Sufinama

راحت القلوب، دوسری مجلس :- درویشی کیا ہے؟

بابا فرید

راحت القلوب، دوسری مجلس :- درویشی کیا ہے؟

بابا فرید

MORE BYبابا فرید

    دلچسپ معلومات

    ملفوظات : بابا فریدالدین مسعود گنج شکر جامع : نظام الدین اؤلیا

    655 ہجری رجب کی پندرہ تاریخ چار شنبہ کے دن مسلمانوں کے دعاگو اور سلطان الطریقت حضرت بابا صاحب کے ایک مرید بندہ نظام الدین احمد بدایونی کو دولت پائے بوسی حضرت سیدالعابدین (بابا صاحب) حاصل ہوئی، حضرت بابا صاحب نے کلاہ چار ترکی جو اس وقت ان کے سرمبارک پر تھی، اتار کر اپنے ہاتھ میں لی اور دعا گو کے سر پر رکھ دی اور خرقۂ خاص اور چوبی نعلین (کھڑاویں) عطا فرمائیں، الحمدللہ علی ذٰلک۔

    نیز ارشاد فرمایا کہ میں ہندوستان کی ولایت کسی دوسرے کو دینا چاہتا تھا مگر تم راستے میں تھے اور دل میں ندا ہوئی کہ صبر سے کام لیا جائے، نظام الدین احمد بدایونی پہنچتا ہے یہ ولایت اس کی ہے، اس کو دینا یہ دعاگو یہ کلمات سن کر کھڑ ہوگیا اور اشتیاق زیارت کی بابت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر حضو رشیخ الاسلام کی اتنی دہشت طاری ہوئی کہ کچھ کہہ نہ سکا، حضرت شیخ الاسلام نے حالت معلوم کرلی اور فوراً یہ الفاظ ان کی زبان مبارک پر آئے کہ بے شک تمہارے دل میں اشتیاق تھا اور یہ بھی فرمایا کہ ہر داخل ہونے والے کے لئے دہشت ہوتی ہے، سلسلۂ گفتگو یہاں تک پہنچا تھا کہ دعاگو کو خیال پیدا ہوا کہ اب شیخ الاسلام سے جو کچھ سنوں گا لکھ لیا کروں گا، یہ خیال ابھی پختہ نہ ہوا تھا کہ حضرت نے فرمایا کہ وہ مرید نہایت خوش نصیب ہے جو اپنے پیر کے الفاظ گوش ہوش سے سنتا اور انہیں لکھ لیتا ہے چنانچہ ابرارلاؤلیا میں مرقوم ہے کہ جو مرید اپنے پیر کے ملفوظات سن کر لکھ لیتا ہے اسے ہر ہر حرف کے بدلے ہزار ہزار سال کی اطاعت کا ثواب ملتا ہے اور مرنے کے بعد اس کا مقام علیین میں بنایا جاتا ہے، اسی وقت یہ شعر بھی پڑھا۔

    اے آتشِ فراقت دلہا کباب کردہ

    سیلابِ اشتیاقت جانہا خراب کردہ

    اور فرمایا کہ انسان کی ہر وقت یہ حالت رہنی چاہئے کیونکہ ایسے شخص پر کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں آواز نہ آتی ہو کہ زندہ دل وہ ہے جس میں ہماری محبت کو برابر ترقی ہوتی رہے۔

    ابتدا میں گفتگو درویشی پر ہورہی تھی (پھر اس سلسلہ میں) ارشاد فرمایا کہ درویشی پردہ پوشی کا نام ہے اور خرقہ پہننا اسی شخص کا کام ہے جو مسلمانوں اور دوسرے انسانوں کے عیبوں کو چھپائے اور انہیں کسی پر ظاہر نہ کرے، مال دنیا میں سے اس کے پاس جو کچھ آئے اسے راہِ خدا میں صرف کرے اور جائز مصرف میں اٹھائے، خود اس میں سے ایک ذرے پر نظر نہ رکھے پھر فرمایا کہ اصحابِ طریقت اور مشائخ کبار نے اپنی بیاضوں میں لکھا ہے کہ زکوٰۃ کی تین قسمیں ہیں۔

    اول : زکوٰۃ شریعت

    دوم : زکوٰۃ طریقت

    سوم : زکوٰۃ حقیقت

    زکوٰۃ شریعت یہ ہے کہ اگر چالیس درم پاس ہوں تو ان میں سے پانچ درم راہ خدا میں دے دے اور زکوٰۃ طریقت یہ ہے کہ چالیس میں سے پانچ درم اپنے پاس رکھے اور باقی کل راہِ حق میں دے دے اور زکوٰۃ حقیقت یہ ہے کہ چالیس میں سے پانچ بھی اپنے لئے نہ رکھے اور سب اس کی راہ میں خرچ کردے، اس لئے کہ درویشی خود فروشی ہے، اسی سلسلے میں یہ حکایت ارشاد فرمائی کہ میں نے شیخ شہاب الدین سہروردی کو دیکھا ہے اور کچھ دن ان کی خدمت میں بھی رہا ہوں، ایک دن ان کی خانقاہ میں قریباً ایک ہزار دینار بطور فتوح آئے، انہوں نے سب کے سب راہِ مولیٰ میں لٹا دیے اور شام تک ایک پیسہ بھی اپنے لئے نہ رکھا اور فرمایا کہ اگر میں اس میں سے کچھ اپنے لئے رکھ لیتا تو درویش نہ رہتا بلکہ درویشِ مالدار کا لقب پاتا، اس کے بعد ارشاد ہوا کہ درویشی کے معنیٰ قناعت کے ہیں، درویش کے پاس جو کچھ آئے اس پر چوں چِرا نہ کرے کیونکہ میں نے اؤلیا اللہ کے حالات میں لکھا ہوا دیکھا ہےکہ ایک دفعہ حضرت مالک دینار کسی درویش سے ملنے کے لئے گئے، درویش اور مالک دینار میں سلوک کے متعلق باتیں ہو رہی تھیں، درویش نے دو جو کی روٹیاں نکالیں اور سامنے رکھ دیں، وہ روٹیاں بالکل پھیکی تھیں، حضرت مالک دینار نے کہا کہ اگر ان میں نمک پڑا ہوتا تو اچھا تھا، درویشِ موصوف کی ایک لڑکی تھی، اس نے مالک دینار کا یہ جملہ سنا تو فوراً برتن گروی رکھ کر بنئے کی دوکان سے کچھ نمک لے آئی اور دونوں بزرگوں کے آگے رکھ دیا، کھانے کے بعد مالک دینار نے کہا کہ اس کو قناعت کہتے ہیں، درویش کی لڑکی نے زمین چومی اور کہا اے خواجہ ! اگر تم میں قناعت ہوتی تو میرا برتن بنئے کے ہاں گروی نہ رکھواتے، اے مالک دینار ! یہ قناعت نہیں ہے جو تم سمجھے ہوئے ہو، ہمارا حال سنو، آج سترہ سال گزر گئے ہم نے اپنے نفس کو نمک نہیں دیا ہے، درویشی تم سے بہت دور ہے، اس کے بعد یہ رباعی زبان مبارک پر آئی۔

    چوں عمر در گذشت درویشی بہ

    چوں کار بقسمت است کم کوشی بہ

    چوں ترس حیات است نہ پوشی بہ

    چوں گفتہ نوشت است خاموشی بہ

    اور ابھی خبر نہیں ہے کہ درویشوں کے سروں پر کیسے کیسے آرے چلتے ہیں۔

    پھر گفتگو خرقے پر ہونے لگی، ارشاد ہوا رسول اللہ کو معراج کی رات خرقہ ملا تھا جب حضور پرنور معراج سے واپس آگئے تو انہوں نے تمام صحابہ کبار کو طلب فرمایا اور کہا کہ اس خرقے کی بابت مجھے اللہ کا حکم ہے کہ تم میں سے کسی ایک کو دے دوں، اب میں تم سے ایک سوال کرتاہوں جو اس کا جواب باصواب دے گا وہ اس کا مستحق ٹھہرے گا، اول حضرت ابوبکر صدیق کی طرف رخ کیا اور فرمایا اے ابو بکر ! اگر یہ خرقہ میں تمہیں دوں تو کیا بات اختیار کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا یا رسول اللہ ! میں عدل و انصاف اختیار کروں گا اور مظلوموں کی دادرسی کروں گا پھر امیرالمؤ منین حضرت عثمان غنی کی باری آئی، انہوں نے جواب دیا میں آپ کے مشورے سے کام اختیار کروں گا، حیا کروں گا اور سخاوت سے کام لوں گا، آخر میں امیرالمؤمنین حضرت علی کو مخاطب کیا اور پوچھا کہ علی ! اگر یہ خرقہ تمہیں دیا جائے تو تم کیا کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ میں پردہ پوشی کیا کروں گا اور بندِگانِ خدا کے عیبوں کو چھپایا کروں گا، رسول اللہ نے فرمایا لے لو علی یہ خرقہ تم ہی کو دیتا ہوں، رب العزت کا مجھے فرمان تھا کہ تمہارے دوستوں میں سے جو شخص یہ جواب دے خرقہ اسے ہی دینا، یہاں تک کہہ کر شیخ الاسلام چشم پُرآب ہوگئے اور رونے لگے اور بے ہوشی طاری ہوگئی، جب دوبارہ ہوش میں آئے تو فرمایا کہ معلوم ہوا کہ درویشی پردہ پوشی ہے، لہٰذا درویش کو چاہئے کہ یہ چار باتیں اختیار کرلے۔

