Sufinama

مسخرے کی بیوی کا قاضی کو فریب دے کر اپنے گھر لے جانا۔ دفترششم

رومی

مسخرے کی بیوی کا قاضی کو فریب دے کر اپنے گھر لے جانا۔ دفترششم

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب

    ایک مسخرہ اپنی مفلسی کو دیکھ کر بیوی سے مخاطب ہوتا اور کہتا کہ جب تمہارے پاس ہتھیار موجود ہیں تو جاؤ شکار کرو تاکہ تمہارے شکار کے تھنوں سے دودھ دوہیں۔ آخر اس کی بیوی قاضی کے پاس یہ شکایت لے کر گئی کہ میں اس بدنیت شوہر سے بیزار ہوں۔

    قاضی نے کہا کہ اس وقت ہمارے محکمے میں بھیڑ بہت ہے۔ اس شکایت کی سماعت کے لئے فرصت نہیں۔ اگر تو میرے مکان پر آئے تو میں اچھی طرح تیری شکایت سنوں گا اور اگر انصاف تیری طرف ہوگا تو اسے سزا دوں گا۔ تو رنجیدہ مت ہو۔ جب مجھے تیرا حال اچھی طرح معلوم ہوجائے گا تو تیرے شوہر کو خوب نرم کرلوں گا۔ عورت نے کہا کہ آپ کے گھر میں تو برے بھلے سب قسم کے لوگ اپنے اپنے قضیے لے کر آتے رہتے ہیں اگر تکلیف نہ ہو تو کسی وقت میرے مکان پر تشریف لے آئیے۔ عورت کے مکر کی انتہا نہیں۔ وہ قاضی بھی ریجھ گیا اور شام کو اس کے مکان پر پہنچا۔ عورت نے دو شمعیں روشن کیں اور مزیدار باتیں شروع کیں۔ قاضی اس نوازش سے اور بھی کھل پڑا۔ مکان بھی خالی تھا اور وہ خوش خوش عورت کے پہلو میں ہو بیٹھا اوراس نزدیکی سے اس کی جان خوش ہونے لگی۔

    عین اس وقت مسخرے نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا فوراً قاضی گھبرا کر اٹھا تاکہ وہاں سے کھسک جائے۔ عورت نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ اگر اس بدبخت حاسد نے آپ کو یہاں سے جاتے دیکھا تو مجھ کو جان سے مارڈالے گا۔ چھپنے کی اور کوئی جگہ بھی نہ تھی ناچار عورت کے گھبرا دینے سے ایک بڑے سے خالی صندوق میں جا چھپا۔ وہ مسخرہ گھر میں آیا اور کہنے لگا، ارے او صرّافہ! تو بہار و خزاں دونوں موسموں میں مجھ پر وبالِ جان ہے۔ میرے پاس کون سی چیز ہے جو تجھ پر قربان نہیں کی پھر بھی تو ہمیشہ شکایت کر کے میرے گناہ سمیٹے رہتی ہے۔ ایک شخص نے مجھ سے کہا ہے کہ تو قاضی کے پاس گئی تھی اور بہت سی جھوٹی شکایتیں کیں۔ مجھ بے گناہ پر تونے زبان درازی کی حد کردی ہے۔ کبھی تو مجھے مفلس بتاتی ہے اور کبھی دیوث کہتی ہے۔ اگر یہ عیب مجھ میں ہیں تو ایک خدا کی طرف سے ہے اور تیری طرف سے ہے۔ سوا اس صندوق کے میرے پاس اب کیا رکھا ہے مگر لوگ جانتے ہیں کہ میں دولت مند ہوں اور اسی گمان کی بنا پر مجھ سے اپنا قرض طلب کرتے ہیں۔ اگر چہ صندوق ظاہر میں بہت خوبصورت ہے لیکن سامان اور سونے چاندی سے بالکل خالی ہے لہٰذا کل اس صندوق کوبازار میں لے جاؤں گا۔ عین چوراہے پر اس کو جلا دوں گا تاکہ ہر مسلمان، عیسائی اور یہودی دیکھ لے کہ اس صندوق میں سوا لعنت کے اور کچھ بھی نہ تھا۔ عورت نے کہا ہائیں میاں خدا کے لیے ایسا نہ کرنا۔ یہ کیا دیوانگی ہے۔ مسخرے نے قسم کھائی کہ میں تو ایساہی کروں گا۔ فوراً ایک رسی لے کر صندوق کو باندھ دیا اور خود انجان ہوگیا۔ صبح سویرے ایک مزدور کو لایا اور فوراً صندوق اس کی پیٹھ پر لاد دیا۔ قاضی مارے تکلیف اور خوف کے حمّال کو پکارنے لگا۔ اس حمّال نے ہر طرف دیکھا کہ یہ آواز کدھر سے آرہی ہے۔ یہ بلانے والا کوئی فرشتہ ہے یا کوئی پری کہ چھپ کر آواز دے رہی ہے۔ جب یہی آواز بار بار آئی اور بڑھتی گئی تو آخر کار پہچانا کہ یہ آواز اور آہ وزاری اس صندق کے اندر سے آرہی تھی۔ ہو نہ ہو اس میں کوئی پوشیدہ ہے۔

    قاضی نے اس واقعہ کی تفصیل بتائی اور کہا کہ اے صندوق لے جانے والے خدا کے لئے محکمۂ قضات میں میری خبر کر اور میرے نائب کو فوراً یہاں بلا تاکہ اس صندوق کو اشرفیاں دے کر خرید لے اور صندوق کو جوں کا توں ہمارے گھر پہنچائے۔ حمّال نے ایک راہ گیر سے کہا کہ محکمۂ قضات کو جاؤ اور نائب قاضی سے یہ واقعہ بیان کرو اور کہہ دو کہ قاضی کی ڈونڈی اب پٹنے والی ہے۔ اپنے کام کو چھوڑ کر فوراً یہاں آؤاور مسخرے سے اس صندوق کو بند کا بند خرید لو۔ رہ گیر گیا اور پیغام پہنچا دیا۔ ادھر مسخرے نے آگ لگائی کہ اب صندوق کو جلا ڈالوں گا۔ سرِ بازار عوام الناس میں ایک جوش و خروش پھیل گیا کہ کیا بات ہے کہ مسخرے نے یہ ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔

    نائب قاضی آیا اور پوچھا کہ صندوق کی کیا قیمت ہے اس نے کہا کہ نو سو سے زیادہ اشرفیاں دیتے ہیں۔ میں ہزار سے نیچے نہیں اتروں گا۔ اگر منظور ہے تو لاؤ، تھیلی کا منہ کھولو۔ نائب نے کہا ارے شرم کر بھلا دیکھتے بھالتے اتنی بڑی رقم پر اس کو کون خریدتا ہے۔ مسخرے نے کہا ہماری فروخت چادرمیں چھپی ہوئی ٹھیک نہیں۔ میں اسے کھول کر دکھاتا ہوں۔ اگر پسند نہ آئے تو نہ خریدو۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ خرید نے کے بعد افسوس کرو۔ نائب نے کہا کہ نہیں نہیں ،بس جانے دو۔ میں اس کو بند ہی خرید لوں گا۔ تو میری بات مان۔ اشرفیوں کی کمی بیشی پر تکرار تو بہت ہوئی۔ مگر بہرحال نائب نے ہزار اشرفیاں دیں اور صندوق خرید لیا۔

    ایک برس کے بعد مسخرہ پھر مفلس ہوا۔ بیوی سے کہا کہ ہوشیارعورت وہی چال پھر چل اور قاضی کے پاس جاکر میری شکایت کر۔ اب کے وہ عورت دوسری عورتوں کے ساتھ قاضی کے پاس پہنچی اور ایک دوسری عورت کو بیچ میں ڈال دیا تاکہ کہیں اس کی آواز قاضی پہچان نہ لے اور اس کو اپنی گزشتہ مصیبت یاد نہ آجائے۔ عورتوں کا ناز وغمزہ تو فتنہ ہے لیکن عورت کی آوا زسے وہ فتنہ سوگنا ہوجاتاہے۔ اگرعورت آواز نہ نکال سکتی تو عورت کے پوشیدہ غمزے بے اثر رہتے۔ قاضی نے شکایت سن کر کہا جا اپنے شوہر کو بلا لا تا کہ تیری شکایت اس کے روبرو سماعت کروں۔ اب مسخرہ جو آیا فوراً قاضی نے پہچان لیا کیوں کہ صندوق کے اندر سے اس کی آواز بھی سن چکا تھا جو صندوق کی خریدوفروخت اور کمی بیشی کے متعلق ہورہی تھی۔

    قاضی نے پوچھا کہ اپنی عورت کا نفقہ کیوں نہیں دتیا؟ مسخرے نے کہا کہ احکامِ شرع کا جان سے غلام ہوں لیکن اگر میں مرجاوںٔ تو کفن کو بھی پیسہ نہیں ۔اس عورت کے چھکّے پنجوں سے مفلس ہوگیا ہوں۔ اس بات سے قاضی اس کو اچھی طرح پہچان گیا اور اس کو اس کا مکر وفریب یاد آگیا۔ قاضی نے کہا کہ وہ چھکّے پنجے میرے ساتھ تو پہلے کھیل چکا ہے۔ جا اب کہیں اور جا کر داؤں لگا۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 233)
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے