پیش لفظ
تقریظ
فصل گل و طرف جوئبارو لب کشت
ساحل ہے سبزہ زار ہے فصل بہار ہے
ہوئی سحر تو پکارا یہ پیر میے خانہ
آمد سحر ے ندا زمیخانۂ مسا
دیتی ہے اجل کس کو اماں اے ساقی
چوں می نہ دہد اجل اماں اے ساقی
نوروز ہے پھولوں کی طرح جام سنبھال
چوں لالہ بہ نور وز زقدح گیر بدست
ساقی گل وسبزہ بس طربناک شدہ ست
موسم گل میں غم زیست کے سہنے والے
اب ختم کر اے بلبل شید انالے
چوں بلبل مست راہ دربستاں یافت
اسباب تعیش کونہ کر ترک ذرا
ابے دل ہمہ اسباب جہاں خوامستہ گیر
مرنے پہ غسل فرض ہے میرا شراب سے
چوں فوت شوم ببادہ شوئید مرا
ہر روز بر آئم کہ کنم شب توبہ
ہاں عقل یہ کہتی ہے کریں اب توبہ
نو روز کے چھینٹوں پہ ہے غنچوں کی پھبن
چوں ابر بہ نوروز رخ لالہ بشست
ساقی قد حیے کہ کار عالم نفسے ست
ملا جام کہ دنیا ہے تری روبہ زوال
بشگفت شگوفہ مے بیار اے ساقی
پلا تو دے مرے ساقی نئی بہار کے ساتھ
جینے کیلئے عیش کا آئین شراب
ساقیٔ مئے کہنہ یار دیریں من است
سب کہتے ہیں کہ دین کی دشمن ہے شراب
من مے خورم ومخالفاں ازچب وراست
ایں چرخ کہ با کسے نگوید راز
یہ فلک یار بنا اور نہ کسی کا ومساز
یہ دنیا نہیں دل لگانے کے قابل
دنیا نہ مقام گفت ونے جائے نشست
از کبر مدار ہیچ در دل ہو سے
نخوت وکبر سے اس دل کا بچانا ہے بھلا
گردست وہد ز مغز گندم نانے
شغل مے نوشی کا ساماں ہو بیاباں کی بہار
کڑھتا ہے کیوں گناہوں پہ بیکار کیلئے
خیام از بہر گنہ ایں ماتم چسیت
کرتا ہے نئی بستیاں گر تو آباد
گر روئے زمیں بجملہ آباد کنی
پھر زیست کہاں غم کو جو پالا جائے
کفر سے دیں کی حدیں ویسے بہت دور نہیں
از منزل کفرتا بہ دیں یک نفس است
کم کن طمع از جہاں کہ میری خورسند
بے تعلق جو چلا دنیا سے وہ خورسند ہے
ایں کہنہ رباط راکہ عالم نام است
کہنہ سرائے دہر کہ دنیا ہے جسکا نام
اے سوختۂ سوختۂ سوختنی
بد بخت بداعمال گنہگار زمن
ہر غم کو خم مے میں ڈبو کر کاٹیں
عمر ت تا کے یہ خود پر ستی گذرد
آں قصر کہ بہرام درو جام گرفت
بہرام کا جو قصر تھا مشہور روز گار
چھوڑ بھی دے اس غم دنیا کو اور دلشادرہ
چندیں غم بیہودہ محور شادبہ زی
مردانہ در آز خویش پیوند ببر
ٹھکرا دے علائق کو ہر اک الجھن چھوڑ
یہ حسیں سبزہ جسے کرنے چلے ہو پامال
ہر سبزہ کہ برکنار جوئے رستہ است
با یار خوشم جام شراب اولٰی تر
کٹ جائے جو مستی میں وہ ہستی اچھی
دنیا میں فی الحقیقت ہے اصل زندگانی
گر یک نفست ززندگانی گذرد
اس گذرتی ہوئی دنیا کا یہ غم کہا نا کیا
برخیز د و مخور غم جہاں گذراں
عصیاں کا نہیں گرچہ مرے کوئی شمار
ہر چند کہ از گناہ بدبختم وزشت
ساقی قدحیے کہ آنکہ ویں خاک سرشت
ساقی وہ بادہ دے جو ہے میرے سرشت میں
دین ومذہب کے کچھ ہیں ٹھیکیدار
قومے متفکر اند اندر رہ دیں
عشاق کی شوریدہ سری اچھی ہے
عاشق ہمہ روز مست وشیدا بادا
خواہی کہ ترار تبت ابرار رسد
تب ہی ممکن ہے ابرار کا رتبہ پالے
در راہ چناں روکہ سلامت نکنند
راہ چل نہ کراہت سے کریں تجھ کو سلام
چن اپنی دوستی کے لئے کوئی ہوشمند
در راہ خرد بجز خرد امپسند
آنا نکہ زپیش رفتہ انداے ساقی
ہم سے پہلے جو زمانے سے سدھارے ساقی
در عالم جاں بہ ہوش می باید بود
جبتک بھی رہو دہر میں باہوش رہو
کیا اس پہ اختیار ہے ہونے کو ہے جو کل
امر وز ترادست رس فردا نیست
ہشیاری میں افکار زمانہ سے نڈّھال
چوں ہشیارم ازمن طرب پنہاں ست
کب رزق مقدر مںی کچھ دخل ہے بیرونی
چوں رزق تواچہ عدل قسمت فرمود
یک چند بہ کود کی بہ استاد شدیم
علم کی دھاک ہے اور شہرہ استادی ہے
مرد آں نہ بود کہ خلق خوارند اور ا
بدبخت ہے جہاں میں وہ مرد فتنہ جو
بادشمن و دوست فعل نیکو نیکو ست
بہتر ہےجو کچھ تجھ سے بھلائی ہو جائے
کیا جستجو ئے عیش میں در در کی دیکھ بھال
ازہر زہ بہردرے نمی باید تاخت
کچھ سکوں کیلئے دنیا کا احسان نہ ڈھونڈ
اے دل ز زمانہ رسم احساں مطلب
آدرد بہ اصطرارم اوّل بہ وجود
تھی مشیت کے اشارہ پہ ہی سب ہست وبود
کے دن کی بہار یں ہیں یہ کھلی کرپی لے
روزے دوستہ مہلت است میخورمئے ناب
کیوں پھنستا ہے دنیا کی ہو س میں ناداں
گرازپے شہوت و ہوا خواہی رفت
مے خوردن وشاد بودنم آئیں من ست
ہمارے مسلک رندی کی اصل دل شادی
من ہینچ ندانم کہ مرا آنکہ سر شت
دور زخی ہوں کہ بہشتی یہ مجھے کیا معلوم
گر آمدنم بخودہدیے نیا مد مے
ہوتا مختار تو دنیا میں ہی کیوں آتا میں
اجزائے پیالہ کہ درد مے پیوست
نادان ہے مے پی کے جو کوزہ توڑے
خود غرض دہرا کو دور سے بہتر ہے سلام
آں بہ کہ در یں زمانہ کم گیری دوست
قضا وقدر کے رازوں کو کون پاتا ہے
ابرار ازل رانہ تو دانی ونہ من!
