مفلس اور کھاؤ قیدی کی منادی۔ دفتردوم
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
ایک مفلس بے گھر شخص قدد میں ڈالا گیا تھا۔ وہ ایسا بڑ پاٹ تھا کہ سارے قیدیوں کا کھانا کھا جاتا تھا۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ پیٹ بھر کر روٹی کھاسکے کیوں کہ ہاتھ چالاک بہت جلد اُڑا لیتا تھا۔ قاضی کا وکیل جو پوچھ گچھ کے لیے آیا تو اہلِ زنداں نے شکایت کی کہ ہمارا سلام قاضی کو پہنچا کر اس کمینے آدمی کی ایذا رسائی کا حال کہنا، اس نے ہاتھ چالاکی پر خواری اور ایذا رسانی میں بڑا نام نکالا ہے۔ کوئی قیدی ایک لقمہ بھی نہیں کھا سکتا۔ چاہے کھانے کے لیے سو حیلے کرے فوراً ہی وہ بڑپیٹا آن موجود ہوتا ہے اور دلیل اس کی یہ ہوتی ہے کہ خدا نے ’’کلوا‘‘یعنی کھاؤ کا حکم دیا ہے۔ کمبخت ہر کھانے پر مکھی کی طرح بھنبھاتا ہوا بِن بلائے آپہنچتا ہے۔ اس کے آگے ساٹھ آدمیوں کا کھانا بھی کوئی چیز نہیں۔
اگر اس سے بس کہو تو بہرا بن جا تاہے۔ خدا کرے کہ مولانا کا سایہ تا ابد قائم رہے۔ یا تو زندان سے اس بھینسے کو نکالئے یا مدِ وقف سے اس کی خوراک مقرر کیجئے۔ سرکار آپ کے انصاف سے سب مرد و زن خوش ہیں۔ ہماری داد کو بھی پہنچے۔ بامرّوت وکیل نے قاضی کے پاس حاضر ہوکر سب شکایتیں الگ الگ بیان کریں۔ قاضی نے اس کو قید خانے سے اپنی پیشی میں بلویا اور اپنے ماتحت عہدہ داروں کے ذریعے سے بھی تحقیقات کی۔ قیدیوں کی شکایت صحیح ثابت ہوئی۔ قاضی نے اس مفلس قیدی سے کہا کہ اس قید خانےسے دفع ہو اور اپنے ہی گھر میں جاکر مرو۔ اس نے کہا میرا گھر بار تو آپ ہی کا احسان ہے اور کافر کی طرح میری جنت تو آپ ہی کا قید خانہ ہے۔ اگر تو مجھے مردود قرار دے کہ قید خانہ سے بھی نکالتا ہے تو میں بھوک پیاس اور افلاس سے مرہی جاؤں گا۔
قاضی نے حکم دیا کہ شہر میں اس کو گشت کراؤ اور عام اعلان کرو کہ یہ بالکل مفلس، بے غیرت ہے ،کوئی شخص بھولے سے بھی اس کو قرض نہ دے۔ اگر آئندہ کوئی اس کے خلاف دعویٰ کرے گا تو بعد ثبوت بھی اسے قید میں نہ ڈالوں گا۔ اس کا افلاس ثابت ہوچکا ہے اور کسی قسم کا نقدوجنس اس کے پاس نہیں ہے۔ قاضی کے پیادے ایک لکڑہارے کُرد کااونٹ پکڑ لائے۔ اس کُرد بے چارے نے بہتیری واویلا مچائی اور سپاہی کی مٹھّی بھی ایک اکنّی سے گرم کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ پیٹھ پر وہ بڑپٹیابیٹھا ہوا تھا اور اونٹ کا مالک پیچھے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ اس طرح محلّے محلّے اور کوچہ کوچہ پھر اتے رہے۔ یہاں تک کہ سب اہلِ شہر کو علم وشناخت ہوگئی۔ ہر حمام اور ہر بازار کے لوگوں نے اس کی شکل کو پہچان لیا۔ ان مادی کرنے والوں میں تُرک، کُرد، رومی اور نازی تھے۔ سب بلند آواز سے کہتے جاتے تھے کہ یہ شخص بے سروسامان، بداطوار، روٹیوں کا چور اور سخت بے حیا ہے۔ یہ بالکل مفلس ہے اس کے پاس کچھ نہیں ۔کوئی اس کو ایک چھدام بھی قرض نہ دے، اس کا ظاہر وباطن بالکل خالی ہے۔ یہ بالکل مفلس، کھوٹا، دغاباز، اور ڈھول ہی ڈھول ہے۔ اس طرح دن بھر تشہیر کے بعد جب رات کو وہ اونٹ سے نیچے اترا تو کُرد نے کہا کہ میرا مقام یہاں سے بہت دور ہے پہنچنے میں بہت دیر لگے گی۔ تو صبح سے میرے اونٹ پر بیٹھا ہے اور گھاس کھودنے کی محنت سے زیادہ تھکن مجھ پر سوار ہے۔
مفلس نے جواب دیا کہ تو کچھ سمجھا بھی کہ ہم کیوں پھرائے گئے اور آج تمام دن کیا ہوا۔ تیرے ہوش کدھر ہیں۔ کیا دماغ میں شے لطیف نہیں؟ تو صریحاً سن چکا کہ فلک ہفتم تک میرے افلاس کی تشہیر کی گئی مگر معلوم ہوتا ہے کہ مارے حرص کے تو کچھ سن نہ سکا کیوں کہ طمع آدمی کے کانوں کو بہرا کردیتی ہے۔ ڈھیلوں اور پتّھروں تک نے سن لیا کہ یہ مرد بے حمیّت مفلس ہے۔ صبح سے رات تک لوگ تشہیر کرتے رہے لیکن اونٹ کا مالک چوں کہ حرص میں مبتلا تھا ۔وہ پھر بھی یہ سمجھتا رہا کہ اس مفلوک الحال سے شاید کچھ کرایہ مل جائے گا۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 60)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.