لطف ان کا عام ہوہی جائے گا
لطف ان کا عام ہوہی جائے گا
شاد ہر ناکام ہوہی جائے گا
جان دے دو وعدۂ دیدار پر
نقد اپنا دام ہوہی جائے گا
شاد ہے فردوس یعنی ایک دن
قسمت خدام ہوہی جائے گا
بے نشانوں کا نشاں مٹتا نہیں
مٹتے مٹے نام ہوہی جائے گا
یاد گیسو ذکر حق ہے آہ کر
دل میں پیدا لام ہوہی جائےگا
ایک دن آواز بدلیں گے یہ ساز
چہچہا کہرام ہوہی جائے گا
سائلوں دامن سخی کا تھام لو
کچھ نہ کچھ انعام ہوہی جائے گا
یاد ابرو کرکے تڑپو بلبلو
ٹکڑے ٹکڑے دام ہوہی جائے گا
مفلسو ان کی گلی میں جا پڑو
باغِ خلد اکرام ہوہی جائے گا
گر یوں ہی رحمت کی تاویلیں رہیں
مدح ہر الزام ہوہی جائے گا
بادہ خواری کا سماں بندھنے تو دو
شیخ دُرد آشام ہوہی جائے گا
غم تو ان کو بھول کر لپٹا ہے یوں
جیسے اپنا کام ہوہی جائے گا
مٹ کہ گر یونہی رہا قرضِ حیات
جان کا نیلام ہوہی جائے گا
اب تو لائی ہے شفاعت عفو پر
بڑھتے بڑھتے عام ہوہی جائے گا
اے رضاؔ ہر کام کا ایک وقت ہے
دل کو بھی آرام ہوہی جائےگا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.