شوق جنت کا نہ کچھ شفتگیٔ حور بھلی
گو یند مرا چوسور با حور خوش ست
اے دل زغبار تن اگر پاک شوی
مادی دہر کا تو کس لئے دلدادہ ہے
چوں عہدہ نمی کند کیلئے فردارا
کیا اس کا یقین حشر میں پائیگا شراب
اے آنکہ نتیجۂ چہار وہفتی
تیرا نظام زندگی چرخ نے بھی بدل دیا
مروز کہ نوبت جوانی میں است
ہے جام سے وابستہ جوانی میری
آہنا کہ محیط فضل و آداب شدند
دنیا میں تخم علم وادب جو کہ بوگئے
کچھ عقل نہ امید کا دھوکہ ہے مجھے
چوں زاب وگل آفرید سانع مارا
ہنگامۂ ہستی ہے یہ سب نقش خیال
ایں صورت کون جملہ نقشے ست خیال
ہا ں موسم گل میں جو مرا ساقی گلفام
در فصل بہار اگر بت حور سر شت
یہ جام ہے ہاں روح کو انعام ترا
مے خور کہ مدام راحت روح تو اوست
گلشن میں ہے نوروز کے چھینٹوں سے بہار
ہر چہرہ گل شبنم نور روز خوش است
کل دیکھتا رہا ہے حسیں ایک کو زرکر
دے کوزہ گرے بد یدم اندر بازار
زندگی کا ہے کی اس طرح جو بے کیف جئے
برگیر زخود حساب اگر باخبری
سرمست زمیخانہ گذرد کردم دوش
کل میکدہ کی سمت جو میرا ہوا گذر
زآور دن من بنود گردوں راسود
مجھ کو لا پھینکا تو کیا چرخ نے پایا ہے کمال
دور ہر مرا شراب وشاہد ہوس است
میں کا متوالا ہوں اوساقی گلرو کی ہوس
تا چند اسیر رنگ وبو خواہی شد
اس دہر کی رعنائی سے کیا پانا ہے
یہ امتراج عناصر کا کھیل ہے ہستی
از آتش و باد وآب وخاکیم ہمہ
میے پی کہ یہ سب قلت وکثرت مٹجائے
میے خور کہ زتو قلت و کثرت ببرد
لبر مقرش خاک خفتگاں می بینم
سوئے ہوئے زمانہ کی ہستی کو پاچکے
رنگینئی مزاج میں کس دن کمی ہوئی
ازبادۂ ناب لعل شد گو ھرما
نیکی وبدی کہ درہناد بشر است
انسان کو تقدیر سے کیا چارہ ہے
میں عبد گنہگار ہوں محتاج رضا
من بندۂ عاصیم رضائے تو کجا ست
انے لائق مسجد م نہ در خورد کنشت
میں لائق مسجد ہوں نہ قابل بتخانہ
تاکے زغم زمانہ محزوں باشی
کب تک غم و افکار میں جاں کھومئے گا
دارندہ چوتر کیب طبائع آراست
صناع ازل نے جو یہ پتلے ڈھالے
دورے کہ درد آمدن ور فتن ماست
آنا جانا ہی حقیقت میں ہے اک دور جہاں
موقع ہے نہ کہو وقت کہ فانی ہے جہاں
دریاب کہ از روح جدا خواہی رفت
محشر میں یہ اعمال کا پہل پائینگے
گوبند بہ حشر گفتگو خواہد شد
کیا ستم ارض وسماں دونوں نے ڈھار رکھے ہیں
لے چرخ فلک خرابی از کینۂ تست
عیش کوشی کس لئے جب عمر کا حاصل ہے غم
شادی مطلب کہ حاصل عمر غمے ست
چنداں نجورم شراب کیس بوے شراب
پلا تو اتنی کہ تازہ شباب ہو جائے
دشمن عقل ہے گر حرص کا تو بندہ ہے
گر باخردی تو حرص رابندہ مشو
چوں بادہ خوری زعقل بیگانہ مشو
ذوق مے نوشی میں تو عقل سے بیگانہ بن
گر برفلک دست بدے چوں یزداں
خالق کی طرح ہوتا جو میرا امکاں
اے دل چو نصیب تو ہمہ خوں شدن ست
بربادی ہستی تو بہا نہ ٹھیرا
سیہات کہ ایں حسن مجسم ہیچ ست
یہ حسن یہ انداز جوانی کیا ہے
جب تک بھی ملے جائے نہ توبہ کرنا
تو بہ مکن ازمے اگرت مے باشد
برموجب عقل زندگانی کردن
کب عقل کی تادیب کو تو مانتا ہے
روزے کہ ز توگذشتہ شد یاد مکن
گذرا ہے جو دن اس کو کبھی یاد نہ کر
افسوس کہ نامہ جوانی طے شد
افسوس کہ سر بستہ رہا عم کا راز
یارب تو کریمی و کریمی کرم است
یہ تو بتلا دے تجھے شان کریمی کی قسم
مے خور دن من نہ از برائے طرب است
کب پیتا ہوں میں عیش و مسرت کے لئے
طبقات زمیں سے لیکے تا اوج زحل
از جرم حضیض خاک تا اوج زحل
جبتک ہے تن وجاں میں ترے یک جائی
تادرتن نست استخواں ورگ وپے
مشورہ بکس
پیش لفظ
تقریظ
فصل گل و طرف جوئبارو لب کشت
ساحل ہے سبزہ زار ہے فصل بہار ہے
ہوئی سحر تو پکارا یہ پیر میے خانہ
آمد سحر ے ندا زمیخانۂ مسا
دیتی ہے اجل کس کو اماں اے ساقی
چوں می نہ دہد اجل اماں اے ساقی
نوروز ہے پھولوں کی طرح جام سنبھال
چوں لالہ بہ نور وز زقدح گیر بدست
ساقی گل وسبزہ بس طربناک شدہ ست
موسم گل میں غم زیست کے سہنے والے
اب ختم کر اے بلبل شید انالے
چوں بلبل مست راہ دربستاں یافت
اسباب تعیش کونہ کر ترک ذرا
ابے دل ہمہ اسباب جہاں خوامستہ گیر
مرنے پہ غسل فرض ہے میرا شراب سے
چوں فوت شوم ببادہ شوئید مرا
ہر روز بر آئم کہ کنم شب توبہ
ہاں عقل یہ کہتی ہے کریں اب توبہ
نو روز کے چھینٹوں پہ ہے غنچوں کی پھبن
چوں ابر بہ نوروز رخ لالہ بشست
ساقی قد حیے کہ کار عالم نفسے ست
ملا جام کہ دنیا ہے تری روبہ زوال
بشگفت شگوفہ مے بیار اے ساقی
پلا تو دے مرے ساقی نئی بہار کے ساتھ
جینے کیلئے عیش کا آئین شراب
ساقیٔ مئے کہنہ یار دیریں من است
سب کہتے ہیں کہ دین کی دشمن ہے شراب
من مے خورم ومخالفاں ازچب وراست
ایں چرخ کہ با کسے نگوید راز
یہ فلک یار بنا اور نہ کسی کا ومساز
یہ دنیا نہیں دل لگانے کے قابل
دنیا نہ مقام گفت ونے جائے نشست
از کبر مدار ہیچ در دل ہو سے
نخوت وکبر سے اس دل کا بچانا ہے بھلا
گردست وہد ز مغز گندم نانے
شغل مے نوشی کا ساماں ہو بیاباں کی بہار
کڑھتا ہے کیوں گناہوں پہ بیکار کیلئے
خیام از بہر گنہ ایں ماتم چسیت
کرتا ہے نئی بستیاں گر تو آباد
گر روئے زمیں بجملہ آباد کنی
پھر زیست کہاں غم کو جو پالا جائے
کفر سے دیں کی حدیں ویسے بہت دور نہیں
از منزل کفرتا بہ دیں یک نفس است
کم کن طمع از جہاں کہ میری خورسند
بے تعلق جو چلا دنیا سے وہ خورسند ہے
ایں کہنہ رباط راکہ عالم نام است
کہنہ سرائے دہر کہ دنیا ہے جسکا نام
اے سوختۂ سوختۂ سوختنی
بد بخت بداعمال گنہگار زمن
ہر غم کو خم مے میں ڈبو کر کاٹیں
عمر ت تا کے یہ خود پر ستی گذرد
آں قصر کہ بہرام درو جام گرفت
بہرام کا جو قصر تھا مشہور روز گار
چھوڑ بھی دے اس غم دنیا کو اور دلشادرہ
چندیں غم بیہودہ محور شادبہ زی
مردانہ در آز خویش پیوند ببر
ٹھکرا دے علائق کو ہر اک الجھن چھوڑ
یہ حسیں سبزہ جسے کرنے چلے ہو پامال
ہر سبزہ کہ برکنار جوئے رستہ است
با یار خوشم جام شراب اولٰی تر
کٹ جائے جو مستی میں وہ ہستی اچھی
دنیا میں فی الحقیقت ہے اصل زندگانی
گر یک نفست ززندگانی گذرد
اس گذرتی ہوئی دنیا کا یہ غم کہا نا کیا
برخیز د و مخور غم جہاں گذراں
عصیاں کا نہیں گرچہ مرے کوئی شمار
ہر چند کہ از گناہ بدبختم وزشت
ساقی قدحیے کہ آنکہ ویں خاک سرشت
ساقی وہ بادہ دے جو ہے میرے سرشت میں
دین ومذہب کے کچھ ہیں ٹھیکیدار
قومے متفکر اند اندر رہ دیں
عشاق کی شوریدہ سری اچھی ہے
عاشق ہمہ روز مست وشیدا بادا
خواہی کہ ترار تبت ابرار رسد
تب ہی ممکن ہے ابرار کا رتبہ پالے
در راہ چناں روکہ سلامت نکنند
راہ چل نہ کراہت سے کریں تجھ کو سلام
چن اپنی دوستی کے لئے کوئی ہوشمند
در راہ خرد بجز خرد امپسند
آنا نکہ زپیش رفتہ انداے ساقی
ہم سے پہلے جو زمانے سے سدھارے ساقی
در عالم جاں بہ ہوش می باید بود
جبتک بھی رہو دہر میں باہوش رہو
کیا اس پہ اختیار ہے ہونے کو ہے جو کل
امر وز ترادست رس فردا نیست
ہشیاری میں افکار زمانہ سے نڈّھال
چوں ہشیارم ازمن طرب پنہاں ست
کب رزق مقدر مںی کچھ دخل ہے بیرونی
چوں رزق تواچہ عدل قسمت فرمود
یک چند بہ کود کی بہ استاد شدیم
علم کی دھاک ہے اور شہرہ استادی ہے
مرد آں نہ بود کہ خلق خوارند اور ا
بدبخت ہے جہاں میں وہ مرد فتنہ جو
بادشمن و دوست فعل نیکو نیکو ست
بہتر ہےجو کچھ تجھ سے بھلائی ہو جائے
کیا جستجو ئے عیش میں در در کی دیکھ بھال
ازہر زہ بہردرے نمی باید تاخت
کچھ سکوں کیلئے دنیا کا احسان نہ ڈھونڈ
اے دل ز زمانہ رسم احساں مطلب
آدرد بہ اصطرارم اوّل بہ وجود
تھی مشیت کے اشارہ پہ ہی سب ہست وبود
کے دن کی بہار یں ہیں یہ کھلی کرپی لے
روزے دوستہ مہلت است میخورمئے ناب
کیوں پھنستا ہے دنیا کی ہو س میں ناداں
گرازپے شہوت و ہوا خواہی رفت
مے خوردن وشاد بودنم آئیں من ست
ہمارے مسلک رندی کی اصل دل شادی
من ہینچ ندانم کہ مرا آنکہ سر شت
دور زخی ہوں کہ بہشتی یہ مجھے کیا معلوم
گر آمدنم بخودہدیے نیا مد مے
ہوتا مختار تو دنیا میں ہی کیوں آتا میں
اجزائے پیالہ کہ درد مے پیوست
نادان ہے مے پی کے جو کوزہ توڑے
خود غرض دہرا کو دور سے بہتر ہے سلام
آں بہ کہ در یں زمانہ کم گیری دوست
قضا وقدر کے رازوں کو کون پاتا ہے
ابرار ازل رانہ تو دانی ونہ من!
شوق جنت کا نہ کچھ شفتگیٔ حور بھلی
گو یند مرا چوسور با حور خوش ست
اے دل زغبار تن اگر پاک شوی
مادی دہر کا تو کس لئے دلدادہ ہے
چوں عہدہ نمی کند کیلئے فردارا
کیا اس کا یقین حشر میں پائیگا شراب
اے آنکہ نتیجۂ چہار وہفتی
تیرا نظام زندگی چرخ نے بھی بدل دیا
مروز کہ نوبت جوانی میں است
ہے جام سے وابستہ جوانی میری
آہنا کہ محیط فضل و آداب شدند
دنیا میں تخم علم وادب جو کہ بوگئے
کچھ عقل نہ امید کا دھوکہ ہے مجھے
چوں زاب وگل آفرید سانع مارا
ہنگامۂ ہستی ہے یہ سب نقش خیال
ایں صورت کون جملہ نقشے ست خیال
ہا ں موسم گل میں جو مرا ساقی گلفام
در فصل بہار اگر بت حور سر شت
یہ جام ہے ہاں روح کو انعام ترا
مے خور کہ مدام راحت روح تو اوست
گلشن میں ہے نوروز کے چھینٹوں سے بہار
ہر چہرہ گل شبنم نور روز خوش است
کل دیکھتا رہا ہے حسیں ایک کو زرکر
دے کوزہ گرے بد یدم اندر بازار
زندگی کا ہے کی اس طرح جو بے کیف جئے
برگیر زخود حساب اگر باخبری
سرمست زمیخانہ گذرد کردم دوش
کل میکدہ کی سمت جو میرا ہوا گذر
زآور دن من بنود گردوں راسود
مجھ کو لا پھینکا تو کیا چرخ نے پایا ہے کمال
دور ہر مرا شراب وشاہد ہوس است
میں کا متوالا ہوں اوساقی گلرو کی ہوس
تا چند اسیر رنگ وبو خواہی شد
اس دہر کی رعنائی سے کیا پانا ہے
یہ امتراج عناصر کا کھیل ہے ہستی
از آتش و باد وآب وخاکیم ہمہ
میے پی کہ یہ سب قلت وکثرت مٹجائے
میے خور کہ زتو قلت و کثرت ببرد
لبر مقرش خاک خفتگاں می بینم
سوئے ہوئے زمانہ کی ہستی کو پاچکے
رنگینئی مزاج میں کس دن کمی ہوئی
ازبادۂ ناب لعل شد گو ھرما
نیکی وبدی کہ درہناد بشر است
انسان کو تقدیر سے کیا چارہ ہے
میں عبد گنہگار ہوں محتاج رضا
من بندۂ عاصیم رضائے تو کجا ست
انے لائق مسجد م نہ در خورد کنشت
میں لائق مسجد ہوں نہ قابل بتخانہ
تاکے زغم زمانہ محزوں باشی
کب تک غم و افکار میں جاں کھومئے گا
دارندہ چوتر کیب طبائع آراست
صناع ازل نے جو یہ پتلے ڈھالے
دورے کہ درد آمدن ور فتن ماست
آنا جانا ہی حقیقت میں ہے اک دور جہاں
موقع ہے نہ کہو وقت کہ فانی ہے جہاں
دریاب کہ از روح جدا خواہی رفت
محشر میں یہ اعمال کا پہل پائینگے
گوبند بہ حشر گفتگو خواہد شد
کیا ستم ارض وسماں دونوں نے ڈھار رکھے ہیں
لے چرخ فلک خرابی از کینۂ تست
عیش کوشی کس لئے جب عمر کا حاصل ہے غم
شادی مطلب کہ حاصل عمر غمے ست
چنداں نجورم شراب کیس بوے شراب
پلا تو اتنی کہ تازہ شباب ہو جائے
دشمن عقل ہے گر حرص کا تو بندہ ہے
گر باخردی تو حرص رابندہ مشو
چوں بادہ خوری زعقل بیگانہ مشو
ذوق مے نوشی میں تو عقل سے بیگانہ بن
گر برفلک دست بدے چوں یزداں
خالق کی طرح ہوتا جو میرا امکاں
اے دل چو نصیب تو ہمہ خوں شدن ست
بربادی ہستی تو بہا نہ ٹھیرا
سیہات کہ ایں حسن مجسم ہیچ ست
یہ حسن یہ انداز جوانی کیا ہے
جب تک بھی ملے جائے نہ توبہ کرنا
تو بہ مکن ازمے اگرت مے باشد
برموجب عقل زندگانی کردن
کب عقل کی تادیب کو تو مانتا ہے
روزے کہ ز توگذشتہ شد یاد مکن
گذرا ہے جو دن اس کو کبھی یاد نہ کر
افسوس کہ نامہ جوانی طے شد
افسوس کہ سر بستہ رہا عم کا راز
یارب تو کریمی و کریمی کرم است
یہ تو بتلا دے تجھے شان کریمی کی قسم
مے خور دن من نہ از برائے طرب است
کب پیتا ہوں میں عیش و مسرت کے لئے
طبقات زمیں سے لیکے تا اوج زحل
از جرم حضیض خاک تا اوج زحل
جبتک ہے تن وجاں میں ترے یک جائی
تادرتن نست استخواں ورگ وپے
مشورہ بکس
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।