"دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ" مرزا فرحت اللہ بیگ کا طویل مضمون ہے،جو کہ "دہلی کی آخری شمع" کے نام سے مختصر کتاب کی شکل میں بھی شائع ہوا۔ اس مضمون میں مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنے ذہن میں ایک ایسے مشاعرے کا خاکہ تیار کیا جس میں دور آخر کے تمام چھوٹے بڑے مگر نمائندہ شاعروں کا اجتماع ہوا اور دہلی کی آخری بہار کا پر کیف تہذیبی منظر پیش کیا ہے۔ فرحت اللہ بیگ نے اس مشاعرے کے لیے جس زمانے یعنی 1845 کا انتخاب کیا ہے، اس وقت دہلی میں باکمال شاعروں کا ایک بڑا حلقہ موجود تھا۔ ذوق ،غالب، مومن، شیفتہ، آزردہ، ظفر اور داغ کے علاوہ قلعے اور شہر کے بہت مشہور اور غیر مشہور شعرا شریک محفل تھے۔ مرزا چونکہ ایک بہت وسیع اور نمائندہ مشاعرے کا منظر پیش کرنا چاہتے ہیں اس لیے انھوں نے اس میں کچھ ایسے شاعروں کو بھی شامل کیا ہے جو اس زمانے میں کم سن تھے مگر بعد کے زمانے میں بہت مشہور ہوئے۔ مختصر یہ کہ زیر نظر کتاب 1857 سے دس سال قبل کی دہلی کا تہذیبی مرقع ہے اور ایک اہم تہذیبی دستاویز ہے۔