Sufinama

سلطان محمود کا ایک رات چوروں کے ساتھ شریک رہنا۔ دفترِششم

رومی

سلطان محمود کا ایک رات چوروں کے ساتھ شریک رہنا۔ دفترِششم

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    ترجمہ : مرزا نظام شاہ لبیب

    ایک رات کو سلطان محمود بھیس بدل کر نکلا اور چوروں کی جماعت کے ساتھ ہوگیا۔ جب کچھ دیر ان کے ساتھ رہا تو انہوں نے پوچھا کہ اے رفیق تو کون ہے؟ بادشاہ نے جواب دیا کہ میں بھی تمہیں میں سے ایک چور ہوں۔ اس پر ایک چور نے کہا بھائیو! آؤ ذرا اپنا اپنا ہنر تو بتاؤ۔ ہر شخص بیان کرے کہ وہ کیا کیا کمال رکھتا ہے۔ ایک نے جواب دیا کہ میرے دونوں کانوں میں عجب کمال ہے کہ کتّا جو بھونکتا ہے تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ لوگ فلاں شخص کی امارت کا کیا چرچا کرتے ہیں۔ دوسرے نے کہا میری آنکھوں میں یہ کمال ہے کہ جس کسی کو رات کے اندھیرے میں دیکھ لوں تو دن کے وقت اس کو پہچان لیتا ہوں۔ تیسرے نے کہا میرے بازو میں یہ قوت ہے کہ صرف ہاتھ کی قوت سے کومل لگاتاہوں۔ چوتھے نے کہا میری ناک میں عجیب وصف ہے۔ جگہ جگہ خاک سونگھ کر پہچان لیتا ہوں کہ کس جگہ دولت گڑی ہے۔ پانچویں نے کہا میرے پنجے میں وہ قوت ہے کہ جب کمند پھینکتا ہوں تو محل چاہے کیسا ہی بلند ہو میری کمند اس کے کنگورے کو پکڑ لیتی ہے۔

    آخر میں سلطان سے مخاطب ہوکر ان سے پوچھا کہ بھائی اب تو بتا کہ تجھ میں کیا وصف اور کمال ہے۔ سلطان نے جواب دیا کہ میری داڑھی میں یہ وصف ہے کہ جب مجرموں کو جلّاد کے سپرد کرتا ہیں اس وقت اگر میری داڑھی ہل جائے تو مجرم رہا ہوجاتے ہیں۔ سب چوروں نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہمارا سردار بس توہی ہے۔ کیوں کہ مصیبت کے دن میرے باعث ہم کو چھٹکارا نصیب ہوگا۔

    اس کے بعد سب مل کر باہر نکلے اور سلطان کے محل کے پاس پہنچے۔ جب دائیں طرف کتّا بھونکا تو پہلے چور نے کہا کہ بھائیو! یہ تو کہتا ہے کوئی بادشاہ تمہارے آس پاس ہے۔ دوسرے چور نے مٹّی سونگھ کر بتایا کہ اس کے قریب بادشاہی خزانہ ہے۔ پس کمند پھینکنے والے نے کمند پھینکی اور سب اس بلند دیوار کے دوسری طرف جاپہنچے۔ کومل لگانے والے نے کومل لگا کر سب کو خزانے کے اندر پہنچا دیا اور ہر ایک نے خزانے سے جو ہاتھ لگا وہ اٹھا لیا۔ اشرفیاں، زربفت ، موتی وغیرہ اٹھا لے گئے اور ایک جگہ چھپا دیا۔ سلطان نے ان کی جائے پناہ اچھی طرح دیکھ لی اور ایک ایک کا حلیہ نام سب اچھی طرح معلوم کرلیا۔ پھر اپنے کو سب کی نگاہوں سے چھپا کر واپس ہوگیا اور دوسرے دن چوری کا ماجرا بیان کیا۔ اب کیا تھا بڑے بڑے طاقتور، تلوار لیے سپاہی دوڑ پڑے اور ہر سپاہی نے ایک ایک چور کو گرفتار کرلیا۔ وہ چور ہتھکڑیاں پڑے ہوئے دربار میں حاضر کیے گئے جو اپنی جان کے خوف سے کانپ رہے تھے۔ جب تختِ سلطانی کے آگے کھڑے کیے گئے تو سلطان تو خود ہی چاند کی طرح رات کو ان کے ساتھ تھا۔ جو چور رات کے اندھیرے میں دیکھ کر دن کو پہچان لیتا تھا، اس نے بادشاہ کو تخت پر دیکھ کر ساتھیوں سے کہا کہ رات کی پھرائی میں یہ ہمارے ساتھ تھا۔

    پس ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ اے چھپواں گشت کرنے والے بادشاہ! اب وقت آپہنچا کہ آپ از راہِ کرم اپنی داڑھی ہلائیں۔ ہم میں سے ہر ایک تو اپنا کمال دکھا چکا اور اور ان کمالوں سے بدبختی اور مصیبت ہی بڑھتی گئی یہاں تک کہ ہماری گردنیں بندھ گئیں۔ وہ سب ہنر و کمال کھجور کی بٹی ہوئی رسیاں تھے، جو ہماری گردنوں میں پڑے ہوئے ہیں اور موت کے دن ان سے کوئی مدد نہیں پہنچتی ہاں اس موقع پر اگر کوئی کام آیا تو وہی شخص جس کی آنکھ بادشاہ کو پہچان گئی۔ محمود کو بھی رحم آگیا اور اس کی داڑھی کے اشارے سے ان چوروں کی جان بچ گئی اور انہیں معافی مل گئی۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 222)
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے