نمی دانم کہ آخر چوں دم دیدار می رقصم
دلچسپ معلومات
حکیم سید نذر اشرف فاضلؔ کچھوچھوی کی یہ معرکۃ الآرا اور اپنی خصوصیات میں بے مثل غزل ہے، جس کی عام مقبولیت اور آستانوں میں محفلِ سماع کی زینت نے اس کو تعارف و مداہی سے بے نیاز کریا ہے، یہ پُرکیف نظم خواجہ معین الدین چشتی کی نظم کے اتباع میں بہار کے ضلع بھاگل پور میں تیار ہوئی تھی اور بجلی کی طرح ہندوستان میں پھیل گئی، قوالوں کی معمولی تحریف نے اگر چہ غزل کی صورت بدل دی، چند اشعار کو خلط ملط کردیا ہے بلکہ تخلص تک بدل گیا ہے، نورالحسن مودودی صابری نے 1935 میں نغمات سماع نامی کتاب میں اسی غزل کو خواجہ عثمان ہارونی کا بتایا ہے جس کے بعد یہ عام طور پر نقل ہونا شروع ہوا جبکہ اس سے قبل یہ غزل آپ کی مقبول ہوچکی تھی۔
نمی دانم کہ آخر چوں دم دیدار می رقصم
مگر نازم بر ایں ذوقے کہ پیش یار می رقصم
مجھے کچھ خبر نہیں کہ آخر محبوب کو دیکھتے ہی میں رقص کیوں کر رہا ہوں لیکن پھر بھی مجھےاپنی اس خوش ذوقی پر ناز ہے کہ میں اپنے محبوب کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔
نگاہش جانب من چشم من محو تماشایش
منم دیوانہ لیکن با دل ہشیار می رقصم
اس کی نگاہ میری طرف ہے اور میری نظر اسے دیکھنے میں مصروف ہے، میں دیوانہ ہوگیا ہوں لیکن ہوشیار دل کے ساتھ رقص کر رہا ہوں۔
زہے رندے کہ پامالش کنم صد پارسائی را
خوشا تقویٰ کہ من با جبہ و دستار می رقصم
کیسی اچھی وہ رندی ہے کہ سیکڑوں پارسائی کو پامال کرتی ہے، کیا خوب تقویٰ ہے کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص میں ہوں (یعنی جبہ و دستار اہل تقویٰ کی علامت ہے اور رقص رندوں کا طریقہ ہے لیکن محبت میں بے خودی کا یہ عالم ہے کہ جبہ و دستار کی اہمیت بھی باقی نہ رہی )۔
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہ جاں بازاں
بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم
اے معشوق! آ دیکھ کہ جانبازوں کے اس مجمع میں بصد سامان رسوائی میں رقص کر رہا ہوں۔
تو آں قاتل کہ از بہر تماشا خون من ریزی
من آں بسمل کہ زیر خنجر خونخوار می رقصم
تو وہ قاتل ہے کہ برائے تماشا میرا خون بہانا چاہتا ہے، اور میں وہ بسمل ہوں جو خنجرِ خونخوار کے نیچے رقص کر رہاہوں۔
تپش چوں حالتے آرد بروئے شعلہ می غلطم
خلش چوں لذتے بخشد بہ نوک خار می رقصم
تپش کی وجہ سے میری یہ حالت ہوگئی ہے کہ گویا میں شعلہ کے اوپر لوٹ رہا ہوں, خلش کی وجہ سے مجھے ایک ایسی لذت مل رہی ہے کہ میں کانٹے کی نوک پر رقص کر رہا ہوں۔
زہے رنگ تماشایش خوشا ذوق دلم فاضلؔ
کہ می بیند چو او یک بار من صد بار می رقصم
اس کے تماشے کے رنگ کا کیا کہنا اور اے فاضلؔ میرے ذوقِ دل کا کیا کہنا، وہ مجھے ایک بار دیکھتا ہے اور میں سیکڑوں بار رقص کرتا ہوں۔
- کتاب : Qand-e-Parsi (Guldasta-e-Fazil) (Pg. 160)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.