فہرست
عرض مرتب
عبد الباری اکیڈمی
انتخاب لاجواب
یاد مجذوب
کلام مجذوب
انتخاب مجذوب
ان کو تونے کیا سے کیا شوق فراداں کر دیا
نہ سمجھا عمر بھر کوئی کہ میں بھی تیرا بسمل تھا
کسی سے سیکھ لے بلبل سراپاداستاں رہنا
جہاں رہنا ہمیں دنیا میں وقف امتحاں رہنا
ہاں مجھے مثل کیمیا خاک میں تو ملائے جا
اداشناس ترا بے زباں نہیں ہوتا
جو آپ چاہیں کہ لےلیں کسی کا مفت میں دل
ہر چیز میں عکس رخ زیبا نظر آیا
رحم کھا کر وہ کبھی جلوہ دکھا بھی دے گا
وہاں بھی کوئی بہہ کر اشک پہونچا ہے مگر اپنا
کچھ نہ پوچھو کیا ہوا کیونکر ہوا
مرے جام ومینا نہیں جام دینا
ادھر دیکھ لینا، ادھر دیکھ لینا
وہ مست ناز آتا ہے ذرا ہشیار ہوجانا
ضبط غم سے کشمکش میں دم رہا
جہاں بدلا تو بدلا تو بھی اے جان جہاں بدلا
گو بلا سے میں تہہ خنجر رہا
نہ دیکھوں گا حسینوں کو ارے تو بہ نہ دیکھو ں گا
جلوہ فرمادیر تک دلبر رہا
جو آنا ہے اوآج کل کرنے والے!
ہمیں نصیب کبھی ہائے! آشیاں نہ ہوا
ضبط الفت نے جو بسمل نہ سنبھالا ہوتا
پڑے اف نہ کمسن حسینوں سے پالا
ہر طرف سر گھما کے دیکھ لیا
زباں ہی پہ ہے بس کلام محبت
جو مجذوبؔ کا ہے کلام محبت
نہ ہو جائے مختل نظام محبت
یہ ہوتا ہے رخصت غلام محبت
چمکنے لگا سر بسر نور ہو کر
وہی آپ کا ہے غلام محبت
دل اسرار فطرت سے معمور ہوکر
کریں گے کر م جب وہ دیکھیں گے عاجز
جب سے بیٹھا ہوں میں راضی بہ مشیت ہو کر
پڑتی ہے وقت جور جبیں پر شکن ہنوز
قلب و جگر میں داغ دار ایک اس طرف ایک اس طرف
توبہ توکر رہا ہوں اب توڑکے جام وشیشہ سب
ہر ہر ادابتوں کی جو قاتل برائے دل
آئینہ بنتا ہے رگڑے لاکھ جب کھاتا ہے دل!
سمجھے بھی کوئی ؟ کس سے کہوں حال زار دل؟
سالک ہیں مگر جذب کا رکھتے ہیں اثر ہم
تو ہی سوچ اے فکر عالی! وصف قامت کیا کریں؟
وفا کرکے اس کا صلا چاہتا ہوں
بیاں ادنیٰ سا فیض بیعت پیر مغاں کردوں
مجھ میں تو سب ہنر سہی تاب تو ضبط کی نہیں
یہ ابر یہ منظر یہ ہوائیں یہ فضائیں
کچھ بھی ہو عشق میں روا اتنی بھی بدظنی نہیں
دیکھ اہل ضبط مطرب پہلو بدل رہے ہیں
گھٹا ہے برق ہے ساقی ہے مے ہے یار نہیں
دل وصل میں بیتاب ہے معلوم نہیں کیوں
سینہ میں جو ہر دم ہے تجلی کا یہ عالم
کوئی جاکر کہے غم کس لیے مہجور کرتے ہیں
کہیں وہ تو دیکھوں نہیں آرہے ہیں
جو ہوں در اصل صورت سے کہاں معلوم ہوتا ہوں
پس پردہ تجھے ہر بزم میں شامل سمجھتے ہیں
یہ کیا ہے ترے ہوتے افسردہ ہے میخانہ
یہ کون آیا کہ دھیمی پڑگئی لو شمع محفل کی
یوں نظر تو مجھ پہ ڈالی جائے گی
کیا کرے اک ساتھ اک دنیا کی ہے آئی ہوئی
زاہدوں پر مکے اچھالی جائے گی
انداز تغافل بھی تو دل کش ہے تمھارا
شیخ کی پگڑی اچھالی جائے گی
گھٹا اٹھی ہے تو بھی کھول زلف عنبریں ساقی
تصور عرش پر ہے وقف سجدہ ہے جبیں میری
جو صورت گیر حسن وعشق کی دنیا کہیں ہوتی
اگر تھوڑی سی حب حق بفیض پیر مل جاتی
نہا کر تو نہ جانے حسن کا عالم ہی کیا ہوگا
جب دل ہی لگا بیٹھے ہر ناز اٹھانا ہے
سوگ میں یہ کس کی شرکت ہو گئی
چپکے سے پاس آکے ذرا مسکرادیئے
نہ دل کا تذکرہ تم میرے رو برو کرتے
جیے یہاں کے لیے یا مرے وہاں کے لیے
جو تیری یاد فرقت میں مری دم ساز بن جائے
کسی کے حسن میں اب عشق شامل ہوتا جاتا ہے
چارہ گر پالا پڑا ہے سخت مشکل سے مجھے
قیامت خیز میرا نعرۂ مستانہ ہوتا ہے
خیر ہے پردہ نشیں کیوں آج قصد بام ہے؟
حقیقت میں تو میخانہ جبھی میخانہ ہوتا ہے
عیاں حال دل بے بیاں ہو رہا ہے
وہ ہو حق اب کہاں؟ افسردہ ہے میخانہ برسوں سے
دلربا پہلو سے اب اٹھ کر جدا ہونے کو ہے
نہ آپ جانب مست شباب دیکھیں گے؟
حضرت دل ! کر لیا اپنا انھیں!!
ان سا کوئی ہمدم کوئی دم ساز نہیں ہے
نہ خلوت میں بھی رہ سکے ہم اکیلے
جی اٹھے مردے تری آواز سے
پارلگ کر بھی ہنوز اے ناخدا! ڈردل میں ہے
ٹکڑے ٹکڑے ترے ہاتھوں یہ مرا دل ہو جائے
کوئی محرم نہیں سب حال مرا راز میں ہے
پابند محبت کبھی آزاد نہیں ہے
میں ہوں اور حشرتک اس در کی جبیں سائی ہے
خزاں کے درد دکھائے فلک ہزار مجھے
بس چلا چل قطع راہ مشق اگر منظور ہے
گم گشتہ حیرت کوئی مجھ سا بھی نہیں ہے
نزع میں کچھ خاطر بیمار کرنا چاہیے
حال میں اپنے مست ہوں غیر کا ہوش ہی نہیں
جہاں میں ہر سو ہے اس کا جلوہ کہاں نہیں ہے کدھر نہیں ہے
کسی اور عالم میں پہنچے ہوئے ہیں
YEAR1957
YEAR1957
فہرست
عرض مرتب
عبد الباری اکیڈمی
انتخاب لاجواب
یاد مجذوب
کلام مجذوب
انتخاب مجذوب
ان کو تونے کیا سے کیا شوق فراداں کر دیا
نہ سمجھا عمر بھر کوئی کہ میں بھی تیرا بسمل تھا
کسی سے سیکھ لے بلبل سراپاداستاں رہنا
جہاں رہنا ہمیں دنیا میں وقف امتحاں رہنا
ہاں مجھے مثل کیمیا خاک میں تو ملائے جا
اداشناس ترا بے زباں نہیں ہوتا
جو آپ چاہیں کہ لےلیں کسی کا مفت میں دل
ہر چیز میں عکس رخ زیبا نظر آیا
رحم کھا کر وہ کبھی جلوہ دکھا بھی دے گا
وہاں بھی کوئی بہہ کر اشک پہونچا ہے مگر اپنا
کچھ نہ پوچھو کیا ہوا کیونکر ہوا
مرے جام ومینا نہیں جام دینا
ادھر دیکھ لینا، ادھر دیکھ لینا
وہ مست ناز آتا ہے ذرا ہشیار ہوجانا
ضبط غم سے کشمکش میں دم رہا
جہاں بدلا تو بدلا تو بھی اے جان جہاں بدلا
گو بلا سے میں تہہ خنجر رہا
نہ دیکھوں گا حسینوں کو ارے تو بہ نہ دیکھو ں گا
جلوہ فرمادیر تک دلبر رہا
جو آنا ہے اوآج کل کرنے والے!
ہمیں نصیب کبھی ہائے! آشیاں نہ ہوا
ضبط الفت نے جو بسمل نہ سنبھالا ہوتا
پڑے اف نہ کمسن حسینوں سے پالا
ہر طرف سر گھما کے دیکھ لیا
زباں ہی پہ ہے بس کلام محبت
جو مجذوبؔ کا ہے کلام محبت
نہ ہو جائے مختل نظام محبت
یہ ہوتا ہے رخصت غلام محبت
چمکنے لگا سر بسر نور ہو کر
وہی آپ کا ہے غلام محبت
دل اسرار فطرت سے معمور ہوکر
کریں گے کر م جب وہ دیکھیں گے عاجز
جب سے بیٹھا ہوں میں راضی بہ مشیت ہو کر
پڑتی ہے وقت جور جبیں پر شکن ہنوز
قلب و جگر میں داغ دار ایک اس طرف ایک اس طرف
توبہ توکر رہا ہوں اب توڑکے جام وشیشہ سب
ہر ہر ادابتوں کی جو قاتل برائے دل
آئینہ بنتا ہے رگڑے لاکھ جب کھاتا ہے دل!
سمجھے بھی کوئی ؟ کس سے کہوں حال زار دل؟
سالک ہیں مگر جذب کا رکھتے ہیں اثر ہم
تو ہی سوچ اے فکر عالی! وصف قامت کیا کریں؟
وفا کرکے اس کا صلا چاہتا ہوں
بیاں ادنیٰ سا فیض بیعت پیر مغاں کردوں
مجھ میں تو سب ہنر سہی تاب تو ضبط کی نہیں
یہ ابر یہ منظر یہ ہوائیں یہ فضائیں
کچھ بھی ہو عشق میں روا اتنی بھی بدظنی نہیں
دیکھ اہل ضبط مطرب پہلو بدل رہے ہیں
گھٹا ہے برق ہے ساقی ہے مے ہے یار نہیں
دل وصل میں بیتاب ہے معلوم نہیں کیوں
سینہ میں جو ہر دم ہے تجلی کا یہ عالم
کوئی جاکر کہے غم کس لیے مہجور کرتے ہیں
کہیں وہ تو دیکھوں نہیں آرہے ہیں
جو ہوں در اصل صورت سے کہاں معلوم ہوتا ہوں
پس پردہ تجھے ہر بزم میں شامل سمجھتے ہیں
یہ کیا ہے ترے ہوتے افسردہ ہے میخانہ
یہ کون آیا کہ دھیمی پڑگئی لو شمع محفل کی
یوں نظر تو مجھ پہ ڈالی جائے گی
کیا کرے اک ساتھ اک دنیا کی ہے آئی ہوئی
زاہدوں پر مکے اچھالی جائے گی
انداز تغافل بھی تو دل کش ہے تمھارا
شیخ کی پگڑی اچھالی جائے گی
گھٹا اٹھی ہے تو بھی کھول زلف عنبریں ساقی
تصور عرش پر ہے وقف سجدہ ہے جبیں میری
جو صورت گیر حسن وعشق کی دنیا کہیں ہوتی
اگر تھوڑی سی حب حق بفیض پیر مل جاتی
نہا کر تو نہ جانے حسن کا عالم ہی کیا ہوگا
جب دل ہی لگا بیٹھے ہر ناز اٹھانا ہے
سوگ میں یہ کس کی شرکت ہو گئی
چپکے سے پاس آکے ذرا مسکرادیئے
نہ دل کا تذکرہ تم میرے رو برو کرتے
جیے یہاں کے لیے یا مرے وہاں کے لیے
جو تیری یاد فرقت میں مری دم ساز بن جائے
کسی کے حسن میں اب عشق شامل ہوتا جاتا ہے
چارہ گر پالا پڑا ہے سخت مشکل سے مجھے
قیامت خیز میرا نعرۂ مستانہ ہوتا ہے
خیر ہے پردہ نشیں کیوں آج قصد بام ہے؟
حقیقت میں تو میخانہ جبھی میخانہ ہوتا ہے
عیاں حال دل بے بیاں ہو رہا ہے
وہ ہو حق اب کہاں؟ افسردہ ہے میخانہ برسوں سے
دلربا پہلو سے اب اٹھ کر جدا ہونے کو ہے
نہ آپ جانب مست شباب دیکھیں گے؟
حضرت دل ! کر لیا اپنا انھیں!!
ان سا کوئی ہمدم کوئی دم ساز نہیں ہے
نہ خلوت میں بھی رہ سکے ہم اکیلے
جی اٹھے مردے تری آواز سے
پارلگ کر بھی ہنوز اے ناخدا! ڈردل میں ہے
ٹکڑے ٹکڑے ترے ہاتھوں یہ مرا دل ہو جائے
کوئی محرم نہیں سب حال مرا راز میں ہے
پابند محبت کبھی آزاد نہیں ہے
میں ہوں اور حشرتک اس در کی جبیں سائی ہے
خزاں کے درد دکھائے فلک ہزار مجھے
بس چلا چل قطع راہ مشق اگر منظور ہے
گم گشتہ حیرت کوئی مجھ سا بھی نہیں ہے
نزع میں کچھ خاطر بیمار کرنا چاہیے
حال میں اپنے مست ہوں غیر کا ہوش ہی نہیں
جہاں میں ہر سو ہے اس کا جلوہ کہاں نہیں ہے کدھر نہیں ہے
کسی اور عالم میں پہنچے ہوئے ہیں
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।