ایک مٹّی کھاؤ کا ترازو کے پاسنگ کا ڈھیلا کھا جانا۔
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
ایک شخص جسے مٹی (پنڈول) کے کھانے کی عادت پڑ گئی تھی۔ ایک دفعہ پنساری کی دکان پر گیا تاکہ مصری اور عمدہ قند خریدے۔ پنساری اس کی عادت سے واقف اور بڑا چالاک اور منافق تھا اور اس کی ترازو کا بٹ بھی پتھر کی بجائے ڈھیلے کا تھا۔ کہنے لگا کہ میری مصری بہت صاف شفاف اور اعلیٰ درجے کی ہے اور شکر بھی موجود ہے۔ مگر میری ترازو کابٹ یہ ڈھیلا ہے۔ خریدار نے کہا کہ مجھے تو عمدہ قند کی ضرورت ہے۔ ترازو کا بٹ چاہے کیسا ہی ہو مجھے اس سے کیا کام۔ مگر سوندھی پنڈول کا ڈلا دیکھ کر جی للچانے لگا۔ اِدھر پنساری جمے ہوئے قند کو توڑنے کے بہانے اندر کی طرف چلاگیا وہ پیٹھ پھیرے اپنا کام کررہاتھا کہ بیہودہ مٹی کھاؤ ڈھیلے میں سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑ چرانے لگا، جھجکتا بھی جاتا تھا کہ کہیں دکاندار میری حرکت کو نہ دیکھ لے لیکن پنساری کن انکھیوں سے دیکھ کر اپنے کام میں مشغول رہا اور اپنے جی میں کہا کہ واہ رے بے وقوف تونے سب چوروں کو مات کر دیا اگر تونے چُرایا اور میرے ڈھیلے کا وزن کم کیا تو میرا کیا گیا تونے اپنا ہی نقصان کیا۔ تو اپنے گدھے پن کی بنا پر مجھ سے ڈرتا ہے اور میں یہ ڈر رہا ہوں کہ کہیں تو کم نہ کھائے۔
اگر چہ میں اپنے کام میں مشغول ہوں لیکن ایسا احمق نہیں ہوں کہ تجھے شکر زیادہ لے جانے دوں۔ جب تو شکر کے وزن کو جانچے گا تو معلوم ہوگا کہ اس واقعے میں احمق کون تھا اور عقل مند کون ہے؟۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 153)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.