سرورق
فہرست کلیات سودا جلد دوم
قطعۂ مبارک باد وزارت نواب آصف الدولہ بہادر
نوید ژیر فلک یوں ہوئی ہے شہرۂ عام
الٰہی ذات سے تیری جہاں میں
تدبیر شہنشاہی و تقدیر آلہٰی
قطعہ مبارکباد فتح تعریف نواب شجاع الدولہ بہادر
تہنیت وتاریخ
قطعۂ مبارکباد تولد شدن پسر نواب وزیر الممالک آصف الدولہ بہادر
صبحدم آج دل حفلائق کا
یہ روز عید ہے آفاق میں ہے رسم قدیم
قطعہ مبارکباد عید در مدح نواب وزیر الممالک شجاع الدولہ بہادر
یارب کہ جبتک عید قربان ہووے
قطعۂ مبارکباد نوروز
تری محفل میں شمع دولت افروز
قطعہ مبارکباد عید ضحیٰ
مبارکباد مدح نواب وزیر الممالک شجاع الدولہ بہادر
علی الصباح جو نکلا میں بندہ خانہ سے
قطعۂ مبارکباد سالگرہ نواب شجاع الدولہ بہادر
پے شمار ترے عمر سال عالم کے
رہے فلک پہ درخشندگی میں تا میزان
جو سال عمر ازل سے ترے مقررہیں
فلک جناب دریں بحر تاز ابر کرم
قطعۂ مبارکباد سالگرہ نواب اور زیر آصف الدولہ بہادر
مبارکباد سالگرہ نواب احمد خان غالب جنگ بہادر
مبارکباد سا لگرہ نواب احمد خان
قطعۂ مبارکباد سالگرہ نواب احمد خان غالب جنگ بہادر
خدا ہمیشہ رکھے ظل عاطفت کے تلے
تمہاری سالگرہ کی عروس دہر سدا
جہاں میں آب وہوا کی موافقت تجکو
قطعۂ مبارکباد غسل صحت نواب احمد خاں غالب جبنگ بہادر
فلک جناب دربار گاہ پر تیرے
قطعۂ مبارکباد عید در مدح نواب وزیر الممالک نواب عماد الملک بہادر
ہر ایک عید مہ وخورنے سیم وزرلیکر
جہاں میں شادی عید الضحیٰ ہے آجکے دن
قطعۂ مبارکباد عیدالضحیٰ اور مدح نواب شجاع الدولہ بہادر
قطعۂ مبارکباد عید مدح نواب شجاع الدولہ بہادر
برائے نذر جو مرزا حسن رضا خان سے
اے خوشا حال اس کے جو زیر فلک
قطعۂ مبارکباد عیدالضحیٰ در مدح حسن رضا خان
ترے جو یا ہیں اس چمن میں ہم
خوشی جہاں میں ہے عید الضحیٰ کی آجکے روز
قطعۂ در مدح نواب شجاع الدولہ بہادر
جہان میں زیر فلک آج عید قربان ہے
رہے جہاں میں جب تک کہ رسم قربانی
چل قلم کہ حسن رضا خان سے
قطعہ مبارکباد عیداضحیٰ در مدح حسن رضا خان
قطعۂ مبارکباد عید الضحیٰ در مدح حسن رضا خان
قطعۂ عامل شادی
قطعۂ مبارکباد کدخدائی مہربان خان
اہل تخجیم جہاں تک ہیں اب آفاق کے بیچ
مست سب ہیں مے طرب سے آج
صبا اس دوست کو جا تہنیت دے
ٹکیٹ راے مہاراجہ ساخت بستانے
چشمہ از حکم آصف الدولہ
قطعۂ تعریف چاہ
قطعۂ تاریخ باغ بنا کردہ ٹکیٹ رای
قطعۂ وصف مسجد بنا کردۂ آصف الدولہ بہادر
قطعۂ مبارکباد تولدشدن فرزندآصف الدولہ بہادر
مسجد نو بنا بفیض آباد
مبارک باد ایں فرزند دبسند
قطعہ تعریف چاہ
شد بحکم آصف الدولہ بنا
مسجد نور براے صوم وصلواۃ
قطعۂ تعریف مسجد
نغزیات
پہیلی
چھپی رہے پردے میں ناز
پہیلی پسو
عجب طرح کی ہے اک ناز
پہیلی پستان
دھری لپیٹی اگون رہیں
تحفہ دیکھا ہے آج ایک تو رنگ
پہیلی پرچھائیں یعنی سایہ
پہیلی بیڑاپان
ایک پرکھ دو نار کہا دین
پہیلی
پہیلی
دوا سمون کی ہے اک چیز
یا الٰہی کہوں اب کس سے میں اپنا احوال
واسوخت
مناظر فطرت
ہوتی ہے دنیا میں جو کچھ تحفہ چیز
مثنوی تعریف چھڑی
مثنوی موسم گرما
کیوں ہوا اسقدر ہے عالم سوز
سردی ابکی برس ہے اتنی شدید
مثنوی یازدہم در ہجو موسم سرما
اخلاقیات
قطعۂ کہ درسوال بادشاہ وجواب درویش گوشہ نشیں بے پرواکہ ترک دنیا کردہ بود
یوں سنا ہے کہ ایک خسرو عصر
سحر تصنیف سودا سے مغنی
کہا کلام یہ سودا سے ایک عاقل نے
مسدس
قطعہ بطور پند
ایک عاقل نے یہ سودا سے کہا از سر پند
صبحدم کو جو چمن میں اسوداؔ کا گذار
رات آیا وہ صنم سنکے مجھے زارو نزار
مثنویات
مرا دل نام پراس کے ہے شیدا
در تو حید جناب باری
خدا یادے تو اپنے عشق کا درد
مثنوی قصۂ در عشق پسر شیشہ گربزرگر پسر بطور ساقی نامہ و دیگر حکایت
در نعت سید المرسلین صلعم
محمد باعث ایجاد افلاک
علی برحق امام رہنما ہے
در مناقب حضرت امیر المومنین حیدر کرار
درفصل موسم بہار
پہونچ ساقی کہ اب دل کو نہیں صبر
قصۂ درویش کہ ارادۂ زیارت کعبہ کردہ بود
حکایت ہے کہ اک عابد بآفاق
حکایت پسر شیشہ گر کہ درحلب بوداز سبب قضا وقدر اوبر پسر زرگر عاشق و فریفتہ گردید
الااے ساقی میخانۂ عشق
بسبب جوش عشق بیقرار ارشدن پسر شیشہ گر بجانب صحرار فتن از خانماں آوارہ شدن وآگاہ شدن پدر وتجسس کردن
پہونچ ساقی تو لیکر بادۂ درد
ازجوش عشق آوارہ شدن از خانہ پسر شیشہ گردرشب سوئے صحراو آگاہ شدن پدر ومادر وتجسس کردن آنہا
گھر آجان دل محزون مادر
پلا ساقی شراب آتش آمیز
ظاہر شدن عشق ادبر ہمگنان وبیرون رفتن از خانہ بطرف زرگرپسر
ملاقات کردن زرگر پسر از پسر شیشہ گر بخجدب محبت وکشش عشق عاشق ومعشوق
الا اے ساقی فرخندہ فرجام
دربیان دعائیہ مدح شاہ عالم پادشاہ ظل اللہ ونواب وزیر الممالک آصف الدولہ بہادر
پہونچ اے ساقی میخانۂ ہوش
خان صاحب مشفق والا نشان
مثنوی بطور خط
پہلے پہونچے مری طرف سے سلام
مثنوی چہارم بطور خط
حق تعالے نے بہر صاحب کمال
مثنوی پنجم درمیان معافی بیت مثنوی مولوی روم
حکایت
سنا جاے ہے ایک مہوس کا حال
سنا ہے کہ اک مرد آزاوہ طور
الٰہی شعلہ زن کر آتش دل
بنا آنکہ عشق آموزدل ہے
درحمد باری تعالیٰ
در نعت حضرت سید المرسلین
الااے ساقی فرخندہ فرجام
دربیان مناجات
دربیان شروع حکایت
خدا وندا پے آل پمیبر
الا اے چارہ ساز بادہ نوشان
دربیان تاثیر عشق درویش بدل عروس ومذکورآن
الااے ساقی خمخانۂ عشق
نامہ نوشتن وفرستادن قاصد بطرف مادر وپدر عروس
دبیر واقف تفصیل واجمال
دربیان رخصت شدن عروس بربخش در عشق درویش
الااے ساقی جام مے ناب
الا اے ساقی میخانہ ناز
دربیان رسیدن عروس بمکان درویش وبجاے درویش گوریا فتن وترقیدن قبر ودر آمدن دران عروس
یک مشفق ہیں ہمارے مہربان
مثنوی
تمت القصائد والمثنویات
دیوان فارسی
گر بلکنت واکندتا آن دولعل بستہ را
ایک در چشم بہر صورت تو منظور بیا
تنہا نہ موج خندہ زند بر بقای ما
من بساط عیش خودرا بر نہ چینم تاکجا
خاشاک شمر وم ہمہ اسباب جہانرا
نخورد آب بما ہم دل درویشے ما
چون دل نتواند کہ کند ترک وفا را
زد شعلہ بر دل از نفس سر وداغ ما
کس برون زان کوچہ نتوا نکرداین دلدادہ را
آن شعلہ کہ در خرمن موسیٰ شرراوست
باشد زگریہ ام دل سوزان من در آب
دانم کہ عشق ہمچومنے قابل تو نیست
غم زایام جوانی یاد گارے باندہ است
دانم کہ عشق ہمچومنے قابل تو نیست
غم زایام جوانی یاد گارے ماندہ است
سدّرہش زمانہ چو جنہا نمیگذاشت
ساختم ازحال دل آگاہ دیار ازدست رفت
سخن زما بجہاں وزدیگر ان گہرست
افسوس پائے عیش جہانرا قیام نیست
بچہرہ راہ خط مشکبار نتوان بست
جو ہر آئینہ از تاب رخش سوختہ است
چراروم بگلستان دریں بہار عبث
عشق تو زپر وانۂ ماتا بہ مگس سوخت
شادم اگر بہار دلم یار بشکند
در کشور یکہ ناز وادامی فروختند
در پردہ بما ناز سزاوار تو باشد
شوددلم چو بہدم دو چار نالدد گرید
ہر یکی خواہان دل از جنس خوباں میشود
چوں قدم بیرون زمجلس آن بت بیباک زد
تا کارمن دل شدہ باسلسلہ افتاد
گردنم راچوبآن تیغ سروکار افتد
وردم زود اے تو فزون شد شدہ باشد
نے گلے درباغ رنگ وبوے اودرخواب دمد
عید شد عالمت ثنا خوان باد
آنا نکہ بدست تو دل زار فرد شند
چسیت الفت کیمیا کا ندر حبان شاذ ست شاد
ہر گز نمیر و دز تنش تاکہ جان رود
نے ہمیں زان لعل خند انست طغیان گہر
عشرت مطلب بیاغ تصویر
سودے ازین جہاں خرابی ندید کس
باشد ززہر آب بہ تیغ زبان خلق
درمیکدۂ ماچور رسیدی زحرم باش
از بس زبوے زلف تو گردید خوار مشک
جان ستم رسیدہ من داد خواہ دل
دوست در عشق تو مارا دشمن جان در بغل
بچشم مرد مان از رہگذار سرمہ می آیم
دل راکشید جانان تادر بر تبسم
در قتل گہم آئی ومن روے تو بینم
پار رابر دیدن آئینہ مائل کردم ام
ہر گز مدان بوصل تو بیجا گر یستم
جلوۂ منش بہر جابوددمن می سوختم
ہر گز بجہان ماغم دستارنہ داریم
اگر خاکم کنی یارب بکوے دلربا افتم
زدلم چون آہ آتشناک می آید برون
لالہ بیددوچراغ چہ می بینی تو
اشک از بسکہ گرہ گشتہ مرا برمژگان
بسکہ بریاد قدش بگر تسیم درپای سرو
تلاش مردم دانانہ کردی کاش میکردی
بنا دانی دل مارازدست انداختی رفتی
دارم من آشنائی کزروز آشنا ئے
ہست ازماتیرہ نجتان خوش نما افتادگی
سلام ومراثی
دن سے محشر کے نہیں عالم میں کم یہ چاندرات
سلام
ادب سے بھیجے ہے تجھپر ترا غلام سلام
مرثیہ چاندرات محرم
سلام دیگر
حسین تجکو یہ عرش برین کرے ہے سلام
تجھ پہ رو روجب کہے ابر سیہ پوش السلام
کہیں ہیں ساکن جنت بزیب وزین سلام
بنی کے نور بصر پر کہو درود سلام
سلام
سلام
میں بھیجتا ہوں تجھے فاطمہ کے لال سلام
درۃ التساح ہل اتے پہ سلام
سلام
سلام
اس منبع حیا کو خدا کا سلام ہے
ادب سے دور ہے اسجا پہ اے محرم سلام اپنا
سلام
حسین کی جناب کا جو کوئی غلام ہے
سلام
ہر سحر لیجا ادب سے اے صبا میرا سلام
اے محمد کی دو عالم میں نشانی السلام
مرثیہ حضرت امام حسین علیہ السلام
یار دستم نویہ سنو چرخ کہن کا
مرثیہ امام قاسم
احوال روز گار مورخ لکھا کیا
مرثیہ
مرثیۂ حضرت امام حسین
کہا اساڑھ نے یوں جیٹھ کے مہینے سے
مرثیہ
مرثیۂ دیگر
میں ایک نصاری سے یوں از رہ نادانی
کیا چرخ واژگون کا ستم اب کروں بیان
مرثیہ بجناب حضرت امام حسین
کہا یہ دل کو میں راضی ہے کیوں تو چشم پر نم سے
مرثیہ بجناب حضرت امام حسین وقاسم
جو مجھسے کہتے ہیں کہ مرثیے سوا کچھ اور
مرثیہ بجناب حضرت امام حسین علیہ السلام
مرثیہ بجناب حضرت امام حسین علیہ السلام
نئی یہ شادی بیاہ کی کسکی تونے فلک اٹھائی ہے
مرثیہ بجناب حضرت قاسم
کربلا سے شام ہو کر جب مدینے آئیاں
مرثیہ بجناب حضرت امام حسین
مرثیۂ حضرت امام حسین
بانو کہتی تھیں کہ رن کا قصدمت کر سائیان
آْج وہ دن ہے کہ سب اہل بنان روتے ہیں
مرثیہ بجناب حضرت امام حسین علیہ السلام
بدن پہ زخم ستم رن میں جب اٹھاے حسین
مرثیہ بجناب حضرت امام حسین
جسکو دیکھا زیر فلک سوغم سے آج مگدّر ہے
مرثیۂ حضرت امام حسین
مرثیہ
کیا ہوا ہائے خدا آج حسین مظلوم
چمن میں آئی ہے کیسی یہ رات مری نین سے کوئی نہارے
مرثیہ
مرثیہ منفردہ
کیا نظر بھر بھر کے دیکھو ہو محرم کا ہلال
میں تم سے کیا کہوں یارویہ کیا سحر ہے آج
مرثیہ دیگر سوم
جب کہا ہو کر نبی نے زار امت کے لیے
مرثیہ دیگر
غزیز دروضتہ الشہدامیں ہمنے جو لکھا دیکھا
مرثیہ حضرت
مرثیہ دیگر
آْج روتے ہیں احمد مختار
مرثیۂ مسدّس حضرت امام درزبان پنجاب مع دوہرہ
کوکدی زینب پٹیکے سراد نسادے جہند کہپادن
مرثیہ مسدس دو ہرہ بند
جاؤ بھرے اے بزے قاسم تیری تیری گھر میں رووے
خامہ ام حرفے حکایت می کند
مرثیہ مسدّس
کیا کردن شادی قاسم کا میں احوال رقم
مرثیہ حضرت قاسم مسدس ترکیب بند
مرثیہ مسدس ترکیب بند
کس سے اے چرخ کہوں جاکے تری بیدادی
مرثیۂ دیگر
کرے ہے خامۂ غم یون روایت اب تحریر
کہتا ہے غم ہمیں نہ کسی دم سے پوچھیے
مرثیۂ دیگر
مرثیۂ مربع
رکھتی ہے داغ غم شاہ نمایاں آتش
بنے قاسم کو مٹھدیکے لگا نیکی نہ دی فرصت
مرثیۂ دیگر
مرثیہ
لگا وطن سے جو ہونے رواں حسین غریب
مرثیہ در شہادت فرزندان حضرت مسلم
دیکھکر صبحکو میں مضطرب الحال نسیم
گرد دن پر از خروش وفغان دامصیبتا
مرثیۂ دیگر
مرثیۂ دیگر
ہاے وہ ناتی تمہارا یا بنی
مرثیہ
کہوں کس سے فلک کی بیوفائی
مرثیۂ مفردہ
اے امام زمان واویلا
مرثیہ دیگر
کرتی ہیں بانو یہ زاری یا رسول
غم ہے مجنون حسین و دل عالم واوی
مرثیہ دیگر
مرثیۂ دیگر
گیا گودی میں جب مرجھائے اصغر
مقبول حق ہے جکسو کچھ غم حسین کا ہے
مرثیہ حضرت
مرثیہ حضرت
چرخ کی بد نسقی آج ہوئی ہے اثبات
ہاے وے حیدر کے پیارے کیا ہوئے
مرثیہ حضرت
مرثیہ مربع
شام جب اہل حرم ہو کے گرفتار چلے
سن اے گردوں اگر تو دون نہ ہوتا
مرثیہ مربع
بولے ہیں مرغ چمن آج کہ نالان ہیں ہم
مرثیہ حضرت
یارو سنو تو خالق اکبر کے واسطے
مرثیۂ حضرت
مرثیۂ مربع مستراد
ہے ایک روایت زروایات پرازغم
اشجار غم سے ہوگئے بے برگ و ہر صبا
مرثیۂ حضرت
کافر ان آل محمد پہ ستم کیا کیتا
دیگر مرثیہ مفروہ بزبان دکھنی آمیز
دیکھو چرخ کی بیدادی ہائے
دیگر مرثیہ مفروہ
دیگر مرثیہ مفردہ
اے باد صبا آج وہ سلطان کہاں ہے
اے قوم ٹک سنو تو بھلا ہاے ہاے ہاے
دیگر مرثیۂ مفردہ
دیگر مرثیۂ مفردہ
یارو ایسا خلق پر اب ہے دکھ بھاری
مرثیہ مفرد متزاد
بانو یوں کہتی ہیں سرور کیا ہوا
کہتی ہیں بنتد پیمبر ہاے سرور ہاے ہاے
مرثیہ مفردہ دو ہرہ بند
ان اصغر کی کہتی ہے رو رو بچی کی سوجا نے کو
مرثیۂ مثلث بطریق متزاد
بنت بنی کی پیارے لال ہاے حسینا واے حسین
دیگر مرثیۂ مثلث
مرثیہ مربع
پوچھے ہے تم سے یارو یہ دل جلا کہو تو
دیگر مرثیہ مربع
یارو نہ اپنے خویش و فرزند کو ردؤتم
کس دن اس شادی نے پایا تھا قرار
مرثیۂ دیگر
پہونچ اے ابر کہ مرجھاے شجر حیدر کے
مرثیۂ مربع
جیسے میں دیکھا ہے گردوں پر محرم کا ہلال
مرثیۂ دیگر مربع
کیا ہوا ہاے یہ کام آجکے دن
مرثیۂ دیگر
مرثیۂ دیگر
تشنہ لب سبط پیمبر و ادریغاد ادریغ
مرثیۂ دیگر
غرق خوںمیں تشنہ لب ہے ہے غضب ہےہے غضب
مرثیۂ دیگر حضرت امام
چلا جب کربلا سے شام کو زین العبا تنہا
مرثیہ دیگر
کیوں مضطرب الحال نسیم سحری ہے
مرثیہ حضرت امام
کہتے ہیں رو رو کے زین العابدین
مرثیۂ دیگر
عابدین کہتے ہیں اے پرور دگار
مرثیۂ حضرت
بنت بنی فاطمہ کہتی ہیں اے ذوالجلال
مرثیۂ دیگر حضرت امام
رو دے وہ آل بنی سے جسے محبت ہے
مرثیۂ حضرت امام
مرثیۂ دیگر حضرت امام
کہا سرور نے زینب سے سکینہ اب تمہاری ہے
کہے ہے فاطمہ رو کے یارب اپنا حال
مرثیہ حضرت امام
مرثیہ حضرت
شام سے وہ قافلہ جس دم مدینے کو چلا
کہتے ہیں بانو پیٹ کے سر کو اصغر میرا ہر گئے لو
مرثیہ حضرت امام
سن لو محبان لندن جگ کے خون نین سے جاری ہے
مرثیۂ حضرت امام
کہیں فاطمہ نبی الوری کہو می ںنہ روؤں تو کیا کروں
مرثیہ حضرت امام
کیا میں صبح جو باچشم اشکبار افسوس
مرثیۂ مخمس ترکیب بند
ابر رد نیکو اٹھا ہے آج کہسارونکے بیچ
مرثیہ مخمس ترکیب بند
دل خیر النسا جسدم کراہا
ایضاً مرثیۂ مخمس ترجیع بند حضرت
دلسے جو پوچھا میں اپنے کیوں نہی ںہے تجکو چین
مرثیۂ مخمس ترجیع بند
مرثیہ مخمس ترجیع بند
سمیت ازا اقربا بن میں بلا کے کسکا باسا ہے
مرثیۂ مخمس ترجیع بند
یہ زینب شہ سے کہتی تھی ہمارے بادشاہو تم
کشتہ گرید زجور فلک بے ادبی
مرثیہ مخمس ترجیع بند
مان اصغر کی دن اور رین
مرثیۂ مسدس ترجیع بند
سنو محبوبات کہوں میں تم سے روؤ
مرثیہ مسدس دو ہرہ بند
مرثیۂ مسدّس زبان پوربی آمیز دو ہرہ بند
کاسین کہیے بات کون من کے بوجھے
عابد کہتے ہیں یہ سب سے
مرثیہ دو ازدہ مصرع مع دوہرہ
اپنا کوئی یار نہ یاور
اور علی کا میں ہوں پوتا
اصغر تجکو گود کھلاؤں
کون پیادہ راہ چلا تھا
کون گھڑی وہ بیاہ رچایا
کیونکر شہر مدینے جاویں
جتنے بھائی جان تھے میرے
جیتوں کی تو بھوک نجانی
پھر نہ کسی نے مجھے دکھایا
وہ بایا جس کو پیغمبر
ہو جو محب ہمارا کوئی
گردوں کو اب یہ خوش آیا
اعتراضات
قصیدہ
کیا حضرت سودانے کی اے مصحفی تقصیر
مضمون شعر مصحفی
سودا کے تئیں کہتے ہیں تھا شاعر مغلق
شعر مصحفی
مضمون منہ
شانہ پہ نہیں مہر نبوت نہیں کرتا
منہ
بعضے حمقا کا جو پدر ہو وے ہے گا ہے
مصنف
ہے سب یہ تری شاعری اعجوبہ دلیکن
منہ
معنی ستم لفظ سے فریاد کنان ہے
سچ پوچھو تو اردو کی فقط صاف زبان ہے
منہ
ہے میری صفائے سخن آئینہ کے مانند
بے پیر فقط تو ہے کسی کی نہیں تقصیر
مطلع
پکڑی جو لٹورے نے کہیں کھیتی سے چڑیا
ازسودا
تھا سب یہ قصیدونسے ترے نغر قصیدہ
گر باز معانی کا میرے ہووے ہوا گیر
کیا باز معانی ہے ترا خوف سے جسکے
مصحفی
مصنف
مصنف
مصنف
اور باندھوں ہوں جب شست نشانہ سخن کے
لیتا ہوں کمان فکر کی جب ہاتھ میں اپنے
مصحفی
کیا چستی تری فکر کی ہے تیرو کمانیں
مصحفی
مصنف
یہ شست نشانہ پہ جو باندھے ہے سخن کے
مصنف
مصنف
مصحفی
بد فکر کہے جنکو تو شرمندہ انھوں کے
سودا
دیوان کو میرے نہ لگا ہاتھ کہ نادان
تیراونکے کرے فکر رسا کا اسے غربال
مصنف
اعجاز خلیلی کو کوئی پہونچے ہیں وہ لوگ
مصنف
مصحفی
سنتا ہے چھچھورونکے چھچھورے جو یہ تونے
وہ ہاتھ لگاوے نہ انھیں جو تری صورت
مصنف
میرا نہ چھمچھوروں کی طرف روے سخن ہے
مصحفی
مصنف
دیوان کو میرے نہ لگا ہاتھ کہ نادان
سودا سے کہا نغر قصیدہ میں یہی نہ
مصحفی
مصرع کا جو مصرع میں ترے لفظ ہے اے کور
مصنف
سودا
ستغنی ذاتی نہ مہوس کی ہوں تسخیر
مصنف
استاد کو منظور جو اکسیر پہ تھی چوٹ
اشرف علی خان نامی باخلاق مہذب
شروع مناظرہ میر زارفیع السودا بافاخر مکیں واحوال بقا
کی اسنے رسالہ کی غرض پانچ ہیں فصلیں
دربیان رسالہ عبرۃ الغافلین
عبرۃ الغافلین
حضرت امیر خسرو علیہ الرحمۃ
تو بدین خوبی ومن عاشق وانگہ زتودور
مولوی جامی علیہ الرحمۃ
سرود مجلس دردست آہ ونالۂ ما
سعدی علیہ الرحمۃ
مولانای روم علیہ الرحمۃ
برمن کہ صبوحی زدہ ام خرقہ حرام است
اے خدا وند یکے یار جفا کارش دہ
آہے سبز واری
نعمت خالغالی
شوداز دیگران در چشم وبرمن دامن افشاند
سفائی
بخون غلطیدن دلہاز بیداد تومی باشد
مولانا افسری
آئی وبگذری دلمن ہیچ ننگری
شفیعائی اثر
شد گل رویش مگر از روے گل گلرنگ تر
کجا شد آن ہمہ مہرے کہ داشتے اکنون
نہ خطست ابن نمایان گشتہ از طرف بنما گوشش
مرزا صائب
حکیم شیح حسین شہرت
امینای یحفی
نشد ہر گز کسے محسود من از مردم دنیا
میر صید حسین مخاطب بامتیاز خان متخلص بخالص
زشرم آلودہ چشمی زیدہ ام نظارۂ گرمی
اگر میدید سرخ از رنگ پان دندان جانان را
سراج الدین علی خان آرزو
محمد قلی سلیم طشتری
انکہ بر ماگل نمی زدپیش ازیں از دوستی
شرف الدین علی پیام
صبا انیست بامن سینہ صافیہا ازان ترسم
جزعزیز القدر یوسف راگنے ننوشتہ است
مرزا بیدل علیہ الرحمۃ
غنی بیگ قبول
شوکت بخاری
لب یاقوت اوسازدخجل لعل بد خشان را
شیخ محمد علی حزین علیہ الرحمۃ
شیخ آیت اللہ ثنا
سعید اشرف
فتنہ گردان نرگس خونخوار اگر دآوری
حالتے
محسن تاثیر مے فرماید
غنی بیگ
میرزا خلیل
مولوی روم
سرور خان عاقل
شیخ محمد علی خزین علیہ الرحمۃ
اصلاح میرزا فاخر صاحب
ولہ مکین
عاصی می گوید
دلہ مکین
عاصی گوید
ولہ مکین
فصیحی
مکین
ولہ مکین
ولہ مکین
ولہ مکین
شاپور
مکین فاخر
مصرعہ
فاخر مکین
مکین ولہ
مکین ولہ
ولہ مکین میفرماید
مکیں ولہ
ولہ مکین
مکیں ولہ
ولہ
ولہ
رباعی مکیں
شعر عاصی
سبیل ہدایت
سبیل ہدایت
اے بنی کے باطناً رتبے کے والی السلام
متن
شرح
پہلے کہیے اے کرم فرما
گر نہیں جانتے تو سن لواب
مطلب اس ہر سہ شعر سے مخدوم
مرثیہ عن متن
مرثیہ عن شرح
شرح باصلاح
شرح
خاتمہ کتاب
سرورق
فہرست کلیات سودا جلد دوم
قطعۂ مبارک باد وزارت نواب آصف الدولہ بہادر
نوید ژیر فلک یوں ہوئی ہے شہرۂ عام
الٰہی ذات سے تیری جہاں میں
تدبیر شہنشاہی و تقدیر آلہٰی
قطعہ مبارکباد فتح تعریف نواب شجاع الدولہ بہادر
تہنیت وتاریخ
قطعۂ مبارکباد تولد شدن پسر نواب وزیر الممالک آصف الدولہ بہادر
صبحدم آج دل حفلائق کا
یہ روز عید ہے آفاق میں ہے رسم قدیم
قطعہ مبارکباد عید در مدح نواب وزیر الممالک شجاع الدولہ بہادر
یارب کہ جبتک عید قربان ہووے
قطعۂ مبارکباد نوروز
تری محفل میں شمع دولت افروز
قطعہ مبارکباد عید ضحیٰ
مبارکباد مدح نواب وزیر الممالک شجاع الدولہ بہادر
علی الصباح جو نکلا میں بندہ خانہ سے
قطعۂ مبارکباد سالگرہ نواب شجاع الدولہ بہادر
پے شمار ترے عمر سال عالم کے
رہے فلک پہ درخشندگی میں تا میزان
جو سال عمر ازل سے ترے مقررہیں
فلک جناب دریں بحر تاز ابر کرم
قطعۂ مبارکباد سالگرہ نواب اور زیر آصف الدولہ بہادر
مبارکباد سالگرہ نواب احمد خان غالب جنگ بہادر
مبارکباد سا لگرہ نواب احمد خان
قطعۂ مبارکباد سالگرہ نواب احمد خان غالب جنگ بہادر
خدا ہمیشہ رکھے ظل عاطفت کے تلے
تمہاری سالگرہ کی عروس دہر سدا
جہاں میں آب وہوا کی موافقت تجکو
قطعۂ مبارکباد غسل صحت نواب احمد خاں غالب جبنگ بہادر
فلک جناب دربار گاہ پر تیرے
قطعۂ مبارکباد عید در مدح نواب وزیر الممالک نواب عماد الملک بہادر
ہر ایک عید مہ وخورنے سیم وزرلیکر
جہاں میں شادی عید الضحیٰ ہے آجکے دن
قطعۂ مبارکباد عیدالضحیٰ اور مدح نواب شجاع الدولہ بہادر
قطعۂ مبارکباد عید مدح نواب شجاع الدولہ بہادر
برائے نذر جو مرزا حسن رضا خان سے
اے خوشا حال اس کے جو زیر فلک
قطعۂ مبارکباد عیدالضحیٰ در مدح حسن رضا خان
ترے جو یا ہیں اس چمن میں ہم
خوشی جہاں میں ہے عید الضحیٰ کی آجکے روز
قطعۂ در مدح نواب شجاع الدولہ بہادر
جہان میں زیر فلک آج عید قربان ہے
رہے جہاں میں جب تک کہ رسم قربانی
چل قلم کہ حسن رضا خان سے
قطعہ مبارکباد عیداضحیٰ در مدح حسن رضا خان
قطعۂ مبارکباد عید الضحیٰ در مدح حسن رضا خان
قطعۂ عامل شادی
قطعۂ مبارکباد کدخدائی مہربان خان
اہل تخجیم جہاں تک ہیں اب آفاق کے بیچ
مست سب ہیں مے طرب سے آج
صبا اس دوست کو جا تہنیت دے
ٹکیٹ راے مہاراجہ ساخت بستانے
چشمہ از حکم آصف الدولہ
قطعۂ تعریف چاہ
قطعۂ تاریخ باغ بنا کردہ ٹکیٹ رای
قطعۂ وصف مسجد بنا کردۂ آصف الدولہ بہادر
قطعۂ مبارکباد تولدشدن فرزندآصف الدولہ بہادر
مسجد نو بنا بفیض آباد
مبارک باد ایں فرزند دبسند
قطعہ تعریف چاہ
شد بحکم آصف الدولہ بنا
مسجد نور براے صوم وصلواۃ
قطعۂ تعریف مسجد
نغزیات
پہیلی
چھپی رہے پردے میں ناز
پہیلی پسو
عجب طرح کی ہے اک ناز
پہیلی پستان
دھری لپیٹی اگون رہیں
تحفہ دیکھا ہے آج ایک تو رنگ
پہیلی پرچھائیں یعنی سایہ
پہیلی بیڑاپان
ایک پرکھ دو نار کہا دین
پہیلی
پہیلی
دوا سمون کی ہے اک چیز
یا الٰہی کہوں اب کس سے میں اپنا احوال
واسوخت
مناظر فطرت
ہوتی ہے دنیا میں جو کچھ تحفہ چیز
مثنوی تعریف چھڑی
مثنوی موسم گرما
کیوں ہوا اسقدر ہے عالم سوز
سردی ابکی برس ہے اتنی شدید
مثنوی یازدہم در ہجو موسم سرما
اخلاقیات
قطعۂ کہ درسوال بادشاہ وجواب درویش گوشہ نشیں بے پرواکہ ترک دنیا کردہ بود
یوں سنا ہے کہ ایک خسرو عصر
سحر تصنیف سودا سے مغنی
کہا کلام یہ سودا سے ایک عاقل نے
مسدس
قطعہ بطور پند
ایک عاقل نے یہ سودا سے کہا از سر پند
صبحدم کو جو چمن میں اسوداؔ کا گذار
رات آیا وہ صنم سنکے مجھے زارو نزار
مثنویات
مرا دل نام پراس کے ہے شیدا
در تو حید جناب باری
خدا یادے تو اپنے عشق کا درد
مثنوی قصۂ در عشق پسر شیشہ گربزرگر پسر بطور ساقی نامہ و دیگر حکایت
در نعت سید المرسلین صلعم
محمد باعث ایجاد افلاک
علی برحق امام رہنما ہے
در مناقب حضرت امیر المومنین حیدر کرار
درفصل موسم بہار
پہونچ ساقی کہ اب دل کو نہیں صبر
قصۂ درویش کہ ارادۂ زیارت کعبہ کردہ بود
حکایت ہے کہ اک عابد بآفاق
حکایت پسر شیشہ گر کہ درحلب بوداز سبب قضا وقدر اوبر پسر زرگر عاشق و فریفتہ گردید
الااے ساقی میخانۂ عشق
بسبب جوش عشق بیقرار ارشدن پسر شیشہ گر بجانب صحرار فتن از خانماں آوارہ شدن وآگاہ شدن پدر وتجسس کردن
پہونچ ساقی تو لیکر بادۂ درد
ازجوش عشق آوارہ شدن از خانہ پسر شیشہ گردرشب سوئے صحراو آگاہ شدن پدر ومادر وتجسس کردن آنہا
گھر آجان دل محزون مادر
پلا ساقی شراب آتش آمیز
ظاہر شدن عشق ادبر ہمگنان وبیرون رفتن از خانہ بطرف زرگرپسر
ملاقات کردن زرگر پسر از پسر شیشہ گر بخجدب محبت وکشش عشق عاشق ومعشوق
الا اے ساقی فرخندہ فرجام
دربیان دعائیہ مدح شاہ عالم پادشاہ ظل اللہ ونواب وزیر الممالک آصف الدولہ بہادر
پہونچ اے ساقی میخانۂ ہوش
خان صاحب مشفق والا نشان
مثنوی بطور خط
پہلے پہونچے مری طرف سے سلام
مثنوی چہارم بطور خط
حق تعالے نے بہر صاحب کمال
مثنوی پنجم درمیان معافی بیت مثنوی مولوی روم
حکایت
سنا جاے ہے ایک مہوس کا حال
سنا ہے کہ اک مرد آزاوہ طور
الٰہی شعلہ زن کر آتش دل
بنا آنکہ عشق آموزدل ہے
درحمد باری تعالیٰ
در نعت حضرت سید المرسلین
الااے ساقی فرخندہ فرجام
دربیان مناجات
دربیان شروع حکایت
خدا وندا پے آل پمیبر
الا اے چارہ ساز بادہ نوشان
دربیان تاثیر عشق درویش بدل عروس ومذکورآن
الااے ساقی خمخانۂ عشق
نامہ نوشتن وفرستادن قاصد بطرف مادر وپدر عروس
دبیر واقف تفصیل واجمال
دربیان رخصت شدن عروس بربخش در عشق درویش
الااے ساقی جام مے ناب
الا اے ساقی میخانہ ناز
دربیان رسیدن عروس بمکان درویش وبجاے درویش گوریا فتن وترقیدن قبر ودر آمدن دران عروس
یک مشفق ہیں ہمارے مہربان
مثنوی
تمت القصائد والمثنویات
دیوان فارسی
گر بلکنت واکندتا آن دولعل بستہ را
ایک در چشم بہر صورت تو منظور بیا
تنہا نہ موج خندہ زند بر بقای ما
من بساط عیش خودرا بر نہ چینم تاکجا
خاشاک شمر وم ہمہ اسباب جہانرا
نخورد آب بما ہم دل درویشے ما
چون دل نتواند کہ کند ترک وفا را
زد شعلہ بر دل از نفس سر وداغ ما
کس برون زان کوچہ نتوا نکرداین دلدادہ را
آن شعلہ کہ در خرمن موسیٰ شرراوست
باشد زگریہ ام دل سوزان من در آب
دانم کہ عشق ہمچومنے قابل تو نیست
غم زایام جوانی یاد گارے باندہ است
دانم کہ عشق ہمچومنے قابل تو نیست
غم زایام جوانی یاد گارے ماندہ است
سدّرہش زمانہ چو جنہا نمیگذاشت
ساختم ازحال دل آگاہ دیار ازدست رفت
سخن زما بجہاں وزدیگر ان گہرست
افسوس پائے عیش جہانرا قیام نیست
بچہرہ راہ خط مشکبار نتوان بست
جو ہر آئینہ از تاب رخش سوختہ است
چراروم بگلستان دریں بہار عبث
عشق تو زپر وانۂ ماتا بہ مگس سوخت
شادم اگر بہار دلم یار بشکند
در کشور یکہ ناز وادامی فروختند
در پردہ بما ناز سزاوار تو باشد
شوددلم چو بہدم دو چار نالدد گرید
ہر یکی خواہان دل از جنس خوباں میشود
چوں قدم بیرون زمجلس آن بت بیباک زد
تا کارمن دل شدہ باسلسلہ افتاد
گردنم راچوبآن تیغ سروکار افتد
وردم زود اے تو فزون شد شدہ باشد
نے گلے درباغ رنگ وبوے اودرخواب دمد
عید شد عالمت ثنا خوان باد
آنا نکہ بدست تو دل زار فرد شند
چسیت الفت کیمیا کا ندر حبان شاذ ست شاد
ہر گز نمیر و دز تنش تاکہ جان رود
نے ہمیں زان لعل خند انست طغیان گہر
عشرت مطلب بیاغ تصویر
سودے ازین جہاں خرابی ندید کس
باشد ززہر آب بہ تیغ زبان خلق
درمیکدۂ ماچور رسیدی زحرم باش
از بس زبوے زلف تو گردید خوار مشک
جان ستم رسیدہ من داد خواہ دل
دوست در عشق تو مارا دشمن جان در بغل
بچشم مرد مان از رہگذار سرمہ می آیم
دل راکشید جانان تادر بر تبسم
در قتل گہم آئی ومن روے تو بینم
پار رابر دیدن آئینہ مائل کردم ام
ہر گز مدان بوصل تو بیجا گر یستم
جلوۂ منش بہر جابوددمن می سوختم
ہر گز بجہان ماغم دستارنہ داریم
اگر خاکم کنی یارب بکوے دلربا افتم
زدلم چون آہ آتشناک می آید برون
لالہ بیددوچراغ چہ می بینی تو
اشک از بسکہ گرہ گشتہ مرا برمژگان
بسکہ بریاد قدش بگر تسیم درپای سرو
تلاش مردم دانانہ کردی کاش میکردی
بنا دانی دل مارازدست انداختی رفتی
دارم من آشنائی کزروز آشنا ئے
ہست ازماتیرہ نجتان خوش نما افتادگی
سلام ومراثی
دن سے محشر کے نہیں عالم میں کم یہ چاندرات
سلام
ادب سے بھیجے ہے تجھپر ترا غلام سلام
مرثیہ چاندرات محرم
سلام دیگر
حسین تجکو یہ عرش برین کرے ہے سلام
تجھ پہ رو روجب کہے ابر سیہ پوش السلام
کہیں ہیں ساکن جنت بزیب وزین سلام
بنی کے نور بصر پر کہو درود سلام
سلام
سلام
میں بھیجتا ہوں تجھے فاطمہ کے لال سلام
درۃ التساح ہل اتے پہ سلام
سلام
سلام
اس منبع حیا کو خدا کا سلام ہے
ادب سے دور ہے اسجا پہ اے محرم سلام اپنا
سلام
حسین کی جناب کا جو کوئی غلام ہے
سلام
ہر سحر لیجا ادب سے اے صبا میرا سلام
اے محمد کی دو عالم میں نشانی السلام
مرثیہ حضرت امام حسین علیہ السلام
یار دستم نویہ سنو چرخ کہن کا
مرثیہ امام قاسم
احوال روز گار مورخ لکھا کیا
مرثیہ
مرثیۂ حضرت امام حسین
کہا اساڑھ نے یوں جیٹھ کے مہینے سے
مرثیہ
مرثیۂ دیگر
میں ایک نصاری سے یوں از رہ نادانی
کیا چرخ واژگون کا ستم اب کروں بیان
مرثیہ بجناب حضرت امام حسین
کہا یہ دل کو میں راضی ہے کیوں تو چشم پر نم سے
مرثیہ بجناب حضرت امام حسین وقاسم
جو مجھسے کہتے ہیں کہ مرثیے سوا کچھ اور
مرثیہ بجناب حضرت امام حسین علیہ السلام
مرثیہ بجناب حضرت امام حسین علیہ السلام
نئی یہ شادی بیاہ کی کسکی تونے فلک اٹھائی ہے
مرثیہ بجناب حضرت قاسم
کربلا سے شام ہو کر جب مدینے آئیاں
مرثیہ بجناب حضرت امام حسین
مرثیۂ حضرت امام حسین
بانو کہتی تھیں کہ رن کا قصدمت کر سائیان
آْج وہ دن ہے کہ سب اہل بنان روتے ہیں
مرثیہ بجناب حضرت امام حسین علیہ السلام
بدن پہ زخم ستم رن میں جب اٹھاے حسین
مرثیہ بجناب حضرت امام حسین
جسکو دیکھا زیر فلک سوغم سے آج مگدّر ہے
مرثیۂ حضرت امام حسین
مرثیہ
کیا ہوا ہائے خدا آج حسین مظلوم
چمن میں آئی ہے کیسی یہ رات مری نین سے کوئی نہارے
مرثیہ
مرثیہ منفردہ
کیا نظر بھر بھر کے دیکھو ہو محرم کا ہلال
میں تم سے کیا کہوں یارویہ کیا سحر ہے آج
مرثیہ دیگر سوم
جب کہا ہو کر نبی نے زار امت کے لیے
مرثیہ دیگر
غزیز دروضتہ الشہدامیں ہمنے جو لکھا دیکھا
مرثیہ حضرت
مرثیہ دیگر
آْج روتے ہیں احمد مختار
مرثیۂ مسدّس حضرت امام درزبان پنجاب مع دوہرہ
کوکدی زینب پٹیکے سراد نسادے جہند کہپادن
مرثیہ مسدس دو ہرہ بند
جاؤ بھرے اے بزے قاسم تیری تیری گھر میں رووے
خامہ ام حرفے حکایت می کند
مرثیہ مسدّس
کیا کردن شادی قاسم کا میں احوال رقم
مرثیہ حضرت قاسم مسدس ترکیب بند
مرثیہ مسدس ترکیب بند
کس سے اے چرخ کہوں جاکے تری بیدادی
مرثیۂ دیگر
کرے ہے خامۂ غم یون روایت اب تحریر
کہتا ہے غم ہمیں نہ کسی دم سے پوچھیے
مرثیۂ دیگر
مرثیۂ مربع
رکھتی ہے داغ غم شاہ نمایاں آتش
بنے قاسم کو مٹھدیکے لگا نیکی نہ دی فرصت
مرثیۂ دیگر
مرثیہ
لگا وطن سے جو ہونے رواں حسین غریب
مرثیہ در شہادت فرزندان حضرت مسلم
دیکھکر صبحکو میں مضطرب الحال نسیم
گرد دن پر از خروش وفغان دامصیبتا
مرثیۂ دیگر
مرثیۂ دیگر
ہاے وہ ناتی تمہارا یا بنی
مرثیہ
کہوں کس سے فلک کی بیوفائی
مرثیۂ مفردہ
اے امام زمان واویلا
مرثیہ دیگر
کرتی ہیں بانو یہ زاری یا رسول
غم ہے مجنون حسین و دل عالم واوی
مرثیہ دیگر
مرثیۂ دیگر
گیا گودی میں جب مرجھائے اصغر
مقبول حق ہے جکسو کچھ غم حسین کا ہے
مرثیہ حضرت
مرثیہ حضرت
چرخ کی بد نسقی آج ہوئی ہے اثبات
ہاے وے حیدر کے پیارے کیا ہوئے
مرثیہ حضرت
مرثیہ مربع
شام جب اہل حرم ہو کے گرفتار چلے
سن اے گردوں اگر تو دون نہ ہوتا
مرثیہ مربع
بولے ہیں مرغ چمن آج کہ نالان ہیں ہم
مرثیہ حضرت
یارو سنو تو خالق اکبر کے واسطے
مرثیۂ حضرت
مرثیۂ مربع مستراد
ہے ایک روایت زروایات پرازغم
اشجار غم سے ہوگئے بے برگ و ہر صبا
مرثیۂ حضرت
کافر ان آل محمد پہ ستم کیا کیتا
دیگر مرثیہ مفروہ بزبان دکھنی آمیز
دیکھو چرخ کی بیدادی ہائے
دیگر مرثیہ مفروہ
دیگر مرثیہ مفردہ
اے باد صبا آج وہ سلطان کہاں ہے
اے قوم ٹک سنو تو بھلا ہاے ہاے ہاے
دیگر مرثیۂ مفردہ
دیگر مرثیۂ مفردہ
یارو ایسا خلق پر اب ہے دکھ بھاری
مرثیہ مفرد متزاد
بانو یوں کہتی ہیں سرور کیا ہوا
کہتی ہیں بنتد پیمبر ہاے سرور ہاے ہاے
مرثیہ مفردہ دو ہرہ بند
ان اصغر کی کہتی ہے رو رو بچی کی سوجا نے کو
مرثیۂ مثلث بطریق متزاد
بنت بنی کی پیارے لال ہاے حسینا واے حسین
دیگر مرثیۂ مثلث
مرثیہ مربع
پوچھے ہے تم سے یارو یہ دل جلا کہو تو
دیگر مرثیہ مربع
یارو نہ اپنے خویش و فرزند کو ردؤتم
کس دن اس شادی نے پایا تھا قرار
مرثیۂ دیگر
پہونچ اے ابر کہ مرجھاے شجر حیدر کے
مرثیۂ مربع
جیسے میں دیکھا ہے گردوں پر محرم کا ہلال
مرثیۂ دیگر مربع
کیا ہوا ہاے یہ کام آجکے دن
مرثیۂ دیگر
مرثیۂ دیگر
تشنہ لب سبط پیمبر و ادریغاد ادریغ
مرثیۂ دیگر
غرق خوںمیں تشنہ لب ہے ہے غضب ہےہے غضب
مرثیۂ دیگر حضرت امام
چلا جب کربلا سے شام کو زین العبا تنہا
مرثیہ دیگر
کیوں مضطرب الحال نسیم سحری ہے
مرثیہ حضرت امام
کہتے ہیں رو رو کے زین العابدین
مرثیۂ دیگر
عابدین کہتے ہیں اے پرور دگار
مرثیۂ حضرت
بنت بنی فاطمہ کہتی ہیں اے ذوالجلال
مرثیۂ دیگر حضرت امام
رو دے وہ آل بنی سے جسے محبت ہے
مرثیۂ حضرت امام
مرثیۂ دیگر حضرت امام
کہا سرور نے زینب سے سکینہ اب تمہاری ہے
کہے ہے فاطمہ رو کے یارب اپنا حال
مرثیہ حضرت امام
مرثیہ حضرت
شام سے وہ قافلہ جس دم مدینے کو چلا
کہتے ہیں بانو پیٹ کے سر کو اصغر میرا ہر گئے لو
مرثیہ حضرت امام
سن لو محبان لندن جگ کے خون نین سے جاری ہے
مرثیۂ حضرت امام
کہیں فاطمہ نبی الوری کہو می ںنہ روؤں تو کیا کروں
مرثیہ حضرت امام
کیا میں صبح جو باچشم اشکبار افسوس
مرثیۂ مخمس ترکیب بند
ابر رد نیکو اٹھا ہے آج کہسارونکے بیچ
مرثیہ مخمس ترکیب بند
دل خیر النسا جسدم کراہا
ایضاً مرثیۂ مخمس ترجیع بند حضرت
دلسے جو پوچھا میں اپنے کیوں نہی ںہے تجکو چین
مرثیۂ مخمس ترجیع بند
مرثیہ مخمس ترجیع بند
سمیت ازا اقربا بن میں بلا کے کسکا باسا ہے
مرثیۂ مخمس ترجیع بند
یہ زینب شہ سے کہتی تھی ہمارے بادشاہو تم
کشتہ گرید زجور فلک بے ادبی
مرثیہ مخمس ترجیع بند
مان اصغر کی دن اور رین
مرثیۂ مسدس ترجیع بند
سنو محبوبات کہوں میں تم سے روؤ
مرثیہ مسدس دو ہرہ بند
مرثیۂ مسدّس زبان پوربی آمیز دو ہرہ بند
کاسین کہیے بات کون من کے بوجھے
عابد کہتے ہیں یہ سب سے
مرثیہ دو ازدہ مصرع مع دوہرہ
اپنا کوئی یار نہ یاور
اور علی کا میں ہوں پوتا
اصغر تجکو گود کھلاؤں
کون پیادہ راہ چلا تھا
کون گھڑی وہ بیاہ رچایا
کیونکر شہر مدینے جاویں
جتنے بھائی جان تھے میرے
جیتوں کی تو بھوک نجانی
پھر نہ کسی نے مجھے دکھایا
وہ بایا جس کو پیغمبر
ہو جو محب ہمارا کوئی
گردوں کو اب یہ خوش آیا
اعتراضات
قصیدہ
کیا حضرت سودانے کی اے مصحفی تقصیر
مضمون شعر مصحفی
سودا کے تئیں کہتے ہیں تھا شاعر مغلق
شعر مصحفی
مضمون منہ
شانہ پہ نہیں مہر نبوت نہیں کرتا
منہ
بعضے حمقا کا جو پدر ہو وے ہے گا ہے
مصنف
ہے سب یہ تری شاعری اعجوبہ دلیکن
منہ
معنی ستم لفظ سے فریاد کنان ہے
سچ پوچھو تو اردو کی فقط صاف زبان ہے
منہ
ہے میری صفائے سخن آئینہ کے مانند
بے پیر فقط تو ہے کسی کی نہیں تقصیر
مطلع
پکڑی جو لٹورے نے کہیں کھیتی سے چڑیا
ازسودا
تھا سب یہ قصیدونسے ترے نغر قصیدہ
گر باز معانی کا میرے ہووے ہوا گیر
کیا باز معانی ہے ترا خوف سے جسکے
مصحفی
مصنف
مصنف
مصنف
اور باندھوں ہوں جب شست نشانہ سخن کے
لیتا ہوں کمان فکر کی جب ہاتھ میں اپنے
مصحفی
کیا چستی تری فکر کی ہے تیرو کمانیں
مصحفی
مصنف
یہ شست نشانہ پہ جو باندھے ہے سخن کے
مصنف
مصنف
مصحفی
بد فکر کہے جنکو تو شرمندہ انھوں کے
سودا
دیوان کو میرے نہ لگا ہاتھ کہ نادان
تیراونکے کرے فکر رسا کا اسے غربال
مصنف
اعجاز خلیلی کو کوئی پہونچے ہیں وہ لوگ
مصنف
مصحفی
سنتا ہے چھچھورونکے چھچھورے جو یہ تونے
وہ ہاتھ لگاوے نہ انھیں جو تری صورت
مصنف
میرا نہ چھمچھوروں کی طرف روے سخن ہے
مصحفی
مصنف
دیوان کو میرے نہ لگا ہاتھ کہ نادان
سودا سے کہا نغر قصیدہ میں یہی نہ
مصحفی
مصرع کا جو مصرع میں ترے لفظ ہے اے کور
مصنف
سودا
ستغنی ذاتی نہ مہوس کی ہوں تسخیر
مصنف
استاد کو منظور جو اکسیر پہ تھی چوٹ
اشرف علی خان نامی باخلاق مہذب
شروع مناظرہ میر زارفیع السودا بافاخر مکیں واحوال بقا
کی اسنے رسالہ کی غرض پانچ ہیں فصلیں
دربیان رسالہ عبرۃ الغافلین
عبرۃ الغافلین
حضرت امیر خسرو علیہ الرحمۃ
تو بدین خوبی ومن عاشق وانگہ زتودور
مولوی جامی علیہ الرحمۃ
سرود مجلس دردست آہ ونالۂ ما
سعدی علیہ الرحمۃ
مولانای روم علیہ الرحمۃ
برمن کہ صبوحی زدہ ام خرقہ حرام است
اے خدا وند یکے یار جفا کارش دہ
آہے سبز واری
نعمت خالغالی
شوداز دیگران در چشم وبرمن دامن افشاند
سفائی
بخون غلطیدن دلہاز بیداد تومی باشد
مولانا افسری
آئی وبگذری دلمن ہیچ ننگری
شفیعائی اثر
شد گل رویش مگر از روے گل گلرنگ تر
کجا شد آن ہمہ مہرے کہ داشتے اکنون
نہ خطست ابن نمایان گشتہ از طرف بنما گوشش
مرزا صائب
حکیم شیح حسین شہرت
امینای یحفی
نشد ہر گز کسے محسود من از مردم دنیا
میر صید حسین مخاطب بامتیاز خان متخلص بخالص
زشرم آلودہ چشمی زیدہ ام نظارۂ گرمی
اگر میدید سرخ از رنگ پان دندان جانان را
سراج الدین علی خان آرزو
محمد قلی سلیم طشتری
انکہ بر ماگل نمی زدپیش ازیں از دوستی
شرف الدین علی پیام
صبا انیست بامن سینہ صافیہا ازان ترسم
جزعزیز القدر یوسف راگنے ننوشتہ است
مرزا بیدل علیہ الرحمۃ
غنی بیگ قبول
شوکت بخاری
لب یاقوت اوسازدخجل لعل بد خشان را
شیخ محمد علی حزین علیہ الرحمۃ
شیخ آیت اللہ ثنا
سعید اشرف
فتنہ گردان نرگس خونخوار اگر دآوری
حالتے
محسن تاثیر مے فرماید
غنی بیگ
میرزا خلیل
مولوی روم
سرور خان عاقل
شیخ محمد علی خزین علیہ الرحمۃ
اصلاح میرزا فاخر صاحب
ولہ مکین
عاصی می گوید
دلہ مکین
عاصی گوید
ولہ مکین
فصیحی
مکین
ولہ مکین
ولہ مکین
ولہ مکین
شاپور
مکین فاخر
مصرعہ
فاخر مکین
مکین ولہ
مکین ولہ
ولہ مکین میفرماید
مکیں ولہ
ولہ مکین
مکیں ولہ
ولہ
ولہ
رباعی مکیں
شعر عاصی
سبیل ہدایت
سبیل ہدایت
اے بنی کے باطناً رتبے کے والی السلام
متن
شرح
پہلے کہیے اے کرم فرما
گر نہیں جانتے تو سن لواب
مطلب اس ہر سہ شعر سے مخدوم
مرثیہ عن متن
مرثیہ عن شرح
شرح باصلاح
شرح
خاتمہ کتاب
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