Sufinama

ستم است اگر ہوست کشد کہ بہ سیر سرو و سمن در آ

بیدل عظیم آبادی

ستم است اگر ہوست کشد کہ بہ سیر سرو و سمن در آ

بیدل عظیم آبادی

MORE BYبیدل عظیم آبادی

    ستم است اگر ہوست کشد کہ بہ سیر سرو و سمن در آ

    تو ز غنچہ کم نہ دمیدہ ای در دل کشا بہ چمن در آ

    شعر میں سیر در باطن کی تاکید ہے جو بعض صوفیوں کی مشہور مشق ہے۔ کیا ستم کی بات نہ ہوگی کہ ہوس تجھ کو فریب دے اور مظاہر خارجی (سروسمن) کی سیر پر اکسائے؟ ذرا دل کا دروازہ کھول تو سہی، پھولے کی اپنے من ہی میں گلزار دیکھنا تو غنچہ سر بند سے کم نہیں، جس کا ہدف آخری یہ ہے کہ پھول بنے اور کھل جائے۔ خیر و شر کے اسرار دروں بینی سے منکشف ہوتے ہیں۔

    پئے نافہاے رمیدہ بو مپسند زحمت جستجو

    بہ خیال حلقۂ زلف او گرہے خور و بہ ختن در آ

    نافہ ہائے رمیدہ بو عالم کثرت کی طرف اشارہ ہے، اس کی جستجوسے حقیقت کا سراغ نہ ملے گا۔ محبوب کے حلقہ زلف میں دل کو باندھنے سے منزل مقصود (ختن) تک رسائی ہوتی ہے۔

    ہوس تو نیک و بد تو شد نفس تو دام و دد تو شد

    کہ بایں جنوں بلد تو شد کہ بعالم تو و من در آ

    ہوس سینے میں آزوؤں کی پرورش کرتی ہےجو وحشی جانوروں کی طرح سرگرم ہیں ، اور آدمی کو نیکی و بدی کے ہزار مشاغل میں پھنسائے رکھتی ہیں۔ خدا جانے تو کیسے آرزو پروری کے جنوں سے واقف ہوا۔ اور کس نے تجھ کو یہ سبق پڑھایا کہ بالآخر عالم اضداد (تو و من) کا اسیر ہوکر حقیقت کو فراموش کر بیٹھا۔

    غم انتظار تو بردہ ام برہ ای خیال تو مردہ ام

    قدمے بہ پرسش من کشا نفسے چو جاں بہ بدن در آ

    آنکھیں انتظار کرتے کرتے تھک گئیں، اور بالآخر راہ خیال میں جان دیدی۔ اب تو پرسش احوال ہوجائے۔ البتہ تھوڑی سی دیر کے لئے سانس کے وقفے کے برابر بھی کرم فرمایا تو میں سمجھونگا جیسے مردہ بدن میں جان آگئی۔

    نہ ہوائے اوج و نہ پستیت نہ خروش ہوش و نہ مستیت

    چو سحر چہ حاصل ہستیت نفسے شو و بہ سخن در آ

    آدمی کی زندگی کا ماحصل یہ ہے کہ اس کے سامنے اوج و پستی کے تجربات تسلسل اور تکرار کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ اور یہ کہ ہوش و مستی کی متضاد کیفیات اس پر بار بار گذرتی رہتی ہیں۔ وہ کیا آدمی جس کے دل میں بلندی و پستی سے گذرنے کا حوصلہ نہ ہو اور جو ہوش و مستی کی واردات سے نمٹنے کا سلیقہ نہ رکھتا ہو۔ لُب لباب یہ ہے کہ اپنی ہستی کا احساس کیجئے حتیٰ کہ سانس لینے میں جتنی دیر لگتی ہے اتنے سے عرصےکے لئے بھی اپنے نفس کی پہچان اور خودی کا شعور حاصل ہوجائے تو ایک حد تک مقصد پورا ہوا۔

    ز سروش محفل کبریا ہمہ وقت می رسد ایں ندا

    کہ بہ خلوت ادب وفا ز در بروں نہ شدن در آ

    انسان اور فرشتے میں ایک فرق یہ ہے کہ فرشتہ تقرب الہیٰ کو فضیلت پاکر وہاں سے کے بھی سکتا ہے۔ انسان ایک دفعہ منزل عرفان پر فائز ہوجائے تو ہمیشہ توفیق خداوندی اس کے حال میں شامل رہتی ہے اور وہ اس مقام سے کبھی نیچے نہیں آتا۔ در برون نشدن کا یہی مطلب ہے۔ وہ دروازہ جس میں داخل ہونیکے بعد دوبارہ باہر نکلنے یا نکالے جانے کا کھٹکا نہیں ہے۔ شعر کا باقی مفہوم واضح ہے۔ معبود کی جانب سے ہر وقت بندوں کو صلائے عام ہے، جو حوصلہ رکھتا ہو، اظہار وفا کرے، بارگاہِ خلوت ادب تک رسائی متمنع اور محال نہیں ہے۔

    بدرآئے بیدلؔ ازیں قفس اگر آں طرف کشدت ہوس

    تو بغربت آں ہمہ خوش نہ کہ بہ گویمت بہ وطن در آ

    عارف کیلئے دنیا زندان اور قفس ہے۔ روح ہمیشہ اپنے وطن اصلی کی طرف لوٹنے کے لئے بیقرار رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ مسافر عالم غربت میں خوش نہیں رہتا اور اس کا دل اندر سے کہتا رہتا کہ پہلی فرصت میں گھر واپس چلئے۔

    ویڈیو
    This video is playing from YouTube

    Videos
    This video is playing from YouTube

    اقبال بانوں

    اقبال بانوں

    مأخذ :
    • کتاب : کلیات ابوالمعالی مرزا عبدالقادر بیدل (جلد اول) (Pg. 84)
    • Author : بیدل عظیم آبادی
    • مطبع : پوہنی مطبع، کابل (1922)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے