Sufinama

دیہاتی کا شہری کو تصنع سے دوست بنانا۔ دفتردوم

رومی

دیہاتی کا شہری کو تصنع سے دوست بنانا۔ دفتردوم

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب

    اگلے زمانے میں ایک دیہاتی کی کسی شہری سے شناسائی ہوگئی۔ جب دیہاتی شہر کو آتا تو ڈیرے خیمے اس شہر کے مکان کےپاس نصب کرتا۔ دو دو تین تین مہینے اس کا مہمان رہتا اورہمیشہ اسی کی دکان اور اسی کے دسترخوان پر ڈٹا رہتا۔ زمانۂ مہمانی میں جو ضرورتیں اسے پیش آتیں شہری دوست ان کو بھی پورا کرتا۔ ایک دن دیہاتی نے شہری سے کہا کہ کیوں صاحب! آپ ہمارے گاؤں کی طرف تفریح کے لیے بھی کبھی نہیں آتے ۔آپ کو قسم ہے سب بال بچوں کو لے کر آیئے کہ یہ زمانہ گُل بوٹوں کے کھِلنے اور بہار کا ہے۔ یا اگر اب ممکن نہیں تو گرمیوں میں آیئے کہ وہ زمانہ درختوں میں ثمر آنے کا ہے تاکہ آپ کی خدمت گزاری بجالاؤں۔ اپنے ملازموں، بال بچوں اور بھائی بندوں کو بھی ساتھ لایئے اور تین چار مہینے ہمارے گاؤں میں آرام کیجئے۔ موسمِ بہار میں جنگل بہت پُر فضا ہوتا ہے ۔کھیتیاں لہلہاتی اور لالہ وگل سے رنگین ہوتی ہیں۔

    وہ شریف شہری مروت سے ہوں ہوں کر دیتا اور کچھ نہ کچھ بہانے سے بات ٹال دیتا۔ کبھی کہتا کہ اس سال فلاں علاقے سے میرے ہاں مہمان آئے ہیں۔ کبھی کہتا کہ اگر سال آئندہ ضروری کاموں سے فرصت ملی تو تمہاری طرف آؤں گا۔ مگر دیہاتی ہرسال کلنگ کی طرح آتا اور شہری کے گھر میں آن دھمکتا تھا۔ آخری مہمان داری میں شہری نے پورے تین مہینے صبح و شام کھانا کھلایا۔ دیہاتی نے اس مہمان سے ذرا شرما کر کہا کہ اجی حضرت! آخر کب تک کے دھوکے میں رکھو گے۔ خواجہ نے کہا کہ میں تو تمہارے ہاں آنا چاہتا ہوں مگر یہاں سے سر کنا خدا کے اختیار میں ہے۔ آدمی بادبانی کشتی ہے جب چاہے وہ ہوا چلانے والا کنارے کی طرف لائے۔ دیہاتی نے کئی کئی قسمیں دے کر کہا کہ اے مہربان! اپنے بال بچوں کو لے کر وہاں کی سیر بھی دیکھو۔ ہاتھ پکڑ لیا اور تین بار وعدہ لیا کہ ضرور ضرور آنا۔

    ایک دن خواجہ کے بچوں نے کہا کہ ابّا جان! چاند، بادل اور سایہ تک حرکت کرتا ہے۔ تم نے ان کی مہمان داری کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی بلکہ ان کی خدمت گزاری میں تکلیفیں اور پابندیاں برداشت کی ہیں اس لیے وہ چاہتا ہے کہ اگر کبھی تم اس کے مہمان ہو تو تمہارے احسانات کا بدل کرے۔ اس نے ہم سے بھی بڑی خاطر خوشامد سے کہا ہے کہ ہم ترغیب دکے کر آپ کو دیہاتی کے گاؤں کو لائیں۔ خواجہ نے کہا یہ سب سچ ہے مگر عقل مندوں نے کہا ہے کہ اپنے ’’احسان مند کے شر سے بچے رہو‘‘۔

    دیہاتی نے چاپلوسی کا وہ جال بچھایا تھا کہ خواجہ کی دور اندیشی متزلزل ہوگئی۔ خواجہ کے بچے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھےکہ گاؤں میں پہنچ کر خوب خوب سیر کریں گے اور جنگل میں کھیل کود کے دل بہلائیں گے۔

    القصہ خواجہ نے سفر کی تیاری کی اور گاؤں روانہ ہوا۔ اس کے بال بچے بھی اپنا اپنا سامانِ سفر مہیا کر کے چل نکلے۔ خوشی کے مارے اچھلتے کو دتے راستہ طے کررہے تھے کہ وہاں سبزہ زار بھی ہیں اور میزبان بڑا فیاض ہے جس نے بڑی بڑی آرزؤں سےبلوایا ہے اور ہمارے لیے یہاں سے وہاں تک بخشش کے بیج بو دیے ہیں۔ اب جاڑے کے موسم تک وہاں رہ کر شہر کو واپس آئیں گے۔

    یہ قافلہ دن بھر دھوپ میں جلتا اور رات بھر ستاروں کو دیکھ کر راستہ نکالتا چلا جارہا تھا لیکن راستے کی دشواریاں گاؤں کو پہنچنے کی خوشی نے ہیچ کردی تھیں۔ سب ہنستے کھیلتے جارہے تھے اور گاؤں کی خیالی آسایشوں اور آراموں پر اس قدر دموں دیوانے تھے کہ اگر پرندے کو ادھر اڑتا ہوا دیکھتے تو بے اختیار ہوکر پھولے نہ سماتے اورجو کوئی مسافر اس گاؤں کے ادھر آتا مل جاتا اس سے لپٹ لپٹ کر گلے ملتے اور پوچھتے کہ بھائی! ہمارے عزیز دوست کو بھی جانتے پہچانتے ہو۔ اس طرح یہ تھکا ماندہ قافلہ مہینے بھر کی منزلیں مار کر جب اس گاؤں میں پہنچے تو دیکھا! وہ دیہاتی بالکل انجان ہوگیا اور دن دہاڑے کہیں باہر چل دیا کہ شہری قافلے کی مہمان داری سے بچے۔ یہ لوگ پوچھتے گچھتے اس کے گھر پر پہنچے اور عزیزوں کی طرح دروازے پر آئے مگر دیہاتی کے آدمیوں نے گھر کا دروازہ بند کرلیا اور خواجہ یہ حال دیکھ کر مارے غصّے کے دیوانہ ہوگیا۔ لیکن غصہ بے موقع تھا کیوں کہ گڑھے میں گرجانے کے بعد ڈانٹ ڈپٹ سے کیا حاصل۔

    الغرض یہ قافلہ پانچ دن تک اس دیہاتے کےدروازے پر ٹھہرا رہا۔ رات بھر سردی میں ٹھٹھرتا اوردن بھر دھوپ کھاتا تھا۔ اب بے چاروں کا قیام نہ تھکے ماندے پن کی وجہ سےتھا نہ بے وقوفی کے سبب سے بلکہ ہاتھ میں پائی نہ رہی تھی اس لیے حیران تھے کہ کیا کریں۔

    اکثر ہوتا ہے کہ شریف لوگ بے بسی کی حالت میں کمینے بخیلوں کے دست نگر ہوجاتے ہیں بلکہ جب بھوک حد سے بڑھ جاتی ہے تو شیر مردار تک کھانے لتا ہے۔ خواجہ دور سے دیہاتی کو دیکھ کر سلام کرتا اور پکار کر کہتا تھا کہ میں تمہارا دوست فلاں خواجہ ہوں۔ دیہاتی دور سے جواب دیتا تھا کہ میں نے آپ کو نہیں پہچانا ۔میں تو اپنی عبادات اور ادائے فرض میں ایسا محو ہوں کہ اپنی بھی سُدھ بدھ نہیں بلکہ مجھے یہ بھی خبر نہیں کہ زندہ ہوں یا مردہ۔ خواجہ نے کہا کہ میرے لیے یہ وقت قیامت سے کم نہیں جس میں بھائی بھائی سے دور بھاگے گا۔ اس نے اپنی گزری ہوئی خدمتیں جتائیں اور کہا میں وہی ہوں جس کے دسترخوان پرتم نے دونوں وقت کیا کیا نعمتیں کھائی ہیں۔ ہماری مہمان نوازی سے ایک جہان آگاہ ہے اور کھائے پیئے کی لاج ہر ایک کو ہوتی ہے۔ لیکن وہ یہی کہتا تھا کہ یہ کیا بک رہا ہے۔ نہ میں تجھے جانوں نہ تیرا نام جانوں نہ تیری مہمانی کی خرے۔ خدا کی کرنی یہ کہ پانچویں رات کو بادل گھِر آیا اور اس قدر بارش ہوئی کہ آسمان سے تِیلیاں بہنے لگیں۔ جب خواجہ کی ہڈی پر چھری آن لگی تو کنڈی کھٹکھٹائی اور نوکروں سے کہا کہ اپنے سرکار کو بلاؤ۔ جب خواجہ بہت رویا دھویا تو وہ ظالم دروازے پر آیا اور کہا کہ آخر تو کیاکہنا چاہتا ہے۔ خواجہ نے کہاکہ میں نے مہمانی کے سب حقوق چھوڑےاور جوکچھ میں سمجھا تھا اس سے بھی باز آیا۔ دھوپ اور سردی کی مصیبت میں یہ پانچ دن پانچ برس کے برابر ہم پر بھاری کٹے لیکن اب بارش کی تکلیف اٹھانی دوبھر ہوگئی ہے۔ بہتر ہے کہ مجھے قتل کردیجئے میں اپنا خون بخشتا ہوں۔ ورنہ رات کی رات مینہہ سے بچنے کے لیے مکان کا ایک گوشہ ہمیں دے دیجئے۔

    خدا وند تعالیٰ روزِ قیامت آپ کو اس کا اجر دے گا۔ دیہاتی نے کہا صرف وہ جگہ جہاں ہمارا باغبان رہتا ہے اور بھیڑیے کی نگرانی کرتا ہے وہ مل سکتی ہے۔ ہم اس کو تیر کمان دے دیتے ہیں تاکہ اگر بھیڑیا آئے تو اس کو مارے۔ اگر تو یہ خدمت بجا لائے تو جگہ حاضر ہے ورنہ کوئی دوسرا گھر ڈھونڈلے۔ خواجہ نے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ ایسی ایسی سو خدمتیں بھی انجام دینے کو میں حاضر ہوں۔ لایئے وہ تیر کمان مجھے دے دیجئے۔ آپ کے مویشی اور انگوروں کی پاسبانی ساری رات میں کروں گا اور اگر بھیڑیے کی بھنک بھی پڑ جائے تو اسی نشان پر تیر ماروں گا۔

    غرض اس قرارداد پر باغ کا ایک کونہ خالی تھا اس میں وہ بال بچوں سمیت جا گھسا۔ دیکھا کہ جگہ اس قدر تنگ ہے کہ اِدھر سے اُدھر کھسکنے کی گنجایش نہیں اور برساتی پانی اس میں بھی گھس رہاتھا۔ وہ سب ٹڈیوں کی طرح ایک پر ایک وہیں سماگئے۔ رات بھر یہی کہتے رہے کہ اے خدا! جو ذلیلوں سے دوستی کرے اور نالائقوں سے شرافت کے ساتھ پیش آئے اس کی یہی سزا ہے۔ بہر حال وہ شہری تیر کمان ہاتھ میں لیے رات بھر پاسبانی کرتا رہا۔ اِدھر کال کوٹھری میں ہر مچھّر اور پسّو بھیڑیا بنا ہواتھا اور زخم پر زخم لگا رہاتھا۔ بھیڑیئے کے آجانے کے خوف سے اس بے چارے کو مچھر اڑانے کی بھی مہلت نہ تھی کہ کہیں بھیڑیا آکر کوئی نقصان پہنچادے ۔وہ دیہاتی آکر ڈاڑھی نوچ ڈالے۔ آدھی رات تک دانتوں میں انگلی پکڑے باغ کا چپّہ چپّہ دیکھتا رہا۔ مارے تھکن کے سانس ناف سے ہونٹوں پر آتا تھا۔ اتفاقاً بھیڑیئے کی شکل کے ایک جانور نے درختوں کی باڑ میں سر نکالا خواجہ نے فوراً تیر کو چلّے پر چڑھاکر ایسا نشانہ لگایا کہ وہ جانور وہیں الٹ کر گرا۔ وہ جانور جو گرا تو اس کا گوز نکل گیا اور اس کی آواز دیہاتی نے سنی۔ وہیں ہائے کا نعرہ مارا اور سر پیٹنے لگا اور کہا کہ ارے نامعقول یہ تو میرا بچھیرا تھا۔

    خواجہ نے کہا نہیں وہ بھیڑیا شیطان کی طرح آیا تھا۔ دیہاتی نے کہا ہر گز نہیں۔ میں اس کے گوز کی آواز کو پہچانتا ہوں۔ تونے یقیناً میرے بچھیرے کو عین سبزہ زار میں مار ڈالا۔ خواجہ نے کہا کہ آپ اچھی طرح تحقیق کر لیں کیوں کہ رات کی اندھیری میں کوئی چیز سوجھا نہیں کرتی اور یہ رات گو گھٹا اور مینہ کی وجہ سے اور بھی تاریک ہے۔ ممکن ہے کہ مجھے غلط نظر آیا ہو، دیہاتی نے کہا کہ تجھ پر رات تاریک سہی مگر چونکہ میں اپنی گدھی کے بچھیرے کی ہر آواز پہچانتا ہوں ا س لئے رات مجھ پر روزِ روشن کی مانند ہے۔ یہ سنتے ہی خواجہ بلبلا اٹھا اور دیہاتی کے گریبان میں ہاتھ ڈالا اور کہا ابے بناوٹی بھولے تونے بڑی چال کھیلی جیسے کسی نے بھنگ اور افیون ملاکر استعمال کی ہو، جب کہ تو اس اندھیرے میں بچھیرے کے گوز کی آواز کو پہچانتا ہے تو مجھے کیسے نہیں پہچانتا جو شخص آدھی رات کی اندھیری میں اپنے بچھیرے کو پہچان لے وہ دس برس کے قدیم دوست کو شناخت نہ کرے۔ تو دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے اپنی بھی خبر نہیں اور میرے دل میں سوا خدا کے کچھ نہیں اور تو کہتا ہے کہ جو کچھ کل میں نے کھایاوہ تک یاد نہیں۔ایسی بے خودی کے عالم میں مجھے جان پہچان سے معاف کرو۔ تو فقیری اور بے خودی کی بڑی ہانکتا تھا اور عاشقانِ خداکی سی باتیں بناتاتھا کہ مجھے زمین اور آسمان میں تمیز نہیں کہ غیرتِ خدا نے تیری آزمایش کرادی کہ تیرے بچھیرے کے گوز نے تجھے رسوا کردیا اور بے خودی کا راز افشا کردیا۔ خداوند تعالیٰ دھوکے اور فریب کو اسی طرح رسوا کیا کرتا ہے اور بھاگے ہوئے شکا ر یوں کوہی گرفتار کراتا ہے۔ ارے بے وقوف ایسی مستی مت کر کہ جب تو ہوش میں آئے تو پشیمان ہو بلکہ ان مستوں میں شریک ہو کہ جب وہ مے پیتے ہیں تو بڑے بڑے عقل مند ان کی باتوں اور حرکتوں پر عش عش کرتے ہیں۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 106)
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے