ہر کہ از جام لب مے گونۂ او مے خوار شد
ہر کہ از جام لب مے گونۂ او مے خوار شد
بے خبر از دو جہاں شد فارغ از اغیار شد
جو بھی اُس کے مے گوں لبوں کے جام سے مَست ہوا، وہ دونوں جہان سے بے خبر اور غیر سے بے نیاز ہو گیا۔
نرگس مخمور او در مجلس مے خوارگاں
بادہ شد ہم جام شد ہم ساقی و خمار شد
اُس کی مست نرگسی آنکھیں مے نوشوں کی محفل میں، خود باده بن گئیں، جام بن گئیں، ساقی بن گئیں اور خمار بن گئیں۔
از پے آزار جان مردماں مژگان او
نیش شد پیکان شد نوک سناں شد خار شد
لوگوں کی جان کو اذیت دینے کے لیے اُس کی پلکیں کانٹا بن گئیں، نیزے کی نوک اور تیر کا پیکان بن گئیں۔
تا کند نظارہ حسن خویش را آں دلبرم
دل ربا شد چارہ گر شد طالب دیدار شد
تاکہ میرا دلبر اپنے حسن کا نظارہ کر سکے، وہ دلربا بھی بن گیا، چارہ گر بھی، اور دیدار کا طالب بھی۔
وصف زلف آں نگار از اوحدیؔ بشنو کہ گفت
مار شد ہم دام شد زنجیر شد زنار شد
اُس محبوب کی زلفوں کی صفت اوحدیؔ سے سنو کہ اُس نے کہا، وہ سانپ بن گئیں، دام و زنجیر اور زنّار بن گئیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.