Sufinama

لڑکوں کا استاد کو وہم سے بیمار کرڈالنا۔ دفترسوم

رومی

لڑکوں کا استاد کو وہم سے بیمار کرڈالنا۔ دفترسوم

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب

    ایک مکتب کے لڑکے استاد کی سختی سے بہت تنگ آگئے۔ سب نے مل کر مشورہ کیا کہ کوئی ایسی بات کی جائے کہ اس کے ظلم سے کچھ تو نجات ملے۔ اس استاد کو کوئی بیماری بھی تو نہیں ہوتی کہ چند روز ہم کو آرام رہے۔ اس کی سختی اور مارپیٹ سےکوئی بچنے کی صورت نہیں نظر آتی کیونکہ وہ ظالم تو پتھر کی چٹان کی طرح اپنی جگہ سے نہیں ہلتا۔ آخر ان میں سے ایک ہوشیار لڑکے نے یہ تدبیر نکالی کہ جب استاد آئے تو میں کہوں گا کہ حضرت آج آپ کا چہرہ زرد کیوں ہے؟ خیر تو ہے آج آپ کا منہ اترا ہوا ہے۔ ہونہ ہو یاتو ہوا لگ گئی ہے یا آپ کو بخار ہے۔ استاد کو میرے کہنے کا کچھ خیال ہوگا۔ اس وقت دوسرے بھی میری تائید کریں۔ یعنی دوسرا لڑکا بھی پریشان صورت بناکر کہے، مولوی صاحب آج آپ کی طیبعت کیسی ہے۔ تب وہ خیال اور دل میں جمے گا۔

    اسی طرح تیسرا، چھوتھا اور پانچواں یکے بعد دیگرے اپنی فکر مندی اور تشویش ظاہر کریں۔ یہاں تک کہ جب تیس بچے یک زبان ہوکر یہ خبردیں گے تو وہ دل میں جگہ پالے گی۔

    ہر ایک نے کہا شا باش اے ذکی۔ خدا تیرا اقبال بلند کرے۔ پھر سب نے اقرار کیاکہ اس تجویز کو کوئی نہ ٹالے گا۔ اس کے بعد اس نے سب کو قسم دی کہ کوئی اس بات کی چغلی نہ کھائے۔ اس بچے کی رائے کے سب گرویدہ ہوگئے۔ اس کی عقل چراگاہ میں سب بھیڑیوں کے آگے آگے چلتی تھی۔ آدمی کی عقلوں میں بھی وہی فرق ہے جو فرق صورتوں میں ہے۔ غرض دوسرا دن ہوا اور بچے خوش خوش یہ تجویز گانٹھ کر مکتب پہنچے کہ سب باہر ہی منتظر کھڑے رہے کہ وہ تجویز نکالنے والا دوست آجائے کیوں کہ قاعدہ ہے کہ سر پاؤں سے افضل ہوتا ہے۔

    وہ بھی آگیا، اور استاد کو سلام کر کے کہا کہ حضرت خیر تو ہے۔ آپ کے چہرے کا رنگ زرد ہورہاہے۔ استاد نے کہا کہ مجھے تو کچھ نہیں ہوا۔ تو جا، اور جگہ پر بیٹھ، بے کار باتیں نہ کر۔ استاد نے انکار تو کردیا مگر وہم کا غبار اس کے دل میں آگیا۔ اسی طرح دوسرے لڑکے نے بھی کہا تو استاد کا وہم کچھ اور بڑھا۔ اسی طرح اس کا وہم بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ اسی وہم کی شدّت سے وہ بالکل سست پڑ گیا ۔ کھڑا ہوا اور کمبل اوڑھ لیا۔ دل ہی دل میں اپنی بیوی پر خفا ہونے لگا کہ اس نے بھی مجھ سے کچھ نہ کہاکہ وہ تو اپنے حسن اور بناؤ سنگھار میں محور ہتی ہے۔ بھلا میری اسے کیا پڑی۔ دل سے باتیں کرتا اپنے دروازے پر پہنچا۔ بہت زور سے دروازہ کھول کر داخل ہوا۔ استادآگے آگے اور لڑکے پیچھے پیچھے۔ بیوی نے کہا خیر تو ہے اس قدر جلدی کیسے آگئے۔ استاد نے کہا کہ تو اندھی ہوگئی ہے۔ دیکھتی نہیں کہ میں کس قدر علیل ہوں میری دیکھ ریکھ نہیں کرتی۔ بیوی نے کہا کہ میاں تمہیں کوئی بیماری نہیں سارا وہم بے حقیقت ہے۔ استاد نے کہا ارے تو دیکھتی نہیں کہ منہ پر ہوائیاں اڑرہی ہیں اور لرزہ بخار چڑھا ہوا ہے۔ اگر تو اندھی اور بہری ہوئی ہے تو اس کو میں کیا کروں، میں تو بیماری اور سخت تکلیف میں مبتلا ہوں۔ بیوی نے کہا کہ میاں! تم چاہو تو آئینہ لاکر دکھا دوں تاکہ تم کومیری بات کا یقین ہو۔ استاد نے کہا ارے چل چل تو کیا اور تیرا آئینہ کیا۔ تو تو ہمیشہ کا مجھ سے بغض رکھتی ہے۔ جا میر ابچھونا بچھادے تاکہ میں ذرا سو جاؤں کیوں کہ میرا سر بھاری ہو رہا ہے۔ بیوی ذرا سوچ میں پڑی تو استاد نے فوراً للکار کر کہا۔ ارے میری دشمن جلدی کر۔

    الغرض بچھونا لاکر اس نے بچھا دیا۔ اگر چہ دل میں بہت جل رہی تھی کہ اگر اب میں اس کے خلاف کچھ کہتی ہوں تو بگڑتا ہے اور اگر چپ رہتی ہوں تو یہ ایک مضحکہ ہوا جاتا ہے۔ بہر حال استاد صاحب لیٹ کر کراہنے لگے۔ لڑکے سب وہاں جا بیٹھے اور بہ ظاہر سبق پڑھنے لگے مگر کچھ تو پشیمان تھے کہ یہ بری حرکت ہم سے ہوئی اور کچھ اس فکر میں تھے کہ اب یہاں سے کس طرح چھٹکارا نصیب ہو۔ اس عقل مند لڑکے نے کہا کہ اے بھائیو! خوب خوب پکار پکار کر سبق پڑھو، اور جب سب بچے پکار پکار کر پڑھنے لگے تو اسی لڑکے نے پکار کر کہا کہ ارے بھئی کہیں ہماری آواز سے حضرت کو تکلیف نہ پہنچتی ہو۔ استاد نے بھی کہا ہاں یہ سچ کہتا ہے۔ جاؤ، چھٹی، میرے سر میں درد بڑھ گیا، تم گھروں کو جاؤ، سب لڑکوں نے استاد کو جھک جھک کر سلام کیے اور اچھلتے کودتے اپنے گھر پہنچے جیسے پرندے دانے پر ٹوٹ کر گرتے ہیں۔

    بچوں کی ماؤں نے خفا ہوکر کہا کہ ہائیں آج تو پڑھنے کا دن ہے اور تم کو کھیل سوجھا ہے۔ یہ وقت پڑھنے لکھنے کا ہے اور تم مکتب اور استاد سے بھاگے ہوئے ہو۔ ہر بچے نے جواب دیا کہ اماں جان ہماری خطا نہیں ہے۔ خدا کی قدرت سے ہمارے استاد کی طبیعت خراب ہے اور وہ بستر پر پڑگئے ہیں۔ ماؤں نے اس کا یقین نہیں کیا اور دوسرے دن صبح خود استاد کے مکان پر گئیں۔ دیکھا تو واقعی وہ لحاف اوڑھے، پرانے بیمار کی طرح پڑا ہائے ہائے کر رہا ہے۔ عورتوں کو بڑی حیرت ہوئی اور دریافت کیا کہ حضرت کیا حال ہے۔ آپ تو کل تک بالکل اچھے تھے۔ یہ یکایک آپ کو کیا ہوگیا۔ استاد نے کہا کہ ہاں مجھے بھی اپنے کام کی دُھن میں کچھ خبر نہ تھی کہ ایسی سخت بیماری اندرہی اندر پل رہی ہے۔ مجھے تو کل ان بچوں نے آگاہ کیا کہ میں کس قدر بیماری میں مبتلا ہوں۔ یہ سن کر عورتوں نے لاحول پڑھی اور یہ کہہ کر کہ ایسی بیماری کا علاج کسی کے پاس نہیں گھروں کو واپس گئیں۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 127)
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے