Sufinama

ایک سونے والے کو جس کے حلق میں سانپ گھس گیا تھا ایک تُرک کا مُکّے مارنا۔ دفتردوم

رومی

ایک سونے والے کو جس کے حلق میں سانپ گھس گیا تھا ایک تُرک کا مُکّے مارنا۔ دفتردوم

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب

    ایک تُرک گھوڑے پر سوار چلا آرہاتھا۔ دیکھا ایک سوتے ہوئے شخص کے حلق میں سانپ گھس گیا۔ سوار نے دور سے دیکھ کر بہتیرا گھوڑا دوڑایا کہ سونے والے کو بچائے مگر موقع نہ مِلا۔ کوئی تدبیر سمجھ میں نہ آئی تو اس نے چند گھونسے سونے والے کو مارے۔ سونے والا گہری نیند سے ایک دم اچھل پڑا۔دیکھا کہ ایک سوار گھونسے پر گھونسا لگارہا ہے۔ وہ تُرک تابڑ توڑ گھونسے مارتا رہا یہاں تک کہ سونے والا تاب نہ لاکر بھاگ کھڑا ہوا۔ آگے آگے وہ اور پیچھے پیچھے ترک ایک درخت کے تلے پہنچے۔ وہاں جھڑے پڑے سیب بہت پڑے تھے۔ تُرک نے کہا کہ اے شخص ان سیبوں میں سے جتنے کھائے جائیں تو کھا اور خبردار ہر گرز کمی نہ کر۔ تُرک نے اس کو اس قدر سیب کھلائے کہ سب کھایا پیا الٹ الٹ کر منہ سے نکلنے لگا۔

    اس نے تُرک سے چلاّکر کہا کہ اے امیر! آخر میں نے تیرا کیا بگاڑا تھا تو میری جان کے درپے ہوگیا۔ اگر تو میری جان ہی کا خواہاں ہے تو تلوار کے ایک ہی وار میں ختم کردے۔ وہ بھی کیا بری گھڑی تھی جب کہ میں تجھے دکھائی دیا۔ وہ اسی طرح واویلا مچاتا اور برا بھای کہتا رہا۔ تُرک نے پھر مُکّے لگانے شروع کئے۔ اس کا سارا بدن دُکھنے لگا اور تھک کر چور ہوگیا۔ لیکن وہ ترک اسی طرح پکڑ دھکڑ اور مار پیٹ کرتا رہا یہاں تک کہ صفرا کے غلبے سے اس کو ڈاک لگ گئی اور سارا کھایا پیا نکلنے لگا اور سانپ بھی اسی قے کے ساتھ باہر نکل آیا۔ جب اس نے اپنے پیٹ سے سانپ کو باہر نکلتے دیکھا تو مارے خوف کے تھر تھر کانپنے لگا اور سارے جسم کا درد جو گھونسے کھانے سے پیدا ہوگیا تھا یک لخت جاتا رہا۔ تُرک کے پاؤں پر گر پڑا اور کہنے لگا تو تو رحمت کا فرشتہ یا میرا ولی، نعمت خداوندہے۔ میں تو مرچکا تھا تو نے مجھے زندگی تازہ بخشی۔ اے خداوند! شہنشاہ اور امیر اگر تو اصل حال ذرا بھی مجھے بتا دیتا تو میں تیرے ساتھ ایسی بکواس کیوں کرتا۔ مگر تونے تو اپنی چپ سے مجھے برہم کردیا کہ وجہ بتائے بغیر میرے سر پر گھونسے مارنے لگا۔

    اے نیکو کار! مجھے معاف کر جو کچھ بے اوسانی میں میرے منہ سے نکل گیا اسے بخش دے۔ تُرک نے کہا کہ اگر میں اس کا اشارہ بھی دیتا تو اسی وقت تیراپِتّا پانی ہوجاتا اور مارے خوف کے تیری جان ہی آدھی رہ جاتی۔ اس وقت نہ تو تجھے اس قدر سیب کھانے کی قوت رہتی اور نہ قے کرنے کی نوبت آتی۔ اسی لیے میں تیری فحش کلامی سنتا اور صبر کرتا رہا۔ سبب بتانا مناسب نہ تھا اور تجھے چھوڑنا مجھ سے ممکن نہ ہوا۔

    اے عزیز! عاقلوں کی دشمنی بھی ایسی ہوتی ہے کہ ان کا دیا ہوا زہر جان کو نشو و نما دیتا ہے۔اس کے برعکس بے وقوفوں کی دوستی میں صدمہ اور گم راہی حاصل ہوتی ہے۔ چانچہ مثال کے طور پر یہ حکایت سنو۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 73)
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے