بادشاہ کا ایک درخت کی تلاش کرنا کہ جو اس کا میوہ کھائے وہ کبھی نہ مرے۔ دفتردوم
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
ایک عقلمند نے قصے کے طورپر بیان کیا کہ ہندوستان میں ایک درخت ہے جو کوئی اس کا پھل کھائے تو نہ کبھی وہ بوڑھا ہو نہ کبھی مرے۔ ایک بادشاہ نے سن کر یقین کرلیا اور اس درخت اور اس کے پھل کامشتاق ہوگیا۔ اپنے وزیروں میں سے ایک عقلمند کو قاصد بنا کر اس درخت کی تلاش میں ہندوستان بھیجا۔ وہ شہر شہر پھرا بلکہ نہ کوئی جزیرہ چھوڑا نہ پہاڑ جنگل۔ جس سے اس نے درخت کا پتا پوچھا اسی نےہنسی اڑائی اور کہہ دیا کہ ایسی تلاش تو سوا پاگل کے اور کوئی نہیں کرے گا۔ وہ ہر شخص سے برخلاف بات سنتا تھا مگر اپنی دُھن چھوڑتا نہ تھا۔ برسوں ہندوستان میں سفر کرتا رہا اور بادشاہ اخراجات بھیجتا رہا۔ جب مسافرت کی تکلیف حد سے گزری تو آخرکار درخت کی تلاش سےتنگ آگیا۔ کیوں کہ درخت کا پتا نشان نہ ملا اور مقصود کی اصلیت سوا خبر یا روایت کے اور کچھ ثابت نہ ہوئی۔ اس کی امید کا سلسلہ ٹو ٹ گیا اور جس قدر ڈھونڈاتھا وہ سب نہ ڈھونڈنے کے برابر ہوگیا۔
مجبور اور مایوس ہوکر واپس چلا تو روتا جاتا تھا اور راستہ طے کرتا جاتا تھا۔ راستے کی ایک منزل میں کوئی شیخ بڑا عالم اور قطبِ وقت رہتا تھا۔ یہ دل شکستہ اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوچا میں ہر طرف سے مایوس ہوکر اس کے پاس جاؤں، ممکن ہے کہ سیدھے راستے پر لگ جاؤں۔ چونکہ میں اپنے مطلب سے ناامید ہوں شاید کہ اس کی دعا میرے ہم راہ ہوجائے۔ الغرض وہ ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں سے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور برستے دل کی طرح اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ عرض کی کہ یا حضرت! یہ وقت رحم اور مہر بانی کا ہے میں بالکل ناامید ہوں۔ بس یہی گھڑی بخشش کی ہے۔
شیخ نے کہا کہ بات کو اچھی طرح کھول کر کہو کہ ناامیدی کس سبب سے ہے، تیرا مطلب کیا تھا اور تیری دُھن اب کیا ہے؟ جواب میں عرض کی بادشاہ نے مجھے ایک درخت کی دریافت پر مقرر کیا تھا جس کا پھل آبِ حیات کا حکم رکھتا ہے۔ میں نے اس کو برسوں ڈھونڈا مگر سو اہمہ شما کے طعنوں کے اس کا کہیں پتا نہ ملا۔ یہ سن کر شیخ بہت ہنسا اور کہا کہ بھلے مانس! یہ درخت علم کا ہے۔ تو درخت کی ظاہری صورت کا گمان کر گیا اس لیے شاخِ معنیٰ سے بے نصیب رہا۔ کہیں اس کا نام درخت ہوجاتاہے، کہیں سورج ہوجاتا ہے۔ کبھی اس کا نام سمندر ہوجاتا ہے اور کبھی بادل۔ اس کی ہزار ہا صفات ہیں، انہی میں سے ایک صفت بقائے دوام ہے۔ اے جوان! تو صورت کو کیا ڈھونڈتا ہے اس کے معانی کی تلاش کرو۔ صورتِ ظاہر تو چھلکا ہے اور معنیٰ اس پھل کا گودا۔ نام چھوڑ اور گُن (صفت) کو دیکھ تاکہ گُن سے تجھے ذات کی رہنمائی ہو۔ نام ہی سے مخلوقات کے آپس میں اختلاف پیدا ہوا ہے۔ جہاں معنیٰ پر پہنچے کہ اختلاف جاتا رہا۔ اسی مضمون پر ایک مثال سن تاکہ تو ناموں ہی ناموں میں نہ اٹکا رہ جائے۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 99)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.