    اول : آنکھیں اندھی کرلے تاکہ لوگوں کے معائب نہ دیکھ سکے۔

    دوسرے : کان بہرے کرلے تاکہ فضول اور لغو باتیں سننے سے بچ جائے۔

    تیسرے : زبان گونگی کرلے تاکہ ناحق باتیں بولنے سے بچا رہے۔

    چوتھے : پیر توڑ کر بیٹھ جائے تاکہ ناجائز جگہوں پر نہ جاسکے۔

    پس اگر کسی میں یہ خصلتیں پائی جائیں تو بلا شک اس کو درویش تسلیم کرنا چاہئے، ورنہ حا شا و کلّا مدعی جھوٹا ہے اور درویشی کی کسی چیز سے تعلق نہیں رکھتا۔

    اسی گفتگو میں ارشاد ہوا کہ شیخ شہاب الدین سہروردی چالیس سال تک اپنی آنکھیں باندھے رہے، سبب پوچھا گیا تو کہنے لگے، اس لئے کہ لوگوں کے عیب نہ دیکھوں اور اگر اتفاق سے دیکھ لوں تو چھپاؤں اور کسی سے نہ کہوں، اتنا بیان کرکے شیخ الاسلام مراقبے میں چلے گئے اور بہت دیر تک اس حالت میں رہنے کے بعد سر اٹھا کر دعاگو کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمانے لگے کہ بابا نظام الدین جب درویش ایسا ہوجائے تب وہ درویش ہے پھر وہ جو کچھ کہے گا اور چاہے گا ہوجائے گا، اس وقت شیخ الاسلام کو رقت ہونے لگی، محمد شاہ نامی ایک حاضر باش آیا اور زمین بوس ہوا، فرمایا بیٹھ جاؤ وہ بیٹھ گیا، محمد شاہ بہت پریشان تھا، اس کے بھائی پر نزع کی حالت طاری تھی، حضرت شیخ الاسلام کو حالت معلوم ہوگئی، پوچھا متفکر کیوں ہو؟ عرض کیا بھائی کی وجہ سے پریشان ہوں، آپ پر سب روشن ہے، فرمایا جاؤ تمہارا بھائی اچھا ہوگیا، محمد شاہ گھر گیا اور دیکھا کہ بھائی کو صحتِ کلی ہوگئی اور وہ بیٹھا کھانا کھا رہا ہے، اس طرح جیسے کبھی بیمار تھا ہی نہیں، اسی جلسے میں ارشاد فرمایا کہ درویشی یہ ہے جو رسول اللہ کو حاصل تھی کہ صبح سے دوپہر تک اور دوپہر سے شام تک جو کچھ آتا سب راہِ خدا میں صرف کردیتے تھے، امیرالمؤ منین حضرت علی اکثر اپنے خطبوں میں کہا کرتے تھے کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول کریم ؐ نے شام تک کسی چیز کو سینت کر رکھا ہو۔

    اس کے بعد مولانا سید بدرالدین اسحٰق نے پوچھا کہ یا حضرت ! اسراف کسے کہتے ہیں؟ اور اس کی حد کیا ہے، شیخ الاسلام نے فرمایا کہ بے سوچے سمجھے اور خلافِ رضا ئے خدا جو کچھ خرچ ہو وہ سب اسراف ہے اور جو رضائے الٰہی کے موافق ہو وہ اسراف نہیں ہے، حضرت شیخ الاسلام اتنا کہنے پائے تھے کہ اذان ہوئی، حضرت نے نماز پڑھی اور مراقبے میں مشغول ہوگئے۔

    الحمدللہ علی ذٰلک۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے