ جانا اس میر زانش کا
جوش طوفان یدۂ نمناک سے کیا کیا ہوا
میرے سخن کو فہم کہے یوں فہیم کا
زخم کا دلکے ترد تازہ ہے انگور سدا
کہوں کیونکر بت رعنا مرا حورو بشر ٹھہرا
قتل سے میرے عبث قاتل پھرا
اب تلک اشک کا طوفان نہوا تھا سو ہوا
جو گذری مجھپہ مت اس سے کہو ہوا سو ہوا
پھرے ہے شیخ یہ کہتا کہ میں دنیا سے منھ موڑا
تجھ قید سے دل ہو کر ازاد بہت رویا
دل اپنا چاہتا ہے وہ جنون از عیب ہو پیدا
کہاں نطق فصیح از طبع نا ہنجار ہو پیدا
ساقی ہماری توبہ تجھپر ہے کیوں گوارا
تاثیر عشق نے مزۂ درد کھودیا
ہو کے ادستادو بستان سخن میں سودا
صدمہ ہر چند ترے جور سے جان پر آیا
کرتا ہوں سیر جب سے باغ جہاں بنایا
نورا خذ ہنر کرنے میں دل کا میں گنوایا
آنکھوں سے اشک جتنا آتا تھا شب نہ آیا
سحر جو باغ میں دلدار ایک بار آیا
کب دل شکستگان سے کر عرض حال آیا
باغ میں جسدم خرام اس سروقامت نے کیا
کیا جانے کسکی خاک ہے رکھ ہوش نقش پا
باہر رکھوں نہ بزم سے اے رشک باغ پا
سودا یہ کیا کر یگانت اسقدر کا رونا
آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
بے وجہ آینہ نہیں ہر بار دیکھنا
جھونکی نظر وں میں ہم سبک ہیں دیا انھیں کو وقار اپنا
سیہ کاری ہے مانند نگین ہر چند کام اپنا
والہ کو تری چشم کے آزار ہی رہا
بلبل نے جسے جا کے گلستان میں دیکھا
عشق تھا یا کیا تھا جس سے دل اٹکتا ہی رہا
مجلس سے جب ہو مست وہ رشک تبان اٹھا
تیرے کوچے سے جو میں آپکو چلتے دیکھا
چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا
ساقی چمن میں چھوڑ کے مجھکو کدھر چلا
سودا غزل چمن میں تو ایسی ہی کہکے لا
اعمال سے میں اپنے بہت بیخبر چلا
ملک آئین جب سے تین لوٹا
میں دشمن جان ڈھونڈ کر اپنا جو نکالا
دل یار کے ہرگز نہ سر زلف سے چھوٹا
ترا دل مجھ سے نہیں ملتا مرا جی رہ نہیں سکتا
جب بادہ خون ہو تو سیر چمن کجا
العال دل سے مرے جبتک وہ خبر دار نہ تھا
نہ دانہ ساتھ لے صیاد تین نے دام لیتا جا
قاتل کا ہاتھ ہر گز ہتھیار تک نہ پہونچا
وہ ہم نہیں جو کریں سیر بوستان تنہا
جب بزم میں تبا نکی وہ رشک مہ گیا تھا
افسوس تم اور دنسے ملو رات کو تنہا
عشق کی خلقت سے آگے میں ترا دیوانہ تھا
عشاق تیرے سب سے پر زار تھا سو میں تھا
جگہ تھی دلکو مرے دلمیں اک زمانا تھا
بہت سے ہے بہت اس آن ہمکو کم جینا
رات نالہ میں کیا یار سنا یا نہ سنا
دیکھ کر جو مر گئے ہیں تیری پورون پرحنا
کہتی ہے میرے قتل کو یہ بے وفا حنا
یان پھر اس شرم سے عیسیٰ نے گذارا نہ کیا
نے رستم اب جہان میں نے سام رہ گیا
پہلو سے میرے صبح وہ دلدار اٹھ گیا
کہتے ہیں لوگ یار کا ابرو پھڑک گیا
قابو میں ہو ں میں تیرے گواب جیا تو پھر کیا
سالہا ہمنے صنم نالۂ شبگیر کیا
قاصد اشک آکے خبر کر گیا
دل میں تیرے جو کوئی گھر کر گیا
اپنے کا ہے گناہ بیگانے نے کیا کیا
نامہ کو میرے جو سوے جانا نہ لے گیا
بہنا کچھ اپنی چشم کا دستور ہوگیا
کر حذر میرا نہیں ہے شیشہ خال محتسب
موتی کو بھی ترا کرے احیا پیام لب
ردیف باے موحدہ
کھولی گرہ جو غنچے کی تونے تو کیا عجب
نالہ سینے سے کرے عزم سفر آخر شب
گرچہ ہوں زیر فلک نالۂ شبگیر نصیب
ہمیشہ ہے مری چشم پر آب در تہ آب
مجھ اشک میں جوں ابر اثر ہو ئیگا یارب
ردیف التاء
کیوں اسیری پر مری صیاد کو تھا اضطراب
دوا بہت ہے جو دے سر کو سنگ وخشت شکست
لاگے ہے کسکے منھ پہ باین زور پشت دست
ہوئے ہیں غنچوں کے دل بیقرار تیرے ہاتھ
ہستی کو تری بس ہے اک گل کی اشارت
نامے کا اپنے چمن میں جو کردن ساز درست
دین و کفر آنکھوں نے تیری کردیا اے یار مست
ہندو ہیں بت پرست مسلمان خدا پرست
ہندو ہیں بت پرست مسلمان خدا پرست
عشق اپنے کی فلک نے جہاں میں یوائی بات
دیکھے بلبل جو یار کی صورت
بنگ پی بنگ خیال اسکا ہے افلاک پرست
نظر آجاے ہے جیسی کہ ہندوستان میں صورت
جب تک ہے جہاں میں گل و گلزار سلامت
دریف ثاء مثلثہ
مانے ہے کسے ناقف اسرار محبت
آگہ کی بخیر سے ہے اس طرح یار بحث
جسکے خط اترے تو اس سے دل لگانا ہے عبث
رہتے تھے ہم تو شاد نہایت عدم کی بیچ
سودا گرفتہ کو نہ لاؤ سخن کےبیچ
ردیف جیم فارسی
جاں عشاق کی لے چھوڑے یہ کر پیار کے پیچ
نے چشم نہ ابرو نہ کرشمہ نہ ادا ہیچ
شمع میں ہر چند ہے سر سے گذر جانیکی طرح
تجھ بن بہت ہی کٹتی ہے اوقات بے طرح
ردیف حاء مہملہ
ندیجے دل کہیں یار وبزیر نیلین کاخ
آہ کس سرد میں قمری ہے قد یار کی طرح
لطف نشاط بادۂ وحسن ظہور صبح
ردیف خاء معجمہ
اشک کو کب ہے شنا سا ے گہر سے پیوند
ردیف دال مہملہ
یہ ہات ہو سکے زلف اسکی ہے کہاں گستاخ
کھینچکر پوست کرے گردش ایام سفید
لے آئے درپہ ترے جو ستمکشان فریاد
بزم میں وہ شمعرویارب کر بگا کب وردد
ہوا ہے داغ مرا دل انار کے مانند
لذت بے رنج ملنی ہے زمانے سے بعید
دفتر دہر کا ہے پیش نظر ہر کا غذ
ردیف ذال معجمہ
سمندر کر دیا نام اوسکا ناحق سب نے کہہ کہکر
ردیف راء مہملہ
دیا ہے پیچ دلکو سادہ لوح اس زلف نے پاکر
مجھ ساتھ تری دوستی جب ہوگئی آخر
کھینچیں ہیں کٹاری جو تباں مجھپہ اکڑ کر
تو جسے چاہے وہ یارب تجسے ہو بیباک تر
گردم سے جدا تن کو رکھا دیر ہوا پر
بہدانے کا آندھی اڑا ڈھیر ہوا پر
غزل در ہجو میاں حسرت عطار
اظہار سخن کیجئے کیا خاک زمیں پر
تیرا ہے بزم مہر خریدار فلک پر
بکھراے ہو وہ زلف سیہ فام جہاں پر
باندھی جھنجھلا کے کمر شوخ نے کیں میرے پر
صبا حریف لے آئی ہے نو مرے دلپر
دل نہ کر منت زراہ بیقراری بیشتر
دل نا آشنای نالہ سے صدرہ جرس بہتر
پیون ہوں خون دل اپنا تجھے گمان ساغر
تو مری آنکھوں میں ہے حوروبشر سے بہتر
کام آیا نہ کچھ اپنا تن زار آخر کار
یہ نہو مہر کہ تاشب رہے گھر سے باہر
تب جاے کیونکہ عشق کی اے یار تجھ بغیر
جوش سے میرے جنونکی کیا خوش آتی ہے بہار
بلبل کو کیا تڑپتے میں دیکھا چمن سے دور
کاٹتے دل کو ہیں ابرو یار کی تلوار دار
خرمی پھرتی ہے یوں دلپہ مرے غم سے دور
دیکھا میں نخل وادی ایمن ہر ایک جہاڑ
منزل کے پہونچنے سے درے قافلہ دے چھوڑ
کرتا ہوں ترک عشق میں یوں پیش وپس ہنوز
ردیف زاء معجمہ
کسکے ہیں زیر زمیں دیدۂ نمناک ہنوز
شبنم کرے ہے دامن گل شست و شوہنوز
بیہودہ اسقدر نہںی آتا ہے کام ناز
یار کے حسن سے ہیں بیخبر اغیار ہنوز
بے خبر دردمحبت سے ہے وہ یار ہنوز
ردیف سین مہملہ
نخل امید کیونکہ ہمارا ہو آہ سبز
کب ہم کو ہے بہار میں گلزار کی ہوس
بلبل کو ہے ترے سردیوار کا ہلاس
ساقی گئی بہار رہی دل میں یہ ہوس
ہمنے بھی دیر و کعبہ سے دن چار کی ہوس
رکھتے ہیں تری زلف کے ہر تار کا خلش
ماہ نو تجھ یاد ابرو میں ہے سینے کا خراش
یوں دیکھ مرے دیدۂ پر آب کی گردش
دوری ہے تری اپنے دل زار کو آتش
ردیف شین معجمہ
دین شیخ وبرہمن نے کیا یار فراموش
سینے میں ہوا نالہ دپہلو میں دل آتش
آرام پھر کہاں ہے جو ہو دلمیں جاے حرص
ردیف صاد مہملہ
وہ مانگتا ہوں ترا حق سے مہربان اخلاص
دیکھ لینا ہمکو تیرا یار ہے جب تب غرض
ردیف ضاد معجمہ
ردیف طاء مہملہ
تو ہو گر پاس تو ہے صبح طرب شام نشاط
سر سبز حسن رکھتی ہے تیرا بہار خط
سمجھے تھے ہم جو دوست تجھے اے میاں غلط
چاہنا نفع فرومایہ سے داللہ غلط
یوں ہے طریق عشق میں ہو راست یا غلط
اٹھے نشہ میں محبت کے خط یار سے خط
ردیف ظاء معجمہ
زہے وہ معنی قرآن کہے جو تو واعظ
ردیف عین مہملہ
لطف اس چہریکے آگے کوئی یان رکھتی ہے شمع
مژگان کی گرخلش کا بدل ڈھنگ ہے وسیع
اے لالہ گو فلک نے دیے تجکو چار داغ
آتش ہے میرا بوجھ سمندر نہ درے داغ
نالے سے میں اپنے نہیں اے رشک پری داغ
ردیف غین معجمہ
سرد مہری سے بیان کے مٹ گیا ہے سوز داغ
کس طرح دلمیں چھپاؤں تجکو ہیں سینہ میں داغ
عشق کی ہووے تو ہو ہمکو اسیری کا دماغ
مرضی جو آئی چرخ کی بیداد کیطرف
ردیف فاء
اب ہو تو نہ ہرگز رہے کنعان میں یوسف
مائل تھا بسکہ دل مرا بیداد کیطرف
دیکھوں ہوں یوں میں اس ستم ایجاد کی طرف
بلبل نہ چمن ہے گل گلزار کا عاشق
ردیف قاف
ناصح نہ انسے بک جو ہیں اگاہ راز عشق
رنگ سے چہرے کے رسوا ہوے ہے بیمار عشق
ز ندگی کیو ںہ ہو دے مجھپر شاق
حسن کے بازار میں کیا ہے جزا اشیاے فراق
ردیف کاف
رہے اس فصل ہم اے بلبل وگل ناتواں یا شک
آباد شہر دل تھا اسے شہر یار تک
شمع اس عارض کے سب کہتے ہیں پہونچے نور تک
شاعر ونمیں کب رکھے ہے شیر کی تقریر جنگ
رخ سے دیکھوں ہو نمیں اس زلف سیہ فام تلک
خط آچکا پہ مجسے وہی ڈھنگ اب تلک
پھونک دی ہے عشق کی تب نے ہمارے تنمیں آگ
سنکے یہ بولا خدا کے واسطے کیجئے معاف
میں بتاوں تمکو یار و گر کروتدبیر ایک
رونیکو میرے تابکجا دل سے آے اشک
سنبل وزلف سیہ کا کل وشب چاروں ایک
کب لگ سکے ہے اس سے کوئی رنگ اور نمک
ردیف لام
کرتی ہے مرے دلمیں تری جلوہ گری رنگ
کھینچ شمشیر چاؤ دل کے نکال
پوت پیتے ہیں دردیدہ نمناک کے مول
سخن عشق نہ گوش دل بیتاب میں ڈال
یکدست اک زمانہ جہاں میں لٹاے گل
ہووے نہ ملک عشق سے کم رسم داغ دل
مرا لگتا نہیں اے باغباں تیرے چمن میں دل
جب تو چمن سے گھر کو چلا کرکے دید گل
جاتا ہے دل تو جائیو ہشیار آجکل
ردیف میم
اس چمن کی سیر میں آیار پیوین ملکے مل
سنا ہے اب تو خط آیا ہے کس اسلوب دیکھیں ہم
تیرے ہی دیکھنے کے نہ آوے جو کام چشم
قاتل کے دل سے آہ نہ نکلی ہوس تمام
منہ غرض کفر سے رکھتے ہیں نہ اسلام سے کام
کیا مچائی ان نے میرے دل کے کاشانے میں دھوم
دھن کے سر بولاگئے جب یار کے کاشانہ ہم
لے دیدۂ تر جدھر گئے ہسمہ
ہیں صفا ے بادۂ و درد تہ پیمانہ ہم
عاشق تو نامراد ہیں پراسقدر کہ ہم
خانہ پرور چمن ہیں آخر اے صیاد ہم
اے گل صبا کیطرح پھرے اس چمن میں ہم
پیتا ہوں یاد دوست میں ہر صبح وشام جام
تو کیوں جبلتی رہی بلبل چمن میں دیکھکر شبنم
وہی ہیں دن وہی راتیں وہی فجردوہی شام
ردیف نون
حسن یکتا میں ترے ہر گز دوئی کو رو نہیں
سوتے میں ترے گھر کی طرف رونہ کروں میں
مجھے عاشق نہ بوجھ اپنا جفا کا کب میں حامل ہوں
کرے ہے عشق کی گرمی سے دل آنند آتش میں
لڑیں ہیں کیوں ترے مژگان دابر دیار آپسمیں
خوبوں میں دلدہی کی روش کم بہت ہے یاں
قیس کی آوارگی ہے دلمیں سمجھو تو کہوں
عاشق ترے ہمنے کیے معلوم بہت ہیں
جو بزم بیچ تجھے دیکھکر کے ہٹ جاویں
کردے ہے مہر بدکیں افلاک ایک پل میں
شکل کا ہم نے تمام اپنا کیا تن دامن
یار آزردہ ہوا رات جو مے نوشی میں
پونچھ کر چشم کریں ہم جو فشار دامن
سمجھ کے باندھا تھا آشیان ہم رہیگا بآب وتاب گلشن
چپی اٹھکر میں تجھے رات کروں یا نہ کروں
بلبل تصویر ہوں جوں نقش دیوار چمن
اسی کو چہچہا کہیے جو یہ قلقل ہے شیشے میں
چمن کا لطف سیراور رونق محفل ہے شیشے میں
غم کی مے ہم نے جو شب دلکے بھری شیشے میں
خانۂ دل کہ ہو خون ہونیکا آئیں جسمیں
تجھ بن بچمن ہر خس دہر خار پریشان
کشور عشق میں وہ مرد قدم رکھتے ہیں
گداد ست اہل کرم دیکھتے ہیں
دے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں
لخت جگر آنکھوں سے ہر آن نکلتے ہیں
مست سحرو تو بہ کن شام کا ہوں میں
زندگی محبوب کیا کیا اسمیں ہیں محبوبیاں
عقل اس نادان میں کیا تیرا جودیوانہ نہیں
آپکو تو گو سمجھتا ہے کہ وہ دانا نہیں
کو سونکا نہیں فرق وجود اور عدم میں
تیرے پہلو سے جو مجلس میں ہٹے جاتے ہیں
اتنا ستم نہ کیجے مری جان جان جان
غیر کے پاس یہ اپنا ہی گماں ہے کہ نہیں
جب لبوں پر یار کے مستی کی دھڑیاں دیکھیاں
خاک و خوں میں صورتیں کیا کیا نہ رلیاں دیکھیاں
کہے ہے توبہ یہ زاہد کہ تجکو دین تو نہیں
اسباب سے جہاں کے کچھ اب پاس گو نہیں
ہو جو کچھ ہو سو مجھے بھاگنا ترے در سے کارن کو نہیں
ڈرتے ڈرتے جو ترے کوچے میں آجاتا ہوں
پیارے تمھارا پیار کس انسان پر نہیں
عاشق کی کہے چشم روے بن نر ہوں میں
چشم تر میری سے کیا رکھتی ہے مطلب آستیں
نے بلبل چمن نہ گل نود میدہ ہوں
نگر آباد ہے بسے ہیں گانوں
ملائم ہو گئیں دلپر برہ کی ساعتیں کڑیاں
نہ غنچے گل کے کھلتے ہیں نہ نرگس کی کھلیں کلیاں
داشد ہو خرمی سے یہ کیا حساب تجھ بن
بلبل چمن میں کسکی ہیں یہ بدشرا بیاں
نہ اشک آنکھوں سے بہتے ہیں نہ دل سے اٹھتی ہیں آہیں
باتیں کدھر گئیں وہ تری بھولی بھولیاں
نہ اپنا سوز ہم تجسے بیان جوں شمع کرتے ہیں
تونے سودا کے تئیں قتل کیا کہتے ہیں
عاشق قنا میں اپنے بہبود جانتے ہیں
گلشن میں یار بن مجھے شرب مدام میں
باتیں کتنی ہی نہیں منھ لگنے سے منظور ہمیں
ناوک نے تیرے صید نچھوڑا زمانے میں
جاتا ہوں ترے در سے بس اے یار رہا میں
خلش کروں نہ کسی سے اگرچہ خار ہوں میں
مژہ اس چشم کا کھٹکے ہی دل مفتوں میں
بہار اسکی نہیں لگتی ہے اک پاسنگ آنکھوں میں
دل کو یہ آرزو ہے صبا کوے یار میں
امید ہوگئی کچھ گوشہ گیر سے دل میں
کسنے آرام دے ہے چرخ مینا فام دنیا میں
جی تک تو دیکے لوں جو ہو تو کار گر کہیں
اے خوشا حال ہوا جو کوئی رسواے بتاں
بلبل کہیں پتنگ کہیں اور ہم کہیں
مت پھر تو ساتھ غیر کے آمان ہر کہیں
یاد میاں اب دلمیں ترے دے باتیں نہیں آتی ہیں
جو صبر ہو کے عاشق مرغوب جانتے ہیں
آنکھوں کو ٹک سنبھا لو یہ مارتی ہیں راہیں
اس سروقد کی دوستی میں کچھ ثمر نہیں
آنکھیں بھی اسکی آنکھوں سے کرٹک ملا کریں
طلب میں سلطنت جم کی نہ صبح و شام کرتا ہوں
یہ میں بھی سمجھوں ہوں بارد وہ یار بار نہیں
مجھے معلوم یوں ہوتا ہے میری بھی پھسی آنکھیں
ردیف واو
میں کس کس شعلہ خو کو سینۂ صد چاک دکھلاؤں
دماغ اصلاح دینے کا نہیں کہدو ہلالی کو
ٹکڑے تو ابھی لعل کے دل بیچ دھرے ہیں
حال دل پوچھے ہے کیا مجھ سے مرا اے یار تو
یوں نہ چاہے گا دل آگاہ یہ ہو وہ نہ ہو
چہ بے گنہ چہ گنہگار یہ نہ ہو وہ ہو
لہو اس چشم کا پونچھے سے ناصح بند کیونکر ہو
کر رکھا تیغ نگہ نے دل فگار آئینہ کو
کرے ٹک منفعل کوئی مرے بیدرو قاتل کو
بس ہو تو رکھوں آنکھوں میں اس آفت جانکو
منڈا کر خط تم اپنے حق میں کیوں کانٹی ہے بوتے ہو
بادشاہت دو جہاں کی بھی جو ہودے مجھ کو
شیخ نے اس بت کو جس کو چمیں دیکھا شام کو
دے کے دل ہاتھ سر نہ دھر کر رو
آلودہ زقطرات عرق دیکھ جبیں کو
نہ پوچھ قتل کر نے میں کسو سے بیر ہے اسکو
کیجے نہ اسیری میں اگر ضبط نفس کو
تو نہ ہووے تو شب ہجر دے جینے ہم کو
دیکھ بھلی میں شکاری کی مرے چنگل کو
مرے نامہ کے خاطر مرغ جان سے کون بہتر ہو
خواہی رہ صد سالہ ہو تو خواہ یہیں ہو
خط اسکا سادہ کو حو نکی پرستارونسے مت پوچھو
دلدار اسکو خواہ دل آزار کچھ کہو
بہار باغ ہو مینا ہو جام صہبا ہو
کروں گرم بادیدۂ ترنگاہ
تمھاری فہم میں پیارے جو ہم ہیں غیر پوں سمجھو
ردیف ہاء
گیا ہے جی تو نکل کب سے ہمصفیر دن ساتھ
لینے لگا ہے اب تو مرا نام گاہ گاہ
بار ہادل کو میں سمجھا کے کہا کیا کیا کچھ
کہاں وہ نور کا شمس و قمر میں ہے شعلہ
تجھ حسن کا یوں مجکو مریجان ہے شعلہ
خلقت کے نہ خلق اپنا پایا میں پسندیدہ
غم کا ہے پسر خواندہ اور درد کا پالیدہ
ہے زلف میں دل میرا مت کیجوں تو شانہ
نہیں وہ روے عرقناک جنس آب زدہ
یاں نہ ذرہ ہے چمکتا ہے فقط گرد کے ساتھ
شیخی تھی جام کی سوگئی جان جم کے ساتھ
نیند سے اٹھے ہے جسدم دیکھے ہے تو آئینہ
لٹی مے اٹھ گیا ساقی مرا بھی پر ہو پیمانہ
ہوں سرمۂ کوری سے وہ چشم تر آلودہ
حسن سے اسکے اسے دے ہے خبر آئینہ
لیتا ہے تو کسی کا تو دل لے سمجھ سمجھ
آپہونچ ساقی کہ پھر ایام کب آتے ہیں یہ
مجھ سے پہ لیے پھرنا تلوار بہت تحفہ
غیر پہ نت ہے کرم ہسم پہ ستم واہ واہ
ردیف مثناۃ تحتانی
نہ دے عاشق نہ دے معشوق جن میں ہو نہ کچھ خامی
شیخ تو کعبے کو پہونچے ہے کرامات کی راہ
بولا وہ جسے تیری تصویر نظر آئی
میں تجسے کہ نہیں سکتا سخن اے یار نازک ہے
یار کا جلوہ مرے کیا شہرۂ آفاق ہے
سنگ پر چینی کو ٹپکو صد ا منظور ہے
نہ میں جہاں میں ہوں تیری تو آرزویہ ہے
کیا کہیے جو اس شوخ کی اوقات ہوئی ہے
محیط دل ہوئی اے شوخ تیری چاہ پھرتی ہے
عاشق تھا کبھی تجھ پہ یہ پھر مل تو وہی ہے
جرم کے عفو کی تدبیر بہت اچھی ہے
کیا کہیے اپنا حال جو کچھ ہے سو ہے سو ہے
گذشتہ حسن کا ابتک نشان باقی ہے
کیا کہیے وہ بت آہ کس آئین نمکین ہے
دل جنس فروشندۂ بازار ہنر ہے
نکل پہلو سے میرا دل جو تیری کو میں بیٹھا ہے
پھوٹے وہ آنکھ جسمیں نہ ذرہ بھی نم رہے
ناصح جفا ے عشق اگر میں سہی سہی
اے تڑپ چین تو بسمل کو کہیں تل بھروے
بیمار کی آج اپنے سر شام خبر لے
دنیا تمام گردش افلاک سے بنی
جاتے ہیں لوگ قافلہ کے پیش و پس چلے
جب اس چمن سے چھوڑ کے ہم آشیاں چلے
نہ تیرے پاٹ دامن کا نہ اسکی آستین ڈوبی
دل تو کیا گر طلب جان ترے من میں ٹھہرے
یار جس سے خوش رہے مجکو وہ آئیں چاہیے
یا تو جاتے رہے اے یار ہمیں دنیا سے
کیا کیا تھے چاؤ دلمیں جب آئے تھے عدم سے
چوڑائی میں ٹک اپنے عدو اور بھی جم لے
جبسے دل کی الفت بے پیر دامنگیر ہے
ہے زاہد اعطاے ازل سے خبر مجھے
بیوفائی کیا کہوں دل ساتھ تجھ محبو کی
معتقد ہر گز نہیں ہیں کفر اور اسلام کے
میں تو ملونگانا صحابا تین یہ تینوں جان کے
بے چین جو رکھتی ہے تمھیں چاہ کسو کی
کہوں کیا بات اس بے پیردل کی
وہ غل ہے جسکا موجب تو ہے ورنفہ شور بہتیرے
صورت ہمیں اس مہر کی پہچان اگر آوے
لاکھ طوفان بجہاں ہم کو فلک دکھلاوے
یارب کہیں سے گرمی بازار بھیجدے
جب سے کہ چشم خلق صنم تجسے جالگی
نہ عندلیب گرفتار کو قفس چھوڑیے
مری آنکھوں میں یارو اشک ایسا موج مارے ہے
مجرم ہوں میں تو کہدو مکافات کے لیے
ہمیں کیا لطف ہے منھ دیکھنا وان یار کا اپنے
گرمی اس شعلہ سے ہیہات نہونے پائی
ذرد دل کسکو کہوں میں وہ کہاں ہے تو ہے
ناصحا ہر چند یہ بندہ سبک اطوار ہے
ہر لحظہ اب بہ نشوونما خط یار ہے
جو طبیب اپنا تھا دل اسکا کسی پر زار ہے
تجھ عشق کے مریض کی تدبیر شرط ہے
نہیں جون گل طلب ابر سیا ہے گا ہے
صورت میں میں کہتا نہیں ایسا کوئی کب ہے
دل ہو تو نالہ کر سکے تاثیر سنگ ہے
کچھ یہ بھی پیش وحشت کامل زمین ہے
آتش جو عشق کی ہے سونور بصر میں ہے
ہم آج ایک صنم میں غرور دیکھا ہے
کس سے جا اٹکا ہے دل میرا عجب دیوانہ ہے
ترغیب نکر مجکو دان چلنے کی اے سودا
یان صورت و سیرت سے بت کو نسا خالی ہے
فکر میں ہجر کے دل وصل کا دن کھوتا ہے
نکلکے چوکھٹ سے گھر کی پیارے جو پٹ کے اجھل ٹھٹک رہا ہے
دلا تو یار کو شمس و قمر لگا کہنے
جو ہر کو جوہری اور صراف زر کو پرکھے
نہیں ہے بحث کا طوطی ترا دہن مجھ سے
خورشید و مہ نے پیارے تجھ پر بہ بینوائی
ہم ہیں وارستہ محبت کی مدد گار ی سے
تری آنکھوںنے نرگس سے چمن میں یار ایسی کی
مگروہ دید کو آیا تھا باغ میں گل کے
عارض پہ حسن خط سے دمک کیا ہے نور کی
جدی جدی بہجبان اان بان ہے سبکی
بولو نہ بول شیخ جی ہم سے کڑے کڑے
وہی جہاں میں رموز قلندری جانے
مرے ملنے کی اسکو تب ہوس ہو وے اگر ہو وے
غنچے سے مسکرا کے اسے زار کر چلے
ہمارے کفر کے پہلو سے دین کی راہ یاد آئے
ہر ایک شے میں سمجھ تو ظہور کس کا ہے
سینے میں ہے یوں دل کو ایام گرفتاری
جب ان آنکھوں کا غمزہ بر سر بیداد آتا ہے
نہ نرگس کی پلک تیرے تماشانے ہے جھکوائی
زیست قاتل ہے مری تجھ بن اجل بدنام ہے
یان جو ہوں خاموش سو تیری ندامت کیلئے
نہ غافل رہ زمانے سے بسر لیجا بہشیاری
کیا جانیے کس کس سے نگہ اسکی لڑی ہے
جسکے دل کی تری زلفوں سے میاں لاگ لگے
قدردل سمجھو نہ پھر ہاتھ آئے یہ جب جا چکے
دل اس سینہ میں ہے یا قطرۂ سیماب ہے کیا ہے
خوب واقف ہیں محبت کے وہ سر رشتے سے
چاہنا بزم تعیش کا ہوسنا کی ہے
عاشق کو نہ کر پیار جی سے
غفلت میں زندگی کو نکھو گر شعور ہے
تازہ تعلق نہیں اس دل کو الم سے
پنبہ کو دور کر مرے سینہ کے داغ سے
زمانہ تجسے اگر ہونا ساز کو تو اس سے زمانہ سازی
جب نظر اسکی آن پڑتی ہے
جگ میں تخم شراب ہے دو ہی
دل کسی سے کہ جب پلٹتا ہے
خدا بتوں میں کہاں ہے یہ خلق کا کہ نہو وے
نیمجان ہیں یہ ترے چشم کے بیمار کئی
جان تو حاضر ہے اگر چا ہیے
سن اے فغان جہاں میں عاشق جو ہوگیا
تو ہی کچھ اپنے سر پہ نہ پان خاک کر گئی
مارے کو تیرے زلف کی لاکھوں جتن کئے
اب کی بھی دن بہار کے یوں ہی چلے گئے
وعدۂ لطف وکرم گر نہ وفا کیجئے
جب اپنے بند قبا تمنے جان کھول دیے
ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے
ہر سحر قتل تری چشم کا اک مفتوں ہے
کھوں میں کس سے کہ مطلب مراردا کیجے
ہمت کہاں کہ منت دونان نہ کیجئے
مرے گرعاشق بیکس تو ماتم دار دشمن ہے
گر تجھ می ںہے وفا تو جفا کار کون ہے
اس چال کے نبھنے کا کچھ اسلوب نہیں ہے
سرد گلشن سے نہ کچھ مفتوں ہے
اٹھایا کوہ رستم نے اگر تو سخت نادان ہے
مری آنکھوں میں ہے بستا مجھے تو کیوں رلاتا ہے
دل لیکے ہمارا جو کوئی طالب جان ہے
اردض و سما شفق نے لہو ہو میں بھر دیا ہے
کیا جانیے کہ کس کے دل کا لہو پیا ہے
نسیم ترے کوچے میں در صبا بھی ہے
لینا جو شیشۂ دل منظور ہے تو یہ ہے
سودا جو سنا ہے کسو کوا نام یہی ہے
تو مست اندھیری رات ہے اغیار ساتھ ہے
پرداعبث ہے ہمسے یہ خاطر نشان رہے
چہرہ مریض لب کا ترے زرد ہے سو ہے
ہمیں کسی سے گراظہار درد آتا
درد میرے استخوان کا کیا ترے دمساز ہے
جسدن تری گلی کی طرف ٹک پون بہی
نہیں ممکن اسیر ونکی کوئی فریاد کو پہونچے
گودختر رز عشق میں یاروں کے پلی ہے
کسیکا درد دل پیارے تمھارا ناز کیا سمجھے
منھ لگا دے کون مجکو گرنہ پوچھے تو مجھے
سود جون شمع نہیں گرمی بازار مجھے
اب شہد زندگی کی نہیں ہے ہوس مجھے
ممکن نہ تیر خوردہ تڑپ کر سنبھل سکے
نہ تاب لاسکے خورشید عشق کے تب کی
عشرت سے دو جہاں کے یہ دل ہاتھ دھو سکے
جو بادہ تو نہ پیے جام لالہ ہو نہ سکے
اسقدر ابکی ہوا مست ہے ویرانے کی
مارینگے ایک دو کو یا آپ مرر ہیں گے
مرجان کا نخل ہوں نہ پھلوں برگ وبار سے
تخم گل امید جن اس شورہ زار سے
ہمکو حنا جو قتل کر اب آپ بچ رہی
شکوہ ہے دور ظالم کا کرنا مروّ تون سے
نہ پھول اے آرسی گریاد کو تجھ سے محبت ہے
کوئی کرتار ہے اس سے جو یہ مذکور بہتر ہے
حلقہ تیری زلف کا جب یار منھ کھولے رہے
حیران ہوں شمع کسکے لیے سوز ناک ہے
خشک رہنے سے ہمارا دیدۂ پاک ہے
بلبل نالان ودرد عشق کچھ معقول ہے
نہ مجھ سے کہ کہ چمن میں بہار آئی ہے
خاک پر بھی تیرے دیوانے کی یہ تدبیر ہے
گل پھیکے ہیں اور دن کی طرف بلکہ ثمر بھی
اس دل کی تف آہ سے کب شعلہ بر آوے
بہار بے سپر جام یار گذرے ہے
افعی کو یہ طاقت ہے کہ اس سے بسر آوے
نسیم گر قدم دوستی بجا لاوے
الہی بزم بتان سے وہ شمع ٹل جاوے
بدلا ترے ستم کا کوئی تجھسے کیا کرے
ساق سیمیں تری شب دیکھکے گوری گوری
گوغنچہ سان گرہ میں دلی جمع زر کرے
کافر جو ہو مجھ سا اسے دل اپنے میں جاوے
تجھ تیغ تلے کہ تورستم سے کہ سرد ھردے
دل میں بسنے کی ترے مجکو نپٹ ہے شادی
خط نقص صفائی رخ دلدار نہ ہووے
جسدم وہ صنم سوار ہووے
بھر نظر تجکو ندیکھا کبھو ڈرتے ڈرتے
کیا کیجے ہم سے کچھ بات نہیں بن آتی
اے لالچی تو کیسہ غیروں کا مت ٹٹولے
جون غنچہ تو چمن میں بند قبا کو کھولے
برہمن بت کدے کے شیخ بیت اللہ کے صدقے
اثر سے ہیں تہی نالے تصرف سے ہیں دم خالی
ہر آن یاس بڑھتی ہردم امید گھٹنی
خاتم کے جون نگیں ہمیں کس کام کے لیے
مطلعات
اعجازؔ منھ تکے ہے ترے لب کے کام کا
دل کو تر ہر طرح سے دلا سا دیا کروں
افراد
مدحیات
قصیدہ در نعت حضرت سیّد المرسلین خاتم للنبیین احمد مجتبےٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغاے مسلمانی
مطلع ثانی
عجب نادان ہیں جنکو ہے عجب تاج سلطانی
قصیدہ در نعت ومنقبت حضرت امیر المومنین اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب
چہرۂ مہروش ہے ایک سنبل مشکفام دو
بسان دانۂ روئیدہ ایک بار گرہ
قصیدہ در منقبت شیر بیشۂ شجاعت میر میدان سخاوت حیدر کرار صاحب ذوالفقار
قصیدہ در منقبت حضرت امیر المومنین اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب
در منقبت امیر المومنین اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب صلواٖ اللہ علیہ
زخمی ہیں ترا اور گلستان ہے برابر
اوٹھ گیا بہمن ودے کا چمنستان سے عمل
در منقبت امیر المومین اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب صلواۃ اللہ علیہ
سنگ کو اتنے لیے کرتا ہے پانی آسمان
مناقب حضرت امیر المومنین امام المتقین علی ابن ابی طالب صلوات اللہ علیہ
ایک لب نان کے لیے حیران ہوتے شہر شہر
سو اے خاک نہ کھینچوں گا منت دستار
قصیدہ در منقبت گل گلزار نما نور دیدۂ رسول خدا سرور سینہ علی مرتضیٰ ابا عبد اللہ الحسین صلواۃ اللہ علیہ
زبس ہوا کو تراوت نے وان کیا ہے نثار
قصیدہ در منقبت قرۃ العیون الحسنین اعنی حضرت امام کاظمین صلوٰۃ اللہ علیہ
قصیدہ در مدح قرۃ العین رسول زمان حضرت امام ضامن علی موسی رضا شاہ خراسان
یہ سنگ پاہے یہ دل اے خدا نہیں یہ حنا
ثنا کروں تری ہر وجہ میں قلم آسا
مدح حضرت امام ثامن ضامن علی موسیٰ رضا شاہ خراسان صلوات علیہ وکنایہ وطعن بر شاعر فاخر مکین واکسیر ادستاداو
مستغنی ذاتی نہ مہوس کی ہو تسخیر
عیب پوشی ہو لباس چرک سے کیا ننگ ہے
قصیدہ در منقبت فخردودمان نبوی خلاصۂ خاندان مرتضوی امام عسکری صلوات اللہ علیہ
شمع کا میرے صداے خندۂ گل تنگ ہے
قصیدہ در منقبت خلیفۃ الرحمٰن امام مہدی الہادی آخرالزمان صلوٰۃ اللہ علیہ
جوں غنچہ آسماں نے مجھے بہر عرض حال
چاہے اگر کوئی دو جہاں کا متاع ومال
منکر خلا سے کیوں نہ حکیموں کی ہو ز بان
درمنقبت خلیفۃ الرحمٰن امام مہدی الہادی آخر الزمان صلوات اللہ علیہ السلام وطعن بر شاعر کہ ایراد بر شعر میرزا گرفتہ بود
اے وہ کہ کارجن وبشر تجھ سے ہے روان
اے وہ کہ کارجن وبشر تجھ سے ہے ردان
رکھے ہمیشہ تری تیغ کار کفر۵ تباہ
درستایش مدح ابو العدل عزیز الدین محمد عالمگیر ثانی بادشاہ غازی
ہے استہار تجھسے مرا اے فلک جناب
قصیدہ در ثنای شاہ جم جاہ خسرو فلک بارگاہ عالی گوہر محمد شاہ عالم بہادر شاہ غازی
رانوں میں اسکو صورت سیماب اضطراب
فجر ہوتے جو جو گئی آج مری آنکھ جھپک
قصیدہ در معح نواب وزیر الممالک عماد الملک مدار المہام آصف حاہ نظام الملک بہادر غازی الدنخیان
رنگ رخسار سے شرمندہ کندن کی دمک
تجھسے ممنون نہ فقط ردے زمین پر ہر یک
اسکے گجگاہ کی اللہ رے چہرے پہ لٹک
ایضاً قصیدہ در مدح نواب وزیر الممالک عماد الملک مدار المہام آصف جاہ نظام الملک بہادر
کہے ہے کاتب دوران سے منشی تقدیر
مینے در سخن کو دیا سنگ رنگ ڈھنگ
نہیں ہے معجز عیسیٰ سے کم تری تدبیر
قصیدہ در مدح نواب وزیر الممالک اشجع دوران
دیکھا جو دیر وکعبۂ ہمسنگ رنگ ڈھنگ
مرغ معنی کے اگر صید پر اپنا ہو خیال
دریاے فیض کا ہے ترے ننگ رنگ ڈھنگ
قصیدہ در مدح نواب وزیر الممالک اشجع زمان شجاع الدولہ جلال الدین حیدر بہادر ہر برجنگ
بتمناے جبیں بدر بھی ہوتا ہے ہلال
اشجار کا بستان جہاں کے ہے عجب ڈھنگ
قصیدہ در مدح نواب وزیر الممالک شجاع الدولہ جلال الدین حیدر بہادر ہز برجنگ
رستم کو خبر ہو کہ ترا ادس پہ ہے آہنگ
خون مرے دلمیں نہیں تشنہ ہے گویا تراناز
در مدح نواب وزیر الممالک شجاع الدولہ بہادر ہز بر جنگ
در نہو قطرے سے اے بحر سخا کے ممتاز
ایضاً قصیدہ در تعریف تیروکمان وصفائی شست واصابہ تیر بہدف نواب زیر الممالک
احکام پر ترے نہ کرے کیونکہ کام تیر
درمدح نواب و زیر الممالک جلال الدین حیدر شجاع الدولہ بہادر ہز برجنگ درفتح کردن بحافظ رحمت خان
آیا عمل میں تیغ سے تیرے وہ کار زار
قصیدہ در مدح نواب وزیر الممالک آصف الدولہ یحیی خان بہادر رستم جنگ
گر فلک اب یہ مہر بان ہو وے
کیا قلم کو رقم سے ہے منظور
قصیدہ در مدح نواب وزیر الممالک آصف الدولہ بہادر رستم جنگ
سودا پہ جب جنون نے کیا خواب دخورحرام
قصیدہ در مدح نواب وزیر الممالک آصف الدولہ بہادر رستم جن
اے وہ کہ تیرے عدل کی نسبت نجاص دعام
تیرے سایہ تلے ہے تو وہ نہنت
در مدح نواب وزیر الممالک آصف الدولہ بہادر رستم جنگ
در مدح نواب وزیر الممالک آصف الدولہ بہادر رستم جنگ
صباح عید ہے دل ہے خوشی سے مالا مال
درمبارکباد عید رمضان نواب وزیر الممالک آصف الدولہ
کیا تجھکو سجی مسند دیوان وزارت
قصیدہ در مدح حکیم میر محمد کاظم
علم ظنی ہے طبابت تو یہ سن رکھ ہمدم
صباح عبد ہے اور یہ سخن ہے شہرۂ عام
قصیدہ در مدح نواب سر فراز الدولہ حسن رضا خان بہادر
نسخۂ میر نہیں نقش سے عالم کے کم
تراوہ عدل ہے اے ملجاء تمام انام
قصیدہ در مدح سر فراز الدولہ حسن رضا خان بہادر
عزیر عقل کو سودا کی تھی جدائی شاق
قصیدہ در مدح نواب سیف الدولہ احمد علیخان بہادر پسر سید صلابت خان
برج حمل میں بیٹھ کے خادر کا تاجدار
ترکش لگاکے دینے کو نصیحۂ بہار
موج گہر سپہر اودھر کرکے گذار
ایضاً در مدح سیف الدولہ احمد علی خان بہادر
ہفجوش کا ہو دل تو رہے دہر سے تبنگ
قصیدہ در مدح نواب احمد علیخان سیف الدولہ لسپرسید صلابت خان بہادر
ہے سخن سنج اک جوان متین
کل حرص نام شخصے سودا پہ مہربان ہو
قصیدہ در مدح نواب لسبنت خان خواجہ سرامحمد شاہی
بلبل کو گاہ سنکر انعام بوستان ہو
صحن چمن میں گلگوں گر تیرے زیر ران ہو
تاشیر گردش آج کو کب کی صبح کو
قصیدہ در مدح بسنت خان محمد شاہی
بلبل ہو دانکی بلبل آمل سے دو بدو
طرہ کی تیرے نکہت سنبل میں دیکے بو
اور اس جگہ یوں نظر آیا کہ کیا کہوں
ابر بہار باغ کو تادے یہ شست وشو
شرمندہ ہو جمال میں حوراوسکے رو برو
قصیدہ در نصائح فن شعر وطعن بر شاعری و در مدح مہربان خاں
جب کہے موردتحسین میں اکثر اشعار
سر صفحہ پر آج یوں صبحدم
مثنوی در تعریف شکار کردن نواب آصف الدولہ بہادر
مثنوی در تعریف دیوان واشعار مہر بانخان
صاحبا سیر کے ہیں یہ ابیات
مثنوی در تعریف چاہ مومن خاں
رہ کے دنیا میں کیجئے وہ فکر
کھدا تیرے خاتم تیرا نام
مثنوی در مدح
مدار کا ردو عالم حصول ہر مامول
خسرو اتجھ سا کوئی دو رمان بہم پہونچا تو
دیکھ تجھ شاہ بلند اختر کو بولیں نیک و بد
قطعہ در مدح نواب عمادالملک آصف جاہ
مخمس تضمین غزل حافظ در تعریف بادشاہ زمان
باعندلیب گلشن ایمان برابرست
قصیدہ فارسی درتعریف مسجد نو
ہجویات
مثنوی در ہوج میر ضاحک
ہے عجیب و غریب زیر سما
ترجیع بند در ہجو ضاحک
جاصبا ضاحک سے کہہ بعد از سلام
سن لو ٹک اے نصف انسان نصف خر
پہونچے گر شعراب ترے دفتر تلک
تال سرسے ہے ترا گانا بری
اس اجنہ کو بھی اکثر اے لئیم
تو نہیں سید کیا میں امتحان
یہ تو ہے ممکن جہاں سے تو اٹھے
کیجو مری ہجو تو اے بھڑوے نٹ
ضاحک کی اہلیہ نے جب ڈھول گھر دھرایا
مخمس در ہجو اہلیہ میر ضاحک
مثنوی در ہجو فدوی متوطن پنجاب کہ در اصل بقال بچہ بود
یارد خدا ایک ہے دوسرے برحق بنی
بنیے کا دیوال بند ایک قرضدار تھا
ہجو فدوی پنجابی
شاعر ہوا ہے فدوی کیا شاعرونکا تلا
ہجو فدوی
جسکے گھر آشیان ہو تیرا دہان
فددیا بولے ہے میں ہوں استاد
مان میرا کہا خدا سے ڈر
سن بے الو پہونچ کے ہنگانے
جس جگہ بیٹھکر تو سبز قدم
تیری جس باغ تک صدا جاوے
اے بیابان نحسیت کے غول
جہاں میں کون بناتا ہے الّو بنیے کا
مخمس در ہجو فدوی شاعر
مخمس در ہجو مولوی ندرت کشمیری
شعر ناموزوں سے تو بہتر ہے کہنا ریختہ
مولوی جی سے اب کوئی جاکے میرا پیام دو
مخمس در ہجو مولوی ندرت کشمیری
مسدس در ہجود ختر مولوی ندرت کشمیری
رکھے ہے مولوی دختر کہ دین و دل نیازاو
مخمس در ہجو حلت غراب
قطعہ در ہجو میر محمد تقی
ایک مشفق کے گھر گیا تھا میں
مخمس در جواب طعن میر تقی کہ فی الحقیقہ میر شیخ بودہ است
کر شیخ زبان اپنی مری خبث سے کوتاہ
قصیدہ در ہجو شخصے کہ متعصب بود
کردن چمن میں اگر جاکے میں غزلخوانی
سنا ہے میں یہ کسی نے بمدعاے فساد
سنا ہے میں یہ کسی نے بمدعاے فساد
صیدہ در ہجو مولوی ساجد دربیان آنکہ نیرید علیہ اللغتہ رااولی الامرگفتہ بود
صیدہ در ہجو مولوی ساجد دربیان آنکہ نیرید علیہ اللغتہ رااولی الامرگفتہ بود
قصیدہ شہر آشوب
مکن تو لعن بہ شمر ویزید وابن زیاد
اب سامنے میرے جو کوئی پیرو جوان ہے
کہا میں آج یہ سودا سے کیوں تو ڈانوان ڈول
مخمس شہر آشوب
قصیدہ در ہجو اسپ المسمیٰ بہ تضحیک روز گار
ہے چرخ جب سے ابلق ایام پر سوار
مثنوی در ہجو پیل راجہ نرپت سنگھ
کیا ساقی نے گو مجکو سیہ مست
مثنوی در ہجو شیدی فولاد خان کو توال شاہجہان آباد
مثنوی در ہجو امیر دولتمند بخیل
ہے خدا کا یہ ایک شہۂ نور
مثنوی در ہجو طفل ضائع روزگار لکڑی باز
نالے پر ایک لڑکا رہتا تھا
صدر کے بازار میں ہے اک دبنگ
مثنوی در ہجو حکیم غوث
آہ واو یلا زدست روز گار
مثنوی در ہجو چیخ میرزا فیضو
ساقیا بھر اس مے جادو سے جام
مثنوی بطور ساقی نامہ در ہجو میان فوقی
ہوے پہلے ہی قدم مسکن صنم
قطعۂ تاریخ ہجو شیخ صنعت اللہ کہ کتخدا شدہ بود
عروس شیخ سے پوچھا یہ ایک زاہد نے
مضمون بیت فوقی
یہ وقت صبح مری بلبل طبیعت سے
قطعہ خوش طبعانہ
قطعہ بطریق طنز شاعری گفتہ
دیکھ ملنگ اتیت قلندر ہیں آپسمیں تینوں ایک
حضور میں جو کوئی ہے مقرب الخاقان
قطعہ ہجو عامل خیر آباد
قطعہ دربیان پہرہ
کیا یہ پہرہ ہے کہ ہے سارا جہاں پہرے میں
قطعہ ہجو مرزا فاخر مکین
مین ایک فارسی دان سے کہا کہ اب مجکو
قطعہ ہجو معہ تاریخ
جس بزرگی سے وہ گئے یا نسے
نہیں کلنگ میں حسن آگے سبز وار یکے
کھیت رہنے سے یارو حافظ کے
لے کے جھب جھبے سے ذرارت جب
قطعۂ ہجو
قطعہ در شکست نواب ضابطہ خان
قطعہ در ہجو مرغ سبز واری
مخمس در ہجو شیخ جی
جون گھٹا شادی اٹھی ہے تری گنگھور بنے
مخمس در ہجو
کامل فن سخن کہتے ہیں اسکو اکمل
مخمس در ہجو
آنی کہ طرز فتنہ تو ایجاد کردۂ
مخمس ہجو میر علی ہاتف شاعر الموجب استدعای حکیم آفتاب کہ ہجو حکیم مذکور گفتہ بود
مسدس در ہجو مرزا علی
اک قصہ میں سنا تھا مردم سے یہ قضارا
مخمس در ہجو شمیری
عجب ہے بیحیا آفاق میں یہ قوم کشمیری
وہ ہے سب بخیلوں کا جو افتخار
در ہجو بخیل
تضمین و گرہ بند
مخمس اوّل
چکارہ گران امورون کاتھامین بیچارا
جاے دنیا سے یہ دل اور گرفتاری دل
مخمس دوم تضمین غزل کلیم
مخمس سوم
نہ بلبل ہوں کہ اس گلشن میں سیر گل مجھے بھائے
مخمس چہارم
وہ کون سی گھڑی تھی جب میں لگن لگائی
مخمس نخجم تضمین غزل امیر خسرو
شیخ تو نابود ہووے یا ترا پندار نیست
جب تلک بندگی شیخ میں تھا حلقہ بگوش
مخمس ششم تضمین غزل عصمت بخاری
پسر بعد از پدر گر ینگ ونام آور شود پیدا
مخمس ہفتم تضمین غزل شاہ ناصر علی
یاد ایامی کہ تو قیر جنوں من داشتم
مخمس ہشتم تضمین غزل طالب کلیم
تاخانۂ کس بہر مدارات نہ رفتیم
مخمس نہم تضمین غزل مرزا فاخر مکین
مخمس دہم تضمین غزل مرزا فاخر مکین
ازخویش وزبیگانہ توروپوش نشستی
کہا اس شوخ سے جو طور کے شعلہ کا ہے بھائی
مخمس یارہم
مخمس دوازد ہم
فصل ہے گل کی ہیں جلوے میں بہ بستان گل وصبح
نشو ونماے باغ جہان سے رمیدہ ہوں
مخمس سیز دہم
کوئی اگر کسیکو اذیت دیا کرے
مخمس چہاردہم
مخمس پانزدہم
نہ کہ عاشقون میں محبت کہاں ہے
مخمس شانزدہم
اس شوخ سے اس دل کے لگجانے کو کیا کہیے
ساقی پہونچ کہ وقت تغافل رہا نہیں
مخمس ہفتدہم
تجھ بن ہوا ستم ہے چمن میں بہار کی
ہوا ہے اب کی سوداز ورکیفیت سے دیوانا
مخمس ہیزدہم
مخمس نوزدہم
وہ مہر وہ دفاں عنایات ہوگئی
مخمس بستم
مخمس بست ویکم
ہم کو دکھا جب اپنے تم اطوار رہ گئے
ایک تاریخ جو دیکھی تو پڑھا کیا کیا کچھ
مخمس بست و دوم
مے کشو بحثو ہو کیوں مجھ دل افگار کے ساتھ
مخمس بست وسوم
مخمس بست وچہارم
عیب گو کی جو ہوئی اندنون مجھسے درخورد
تضمین
مخمس بست وپنجم
باغ دلّی میں جو اک روز ہوا میرا گذار
رباعیات
دنیا کی طلب میں دین کھو کر بیٹھے
رباعیات مستزاد
اشتہار
YEAR1932
YEAR1932
سرورق
مقدمہ
دیوان غزلیات اردو
مدحیات
ہجویات
مثنویات
رباعیات
مر ثیے اور اسلام
تضمین و گرہ بند
متفرقات
کلیات سودا
مقددر نہیں اسکی
ردیف الف
دلادریالے رحمت قطرہ ہے آب محمد کا
کعبہ جاوے پوچھتا کب ہے چلن آگاہ کا
ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا
ساقی سے کہہ کہ ہے شب مہتاب جلوہ گر
ہمارے نالۂ سوزانسے ہے یہ ڈھنگ آتش کا
جھٹنا ضرور بکھر پہ ہے زلف سیاہ کا
اسیری کی جو لذت سے پڑاڈھب آشنائی کا
گلا لکھوں میں اگر تیری بیوفائی کا
ڈردن ہوں بہ نہ جاوے شہر بندھکر تاررونے کا
شب کو جو چھپا مہ تو سحر کہنے یہ لاگا
دل مرا پند گو سمجھے گا
جو چلن چلتے ہو تم کیا اس سے حاصل ہوئیگا
ٹوٹے تری نگہ سے اگر دل حباب کا
جب خیال آتا ہے اس دلمیں ترے اطوار کا
ہر مژہ پر ہے ترے لخت دل اس رنجور کا
ملکے اوس بدخو سے ایدل جب تو رسوا ہوئیگا
لگے ہے جام جو منھ دل ہے آب شیشے کا
تھی لا نا مجالس میں نہیں دستور شیشے کا
قدروان بن ہے بہت حال برا شیشے کا
نجانے حال کس ساقی کو یاد آتا ہے شیشے کا
تو ہی اے رات سن اب سوز ٹک اس چھاتی کا
نہ بار خاطر یہ دل ہے گل کا نہ ناز بردار گلستان کا
باطل ہے ہمسے دعوا شاعر کو ہمسری کا
کھینچا نہ میں چمن میں آرام یک نقس کا
جی مرا مجسے یہ کہتا ہے کہ ٹل جاؤنگا
ہو یہ دیوانہ مرید اس زلف چھٹ کس پیر کا
چمن ہے کسکے گرفتار زلف و کا کل کا
نہ کھینچ اے شانہ ان زلفوں کو یان سودا کا دل اٹکا
ترے خط آنے سے دلکو مرے آرام کیا ہوگا
اے دیدہ خانما تو ہمارا ڈبو سکا
کریں شمار بہم دل کے یارداغون کا
ہوا ہے یار کو یہ اشتیاق آئینہ کا
دل مت ٹپک نظر سے کہ پایا نجائیگا
کیونکر ہو باغ جانا اس میر زانش کا
جوش طوفان یدۂ نمناک سے کیا کیا ہوا
میرے سخن کو فہم کہے یوں فہیم کا
زخم کا دلکے ترد تازہ ہے انگور سدا
کہوں کیونکر بت رعنا مرا حورو بشر ٹھہرا
قتل سے میرے عبث قاتل پھرا
اب تلک اشک کا طوفان نہوا تھا سو ہوا
جو گذری مجھپہ مت اس سے کہو ہوا سو ہوا
پھرے ہے شیخ یہ کہتا کہ میں دنیا سے منھ موڑا
تجھ قید سے دل ہو کر ازاد بہت رویا
دل اپنا چاہتا ہے وہ جنون از عیب ہو پیدا
کہاں نطق فصیح از طبع نا ہنجار ہو پیدا
ساقی ہماری توبہ تجھپر ہے کیوں گوارا
تاثیر عشق نے مزۂ درد کھودیا
ہو کے ادستادو بستان سخن میں سودا
صدمہ ہر چند ترے جور سے جان پر آیا
کرتا ہوں سیر جب سے باغ جہاں بنایا
نورا خذ ہنر کرنے میں دل کا میں گنوایا
آنکھوں سے اشک جتنا آتا تھا شب نہ آیا
سحر جو باغ میں دلدار ایک بار آیا
کب دل شکستگان سے کر عرض حال آیا
باغ میں جسدم خرام اس سروقامت نے کیا
کیا جانے کسکی خاک ہے رکھ ہوش نقش پا
باہر رکھوں نہ بزم سے اے رشک باغ پا
سودا یہ کیا کر یگانت اسقدر کا رونا
آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
بے وجہ آینہ نہیں ہر بار دیکھنا
جھونکی نظر وں میں ہم سبک ہیں دیا انھیں کو وقار اپنا
سیہ کاری ہے مانند نگین ہر چند کام اپنا
والہ کو تری چشم کے آزار ہی رہا
بلبل نے جسے جا کے گلستان میں دیکھا
عشق تھا یا کیا تھا جس سے دل اٹکتا ہی رہا
مجلس سے جب ہو مست وہ رشک تبان اٹھا
تیرے کوچے سے جو میں آپکو چلتے دیکھا
چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا
ساقی چمن میں چھوڑ کے مجھکو کدھر چلا
سودا غزل چمن میں تو ایسی ہی کہکے لا
اعمال سے میں اپنے بہت بیخبر چلا
ملک آئین جب سے تین لوٹا
میں دشمن جان ڈھونڈ کر اپنا جو نکالا
دل یار کے ہرگز نہ سر زلف سے چھوٹا
ترا دل مجھ سے نہیں ملتا مرا جی رہ نہیں سکتا
جب بادہ خون ہو تو سیر چمن کجا
العال دل سے مرے جبتک وہ خبر دار نہ تھا
نہ دانہ ساتھ لے صیاد تین نے دام لیتا جا
قاتل کا ہاتھ ہر گز ہتھیار تک نہ پہونچا
وہ ہم نہیں جو کریں سیر بوستان تنہا
جب بزم میں تبا نکی وہ رشک مہ گیا تھا
افسوس تم اور دنسے ملو رات کو تنہا
عشق کی خلقت سے آگے میں ترا دیوانہ تھا
عشاق تیرے سب سے پر زار تھا سو میں تھا
جگہ تھی دلکو مرے دلمیں اک زمانا تھا
بہت سے ہے بہت اس آن ہمکو کم جینا
رات نالہ میں کیا یار سنا یا نہ سنا
دیکھ کر جو مر گئے ہیں تیری پورون پرحنا
کہتی ہے میرے قتل کو یہ بے وفا حنا
یان پھر اس شرم سے عیسیٰ نے گذارا نہ کیا
نے رستم اب جہان میں نے سام رہ گیا
پہلو سے میرے صبح وہ دلدار اٹھ گیا
کہتے ہیں لوگ یار کا ابرو پھڑک گیا
قابو میں ہو ں میں تیرے گواب جیا تو پھر کیا
سالہا ہمنے صنم نالۂ شبگیر کیا
قاصد اشک آکے خبر کر گیا
دل میں تیرے جو کوئی گھر کر گیا
اپنے کا ہے گناہ بیگانے نے کیا کیا
نامہ کو میرے جو سوے جانا نہ لے گیا
بہنا کچھ اپنی چشم کا دستور ہوگیا
کر حذر میرا نہیں ہے شیشہ خال محتسب
موتی کو بھی ترا کرے احیا پیام لب
ردیف باے موحدہ
کھولی گرہ جو غنچے کی تونے تو کیا عجب
نالہ سینے سے کرے عزم سفر آخر شب
گرچہ ہوں زیر فلک نالۂ شبگیر نصیب
ہمیشہ ہے مری چشم پر آب در تہ آب
مجھ اشک میں جوں ابر اثر ہو ئیگا یارب
ردیف التاء
کیوں اسیری پر مری صیاد کو تھا اضطراب
دوا بہت ہے جو دے سر کو سنگ وخشت شکست
لاگے ہے کسکے منھ پہ باین زور پشت دست
ہوئے ہیں غنچوں کے دل بیقرار تیرے ہاتھ
ہستی کو تری بس ہے اک گل کی اشارت
نامے کا اپنے چمن میں جو کردن ساز درست
دین و کفر آنکھوں نے تیری کردیا اے یار مست
ہندو ہیں بت پرست مسلمان خدا پرست
ہندو ہیں بت پرست مسلمان خدا پرست
عشق اپنے کی فلک نے جہاں میں یوائی بات
دیکھے بلبل جو یار کی صورت
بنگ پی بنگ خیال اسکا ہے افلاک پرست
نظر آجاے ہے جیسی کہ ہندوستان میں صورت
جب تک ہے جہاں میں گل و گلزار سلامت
دریف ثاء مثلثہ
مانے ہے کسے ناقف اسرار محبت
آگہ کی بخیر سے ہے اس طرح یار بحث
جسکے خط اترے تو اس سے دل لگانا ہے عبث
رہتے تھے ہم تو شاد نہایت عدم کی بیچ
سودا گرفتہ کو نہ لاؤ سخن کےبیچ
ردیف جیم فارسی
جاں عشاق کی لے چھوڑے یہ کر پیار کے پیچ
نے چشم نہ ابرو نہ کرشمہ نہ ادا ہیچ
شمع میں ہر چند ہے سر سے گذر جانیکی طرح
تجھ بن بہت ہی کٹتی ہے اوقات بے طرح
ردیف حاء مہملہ
ندیجے دل کہیں یار وبزیر نیلین کاخ
آہ کس سرد میں قمری ہے قد یار کی طرح
لطف نشاط بادۂ وحسن ظہور صبح
ردیف خاء معجمہ
اشک کو کب ہے شنا سا ے گہر سے پیوند
ردیف دال مہملہ
یہ ہات ہو سکے زلف اسکی ہے کہاں گستاخ
کھینچکر پوست کرے گردش ایام سفید
لے آئے درپہ ترے جو ستمکشان فریاد
بزم میں وہ شمعرویارب کر بگا کب وردد
ہوا ہے داغ مرا دل انار کے مانند
لذت بے رنج ملنی ہے زمانے سے بعید
دفتر دہر کا ہے پیش نظر ہر کا غذ
ردیف ذال معجمہ
سمندر کر دیا نام اوسکا ناحق سب نے کہہ کہکر
ردیف راء مہملہ
دیا ہے پیچ دلکو سادہ لوح اس زلف نے پاکر
مجھ ساتھ تری دوستی جب ہوگئی آخر
کھینچیں ہیں کٹاری جو تباں مجھپہ اکڑ کر
تو جسے چاہے وہ یارب تجسے ہو بیباک تر
گردم سے جدا تن کو رکھا دیر ہوا پر
بہدانے کا آندھی اڑا ڈھیر ہوا پر
غزل در ہجو میاں حسرت عطار
اظہار سخن کیجئے کیا خاک زمیں پر
تیرا ہے بزم مہر خریدار فلک پر
بکھراے ہو وہ زلف سیہ فام جہاں پر
باندھی جھنجھلا کے کمر شوخ نے کیں میرے پر
صبا حریف لے آئی ہے نو مرے دلپر
دل نہ کر منت زراہ بیقراری بیشتر
دل نا آشنای نالہ سے صدرہ جرس بہتر
پیون ہوں خون دل اپنا تجھے گمان ساغر
تو مری آنکھوں میں ہے حوروبشر سے بہتر
کام آیا نہ کچھ اپنا تن زار آخر کار
یہ نہو مہر کہ تاشب رہے گھر سے باہر
تب جاے کیونکہ عشق کی اے یار تجھ بغیر
جوش سے میرے جنونکی کیا خوش آتی ہے بہار
بلبل کو کیا تڑپتے میں دیکھا چمن سے دور
کاٹتے دل کو ہیں ابرو یار کی تلوار دار
خرمی پھرتی ہے یوں دلپہ مرے غم سے دور
دیکھا میں نخل وادی ایمن ہر ایک جہاڑ
منزل کے پہونچنے سے درے قافلہ دے چھوڑ
کرتا ہوں ترک عشق میں یوں پیش وپس ہنوز
ردیف زاء معجمہ
کسکے ہیں زیر زمیں دیدۂ نمناک ہنوز
شبنم کرے ہے دامن گل شست و شوہنوز
بیہودہ اسقدر نہںی آتا ہے کام ناز
یار کے حسن سے ہیں بیخبر اغیار ہنوز
بے خبر دردمحبت سے ہے وہ یار ہنوز
ردیف سین مہملہ
نخل امید کیونکہ ہمارا ہو آہ سبز
کب ہم کو ہے بہار میں گلزار کی ہوس
بلبل کو ہے ترے سردیوار کا ہلاس
ساقی گئی بہار رہی دل میں یہ ہوس
ہمنے بھی دیر و کعبہ سے دن چار کی ہوس
رکھتے ہیں تری زلف کے ہر تار کا خلش
ماہ نو تجھ یاد ابرو میں ہے سینے کا خراش
یوں دیکھ مرے دیدۂ پر آب کی گردش
دوری ہے تری اپنے دل زار کو آتش
ردیف شین معجمہ
دین شیخ وبرہمن نے کیا یار فراموش
سینے میں ہوا نالہ دپہلو میں دل آتش
آرام پھر کہاں ہے جو ہو دلمیں جاے حرص
ردیف صاد مہملہ
وہ مانگتا ہوں ترا حق سے مہربان اخلاص
دیکھ لینا ہمکو تیرا یار ہے جب تب غرض
ردیف ضاد معجمہ
ردیف طاء مہملہ
تو ہو گر پاس تو ہے صبح طرب شام نشاط
سر سبز حسن رکھتی ہے تیرا بہار خط
سمجھے تھے ہم جو دوست تجھے اے میاں غلط
چاہنا نفع فرومایہ سے داللہ غلط
یوں ہے طریق عشق میں ہو راست یا غلط
اٹھے نشہ میں محبت کے خط یار سے خط
ردیف ظاء معجمہ
زہے وہ معنی قرآن کہے جو تو واعظ
ردیف عین مہملہ
لطف اس چہریکے آگے کوئی یان رکھتی ہے شمع
مژگان کی گرخلش کا بدل ڈھنگ ہے وسیع
اے لالہ گو فلک نے دیے تجکو چار داغ
آتش ہے میرا بوجھ سمندر نہ درے داغ
نالے سے میں اپنے نہیں اے رشک پری داغ
ردیف غین معجمہ
سرد مہری سے بیان کے مٹ گیا ہے سوز داغ
کس طرح دلمیں چھپاؤں تجکو ہیں سینہ میں داغ
عشق کی ہووے تو ہو ہمکو اسیری کا دماغ
مرضی جو آئی چرخ کی بیداد کیطرف
ردیف فاء
اب ہو تو نہ ہرگز رہے کنعان میں یوسف
مائل تھا بسکہ دل مرا بیداد کیطرف
دیکھوں ہوں یوں میں اس ستم ایجاد کی طرف
بلبل نہ چمن ہے گل گلزار کا عاشق
ردیف قاف
ناصح نہ انسے بک جو ہیں اگاہ راز عشق
رنگ سے چہرے کے رسوا ہوے ہے بیمار عشق
ز ندگی کیو ںہ ہو دے مجھپر شاق
حسن کے بازار میں کیا ہے جزا اشیاے فراق
ردیف کاف
رہے اس فصل ہم اے بلبل وگل ناتواں یا شک
آباد شہر دل تھا اسے شہر یار تک
شمع اس عارض کے سب کہتے ہیں پہونچے نور تک
شاعر ونمیں کب رکھے ہے شیر کی تقریر جنگ
رخ سے دیکھوں ہو نمیں اس زلف سیہ فام تلک
خط آچکا پہ مجسے وہی ڈھنگ اب تلک
پھونک دی ہے عشق کی تب نے ہمارے تنمیں آگ
سنکے یہ بولا خدا کے واسطے کیجئے معاف
میں بتاوں تمکو یار و گر کروتدبیر ایک
رونیکو میرے تابکجا دل سے آے اشک
سنبل وزلف سیہ کا کل وشب چاروں ایک
کب لگ سکے ہے اس سے کوئی رنگ اور نمک
ردیف لام
کرتی ہے مرے دلمیں تری جلوہ گری رنگ
کھینچ شمشیر چاؤ دل کے نکال
پوت پیتے ہیں دردیدہ نمناک کے مول
سخن عشق نہ گوش دل بیتاب میں ڈال
یکدست اک زمانہ جہاں میں لٹاے گل
ہووے نہ ملک عشق سے کم رسم داغ دل
مرا لگتا نہیں اے باغباں تیرے چمن میں دل
جب تو چمن سے گھر کو چلا کرکے دید گل
جاتا ہے دل تو جائیو ہشیار آجکل
ردیف میم
اس چمن کی سیر میں آیار پیوین ملکے مل
سنا ہے اب تو خط آیا ہے کس اسلوب دیکھیں ہم
تیرے ہی دیکھنے کے نہ آوے جو کام چشم
قاتل کے دل سے آہ نہ نکلی ہوس تمام
منہ غرض کفر سے رکھتے ہیں نہ اسلام سے کام
کیا مچائی ان نے میرے دل کے کاشانے میں دھوم
دھن کے سر بولاگئے جب یار کے کاشانہ ہم
لے دیدۂ تر جدھر گئے ہسمہ
ہیں صفا ے بادۂ و درد تہ پیمانہ ہم
عاشق تو نامراد ہیں پراسقدر کہ ہم
خانہ پرور چمن ہیں آخر اے صیاد ہم
اے گل صبا کیطرح پھرے اس چمن میں ہم
پیتا ہوں یاد دوست میں ہر صبح وشام جام
تو کیوں جبلتی رہی بلبل چمن میں دیکھکر شبنم
وہی ہیں دن وہی راتیں وہی فجردوہی شام
ردیف نون
حسن یکتا میں ترے ہر گز دوئی کو رو نہیں
سوتے میں ترے گھر کی طرف رونہ کروں میں
مجھے عاشق نہ بوجھ اپنا جفا کا کب میں حامل ہوں
کرے ہے عشق کی گرمی سے دل آنند آتش میں
لڑیں ہیں کیوں ترے مژگان دابر دیار آپسمیں
خوبوں میں دلدہی کی روش کم بہت ہے یاں
قیس کی آوارگی ہے دلمیں سمجھو تو کہوں
عاشق ترے ہمنے کیے معلوم بہت ہیں
جو بزم بیچ تجھے دیکھکر کے ہٹ جاویں
کردے ہے مہر بدکیں افلاک ایک پل میں
شکل کا ہم نے تمام اپنا کیا تن دامن
یار آزردہ ہوا رات جو مے نوشی میں
پونچھ کر چشم کریں ہم جو فشار دامن
سمجھ کے باندھا تھا آشیان ہم رہیگا بآب وتاب گلشن
چپی اٹھکر میں تجھے رات کروں یا نہ کروں
بلبل تصویر ہوں جوں نقش دیوار چمن
اسی کو چہچہا کہیے جو یہ قلقل ہے شیشے میں
چمن کا لطف سیراور رونق محفل ہے شیشے میں
غم کی مے ہم نے جو شب دلکے بھری شیشے میں
خانۂ دل کہ ہو خون ہونیکا آئیں جسمیں
تجھ بن بچمن ہر خس دہر خار پریشان
کشور عشق میں وہ مرد قدم رکھتے ہیں
گداد ست اہل کرم دیکھتے ہیں
دے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں
لخت جگر آنکھوں سے ہر آن نکلتے ہیں
مست سحرو تو بہ کن شام کا ہوں میں
زندگی محبوب کیا کیا اسمیں ہیں محبوبیاں
عقل اس نادان میں کیا تیرا جودیوانہ نہیں
آپکو تو گو سمجھتا ہے کہ وہ دانا نہیں
کو سونکا نہیں فرق وجود اور عدم میں
تیرے پہلو سے جو مجلس میں ہٹے جاتے ہیں
اتنا ستم نہ کیجے مری جان جان جان
غیر کے پاس یہ اپنا ہی گماں ہے کہ نہیں
جب لبوں پر یار کے مستی کی دھڑیاں دیکھیاں
خاک و خوں میں صورتیں کیا کیا نہ رلیاں دیکھیاں
کہے ہے توبہ یہ زاہد کہ تجکو دین تو نہیں
اسباب سے جہاں کے کچھ اب پاس گو نہیں
ہو جو کچھ ہو سو مجھے بھاگنا ترے در سے کارن کو نہیں
ڈرتے ڈرتے جو ترے کوچے میں آجاتا ہوں
پیارے تمھارا پیار کس انسان پر نہیں
عاشق کی کہے چشم روے بن نر ہوں میں
چشم تر میری سے کیا رکھتی ہے مطلب آستیں
نے بلبل چمن نہ گل نود میدہ ہوں
نگر آباد ہے بسے ہیں گانوں
ملائم ہو گئیں دلپر برہ کی ساعتیں کڑیاں
نہ غنچے گل کے کھلتے ہیں نہ نرگس کی کھلیں کلیاں
داشد ہو خرمی سے یہ کیا حساب تجھ بن
بلبل چمن میں کسکی ہیں یہ بدشرا بیاں
نہ اشک آنکھوں سے بہتے ہیں نہ دل سے اٹھتی ہیں آہیں
باتیں کدھر گئیں وہ تری بھولی بھولیاں
نہ اپنا سوز ہم تجسے بیان جوں شمع کرتے ہیں
تونے سودا کے تئیں قتل کیا کہتے ہیں
عاشق قنا میں اپنے بہبود جانتے ہیں
گلشن میں یار بن مجھے شرب مدام میں
باتیں کتنی ہی نہیں منھ لگنے سے منظور ہمیں
ناوک نے تیرے صید نچھوڑا زمانے میں
جاتا ہوں ترے در سے بس اے یار رہا میں
خلش کروں نہ کسی سے اگرچہ خار ہوں میں
مژہ اس چشم کا کھٹکے ہی دل مفتوں میں
بہار اسکی نہیں لگتی ہے اک پاسنگ آنکھوں میں
دل کو یہ آرزو ہے صبا کوے یار میں
امید ہوگئی کچھ گوشہ گیر سے دل میں
کسنے آرام دے ہے چرخ مینا فام دنیا میں
جی تک تو دیکے لوں جو ہو تو کار گر کہیں
اے خوشا حال ہوا جو کوئی رسواے بتاں
بلبل کہیں پتنگ کہیں اور ہم کہیں
مت پھر تو ساتھ غیر کے آمان ہر کہیں
یاد میاں اب دلمیں ترے دے باتیں نہیں آتی ہیں
جو صبر ہو کے عاشق مرغوب جانتے ہیں
آنکھوں کو ٹک سنبھا لو یہ مارتی ہیں راہیں
اس سروقد کی دوستی میں کچھ ثمر نہیں
آنکھیں بھی اسکی آنکھوں سے کرٹک ملا کریں
طلب میں سلطنت جم کی نہ صبح و شام کرتا ہوں
یہ میں بھی سمجھوں ہوں بارد وہ یار بار نہیں
مجھے معلوم یوں ہوتا ہے میری بھی پھسی آنکھیں
ردیف واو
میں کس کس شعلہ خو کو سینۂ صد چاک دکھلاؤں
دماغ اصلاح دینے کا نہیں کہدو ہلالی کو
ٹکڑے تو ابھی لعل کے دل بیچ دھرے ہیں
حال دل پوچھے ہے کیا مجھ سے مرا اے یار تو
یوں نہ چاہے گا دل آگاہ یہ ہو وہ نہ ہو
چہ بے گنہ چہ گنہگار یہ نہ ہو وہ ہو
لہو اس چشم کا پونچھے سے ناصح بند کیونکر ہو
کر رکھا تیغ نگہ نے دل فگار آئینہ کو
کرے ٹک منفعل کوئی مرے بیدرو قاتل کو
بس ہو تو رکھوں آنکھوں میں اس آفت جانکو
منڈا کر خط تم اپنے حق میں کیوں کانٹی ہے بوتے ہو
بادشاہت دو جہاں کی بھی جو ہودے مجھ کو
شیخ نے اس بت کو جس کو چمیں دیکھا شام کو
دے کے دل ہاتھ سر نہ دھر کر رو
آلودہ زقطرات عرق دیکھ جبیں کو
نہ پوچھ قتل کر نے میں کسو سے بیر ہے اسکو
کیجے نہ اسیری میں اگر ضبط نفس کو
تو نہ ہووے تو شب ہجر دے جینے ہم کو
دیکھ بھلی میں شکاری کی مرے چنگل کو
مرے نامہ کے خاطر مرغ جان سے کون بہتر ہو
خواہی رہ صد سالہ ہو تو خواہ یہیں ہو
خط اسکا سادہ کو حو نکی پرستارونسے مت پوچھو
دلدار اسکو خواہ دل آزار کچھ کہو
بہار باغ ہو مینا ہو جام صہبا ہو
کروں گرم بادیدۂ ترنگاہ
تمھاری فہم میں پیارے جو ہم ہیں غیر پوں سمجھو
ردیف ہاء
گیا ہے جی تو نکل کب سے ہمصفیر دن ساتھ
لینے لگا ہے اب تو مرا نام گاہ گاہ
بار ہادل کو میں سمجھا کے کہا کیا کیا کچھ
کہاں وہ نور کا شمس و قمر میں ہے شعلہ
تجھ حسن کا یوں مجکو مریجان ہے شعلہ
خلقت کے نہ خلق اپنا پایا میں پسندیدہ
غم کا ہے پسر خواندہ اور درد کا پالیدہ
ہے زلف میں دل میرا مت کیجوں تو شانہ
نہیں وہ روے عرقناک جنس آب زدہ
یاں نہ ذرہ ہے چمکتا ہے فقط گرد کے ساتھ
شیخی تھی جام کی سوگئی جان جم کے ساتھ
نیند سے اٹھے ہے جسدم دیکھے ہے تو آئینہ
لٹی مے اٹھ گیا ساقی مرا بھی پر ہو پیمانہ
ہوں سرمۂ کوری سے وہ چشم تر آلودہ
حسن سے اسکے اسے دے ہے خبر آئینہ
لیتا ہے تو کسی کا تو دل لے سمجھ سمجھ
آپہونچ ساقی کہ پھر ایام کب آتے ہیں یہ
مجھ سے پہ لیے پھرنا تلوار بہت تحفہ
غیر پہ نت ہے کرم ہسم پہ ستم واہ واہ
ردیف مثناۃ تحتانی
نہ دے عاشق نہ دے معشوق جن میں ہو نہ کچھ خامی
شیخ تو کعبے کو پہونچے ہے کرامات کی راہ
بولا وہ جسے تیری تصویر نظر آئی
میں تجسے کہ نہیں سکتا سخن اے یار نازک ہے
یار کا جلوہ مرے کیا شہرۂ آفاق ہے
سنگ پر چینی کو ٹپکو صد ا منظور ہے
نہ میں جہاں میں ہوں تیری تو آرزویہ ہے
کیا کہیے جو اس شوخ کی اوقات ہوئی ہے
محیط دل ہوئی اے شوخ تیری چاہ پھرتی ہے
عاشق تھا کبھی تجھ پہ یہ پھر مل تو وہی ہے
جرم کے عفو کی تدبیر بہت اچھی ہے
کیا کہیے اپنا حال جو کچھ ہے سو ہے سو ہے
گذشتہ حسن کا ابتک نشان باقی ہے
کیا کہیے وہ بت آہ کس آئین نمکین ہے
دل جنس فروشندۂ بازار ہنر ہے
نکل پہلو سے میرا دل جو تیری کو میں بیٹھا ہے
پھوٹے وہ آنکھ جسمیں نہ ذرہ بھی نم رہے
ناصح جفا ے عشق اگر میں سہی سہی
اے تڑپ چین تو بسمل کو کہیں تل بھروے
بیمار کی آج اپنے سر شام خبر لے
دنیا تمام گردش افلاک سے بنی
جاتے ہیں لوگ قافلہ کے پیش و پس چلے
جب اس چمن سے چھوڑ کے ہم آشیاں چلے
نہ تیرے پاٹ دامن کا نہ اسکی آستین ڈوبی
دل تو کیا گر طلب جان ترے من میں ٹھہرے
یار جس سے خوش رہے مجکو وہ آئیں چاہیے
یا تو جاتے رہے اے یار ہمیں دنیا سے
کیا کیا تھے چاؤ دلمیں جب آئے تھے عدم سے
چوڑائی میں ٹک اپنے عدو اور بھی جم لے
جبسے دل کی الفت بے پیر دامنگیر ہے
ہے زاہد اعطاے ازل سے خبر مجھے
بیوفائی کیا کہوں دل ساتھ تجھ محبو کی
معتقد ہر گز نہیں ہیں کفر اور اسلام کے
میں تو ملونگانا صحابا تین یہ تینوں جان کے
بے چین جو رکھتی ہے تمھیں چاہ کسو کی
کہوں کیا بات اس بے پیردل کی
وہ غل ہے جسکا موجب تو ہے ورنفہ شور بہتیرے
صورت ہمیں اس مہر کی پہچان اگر آوے
لاکھ طوفان بجہاں ہم کو فلک دکھلاوے
یارب کہیں سے گرمی بازار بھیجدے
جب سے کہ چشم خلق صنم تجسے جالگی
نہ عندلیب گرفتار کو قفس چھوڑیے
مری آنکھوں میں یارو اشک ایسا موج مارے ہے
مجرم ہوں میں تو کہدو مکافات کے لیے
ہمیں کیا لطف ہے منھ دیکھنا وان یار کا اپنے
گرمی اس شعلہ سے ہیہات نہونے پائی
ذرد دل کسکو کہوں میں وہ کہاں ہے تو ہے
ناصحا ہر چند یہ بندہ سبک اطوار ہے
ہر لحظہ اب بہ نشوونما خط یار ہے
جو طبیب اپنا تھا دل اسکا کسی پر زار ہے
تجھ عشق کے مریض کی تدبیر شرط ہے
نہیں جون گل طلب ابر سیا ہے گا ہے
صورت میں میں کہتا نہیں ایسا کوئی کب ہے
دل ہو تو نالہ کر سکے تاثیر سنگ ہے
کچھ یہ بھی پیش وحشت کامل زمین ہے
آتش جو عشق کی ہے سونور بصر میں ہے
ہم آج ایک صنم میں غرور دیکھا ہے
کس سے جا اٹکا ہے دل میرا عجب دیوانہ ہے
ترغیب نکر مجکو دان چلنے کی اے سودا
یان صورت و سیرت سے بت کو نسا خالی ہے
فکر میں ہجر کے دل وصل کا دن کھوتا ہے
نکلکے چوکھٹ سے گھر کی پیارے جو پٹ کے اجھل ٹھٹک رہا ہے
دلا تو یار کو شمس و قمر لگا کہنے
جو ہر کو جوہری اور صراف زر کو پرکھے
نہیں ہے بحث کا طوطی ترا دہن مجھ سے
خورشید و مہ نے پیارے تجھ پر بہ بینوائی
ہم ہیں وارستہ محبت کی مدد گار ی سے
تری آنکھوںنے نرگس سے چمن میں یار ایسی کی
مگروہ دید کو آیا تھا باغ میں گل کے
عارض پہ حسن خط سے دمک کیا ہے نور کی
جدی جدی بہجبان اان بان ہے سبکی
بولو نہ بول شیخ جی ہم سے کڑے کڑے
وہی جہاں میں رموز قلندری جانے
مرے ملنے کی اسکو تب ہوس ہو وے اگر ہو وے
غنچے سے مسکرا کے اسے زار کر چلے
ہمارے کفر کے پہلو سے دین کی راہ یاد آئے
ہر ایک شے میں سمجھ تو ظہور کس کا ہے
سینے میں ہے یوں دل کو ایام گرفتاری
جب ان آنکھوں کا غمزہ بر سر بیداد آتا ہے
نہ نرگس کی پلک تیرے تماشانے ہے جھکوائی
زیست قاتل ہے مری تجھ بن اجل بدنام ہے
یان جو ہوں خاموش سو تیری ندامت کیلئے
نہ غافل رہ زمانے سے بسر لیجا بہشیاری
کیا جانیے کس کس سے نگہ اسکی لڑی ہے
جسکے دل کی تری زلفوں سے میاں لاگ لگے
قدردل سمجھو نہ پھر ہاتھ آئے یہ جب جا چکے
دل اس سینہ میں ہے یا قطرۂ سیماب ہے کیا ہے
خوب واقف ہیں محبت کے وہ سر رشتے سے
چاہنا بزم تعیش کا ہوسنا کی ہے
عاشق کو نہ کر پیار جی سے
غفلت میں زندگی کو نکھو گر شعور ہے
تازہ تعلق نہیں اس دل کو الم سے
پنبہ کو دور کر مرے سینہ کے داغ سے
زمانہ تجسے اگر ہونا ساز کو تو اس سے زمانہ سازی
جب نظر اسکی آن پڑتی ہے
جگ میں تخم شراب ہے دو ہی
دل کسی سے کہ جب پلٹتا ہے
خدا بتوں میں کہاں ہے یہ خلق کا کہ نہو وے
نیمجان ہیں یہ ترے چشم کے بیمار کئی
جان تو حاضر ہے اگر چا ہیے
سن اے فغان جہاں میں عاشق جو ہوگیا
تو ہی کچھ اپنے سر پہ نہ پان خاک کر گئی
مارے کو تیرے زلف کی لاکھوں جتن کئے
اب کی بھی دن بہار کے یوں ہی چلے گئے
وعدۂ لطف وکرم گر نہ وفا کیجئے
جب اپنے بند قبا تمنے جان کھول دیے
ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے
ہر سحر قتل تری چشم کا اک مفتوں ہے
کھوں میں کس سے کہ مطلب مراردا کیجے
ہمت کہاں کہ منت دونان نہ کیجئے
مرے گرعاشق بیکس تو ماتم دار دشمن ہے
گر تجھ می ںہے وفا تو جفا کار کون ہے
اس چال کے نبھنے کا کچھ اسلوب نہیں ہے
سرد گلشن سے نہ کچھ مفتوں ہے
اٹھایا کوہ رستم نے اگر تو سخت نادان ہے
مری آنکھوں میں ہے بستا مجھے تو کیوں رلاتا ہے
دل لیکے ہمارا جو کوئی طالب جان ہے
اردض و سما شفق نے لہو ہو میں بھر دیا ہے
کیا جانیے کہ کس کے دل کا لہو پیا ہے
نسیم ترے کوچے میں در صبا بھی ہے
لینا جو شیشۂ دل منظور ہے تو یہ ہے
سودا جو سنا ہے کسو کوا نام یہی ہے
تو مست اندھیری رات ہے اغیار ساتھ ہے
پرداعبث ہے ہمسے یہ خاطر نشان رہے
چہرہ مریض لب کا ترے زرد ہے سو ہے
ہمیں کسی سے گراظہار درد آتا
درد میرے استخوان کا کیا ترے دمساز ہے
جسدن تری گلی کی طرف ٹک پون بہی
نہیں ممکن اسیر ونکی کوئی فریاد کو پہونچے
گودختر رز عشق میں یاروں کے پلی ہے
کسیکا درد دل پیارے تمھارا ناز کیا سمجھے
منھ لگا دے کون مجکو گرنہ پوچھے تو مجھے
سود جون شمع نہیں گرمی بازار مجھے
اب شہد زندگی کی نہیں ہے ہوس مجھے
ممکن نہ تیر خوردہ تڑپ کر سنبھل سکے
نہ تاب لاسکے خورشید عشق کے تب کی
عشرت سے دو جہاں کے یہ دل ہاتھ دھو سکے
جو بادہ تو نہ پیے جام لالہ ہو نہ سکے
اسقدر ابکی ہوا مست ہے ویرانے کی
مارینگے ایک دو کو یا آپ مرر ہیں گے
مرجان کا نخل ہوں نہ پھلوں برگ وبار سے
تخم گل امید جن اس شورہ زار سے
ہمکو حنا جو قتل کر اب آپ بچ رہی
شکوہ ہے دور ظالم کا کرنا مروّ تون سے
نہ پھول اے آرسی گریاد کو تجھ سے محبت ہے
کوئی کرتار ہے اس سے جو یہ مذکور بہتر ہے
حلقہ تیری زلف کا جب یار منھ کھولے رہے
حیران ہوں شمع کسکے لیے سوز ناک ہے
خشک رہنے سے ہمارا دیدۂ پاک ہے
بلبل نالان ودرد عشق کچھ معقول ہے
نہ مجھ سے کہ کہ چمن میں بہار آئی ہے
خاک پر بھی تیرے دیوانے کی یہ تدبیر ہے
گل پھیکے ہیں اور دن کی طرف بلکہ ثمر بھی
اس دل کی تف آہ سے کب شعلہ بر آوے
بہار بے سپر جام یار گذرے ہے
افعی کو یہ طاقت ہے کہ اس سے بسر آوے
نسیم گر قدم دوستی بجا لاوے
الہی بزم بتان سے وہ شمع ٹل جاوے
بدلا ترے ستم کا کوئی تجھسے کیا کرے
ساق سیمیں تری شب دیکھکے گوری گوری
گوغنچہ سان گرہ میں دلی جمع زر کرے
کافر جو ہو مجھ سا اسے دل اپنے میں جاوے
تجھ تیغ تلے کہ تورستم سے کہ سرد ھردے
دل میں بسنے کی ترے مجکو نپٹ ہے شادی
خط نقص صفائی رخ دلدار نہ ہووے
جسدم وہ صنم سوار ہووے
بھر نظر تجکو ندیکھا کبھو ڈرتے ڈرتے
کیا کیجے ہم سے کچھ بات نہیں بن آتی
اے لالچی تو کیسہ غیروں کا مت ٹٹولے
جون غنچہ تو چمن میں بند قبا کو کھولے
برہمن بت کدے کے شیخ بیت اللہ کے صدقے
اثر سے ہیں تہی نالے تصرف سے ہیں دم خالی
ہر آن یاس بڑھتی ہردم امید گھٹنی
خاتم کے جون نگیں ہمیں کس کام کے لیے
مطلعات
اعجازؔ منھ تکے ہے ترے لب کے کام کا
دل کو تر ہر طرح سے دلا سا دیا کروں
افراد
مدحیات
قصیدہ در نعت حضرت سیّد المرسلین خاتم للنبیین احمد مجتبےٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغاے مسلمانی
مطلع ثانی
عجب نادان ہیں جنکو ہے عجب تاج سلطانی
قصیدہ در نعت ومنقبت حضرت امیر المومنین اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب
چہرۂ مہروش ہے ایک سنبل مشکفام دو
بسان دانۂ روئیدہ ایک بار گرہ
قصیدہ در منقبت شیر بیشۂ شجاعت میر میدان سخاوت حیدر کرار صاحب ذوالفقار
قصیدہ در منقبت حضرت امیر المومنین اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب
در منقبت امیر المومنین اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب صلواٖ اللہ علیہ
زخمی ہیں ترا اور گلستان ہے برابر
اوٹھ گیا بہمن ودے کا چمنستان سے عمل
در منقبت امیر المومین اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب صلواۃ اللہ علیہ
سنگ کو اتنے لیے کرتا ہے پانی آسمان
مناقب حضرت امیر المومنین امام المتقین علی ابن ابی طالب صلوات اللہ علیہ
ایک لب نان کے لیے حیران ہوتے شہر شہر
سو اے خاک نہ کھینچوں گا منت دستار
قصیدہ در منقبت گل گلزار نما نور دیدۂ رسول خدا سرور سینہ علی مرتضیٰ ابا عبد اللہ الحسین صلواۃ اللہ علیہ
زبس ہوا کو تراوت نے وان کیا ہے نثار
قصیدہ در منقبت قرۃ العیون الحسنین اعنی حضرت امام کاظمین صلوٰۃ اللہ علیہ
قصیدہ در مدح قرۃ العین رسول زمان حضرت امام ضامن علی موسی رضا شاہ خراسان
یہ سنگ پاہے یہ دل اے خدا نہیں یہ حنا
ثنا کروں تری ہر وجہ میں قلم آسا
مدح حضرت امام ثامن ضامن علی موسیٰ رضا شاہ خراسان صلوات علیہ وکنایہ وطعن بر شاعر فاخر مکین واکسیر ادستاداو
مستغنی ذاتی نہ مہوس کی ہو تسخیر
عیب پوشی ہو لباس چرک سے کیا ننگ ہے
قصیدہ در منقبت فخردودمان نبوی خلاصۂ خاندان مرتضوی امام عسکری صلوات اللہ علیہ
شمع کا میرے صداے خندۂ گل تنگ ہے
قصیدہ در منقبت خلیفۃ الرحمٰن امام مہدی الہادی آخرالزمان صلوٰۃ اللہ علیہ
جوں غنچہ آسماں نے مجھے بہر عرض حال
چاہے اگر کوئی دو جہاں کا متاع ومال
منکر خلا سے کیوں نہ حکیموں کی ہو ز بان
درمنقبت خلیفۃ الرحمٰن امام مہدی الہادی آخر الزمان صلوات اللہ علیہ السلام وطعن بر شاعر کہ ایراد بر شعر میرزا گرفتہ بود
اے وہ کہ کارجن وبشر تجھ سے ہے روان
اے وہ کہ کارجن وبشر تجھ سے ہے ردان
رکھے ہمیشہ تری تیغ کار کفر۵ تباہ
درستایش مدح ابو العدل عزیز الدین محمد عالمگیر ثانی بادشاہ غازی
ہے استہار تجھسے مرا اے فلک جناب
قصیدہ در ثنای شاہ جم جاہ خسرو فلک بارگاہ عالی گوہر محمد شاہ عالم بہادر شاہ غازی
رانوں میں اسکو صورت سیماب اضطراب
فجر ہوتے جو جو گئی آج مری آنکھ جھپک
قصیدہ در معح نواب وزیر الممالک عماد الملک مدار المہام آصف حاہ نظام الملک بہادر غازی الدنخیان
رنگ رخسار سے شرمندہ کندن کی دمک
تجھسے ممنون نہ فقط ردے زمین پر ہر یک
اسکے گجگاہ کی اللہ رے چہرے پہ لٹک
ایضاً قصیدہ در مدح نواب وزیر الممالک عماد الملک مدار المہام آصف جاہ نظام الملک بہادر
کہے ہے کاتب دوران سے منشی تقدیر
مینے در سخن کو دیا سنگ رنگ ڈھنگ
نہیں ہے معجز عیسیٰ سے کم تری تدبیر
قصیدہ در مدح نواب وزیر الممالک اشجع دوران
دیکھا جو دیر وکعبۂ ہمسنگ رنگ ڈھنگ
مرغ معنی کے اگر صید پر اپنا ہو خیال
دریاے فیض کا ہے ترے ننگ رنگ ڈھنگ
قصیدہ در مدح نواب وزیر الممالک اشجع زمان شجاع الدولہ جلال الدین حیدر بہادر ہر برجنگ
بتمناے جبیں بدر بھی ہوتا ہے ہلال
اشجار کا بستان جہاں کے ہے عجب ڈھنگ
قصیدہ در مدح نواب وزیر الممالک شجاع الدولہ جلال الدین حیدر بہادر ہز برجنگ
رستم کو خبر ہو کہ ترا ادس پہ ہے آہنگ
خون مرے دلمیں نہیں تشنہ ہے گویا تراناز
در مدح نواب وزیر الممالک شجاع الدولہ بہادر ہز بر جنگ
در نہو قطرے سے اے بحر سخا کے ممتاز
ایضاً قصیدہ در تعریف تیروکمان وصفائی شست واصابہ تیر بہدف نواب زیر الممالک
احکام پر ترے نہ کرے کیونکہ کام تیر
درمدح نواب و زیر الممالک جلال الدین حیدر شجاع الدولہ بہادر ہز برجنگ درفتح کردن بحافظ رحمت خان
آیا عمل میں تیغ سے تیرے وہ کار زار
قصیدہ در مدح نواب وزیر الممالک آصف الدولہ یحیی خان بہادر رستم جنگ
گر فلک اب یہ مہر بان ہو وے
کیا قلم کو رقم سے ہے منظور
قصیدہ در مدح نواب وزیر الممالک آصف الدولہ بہادر رستم جنگ
سودا پہ جب جنون نے کیا خواب دخورحرام
قصیدہ در مدح نواب وزیر الممالک آصف الدولہ بہادر رستم جن
اے وہ کہ تیرے عدل کی نسبت نجاص دعام
تیرے سایہ تلے ہے تو وہ نہنت
در مدح نواب وزیر الممالک آصف الدولہ بہادر رستم جنگ
در مدح نواب وزیر الممالک آصف الدولہ بہادر رستم جنگ
صباح عید ہے دل ہے خوشی سے مالا مال
درمبارکباد عید رمضان نواب وزیر الممالک آصف الدولہ
کیا تجھکو سجی مسند دیوان وزارت
قصیدہ در مدح حکیم میر محمد کاظم
علم ظنی ہے طبابت تو یہ سن رکھ ہمدم
صباح عبد ہے اور یہ سخن ہے شہرۂ عام
قصیدہ در مدح نواب سر فراز الدولہ حسن رضا خان بہادر
نسخۂ میر نہیں نقش سے عالم کے کم
تراوہ عدل ہے اے ملجاء تمام انام
قصیدہ در مدح سر فراز الدولہ حسن رضا خان بہادر
عزیر عقل کو سودا کی تھی جدائی شاق
قصیدہ در مدح نواب سیف الدولہ احمد علیخان بہادر پسر سید صلابت خان
برج حمل میں بیٹھ کے خادر کا تاجدار
ترکش لگاکے دینے کو نصیحۂ بہار
موج گہر سپہر اودھر کرکے گذار
ایضاً در مدح سیف الدولہ احمد علی خان بہادر
ہفجوش کا ہو دل تو رہے دہر سے تبنگ
قصیدہ در مدح نواب احمد علیخان سیف الدولہ لسپرسید صلابت خان بہادر
ہے سخن سنج اک جوان متین
کل حرص نام شخصے سودا پہ مہربان ہو
قصیدہ در مدح نواب لسبنت خان خواجہ سرامحمد شاہی
بلبل کو گاہ سنکر انعام بوستان ہو
صحن چمن میں گلگوں گر تیرے زیر ران ہو
تاشیر گردش آج کو کب کی صبح کو
قصیدہ در مدح بسنت خان محمد شاہی
بلبل ہو دانکی بلبل آمل سے دو بدو
طرہ کی تیرے نکہت سنبل میں دیکے بو
اور اس جگہ یوں نظر آیا کہ کیا کہوں
ابر بہار باغ کو تادے یہ شست وشو
شرمندہ ہو جمال میں حوراوسکے رو برو
قصیدہ در نصائح فن شعر وطعن بر شاعری و در مدح مہربان خاں
جب کہے موردتحسین میں اکثر اشعار
سر صفحہ پر آج یوں صبحدم
مثنوی در تعریف شکار کردن نواب آصف الدولہ بہادر
مثنوی در تعریف دیوان واشعار مہر بانخان
صاحبا سیر کے ہیں یہ ابیات
مثنوی در تعریف چاہ مومن خاں
رہ کے دنیا میں کیجئے وہ فکر
کھدا تیرے خاتم تیرا نام
مثنوی در مدح
مدار کا ردو عالم حصول ہر مامول
خسرو اتجھ سا کوئی دو رمان بہم پہونچا تو
دیکھ تجھ شاہ بلند اختر کو بولیں نیک و بد
قطعہ در مدح نواب عمادالملک آصف جاہ
مخمس تضمین غزل حافظ در تعریف بادشاہ زمان
باعندلیب گلشن ایمان برابرست
قصیدہ فارسی درتعریف مسجد نو
ہجویات
مثنوی در ہوج میر ضاحک
ہے عجیب و غریب زیر سما
ترجیع بند در ہجو ضاحک
جاصبا ضاحک سے کہہ بعد از سلام
سن لو ٹک اے نصف انسان نصف خر
پہونچے گر شعراب ترے دفتر تلک
تال سرسے ہے ترا گانا بری
اس اجنہ کو بھی اکثر اے لئیم
تو نہیں سید کیا میں امتحان
یہ تو ہے ممکن جہاں سے تو اٹھے
کیجو مری ہجو تو اے بھڑوے نٹ
ضاحک کی اہلیہ نے جب ڈھول گھر دھرایا
مخمس در ہجو اہلیہ میر ضاحک
مثنوی در ہجو فدوی متوطن پنجاب کہ در اصل بقال بچہ بود
یارد خدا ایک ہے دوسرے برحق بنی
بنیے کا دیوال بند ایک قرضدار تھا
ہجو فدوی پنجابی
شاعر ہوا ہے فدوی کیا شاعرونکا تلا
ہجو فدوی
جسکے گھر آشیان ہو تیرا دہان
فددیا بولے ہے میں ہوں استاد
مان میرا کہا خدا سے ڈر
سن بے الو پہونچ کے ہنگانے
جس جگہ بیٹھکر تو سبز قدم
تیری جس باغ تک صدا جاوے
اے بیابان نحسیت کے غول
جہاں میں کون بناتا ہے الّو بنیے کا
مخمس در ہجو فدوی شاعر
مخمس در ہجو مولوی ندرت کشمیری
شعر ناموزوں سے تو بہتر ہے کہنا ریختہ
مولوی جی سے اب کوئی جاکے میرا پیام دو
مخمس در ہجو مولوی ندرت کشمیری
مسدس در ہجود ختر مولوی ندرت کشمیری
رکھے ہے مولوی دختر کہ دین و دل نیازاو
مخمس در ہجو حلت غراب
قطعہ در ہجو میر محمد تقی
ایک مشفق کے گھر گیا تھا میں
مخمس در جواب طعن میر تقی کہ فی الحقیقہ میر شیخ بودہ است
کر شیخ زبان اپنی مری خبث سے کوتاہ
قصیدہ در ہجو شخصے کہ متعصب بود
کردن چمن میں اگر جاکے میں غزلخوانی
سنا ہے میں یہ کسی نے بمدعاے فساد
سنا ہے میں یہ کسی نے بمدعاے فساد
صیدہ در ہجو مولوی ساجد دربیان آنکہ نیرید علیہ اللغتہ رااولی الامرگفتہ بود
صیدہ در ہجو مولوی ساجد دربیان آنکہ نیرید علیہ اللغتہ رااولی الامرگفتہ بود
قصیدہ شہر آشوب
مکن تو لعن بہ شمر ویزید وابن زیاد
اب سامنے میرے جو کوئی پیرو جوان ہے
کہا میں آج یہ سودا سے کیوں تو ڈانوان ڈول
مخمس شہر آشوب
قصیدہ در ہجو اسپ المسمیٰ بہ تضحیک روز گار
ہے چرخ جب سے ابلق ایام پر سوار
مثنوی در ہجو پیل راجہ نرپت سنگھ
کیا ساقی نے گو مجکو سیہ مست
مثنوی در ہجو شیدی فولاد خان کو توال شاہجہان آباد
مثنوی در ہجو امیر دولتمند بخیل
ہے خدا کا یہ ایک شہۂ نور
مثنوی در ہجو طفل ضائع روزگار لکڑی باز
نالے پر ایک لڑکا رہتا تھا
صدر کے بازار میں ہے اک دبنگ
مثنوی در ہجو حکیم غوث
آہ واو یلا زدست روز گار
مثنوی در ہجو چیخ میرزا فیضو
ساقیا بھر اس مے جادو سے جام
مثنوی بطور ساقی نامہ در ہجو میان فوقی
ہوے پہلے ہی قدم مسکن صنم
قطعۂ تاریخ ہجو شیخ صنعت اللہ کہ کتخدا شدہ بود
عروس شیخ سے پوچھا یہ ایک زاہد نے
مضمون بیت فوقی
یہ وقت صبح مری بلبل طبیعت سے
قطعہ خوش طبعانہ
قطعہ بطریق طنز شاعری گفتہ
دیکھ ملنگ اتیت قلندر ہیں آپسمیں تینوں ایک
حضور میں جو کوئی ہے مقرب الخاقان
قطعہ ہجو عامل خیر آباد
قطعہ دربیان پہرہ
کیا یہ پہرہ ہے کہ ہے سارا جہاں پہرے میں
قطعہ ہجو مرزا فاخر مکین
مین ایک فارسی دان سے کہا کہ اب مجکو
قطعہ ہجو معہ تاریخ
جس بزرگی سے وہ گئے یا نسے
نہیں کلنگ میں حسن آگے سبز وار یکے
کھیت رہنے سے یارو حافظ کے
لے کے جھب جھبے سے ذرارت جب
قطعۂ ہجو
قطعہ در شکست نواب ضابطہ خان
قطعہ در ہجو مرغ سبز واری
مخمس در ہجو شیخ جی
جون گھٹا شادی اٹھی ہے تری گنگھور بنے
مخمس در ہجو
کامل فن سخن کہتے ہیں اسکو اکمل
مخمس در ہجو
آنی کہ طرز فتنہ تو ایجاد کردۂ
مخمس ہجو میر علی ہاتف شاعر الموجب استدعای حکیم آفتاب کہ ہجو حکیم مذکور گفتہ بود
مسدس در ہجو مرزا علی
اک قصہ میں سنا تھا مردم سے یہ قضارا
مخمس در ہجو شمیری
عجب ہے بیحیا آفاق میں یہ قوم کشمیری
وہ ہے سب بخیلوں کا جو افتخار
در ہجو بخیل
تضمین و گرہ بند
مخمس اوّل
چکارہ گران امورون کاتھامین بیچارا
جاے دنیا سے یہ دل اور گرفتاری دل
مخمس دوم تضمین غزل کلیم
مخمس سوم
نہ بلبل ہوں کہ اس گلشن میں سیر گل مجھے بھائے
مخمس چہارم
وہ کون سی گھڑی تھی جب میں لگن لگائی
مخمس نخجم تضمین غزل امیر خسرو
شیخ تو نابود ہووے یا ترا پندار نیست
جب تلک بندگی شیخ میں تھا حلقہ بگوش
مخمس ششم تضمین غزل عصمت بخاری
پسر بعد از پدر گر ینگ ونام آور شود پیدا
مخمس ہفتم تضمین غزل شاہ ناصر علی
یاد ایامی کہ تو قیر جنوں من داشتم
مخمس ہشتم تضمین غزل طالب کلیم
تاخانۂ کس بہر مدارات نہ رفتیم
مخمس نہم تضمین غزل مرزا فاخر مکین
مخمس دہم تضمین غزل مرزا فاخر مکین
ازخویش وزبیگانہ توروپوش نشستی
کہا اس شوخ سے جو طور کے شعلہ کا ہے بھائی
مخمس یارہم
مخمس دوازد ہم
فصل ہے گل کی ہیں جلوے میں بہ بستان گل وصبح
نشو ونماے باغ جہان سے رمیدہ ہوں
مخمس سیز دہم
کوئی اگر کسیکو اذیت دیا کرے
مخمس چہاردہم
مخمس پانزدہم
نہ کہ عاشقون میں محبت کہاں ہے
مخمس شانزدہم
اس شوخ سے اس دل کے لگجانے کو کیا کہیے
ساقی پہونچ کہ وقت تغافل رہا نہیں
مخمس ہفتدہم
تجھ بن ہوا ستم ہے چمن میں بہار کی
ہوا ہے اب کی سوداز ورکیفیت سے دیوانا
مخمس ہیزدہم
مخمس نوزدہم
وہ مہر وہ دفاں عنایات ہوگئی
مخمس بستم
مخمس بست ویکم
ہم کو دکھا جب اپنے تم اطوار رہ گئے
ایک تاریخ جو دیکھی تو پڑھا کیا کیا کچھ
مخمس بست و دوم
مے کشو بحثو ہو کیوں مجھ دل افگار کے ساتھ
مخمس بست وسوم
مخمس بست وچہارم
عیب گو کی جو ہوئی اندنون مجھسے درخورد
تضمین
مخمس بست وپنجم
باغ دلّی میں جو اک روز ہوا میرا گذار
رباعیات
دنیا کی طلب میں دین کھو کر بیٹھے
رباعیات مستزاد
اشتہار
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.