فہرست
حمد پاک
مقدمہ
میں اگر صورت پروانہ فدا ہو جاتا
پئے سجدہ اگر مجھ کو نہ تیرا آستاں ملتا
مرا دیوانہ پن فرزا نگی سے کم نہیں ہوتا
شیشہ لب سے جدا نہیں ہوتا
کرے جو شوق طلب ذوق بندگی پیدا
مجھے یاد ہے ستم گر ترا اوّلین اشارا
نفس بھی تیز تر اور دل بھی مصرف و فغاں میرا
رہ الفت میں یہ تھا شوق سے عالم مرے دل کا
سلطنت آپ کی ہے نظام آپ کا
اس دور جنوں میں جذبۂ دل اور اس کے سوا اب کیا ہوگا
الم بردوش دنیا میں سکون دل تو کیا ہوگا
تری محفل میں فرق کفرو ایماں کون دیکھے گا
دل سے جس وقت ترے تیر کا پیکاں نکلا
یہ کیوں کہوں کہ مجھے درد آشنا نہ ملا
تمہیں ہم اپنا دل سمجھے تمہیں اپنی نظر جانا
خوشی کے لفظ بھی کچھ غم کے افسانے میں رکھ دینا
سوزش غم کے سوا کا ہش فرقت کے سوا
دل میں ہمارے اب کوئی ارماں نہیں رہا
دیکھ رہا ہے بزم میں ساقی کیف بار کیا
زہے جذب محبت آج قاصد کا میاب آیا
یہ ہم پر لطف کیسا یہ کرم کیا
مضطرب ہو کر کوئی باچشم تر آہی گیا
شیخ جس دن سے شریک بزم رنداں ہوگیا
اپنی مایوسی کا عالم ساز گار آہی گیا
جتنا ہے ان کو میری وفاؤں سے اجتناب
رہ زندگی میں لطیف تر یہ اصول میں نے بنا لیا
یہ انکشاف چمن میں ہوا بہار کے بعد
یوں تو ہے دہر میں ہر درد کا ہر غم کا علاج
رہ عشق میں یہ ستم رہے فقط ایک مشت غبار پر
اسیر دور کہن انقلاب پیدا کر
ان سے کرم کی کھ امید ان کی عطا سے پیار کر
رہ عشق سے گزرنا دل مضطرب سنبھل کر
ہوئی ہے بے اثر میری فغاں یوں با اثر ہوکر
اپنی ہستی مٹاؤں میں کیوں کر
اے دل درد آشنا حسن سے رسم و راہ کر
فرقت کی شب میں بھی الثر
تمہارا تذکرہ دن رات ہوتا ہے جہاں اب تک
یہ زخم تازہ اور ہے زخم کہن کے پاس
آہ کو صبر ضروری ہے شرر ہونے تک
آفت بدوش عالم گلشن ہے آج کل
ہر پارسا اداس ہے ہر رند تشنہ کام
مجھے مآل بہار و خزاں نہیں معلوم
ہو جائیں بے نیاز غم دو جہاں سے ہم
مانوس فطرتاً ہیں غم عاشقی سے ہم
دو گھونٹ پی کے آْج تمہاری نظر سے ہم
وہ زمیں پیدا کریں وہ آسماں پیدا کریں
بار الفت کا حسینوں کی اٹھا بھی نہ سکوں
خوشی محسوس کرتا ہوں نہ غم محسوس کرتا ہوں
محبت میں یہ کم سے کم چاہتا ہوں
جہاں میں ہم جسے بھی پیار کے قابل سمجھتے ہیں
اس طرح جنوں کی دنیا میں جینے کا سہارا کرتے ہیں
ہم اپنی آزردہ زندگی پر انہیں رلانا بھی چاہتے ہیں
جو قرب کی حسرت رکھتے ہیں کیا دورانہیں سے رہتے ہیں
نقاب اٹھاؤ تو ہم بھی دیکھیں نظر ملاؤ تو ہم بھی جانیں
حسن کی طرح عشق بھی خود کو رکھے جو راز میں
ہوش کی باتیں وہی کرتا ہے اکثر ہوش میں
میرے اس کے درمیاں پردہ کوئی حائل نہیں
جلوۂ دوست کسی وقت رو پوش نہیں
آدمی وہ در حقیقت آدمی ہوتا نہیں
کون کہتا ہے کہ وسعت میرے داماں میں نہیں
جب تری نظریں مرے دل کی نگہباں ہوگئیں
ہر نفس کو اک آہ ہونے دو
کسی کی جستجو میں جستجو کا یہ اثر دیکھو
اتنے نزدیک سے آئینے کو دیکھا نہ کرو
اب وہاں چل کر رہیں اے دل جہاں کوئی نہ ہو
کچھ روپ نگر کا ذکر کرو کچھ رنگ محل کی بات کرو
جو رہا یونہی سلامت مرا ذوق آشیانہ
ترے لبوں پر بھی ہے تبسم مری زباں پر بھی ہے ترانہ
ہاتھوں میں جس کے ہاتھ دیا ہے رضا کے ساتھ
شام غم کب ادھر نہیں آتی
جہاں تقسیم صہبا ہر گھڑی دیکھی نہیں جاتی
بعد مدّت جو تری چشم عنایت دیکھی
آہ و نالہ دردو غم شور فغاں ہے آج بھی
کسی جبیں نے بصد ناز و الفت جو رخ سے نقاب تکلف اٹھا دی
اس نے مرے مرنے کے لیے آج دعا کی
عشق میں یہ ہوئی حالت ترے دیوانے کی
جفا پیشہ وفا دشمن ستم رانو پہ کیا گزری
یہ سوچا تھا ہم نے رہ عاشقی میں شب وروزان ملاقات ہوگی
ہجر کے لمحات سے دل بستگی ہونے لگی
جب نگاہ لطف مجھ پر آپ کی ہو جائے گی
ابر چھائے گا تو برسات بھی ہو جائے گی
آخر شب وہ تیری انگڑائی
جسے تجلّی حا ناں سے آگہی نہ ہوئی
جان نذر شباب ہو کے رہی
اے دوقت مرا ہر تار نفس فردوس بداماں ہوتا ہے
وہ بھی منظر عجیب ہوتا ہے
درد جب عشق میں مائل بہ فغاں ہوتا ہے
اللہ تو ہر اک انساں کو ہر گام سہارا دیتا ہے
ہوائیں چل رہی ہیں آسماں فپر ا بر چھایا ہے
تم کو دنیا میں اگر میرا بھرم رکھنا ہے
سننے کی بات ہے نہ سنانے کی بات ہے
کبھی حسن یار کا ذکر ہے کبھی دور جام کی بات ہے
نہ لطفیف شام کی جستجو نہ حسیں سحر کی تلاش ہے
اے ہمت مایوس تجھے یہ بھی خبر ہے
یورش آلام ہے لیکن مرا دل ایک ہے
نغمہ و کیف نور ہے نشہ ہے ناؤ نوش ہے
عشق شعلہ نہ حسن شبنم ہے
ارے محتسب یہ ہے مے کدہ یہاں بحث کرنا حرام ہے
ضرور کوئی کمی دور خوشگوار میں ہے
حسن کی ادا ہر اک ایسی فتنہ ساماں ہے
مسکراہٹ ہے لبوں پر غم کا طوفاں دل میں ہے
تری دنیا میں یارب کیا نہیں ہے
سینۂ شاعر غم سے بھرا ہے آنکھ مگر نمناک نہیں ہے
کس کوچے میں حسن نہیں ہے کس محفل میں رنگ نہیں ہے
اس مست نظر کا اف رے ستم جس وقت ادھر ہو جاتی ہے
زندگی موت کا پیغام ہوئی جاتی ہے
طبیعت راہ الفت میں جہاں غمگین ہوتی ہے
آنکھ مشتاق صنم ہ و تو غزل ہوتی ہے
اس دنیا میں ہنستے رہنا بہت بڑی مکاّری ہے
غم زدوں پر جو رات بھاری ہے
ترا نام بھی بڑا ہے تری ذات بھی بڑی ہے
مرے فرزانہ بننے کا بہت امکان باقی ہے
محبت یوں تو کہنے کو بلائے نا گہانی ہے
آہوں کا آسماں پہ دھواں دیکھتے رہے
وہ کھلے الفاظ میں ذکر عدو کرتے رہے
اک ہم کہ ان کے واسطے محو فغاں رہے
ہم کب ترے عتاب کا عنواں نہیں رہے
جب تک ہم اہل دل تھے شہید نظر نہ تھے
ہم تمہیں کب خدا نہیں کہتے
کب آپ کو ہم ایک ستمگر نہیں کہتے
اسے کیو ں سحر سے نشاط ہو اسے کیا ملال ہو شام سے
جو ہزار حشر اٹھیں نہ اٹھے گا وہ یہاں سے
منکشف ہو جائیں گے اسرار بز م راز کے
نظر ملانے گئے تھے نظر ملانہ سکے
نگاہ شوق پہ ہم اختیار پا نہ سکے
اے دوست حضوری میں تیری دو اشک ہمارے بہہ نہ سکے
ہے کتنا حسیں تر یہ تماشا مرے آگے
جگر کے داغوں کو فرط غم میں جب اہل الفت عیاں کریں گے
ضیائے شمس و قمر سے پہلے و جود کون ومکاں سے پہلے
مجھ کو ترے کرم کا سہارا اگر ملے
وہی ہی ںدیر و کعبہ کی فضا سے کھیلنے والے
نگہ مست مری سمت اٹھا دی تونے
کیوں نہ سوچا یہ دل ناکام نے
حرم اور دیر کی جب سے پرستش چھوڑدی ہم نے
جہاں بھی کائنات زندگی کی ہے فدا ہم نے
تری تلاش میں نکلے ہیں تریے دیوانے
اب تک بھی پا سکے نہ جہاں نکتیہ داں تجھے
بخشی ہے کیف عشق نے وہ بے خودی مجھے
ہ رجگہ آپ نے ممتاز بنا یا ہے مجھے
کبھی سرمد کبھی منصور بنایا ہے مجھے
یہاں سے اب کہیں لے چل خیال یار مجھے
ایسی کوئی شام نہ آئے
چمن میں شور بپا ہے نئی بہا رآئے
طلب کی راہ میں دامن خوشی کا بھر جائے
کہاں کوئی اپنا نشیمن بنائے
کم نہ تھے اے دوست آلام جہاں میرے لیے
دوریٔ جادہ رہی دشمن میرے دل کے لیے
مختلف عنوان تھے جس کے فسانے کے لیے
ہر آنکھ می مستی ہے کہیے بھی تو کیا کہیے
حرم سمجھیے کبھی مرکز بتاں کہیے
اس قدر راہ محبت میں فنا ہو جائیے
پہنچے تھے ذوق دید کا ارماں لیے ہوئے
راہ الفت میں جہاں سب کچھ لٹا کر رہ گئے
قطعات
نظمیں
میں ہوں فن کار
انسان
آزمائش
حال و مستقبل
قومی یک جہتی
گلشن ہندوستان
میرا بھارت
وطن کے محافظ کا پیغام اپنی ماں کے نام
آْزادی کا خواب
آزادی
حب وطن
حصول آزادی
دیش کے نوجوانوں سے
جشن مسرّت
جمہور کا فیصلہ
تقاضائے وقت
حسن بہاراں
نا شنا سی فرض
جنت کشمیر
شب برأت
ہلال عید
روز عید
عید الفطر
عید الاضحےٰ
مرے چناروں سے دور رہنا
حسین منزل
ایمرجنسی
عمل
دوالی
رد عمل
فیملی پلاننگ
وقت کی آواز
بنگلہ دیش
بنگلہ دیش
گوا کی آزادی
نعت شریف
سلام
رسول خدا
پیغمبر اسلام
یا محمد
رسول مکرم
مدینے کی بہار
فیض رسول
رسالت مآب
سلطان مدینہ
ذات اطہر
دیار بندہ نواز
امام عالی مقام
مرثیہ حضرت امام حسین
علی مولا
حضرت امام حسین
حضرت حسین
سلطان کربلا
یاوارث
دیوے کے بسیّا
عین الیقیں
وارث عالم نواز
تصرّف وارث
دیوہ شریف
احرام شریف
حاجی اوگھٹ شاہ وارثی
حضرت سلمان شاہ وارثی بچھرایونی
جشن ولادت
خواجہ غریب نواز
حضرت نظام الدین اولیاء
روح روح رواں نظام الدین
مہرمہ مہرباں نظام الدین
جو تیرے پرستار ہیں محبوب الٰہی
اللہ اللہ کیا شان ملی حضرت سلطان نظام الدین
عارف حق عاشق فخر زمن کی بزم ہے
محبو عاشقاں کی ولادت کا جشن ہے
مری عزت مری عظمت ہے محبوب الٰہی سے
ہر شخص کی نگاہ میں عالی مقام ہیں
میں کیسے لکھوں رتبہ محبوب الٰہی کا
یہ اخلاق مساوی ہے نظام الدین چشتی کا
امیر خسرو کی محفل
بزم خسرو
امیر خسرو اور قومی یک جہتی
منظوم اردو ترجمہ
حاجی اوگھٹ شاہ وارثی
حضرت اسد ملتانی
جناب شکیل بدایونی
مہاتما گاندھی
فولادی لیڈر
پنڈت موتی لال نہرو
رابندر ناتھ ٹیگور
مہاویر سوامی
جواہر لعل نہرو
پنڈت جواہر لعل نہرو کا استقبال یورپ کی واپسی پر
اے ہندوستان کے پاسباں
لال بہادر شاستری اور امن عالم
مولانا ابوالکلام آزاد
ڈاکٹر ذاکر حسین
حکیم محمد اجمل خاں
ڈاکٹر محمد اقبال
سید حسین احمد مدنی
آصف علی
بابا گرو نانک
اندرا جی کے آدرش
اعتماد
اندراجی سے خطاب
اندرا گاندھی
فہم وفراست
بیاد اندرا گاندھی
مخمور دہلوی
غم شہر یار پرواز
بسمل سعیدی
جشن کنور مہندر سنگھ بیدی سحر
برادر خورد قد یراحمد
برادر محترم صغیر احمد
ساغر نظامی
سید کلب عابد
حاجی انیس دہلوی
مفتی محمد مشرف احمد
گلہائے عقیدت
ہمدرداور نونہالان وطن
حکیم عبدالحمید
استقبال حکمیم محمد سعید
خیر مقدم
فہرست
حمد پاک
مقدمہ
میں اگر صورت پروانہ فدا ہو جاتا
پئے سجدہ اگر مجھ کو نہ تیرا آستاں ملتا
مرا دیوانہ پن فرزا نگی سے کم نہیں ہوتا
شیشہ لب سے جدا نہیں ہوتا
کرے جو شوق طلب ذوق بندگی پیدا
مجھے یاد ہے ستم گر ترا اوّلین اشارا
نفس بھی تیز تر اور دل بھی مصرف و فغاں میرا
رہ الفت میں یہ تھا شوق سے عالم مرے دل کا
سلطنت آپ کی ہے نظام آپ کا
اس دور جنوں میں جذبۂ دل اور اس کے سوا اب کیا ہوگا
الم بردوش دنیا میں سکون دل تو کیا ہوگا
تری محفل میں فرق کفرو ایماں کون دیکھے گا
دل سے جس وقت ترے تیر کا پیکاں نکلا
یہ کیوں کہوں کہ مجھے درد آشنا نہ ملا
تمہیں ہم اپنا دل سمجھے تمہیں اپنی نظر جانا
خوشی کے لفظ بھی کچھ غم کے افسانے میں رکھ دینا
سوزش غم کے سوا کا ہش فرقت کے سوا
دل میں ہمارے اب کوئی ارماں نہیں رہا
دیکھ رہا ہے بزم میں ساقی کیف بار کیا
زہے جذب محبت آج قاصد کا میاب آیا
یہ ہم پر لطف کیسا یہ کرم کیا
مضطرب ہو کر کوئی باچشم تر آہی گیا
شیخ جس دن سے شریک بزم رنداں ہوگیا
اپنی مایوسی کا عالم ساز گار آہی گیا
جتنا ہے ان کو میری وفاؤں سے اجتناب
رہ زندگی میں لطیف تر یہ اصول میں نے بنا لیا
یہ انکشاف چمن میں ہوا بہار کے بعد
یوں تو ہے دہر میں ہر درد کا ہر غم کا علاج
رہ عشق میں یہ ستم رہے فقط ایک مشت غبار پر
اسیر دور کہن انقلاب پیدا کر
ان سے کرم کی کھ امید ان کی عطا سے پیار کر
رہ عشق سے گزرنا دل مضطرب سنبھل کر
ہوئی ہے بے اثر میری فغاں یوں با اثر ہوکر
اپنی ہستی مٹاؤں میں کیوں کر
اے دل درد آشنا حسن سے رسم و راہ کر
فرقت کی شب میں بھی الثر
تمہارا تذکرہ دن رات ہوتا ہے جہاں اب تک
یہ زخم تازہ اور ہے زخم کہن کے پاس
آہ کو صبر ضروری ہے شرر ہونے تک
آفت بدوش عالم گلشن ہے آج کل
ہر پارسا اداس ہے ہر رند تشنہ کام
مجھے مآل بہار و خزاں نہیں معلوم
ہو جائیں بے نیاز غم دو جہاں سے ہم
مانوس فطرتاً ہیں غم عاشقی سے ہم
دو گھونٹ پی کے آْج تمہاری نظر سے ہم
وہ زمیں پیدا کریں وہ آسماں پیدا کریں
بار الفت کا حسینوں کی اٹھا بھی نہ سکوں
خوشی محسوس کرتا ہوں نہ غم محسوس کرتا ہوں
محبت میں یہ کم سے کم چاہتا ہوں
جہاں میں ہم جسے بھی پیار کے قابل سمجھتے ہیں
اس طرح جنوں کی دنیا میں جینے کا سہارا کرتے ہیں
ہم اپنی آزردہ زندگی پر انہیں رلانا بھی چاہتے ہیں
جو قرب کی حسرت رکھتے ہیں کیا دورانہیں سے رہتے ہیں
نقاب اٹھاؤ تو ہم بھی دیکھیں نظر ملاؤ تو ہم بھی جانیں
حسن کی طرح عشق بھی خود کو رکھے جو راز میں
ہوش کی باتیں وہی کرتا ہے اکثر ہوش میں
میرے اس کے درمیاں پردہ کوئی حائل نہیں
جلوۂ دوست کسی وقت رو پوش نہیں
آدمی وہ در حقیقت آدمی ہوتا نہیں
کون کہتا ہے کہ وسعت میرے داماں میں نہیں
جب تری نظریں مرے دل کی نگہباں ہوگئیں
ہر نفس کو اک آہ ہونے دو
کسی کی جستجو میں جستجو کا یہ اثر دیکھو
اتنے نزدیک سے آئینے کو دیکھا نہ کرو
اب وہاں چل کر رہیں اے دل جہاں کوئی نہ ہو
کچھ روپ نگر کا ذکر کرو کچھ رنگ محل کی بات کرو
جو رہا یونہی سلامت مرا ذوق آشیانہ
ترے لبوں پر بھی ہے تبسم مری زباں پر بھی ہے ترانہ
ہاتھوں میں جس کے ہاتھ دیا ہے رضا کے ساتھ
شام غم کب ادھر نہیں آتی
جہاں تقسیم صہبا ہر گھڑی دیکھی نہیں جاتی
بعد مدّت جو تری چشم عنایت دیکھی
آہ و نالہ دردو غم شور فغاں ہے آج بھی
کسی جبیں نے بصد ناز و الفت جو رخ سے نقاب تکلف اٹھا دی
اس نے مرے مرنے کے لیے آج دعا کی
عشق میں یہ ہوئی حالت ترے دیوانے کی
جفا پیشہ وفا دشمن ستم رانو پہ کیا گزری
یہ سوچا تھا ہم نے رہ عاشقی میں شب وروزان ملاقات ہوگی
ہجر کے لمحات سے دل بستگی ہونے لگی
جب نگاہ لطف مجھ پر آپ کی ہو جائے گی
ابر چھائے گا تو برسات بھی ہو جائے گی
آخر شب وہ تیری انگڑائی
جسے تجلّی حا ناں سے آگہی نہ ہوئی
جان نذر شباب ہو کے رہی
اے دوقت مرا ہر تار نفس فردوس بداماں ہوتا ہے
وہ بھی منظر عجیب ہوتا ہے
درد جب عشق میں مائل بہ فغاں ہوتا ہے
اللہ تو ہر اک انساں کو ہر گام سہارا دیتا ہے
ہوائیں چل رہی ہیں آسماں فپر ا بر چھایا ہے
تم کو دنیا میں اگر میرا بھرم رکھنا ہے
سننے کی بات ہے نہ سنانے کی بات ہے
کبھی حسن یار کا ذکر ہے کبھی دور جام کی بات ہے
نہ لطفیف شام کی جستجو نہ حسیں سحر کی تلاش ہے
اے ہمت مایوس تجھے یہ بھی خبر ہے
یورش آلام ہے لیکن مرا دل ایک ہے
نغمہ و کیف نور ہے نشہ ہے ناؤ نوش ہے
عشق شعلہ نہ حسن شبنم ہے
ارے محتسب یہ ہے مے کدہ یہاں بحث کرنا حرام ہے
ضرور کوئی کمی دور خوشگوار میں ہے
حسن کی ادا ہر اک ایسی فتنہ ساماں ہے
مسکراہٹ ہے لبوں پر غم کا طوفاں دل میں ہے
تری دنیا میں یارب کیا نہیں ہے
سینۂ شاعر غم سے بھرا ہے آنکھ مگر نمناک نہیں ہے
کس کوچے میں حسن نہیں ہے کس محفل میں رنگ نہیں ہے
اس مست نظر کا اف رے ستم جس وقت ادھر ہو جاتی ہے
زندگی موت کا پیغام ہوئی جاتی ہے
طبیعت راہ الفت میں جہاں غمگین ہوتی ہے
آنکھ مشتاق صنم ہ و تو غزل ہوتی ہے
اس دنیا میں ہنستے رہنا بہت بڑی مکاّری ہے
غم زدوں پر جو رات بھاری ہے
ترا نام بھی بڑا ہے تری ذات بھی بڑی ہے
مرے فرزانہ بننے کا بہت امکان باقی ہے
محبت یوں تو کہنے کو بلائے نا گہانی ہے
آہوں کا آسماں پہ دھواں دیکھتے رہے
وہ کھلے الفاظ میں ذکر عدو کرتے رہے
اک ہم کہ ان کے واسطے محو فغاں رہے
ہم کب ترے عتاب کا عنواں نہیں رہے
جب تک ہم اہل دل تھے شہید نظر نہ تھے
ہم تمہیں کب خدا نہیں کہتے
کب آپ کو ہم ایک ستمگر نہیں کہتے
اسے کیو ں سحر سے نشاط ہو اسے کیا ملال ہو شام سے
جو ہزار حشر اٹھیں نہ اٹھے گا وہ یہاں سے
منکشف ہو جائیں گے اسرار بز م راز کے
نظر ملانے گئے تھے نظر ملانہ سکے
نگاہ شوق پہ ہم اختیار پا نہ سکے
اے دوست حضوری میں تیری دو اشک ہمارے بہہ نہ سکے
ہے کتنا حسیں تر یہ تماشا مرے آگے
جگر کے داغوں کو فرط غم میں جب اہل الفت عیاں کریں گے
ضیائے شمس و قمر سے پہلے و جود کون ومکاں سے پہلے
مجھ کو ترے کرم کا سہارا اگر ملے
وہی ہی ںدیر و کعبہ کی فضا سے کھیلنے والے
نگہ مست مری سمت اٹھا دی تونے
کیوں نہ سوچا یہ دل ناکام نے
حرم اور دیر کی جب سے پرستش چھوڑدی ہم نے
جہاں بھی کائنات زندگی کی ہے فدا ہم نے
تری تلاش میں نکلے ہیں تریے دیوانے
اب تک بھی پا سکے نہ جہاں نکتیہ داں تجھے
بخشی ہے کیف عشق نے وہ بے خودی مجھے
ہ رجگہ آپ نے ممتاز بنا یا ہے مجھے
کبھی سرمد کبھی منصور بنایا ہے مجھے
یہاں سے اب کہیں لے چل خیال یار مجھے
ایسی کوئی شام نہ آئے
چمن میں شور بپا ہے نئی بہا رآئے
طلب کی راہ میں دامن خوشی کا بھر جائے
کہاں کوئی اپنا نشیمن بنائے
کم نہ تھے اے دوست آلام جہاں میرے لیے
دوریٔ جادہ رہی دشمن میرے دل کے لیے
مختلف عنوان تھے جس کے فسانے کے لیے
ہر آنکھ می مستی ہے کہیے بھی تو کیا کہیے
حرم سمجھیے کبھی مرکز بتاں کہیے
اس قدر راہ محبت میں فنا ہو جائیے
پہنچے تھے ذوق دید کا ارماں لیے ہوئے
راہ الفت میں جہاں سب کچھ لٹا کر رہ گئے
قطعات
نظمیں
میں ہوں فن کار
انسان
آزمائش
حال و مستقبل
قومی یک جہتی
گلشن ہندوستان
میرا بھارت
وطن کے محافظ کا پیغام اپنی ماں کے نام
آْزادی کا خواب
آزادی
حب وطن
حصول آزادی
دیش کے نوجوانوں سے
جشن مسرّت
جمہور کا فیصلہ
تقاضائے وقت
حسن بہاراں
نا شنا سی فرض
جنت کشمیر
شب برأت
ہلال عید
روز عید
عید الفطر
عید الاضحےٰ
مرے چناروں سے دور رہنا
حسین منزل
ایمرجنسی
عمل
دوالی
رد عمل
فیملی پلاننگ
وقت کی آواز
بنگلہ دیش
بنگلہ دیش
گوا کی آزادی
نعت شریف
سلام
رسول خدا
پیغمبر اسلام
یا محمد
رسول مکرم
مدینے کی بہار
فیض رسول
رسالت مآب
سلطان مدینہ
ذات اطہر
دیار بندہ نواز
امام عالی مقام
مرثیہ حضرت امام حسین
علی مولا
حضرت امام حسین
حضرت حسین
سلطان کربلا
یاوارث
دیوے کے بسیّا
عین الیقیں
وارث عالم نواز
تصرّف وارث
دیوہ شریف
احرام شریف
حاجی اوگھٹ شاہ وارثی
حضرت سلمان شاہ وارثی بچھرایونی
جشن ولادت
خواجہ غریب نواز
حضرت نظام الدین اولیاء
روح روح رواں نظام الدین
مہرمہ مہرباں نظام الدین
جو تیرے پرستار ہیں محبوب الٰہی
اللہ اللہ کیا شان ملی حضرت سلطان نظام الدین
عارف حق عاشق فخر زمن کی بزم ہے
محبو عاشقاں کی ولادت کا جشن ہے
مری عزت مری عظمت ہے محبوب الٰہی سے
ہر شخص کی نگاہ میں عالی مقام ہیں
میں کیسے لکھوں رتبہ محبوب الٰہی کا
یہ اخلاق مساوی ہے نظام الدین چشتی کا
امیر خسرو کی محفل
بزم خسرو
امیر خسرو اور قومی یک جہتی
منظوم اردو ترجمہ
حاجی اوگھٹ شاہ وارثی
حضرت اسد ملتانی
جناب شکیل بدایونی
مہاتما گاندھی
فولادی لیڈر
پنڈت موتی لال نہرو
رابندر ناتھ ٹیگور
مہاویر سوامی
جواہر لعل نہرو
پنڈت جواہر لعل نہرو کا استقبال یورپ کی واپسی پر
اے ہندوستان کے پاسباں
لال بہادر شاستری اور امن عالم
مولانا ابوالکلام آزاد
ڈاکٹر ذاکر حسین
حکیم محمد اجمل خاں
ڈاکٹر محمد اقبال
سید حسین احمد مدنی
آصف علی
بابا گرو نانک
اندرا جی کے آدرش
اعتماد
اندراجی سے خطاب
اندرا گاندھی
فہم وفراست
بیاد اندرا گاندھی
مخمور دہلوی
غم شہر یار پرواز
بسمل سعیدی
جشن کنور مہندر سنگھ بیدی سحر
برادر خورد قد یراحمد
برادر محترم صغیر احمد
ساغر نظامی
سید کلب عابد
حاجی انیس دہلوی
مفتی محمد مشرف احمد
گلہائے عقیدت
ہمدرداور نونہالان وطن
حکیم عبدالحمید
استقبال حکمیم محمد سعید
خیر مقدم
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