Sufinama

شیخ احمد خضرویہ کا قرض خواہوں کے لئے حلوا خریدنا۔ دفتردوم

رومی

شیخ احمد خضرویہ کا قرض خواہوں کے لئے حلوا خریدنا۔ دفتردوم

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب

    ایک شیخ ہمیشہ قرض دار رہتا تھا اور اس بارے میں اس کی دلیری مشہور ہوگئی تھی۔ بڑے بڑوں سے ہزاروں روپیہ قرض لیتا اور بلا استثنا فقیروں پر خرچ کرتا۔ اسی قرض سے اس نے ایک خانقاہ نبوائی اور اپنی جان و مال اور خانقاہ سب کچھ اڑا ڈالا۔ اس شیخ کا نام احمد خضرویہ اور کام اہلِ عشق کی خدمت گزاری تھا۔ خد اس کو ہر جگہ سے قرض دلوا دیتا تھا گویا خدا نے اپنے پیارے کے لئے ریت کو آٹا بنا دیا تھا۔

    قرض دار شیخ نے سالہا سال یوں ہی گزارے، ادھر لیا اور ادھر فقیروں کی امداد کے لئے دے دیا ۔جب شیخ کی عمر ختم ہونے کو ہوئی اورمرضِ موت کے آثار نظر آنے لگے تواس وقت قرض خواہ سب آکرگرد جمع ہوگئے اور شیخ شمع کی مانند، سہج سہج پگھل رہاتھا۔ قرض خواہوں کا دل اس قدر کھّٹا اور مایوس ہوگیا کہ دردِ دل کے ساتھ دردِ شش بھی ہونے لگا۔ شیخ نے فرمایا کہ ان بدگمانوں کو تو دیکھو! کیا خدا کےپاس چار سو اشرفیاں بھی نہیں!(اسی اثنامیں) ایک حلوا فروش لڑکے نے آواز لگائی۔

    شیخ نے خادم کو حکم دیا کہ جا وہ سب حلوا خریدلے اور جی میں سوچا کہ یہ قرض خواہ حلوا کھائیں گے تو تھوری دیر کے لئے ترش روئی ترک کردیں گے۔ فوراً خادم دروازے کے باہر نکلا اور پوچھا کہ حلوے کا سارا تھال کس قیمت میں دوگے۔ لڑکے نے کہا نصف دینار اور چند درہم میں۔ خادم نے کہا کہ نہیں نہیں صوفیوں سے زیادہ نہ لو۔ بس نصف دینار میں سب حلوا دے دو۔اس نے پوری تھال شیخ کے آگے رکھ دی، اب شیخِ دوربین کی کرامت دیکھو۔ قرض خواہوں کو اشارہ کیا کہ یہ فقیر کا تبرک ہے۔ اس کو اطمینان سے کھاؤ۔ حسبِ حکم سب حلقہ باندھ کر بیٹھ گئے اور خوشی خوشی ساری تھال پونچھ کر کھا گئے۔ جب تھال صاف ہوئی تو لڑے کے نے اٹھالی اور شیخ سے قیمت طلب کی۔ شیخ نے کہا میں بچے قیمت کہاں سے لاؤں، میں بے حد قرض دار ہوں اور اب عالمِ نزع میں ہوں۔ لڑکے نے تھال مارے غصے کے پٹک دی اور رونا دھونا شروع کردیا۔ روتا تھا اور لمبے لمبے راگ نکال کر بین کرتا اور کہتا تھا کہ کاش میرے دونوں پاؤں ٹوٹ جاتے۔ کاش میں کسی کواڑی پر جاتا اور اس خانقاہ کے دروازے پر پھیری نہ کرتا۔ چیخ پکار سن کر وہاں بہت سے شریف و رذیل لڑکے کے گرد جمع ہوگئے۔ آخر کار وہ لڑکا پھر شیخ کے پاس آیا اور کہا کہ ارے ظالم بڈھے! مجھے تو استاد مارہی ڈالے گا۔ کیا تجھے منظورہے کہ میں اس کے آگے خالی ہاتھ جاؤں اور وہ مجھے مار ڈالے۔ قرض خواہوں نے بھی بہت لعنت و ملامت کی اور شیخ سے کہا کہ تم نے یہ کیا چلّتر کیا۔ ہمارا مال ہضم کر گئے وہ ظلم کی پوٹلی تو ساتھ لیے جارہے ہو، اس کے اوپر طرّہ یہ ظلم بھی سر پر اٹھا لیا۔ نمازِ ظہر کے وقت تک حلوے والا چھوکرا روتا رہا اور شیخ نے آنکھیں بند کرلیں اور اس کی طرف پلٹ کر نہ دیکھا۔

    شیخ کا دل جھگڑے فساد سے پاک تھا۔ بدلی کے چاند کی طرح لحاف میں منہ لپیٹے پڑے رہے۔ اس لڑکے کے لئے تماشائیوں نے پیسہ پیسہ کر کے حلوے کی قیمت جمع کی تو شیخ کی ہمّت نے اسے بھی ناپسند کیا اور اس چندے کو روک دیا اور ممانعت کردی کہ لڑکے کو کوئی کچھ نہ دے۔ صاحبانِ دل کے پاس اس سے بہت زیادہ ہے۔ جب نمازِ ظہر پڑھ چکے تو دیکھتے کیا ہیں کہ ایک خادم خوان سر پر رکھے چلا آتا ہے۔ ایک دولت مند صاحب دل نے جو شیخ کا معتقد تھا یہ سوغات بھیجی تھی۔ اس میں چار سو دینار تو ایک طرف رکھے ہوئے تھے۔ اور نصف دینار ایک پڑیا میں لپٹا ہوا دوسری طرف تھا۔ خادم نے آکر شیخ کو سلام کیا اور وہ خوان سامنے رکھ دیا۔ جب شیخ نے خوان پوش اٹھایا تو لوگوں نے شیخ کی کرامت دیکھی۔ سب دیکھنے والوں کی ایک دم چیخ نکل گئی کہ اے بزرگوں کے بزرگ! یہ کیا ماجرا ہے۔ اے اہلِ باطن کے بادشاہ ہم آپ کو ایسا نہ جانتے تھے۔ برائے خدا ہم کو معاف کیجئے ہم بہت بیہودہ اور بے جا باتیں کہہ چکے ہیں۔ ہم نے جو اندھے پن کے ساتھ لکڑیاں چلائیں تو ضرور قندیلوں کو توڑ دیاہوگا۔ ہم بہروں نے اپنے مخاطب کی ایک بات بھی نہیں سنی لیکن بد تمیزی سے قیاسی جواب دیتے رہے۔ شیخ نے فرمایا کہ میں نے تمہاری بدزبانیوں کو معاف کیا۔ میں نے جو اس قدر تمہیں روکے رکھا اس کا راز یہی تھا کہ میں نے خدا سے ہدایت کی دعا کی اور اس نے میرے واسطے یہ راستہ پیدا کیا۔ اس لڑکے کا ایک دینار اگر چہ مالیت میں کم ہے لیکن اسی پر اس لڑکے کی بے قراری موقوف تھی اور جب تک طفلِ حلوا فروش نہ روئے سخاوت کا دریا جوش میں نہیں آتا۔

    اے بھائی وہ لڑکا تیری چشمِ گریاں ہے۔ اپنی مقصد برآری اپنے ہی رونے پر موقوف ہے۔ تیرا مطلب دل کے رونے سے وابستہ ہے اور جب تک نہ روئے جب تک کامیابی مشکل ہے۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 54)
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے