شیخ امام بخش ناسخ اردو غزل میں ایک عہد ساز شخصیت کا نام ہے۔ان کو شاعری کے لکھنو اسکول کا بانی کہا جاتا ہے۔ ناسخ اسکول کا سب سے بڑا کارنامہ اصلاح زبان ہے۔ لکھنؤیت سے شاعری کا جو خاص رنگ مراد ہے اور جس کا سب سے اہم عنصر خیال بندی کہلاتا ہے، وہ ناسخ اور ان کے شاگردوں کی کوشش و ایجاد کا نتیجہ ہے۔ ناسخ اپنی شاعری میں لفظوں کے نئے نئے تلازمے تلاش کرکے ان کے لئے نئے استعارےوضع کرتے ہیں وہ بے جوڑ الفاظ میں اپنی صناعی سے ربط پیدا کرکے قاری کو اک حیرت آمیز مسرت سے دوچار کرتے ہیں۔ان کی بلند آہنگی ذہنوں کو متاثر کرتی ہے۔وہ اپنی خیال آفرینی میں بھاری بھرکم الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ بلند آہنگی ناسخ کے کلام کا عام جوہر ہے جو دل کو نہ سہی دماغ کو ضرور متاثر کرتا ہے۔ ناسخ لفظوں کے پرستار تھے ان کے معنی ان کے لئے ثانوی اہمیت رکھتے تھے۔ اور یہی لکھنوی شاعری کا عام جوہر قرار پاتا ہے۔ زیر نظر "دیوان ناسخ" میں ان کی شاعری کا یہی رنگ غالب ہے۔ لیکن ناسخ کے کلام کا ایک حصہ، چھوتا ہی صحیح سادہ بھی ہے یہ اس رنگ سے جدا ہے جس کے لئے وہ مشہور یا بدنام ہیں۔ ناسخ چونکہ اپنے معاشرہ کا عکس تھے لہٰذا ان کے کلام میں بھی اس معاشرہ کی خوبیوں اور خرابیوں کا آجانا لازمی تھا۔ یہ چیزیں ان کے دونوں دیوانوں میں بخوبی محسوس کی جاسکتی ہیں۔ خیال رہے کہ یہ آتش کا دیوان دوم ہے۔